Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


تین الفاظ ابتدائی کلیسیا کا
راز پیش کرتے ہیں!

THREE WORDS GIVE THE SECRET
OF THE EARLY CHURCH!
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی شام، 19 نومبر، 2017
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord's Day Evening, November 19, 2017

’’اور وہ ہر روز ایک دل ہو کر ہیکل میں جمع ہوتے تھے اور گھروں میں روٹی توڑتے تھے اور اِکٹھے ہو کر خُوشی اور صاف دلی سے اُسے کھاتے تھے۔ وہ خدا کی تمجید کرتے تھے اور سب لوگوں کی نظر میں مقبول تھے اور خداوند نجات پانے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ کرتا رہتا تھا‘‘ (اعمال 2:46،47).

ہمارکلیسیاؤں میں پھوٹ پڑ رہی ہے اور وہ مر رہی ہیں۔ وہ 16 اور 30 برس کے عمروں کے درمیان کے اپنے 88 % سے بھی زیادہ نوجوان لوگوں کو کھو رہی ہیں۔ جارج برنا George Barna جو مشہور رائے شماری کرنے والے ہیں ہمیں کئی سالوں سے وہ بات بتا رہے ہیں۔ ’’خاندانی زندگی پر مغربی بپٹسٹ کونسل‘‘ نے کہا، ’’ایونجیلیکل گرجا گھروں میں پرورش پائے 88 % بچے [تقریباً] 18 برس کی عمر میں گرجا گھر چھوڑ دیتے ہیں، کبھی نہ واپس آنے کے لیے‘‘ (بپٹسٹ پریس، 12 جون، 2002)۔ اِس کے علاوہ، یہ بات بھی کافی مانی جاتی ہے کہ ہمارے گرجا گھروں نے دُنیا میں سے شاذونادر ہی کوئی نوجوان لوگ جیتے۔ ڈاکٹر جیمس ڈُوبسن Dr. James Dobson نے کہا، ’’کلیسیا کا 80 % بڑھنا ممبران کے تبادلوں کا نتیجہ ہوتا ہے‘‘ (فیملی نیوز لیٹر پر مرکوز توجہ Focus on the Family Newsletter،‘‘ اگست 1998)۔ جین ہیٹمیکر Jen Hatmaker جو کہ ایک ایونجیلیکل مصنف ہیں اُنہوں نے کہا، ’’ہم نا صرف نئے لوگوں کو [گرجا گھر کے لیے] نہیں کھینچ سکتے بلکہ ہم اُنہیں بھی نہیں رکھ پاتے جو ہمارے پاس ہیں۔ اندازاً امریکہ کے آدھے گرجا گھروں نے ایک بھی نئے شخص میں مسیح میں ایمان لانے کی تبدیلی کے ذریعے سے گذشتہ سال اضافہ نہیں کیا… 94 % گرجا گھروں میں یا تو لوگوں میں اضافہ نہیں ہو رہا تھا یا جس سماج میں وہ خدمت کرتے ہیں اُس میں [لوگوں] کو کھو رہے تھے… رُجحان واضح طور پر تنزلی کی جانب ہے اور اِسی رفتار سے، [مسیحیت کی ’بقاء‘ خطرے میں ہے]‘‘ (مداخلت کی: جب یسوع آپ کی آرام دہ مسیحیت کو تباہ کرتا ہے Interrupted: When Jesus Wrecks Your Comfortable Christianity، NavPress، 2014، صفحات 79، 80)۔

اب جنوبی بپٹسٹ گرجا گھروں پر نظر ڈالیں۔ ’’کیلیفورنیا ساؤتھرن بپٹسٹCalifornia Southern Baptist‘‘ اخبار میں کیرل پائپس Carol Pipes کی ایک رپورٹ میں اُنہوں نے کہا، ’’[گذشتہ سال] گرجا گھروں نے 200,000 سے زیادہ ممبران کو کھو دیا، 1881 کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی ایک سال میں ہونے والی ممبروں کی کمی (گرجا گھر کی سالانہ تصویر Annual Church Profile)… دستاویزی بپتسمات گذشتہ دس سالوں میں سے آٹھ سالوں سے کم ہو چکے ہیں، جس میں گذشتہ سال والے 1947 سے لیکر اب تک کہ سب سے کم دستاویزی بپستمے رہے۔ [SBC کے ایک افسر] تھوم رانیئر Thom Ranier نے کہا، ’اِس سے میرا دِل ٹوٹتا ہے کہ ہمارے فرقے کا مرکزی موضوع… کم ہونے کے بارے میں سے ایک ہوتا ہے۔‘ ڈاکٹر فرینک پیج Dr. Frank Page، [جو ایک دوسرے جنوبی بپٹسٹ گرجا گھر کے جانے مانے رہنما ہیں] اُنہوں نے کہا، ’سچائی یہ ہے، ہمارے گرجا گھروں میں لوگوں کی تعداد کم ہے جو کم پیسے دے رہے ہیں کیونکہ ہم لوگوں کو مسیح کے لیے [نہیں] جیت رہے، اور ہم اُنہیں ہمارے خُداوند کی روحانی تعلیم میں تربیت نہیں دے رہے۔‘ وہ بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں، ’خُدا ہمیں معاف کرے… کاش خُداوند شاگردی… کے بارے میں ہمیں اتنا ہی سنجیدہ ہونے میں مدد فرمائے جتنی پہلی صدی کی ابتدائی کلیسیائیں ہوتی تھیں‘‘‘ (ibid.، صفحہ4)۔

یہ شماریات امریکہ میں گرجا گھروں کی ایک افسردہ، مایوس کُن تصویر پیش کرتیں ہیں۔ وہ خود اپنے ہی ممبران کو کھو رہے ہیں، اور گمراہ دُنیا سے مشکلوں سے ہی کسی کو حاصل کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ بہت بڑی بڑی کلیسیائیں بھی گمراہ دُنیا سے انتہائی چند مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے والے لوگوں میں اضافہ کر پا رہی ہیں۔

امریکہ اور مغربی دُنیا میں یہ ہماری کلیسیاؤں کی ایک افسردہ تصویر ہے۔ اب ہماری کلیسیاؤں کا موازنہ اعمال کی کتاب میں ابتدائی کلیسیا سے کریں۔ میں اپنی تلاوت کو دوبارہ پڑھوں گا،

’’اور وہ ہر روز ایک دل ہو کر ہیکل میں جمع ہوتے تھے اور گھروں میں روٹی توڑتے تھے اور اِکٹھے ہو کر خُوشی اور صاف دلی سے اُسے کھاتے تھے۔ وہ خدا کی تمجید کرتے تھے اور سب لوگوں کی نظر میں مقبول تھے۔ اور خداوند نجات پانے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ کرتا رہتا تھا‘‘ (اعمال 2:46،47).

کتنا تضاد! وہ خوشی سے لبریز تھے! وہ ہر روز ملاقات کیا کرتے تھے! وہ مسلسل خُداوند کی ستائش کیا کرتے تھے! ’’اور خُدوند نجات پانے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ کرتا رہتا تھا‘‘ (اعمال2:47)۔

ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز نے کہا، ’’جس جگہ جانا چاہیے وہ رسولوں کے اعمال کی کتاب میں ہے۔ یہاں پر وہ ٹانِک ہے [قوت بخشنے والی دوا]، یہاں پر تروتازہ ہونے کی جگہ ہے، جہاں پر ہم خُدا کی زندگی کی نبص کو ابتدائی کلیسیا میں چلتے ہوئے محسوس کر سکتے ہیں‘‘ (معتبر کلیسیا Authentic Christianity، جلد اوّل، (اعمال1۔3)، سچائی کے بھروسہ کا بینر The Banner of Truth Trust، صفحہ 225)۔ پہلی صدی کی کلیسیا کے قوت، جوش اور مسرت کے بارے میں پڑھنے سے ہمارے دل خوشی سے پھولے نہیں سماتے! میں ڈاکٹر مائیکل گرین Dr. Michael Green کی کتاب ابتدائی کلیسیا میں ایونجیلزم Evangelism in the Early Church (عئیرڈمینز Eerdmans، 2003ایڈیشن) کو پڑھنے سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ اِس کتاب کو پڑھنے اور اِس کے ساتھ ساتھ اعمال کی کتاب کو پڑھنے کی وجہ سے، مجھے معلوم پڑا کہ یہاں نئے عہدنامے میں بے شمار یونانی الفاظ ہیں جو پہلی صدی میں کلیسیاؤں کی زندگی کی ایک تصویر ہمیں دکھاتے ہیں۔

I۔ پہلا، یہاں پر یونانی لفظ ’’کیوریاس kurios‘‘ ہے۔

انگریزی میں اِس لفظ کا مطلب ’’خُداوند‘‘ ہوتا ہے۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے ’’خُداوند،‘‘ ’’آقا،‘‘ ’’مالک،‘‘ ’’حکمران۔‘‘ یہ وہ لفظ ہے جو پولوس رسول نے اعمال 10:36 میں استعمال کیا جب اُس نے یسوع کے بارے میں بات کی تھی،

’’یسوع مسیح کے وسیلہ سے (جو سب کا خداوند ہے) صلح کی خوشخبری سُنائی‘‘ (اعمال 10:36).

ڈاکٹر گرین کو سُنیں جب وہ ہمیں بتاتے ہیں کیسے ابتدائی مسیحیوں نے گواہی دی اور یسوع کے بارے میں منادی کی،

ہم اُنہیں اُس خوشخبری کو پھیلاتے ہوئے پاتے ہیں کہ یسوع مسیحا ہے، یا اُس ہی کے ذریعے سے قدیم وعدے پورے کیے جا چکے ہیں۔ ہم اُنہیں یسوع کے بارے میں، یسوع کی خُدائی کے بارے میں ، یسوع کی صلیب کے بارے میں ، یسوع کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بارے میں یا محض بذات خود یسوع کے بارے میں اُسی کے ذریعے سے امن کی خوشخبری کا اِعلان کرتا ہوا پاتے ہیں… خوشخبری کے ابتدائی مبلغین کے پاس ایک اور صرف ایک ہی موضوع ہوا کرتا تھا، یسوع!... اُورائیجن Origen (185۔254) نے کہا، ’’ایک اچھی بات زندگی ہے: لیکن یسوع زندگی ہے۔ دوسری اچھی بات دُنیا کا نور ہے: لیکن یسوع نور ہے۔ یہی بات سچائی، پھاٹک، مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ اِن تمام باتوں میں نجات دہندہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ [یسوع] ہے۔‘‘ اُورائیجن بار بار [خوشخبری] کی مسیح کو مرکز رکھنے والی فطرت کے بارے میں دونوں اصلی شاگردوں اور دوسروں کو [جنہوں نے اُن سے سیکھا] دہراتا ہے‘‘… اُورائیجن نے ایونجیلیکل تبلیغ کے سارے مقصد کو پیش کر دیا: ’’زمین پر مسیح کی زندگی کی تعلیم کو دوام [جاری] رکھنا اور اُس کی آمدثانی کے لیے تیاری کرنا‘‘ (گرین Green، ibid.، صفحات80، 81)۔

ابتدائی مسیحیوں نے اپنی مدد آپ کے واعظ نہیں سُنے تھے۔ اُنہوں نے بائبل کی آیت بہ آیت ’’تفاسیر‘‘ نہیں سُنی تھیں۔ جو چیز اُنہوں نے مسلسل سُنی تھی وہ خوشخبری تھی – ’’کیوریاسkurios،‘‘ خُداوند یسوع مسیح کی موت، دفنایا جانا اور مُردوں میں سے جی اُٹھنا! وہ سب کا خُداوند ہے‘‘ (اعمال10:36)۔

ایک دوسرے گرجا گھر سے کسی نے مجھ پر تنقید کی کہ میں ہر واعظ کا اختتام مسیح کی موت اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے ساتھ کرتا ہوں۔ میں نے اُس کے بارے میں ایک طویل مدت تک سوچا تھا۔ پھر مجھے یاد آیا جو سپرجیئن نے کہا تھا، ’’میں ایک تلاوت لیتا ہوں، اُس کی وضاحت کرتا ہوں اور پھر صلیب تک ایک [سیدھی لائن] کھینچ لیتا ہوں۔‘‘ سپرجئین بھی، انتہائی ابتدائی مسیحیوں کی مانند قطعی طور پرمسیح کو مرکزی ماننے والوں میں سے تھا – جس کی زندگی کا مرکز یسوع مسیح بذات خود، وہ خُداوند یسوع مسیح تھا! اُس ابتدائی کلیسیا نے وہ کورس بخوبی گیا ہوتا،

تو خُداوند ہے، تو خُداوند ہے،
   تو مُردوں میں سے جی اُٹھا
اور تو خُداوند ہے۔
   ہر گُھٹنہ جُھک جائے گا، ہر زبان اقرار کرے گی،
کہ یسوع مسیح خُداوند ہے۔
   (’’وہ خُداوند ہےHe Is Lord‘‘ شاعر ماروِن وی۔ فرے Marvin V. Frey، 1918۔1992)۔

اِسے میرے ساتھ گائیں!

تو خُداوند ہے، تو خُداوند ہے،
   تو مُردوں میں سے جی اُٹھا
اور تو خُداوند ہے۔
   ہر گُھٹنہ جُھک جائے گا، ہر زبان اقرار کرے گی،
کہ یسوع مسیح خُداوند ہے۔

وہ پہلا لفظ ’’کیوریاسkurios‘‘ اُن کے پیغام کے مرکزی نکتے کی حیثیت سے مسیح کی مرکزیت اور اُن کی زندگیوں کے خُداوند کو ظاہر کرتا ہے! کوئی تعجب کی بات نہیں کہ پولوس رسول نے کہا،

’’ہم مسیحِ مصلوب کی منادی کرتے ہیں‘‘ (1۔ کرنتھیوں 1:23).

’’میں نے فیصلہ کیا ہوا تھا کہ جب تک تمہارے درمیان رہوں گا مسیح یعنی مسیحِ مصلوب کی منادی کے سوا کسی اور بات پر زور نہ دوں گا‘‘ (1۔کرنتھیوں 2:2).

ہمیں تسلسل کے ساتھ مسیح مصلوب اور مُردوں میں سے جی اُٹھے مسیح کی منادی کرنی چاہیے۔ وہ ہمارا مرکزی پیغام ہونا چاہیے، ہمیشہ اور ہمیشہ کے لیے! میں جانتا ہوں کہ بے شمار گرجا گھر ایسا نہیں کر رہے ہیں۔ اور یہ ہی خاص وجہ ہے کہ وہ آج مر رہے ہیں!

کچھ لوگ آپ کو اپنے پاس آنے اور مرنے کے لیے بُلاتے ہیں۔ یہ نہیں ہے جو خُداوند یسوع مسیح کرتا ہے۔ وہ آپ کو اپنے پاس دائمی زندگی کے تحفے کے لیے بُلاتا ہے۔ مسیح نے کہا، ’’میں اُنہیں ہمیشہ کی زندگی دیتا ہوں اور وہ کبھی ہلاک نہ ہوں گے‘‘ (یوحنا10:28)۔ اور خُداوند یسوع مسیح آپ کو اپنا شاگرد بنانے کے لیے بُلاتا ہے۔ خُداوند یسوع مسیح نے کہا، ’’اگر کوئی میری پیروی کرنا چاہتا ہے تو اِس کے لیے ضروری ہے وہ اپنی خودی کا انکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے‘‘ (متی16:24)۔ مسیح آپ کو ہمارے گرجا گھر میں آنے کے لیے اور بشروں کو ایک جیتنے والا بنانے کے لیے بُلا رہا ہے۔ وہ آپ کو دوسرے کو گرجا گھر میں لانے اور اُنہیں نجات دلانے میں ہماری مدد کرنے کے لیے بُلا رہا ہے!

میں آپ نوجوان لوگوں کو انقلابی مسیحی بننے کے لیے بُلا رہا ہوں! جی ہاں، میں چاہتا ہوں آپ انقلابی بن جائیں! ایک شاگرد ہوں! یسوع مسیح کے لیے – اور خدائے قادر کے گرجا گھر کے لیے ایک انقلابی ہوں! اِتوار کی صبح آئیں۔ ہمارے ساتھ اِتوار کی دوپہر میں بشروں کو جیتنے کے لیے باہر چلیں۔ اِتوار کی رات کو واپس آئیں۔ مسیح کے انقلابی شاگرد بنیں! یہ کریں! اِسے کریں! کیا اب وقت نہیں ہو چکا کہ کوئی بپٹسٹ مبلغ ہمارے نوجوان لوگوں کو یہ بات بتائے؟ اپنی صلیب اُٹھائیں اور مسیح کی پیروی کریں! ایک شاگرد بنیں! مسیح کی فوج میں ایک سپاہی بنیں! یہ آپ کے گیتوں کے ورق پر نمبر 8 ہے۔ اِسے گائیں!

بڑھتے چلو، مسیحی سپاہیو، جنگ کے لیے قدم بڑھاتے چلو،
   یسوع کی صلیب کی قیادت میں بڑھتے چلو:
مسیح جو شاہی حاکم ہے دشمن کے خلاف رہنمائی کرتا ہے؛
   جنگ میں اُس کے جھنڈے کو آگے بڑھتا ہوا دیکھو۔
بڑھتے چلو، مسیحی سپاہیو، جنگ کے لیے قدم بڑھاتے چلو،
   یسوع کی صلیب کی قیادت میں بڑھتے چلو۔
(’’بڑھتے چلو، مسیحی سپاہیو Onward, Christian Soldiers‘‘ شاعرہ سابین بارنگ گوولڈ Sabine Baring-Gould، 1834۔1924)۔

اور یہ بات ہمیں نئے عہد نامے میں دوسرے یونانی لفظ تک رہنمائی کرتی ہے۔

II۔ دوسرا، یہاں وہ یونانی لفظ ’’آگاپے agapē‘‘ ہے۔

ڈبلیو۔ ای۔ وائن W. E. Vine نے کہا کہ آگاپے agapē’’مسیحیت لفظ کی خصوصیت‘‘ ہے۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے خود کی محبت کو نچھاور کر دینا۔ یسوع نے اِس لفظ کو اُس وقت استعمال کیا تھا جب اُس نے پہلے شاگرد کے ساتھ بات کی تھی۔ یسوع نے کہا،

’’میں تمہیں ایک نیا حکم دیتا ہُوں کہ ایک دوسرے سے محبت رکھو۔ جس طرح میں نے تُم سے محبت رکھی، تُم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔ اگر تُم ایک دوسرے سے محبت رکھو گے تو اِس سے سب لوگ جان لیں گے کہ تُم میرے شاگرد ہو‘‘ (یوحنا 13:34، 35).

ڈاکٹر ٹموتھی لِن Dr. Timothy Lin چینی گرجا گھر میں میرے کئی سالوں تک پادری صاحب رہے تھے۔ ڈاکٹر لِن نے کہا،

شاگردوں نے محبت کا یہ حکم براہ راست ہمارے خُداوند سے پایا تھا، اور اُنہوں نے بعد میں اِس کو عملی جامہ بھی پہنایا… مسلسل طور پر۔ نتیجے کے طور پر، ’’دیکھو مسیحی ایک دوسرے کے ساتھ کس قدر محبت کا اِظہار کرتے ہیں!‘‘ [غیر مسیحیوں] کی جانب سے تعریف کا ایک بیان بن گئے۔ آج ’’ایک دوسرے سے محبت کرنا‘‘ وہ واحد نعرہ ہے جو گرجا گھر میکینکی انداز میں جاپتے ہیں… [پس] خُدا کا [اُن] کے ساتھ ہونا ناممکن ہو گیا ہے۔ خُداوندا ہم پر رحم فرمائے! (ٹموتھی لِن، ایس۔ ٹی۔ ایم۔، پی ایچ۔ ڈی۔ Timothy Lin, S.T.M., Ph.D.، کلیسیا میں اضافے کا راز The Secret of Church Growth، FCBC، 1992، صفحہ 33)۔

ڈاکٹر مائیکل گرینDr. Michael Green نے پہلی اور دوسری صدی کے مسیحیوں پر اپنی کتاب میں اِس بارے میں بات کی۔ ڈاکٹر گرین نے کہا کہ مسیحیت کافر رومیوں کے لیے دلچسپی کا باعث بنی ’’اُس قوت کی وجہ سے جو اِن مسیحیوں میں ایک دوسرے سے محبت کرنے کے لیے تھی‘‘ (مائیکل گرین، ابتدائی کلیسیا میں ایوینجل اِزم Evangelism in the Early Church، عیئرڈمینز Eerdmans، 2003، صفحہ 158)۔

III۔ تیسرا، یہاں وہ یونانی لفظ ’’کواِنّونیاkoinonia‘‘ ہے۔

اِس کا مطلب رفاقت، صحبت، اچھا ساتھ، دوستی ہوتا ہے۔ رفاقت کلیسیا میں ایک دوسرے کے ساتھ آگاپے والی محبت کی ایک توسیع ہے۔

کچھ مبلغین مجھے بتا چکے ہیں کہ ہمیں غیر مسیحیوں کو اپنے ساتھ رفاقت کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ ایک طرح سے وہ صحیح ہیں۔ بائبل کہتی ہے، ’’تاریکی کے بے پھل کاموں میں شریک نہ ہو بلکہ اُن پر ملامت کرو‘‘ (افسیوں5:11)۔ وہ آیت دوسری کلیسیاؤں میں بے شمار لوگوں کو غیرمنطقی [بے چین، پریشان] کر چکی ہے۔ وہ سوچتے ہیں اِس کا مطلب ہوتا ہے ہمیں ’’گرجا گھر میں پرورش پانے والے بچوں‘‘ کو نئے آنے والے لوگوں سے دور رکھنا چاہیے۔ ڈاکٹر جے۔ ورنن میگی نے اِس پر ایک اچھی غور طلب بات کہی۔ یہ بنیادی طور پر وہی ہے جو ڈاکٹر تھامس ھیل Dr. Thomas Hale نے کہا، ’’پولوس کہتا ہے ہمارا [’’تاریکی کے کاموں‘‘] کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے؛ وہ نہیں کہتا کہ ہمارا [گمراہ لوگوں] کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے… آخر کو، یسوع خود گنہگاروں کے ساتھ کھاتا تھا‘‘ (تھامس ھیل، ایم۔ ڈی۔ Thomas Hale, M.D.، نئے عہد نامے پر اِطلاق تبصرہ The Applied New Testament Commentary، کنگز وے اشاعت خانے Kingsway Publications، 1997 ایڈیشن، صفحہ 780؛ افسیوں5:11 پر غور طلب بات)۔

مجھے پسند ہے جو ڈاکٹر گرین پہلی صدی کی ابتدائی کلیسیاؤں کے بارے میں کہتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا، ’’تفتیشیوں سے کوئی تعلیم چُھپائی نہیں گئی تھی؛ رفاقت میں کوئی روک ٹوک نہیں تھی‘‘ (ibid.، صفحہ218)۔ ’’مسیح میں ایمان نہ لائے ہوئے کافروں کو بالکل کلیسیا میں لایا گیا، اور رفاقت کے لیے لایا گیا، حالانکہ اُنہیں تقریباً تین سالوں تک بپتسمہ نہیں دیا گیا تھا‘‘ (ibid.)۔

ہمارے بپٹسٹ گرجا گھر آج اِس کا اُلٹ ہی کرتے ہیں۔ وہ نئے نوجوان لوگوں کو فوراً بپتسمہ دے دیتے ہیں، لیکن وہ نہیں چاہتے کہ اُن کے بچے اُن کے ساتھ رفاقت رکھیں۔ ابتدائی کلیسیاؤں نے اِس کو دُرست طریقے سے کیا تھا۔

جیک ہائیلز Jack Hyles کے پاس تو یہاں تک کہ دو عمارتیں تھیں۔ ایک عمارت نئے بچوں کے لیے جن کو لاڈ سے رکھا جاتا تھا۔ اُن کی یہاں تک کہ پرستش کی عبادت بھی علیحدہ تھی! لیکن ’’خالص‘‘ چرچ اصلی عمارت میں ہوتا تھا۔ ’’گرجا گھر میں پرورش پائے بچوں‘‘ کو نئے بچوں سے دور ہی رکھا جاتا تھا۔ وہ خوفزدہ تھے کہ نئے بچے اُن کے گرجا گھر میں پرورش پائے ہوئے’’قیمتی‘‘ بچوں کو خراب کر دیں گے!

جب ایک نوبالغ کی حیثیت سے میں پہلی مرتبہ گرجا گھر گیا، مجھے پتا چلا کہ گرجا گھر میں پرورش پائے ہوئے بچوں نے مجھے خراب کرنے کے لیے ہر ممکن کام کیا! میں نے اُنہیں دُنیا میں جو گمراہ بچے کرتے ہیں اُس کے مقابلے میں کہیں بدتر کاموں کو کرنے کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے سُنا۔ لہٰذا گرجا گھر میں پروان نہ چڑھے ہوئے بچوں کو علیحدہ رکھنا بائبل میں نہیں ہے، اور یہ نہیں ہے جو ابتدائی کلیسیاؤں نے کیا، جب وہ واقعی میں مسیح کے لیے لاکھوں لوگوں تک پہنچ رہے تھے!

میں کہتا ہوں کہ ہمیں اپنے ’’سنڈے سکول‘‘ کے کچھ تصورات سے چُھٹکارہ پانے کی ضرورت ہے۔ غیرنجات یافتہ بچوں کو سیدھا اندر لائیں۔ اُنہیں ایک اچھا کھانا کھلائیں۔ اُن کی سالگرہ کی ایک دعوت منائیں۔ اُنہیں اچھا وقت دکھائیں – ’’آخر کو، خود یسوع نے گنہگاروں کے ساتھ کھایا‘‘ (تھامس ھیل، ibid.)۔ ’’اُنہیں اندر لے کر آئیںBring Them In‘‘ کا کورس گائیں!

اُنہیں اندر لے کر آئیں، اُنہیں اندر لے کر آئیں،
   اُنہیں گناہ کے میدانوں میں سے اندر لے کر آئیں؛
اُنہیں اندر لے کر آئیں، اُنہیں اندر لے کر آئیں،
   آوارہ گردی کرتے ہوؤں کو یسوع کے پاس لائیں۔
(’’اُنہیں اندر لے کر آئیںBring Them In‘‘ شاعر ایلیکسزینہ تھامس Alexcenah Thomas، 19ویں صدی)۔

بدمزاج، بوڑھے مذہبی رہنماؤں نے یسوع کے ساتھ غلطیاں پائیں۔ متی محصول لینے والا تھا۔ یسوع نے اُس کو بُلایا اور متی نے یسوع کی پیروی کی۔ پھر متی نے اپنے گھر میں ایک بہت بڑی ضیافت دی۔ یسوع اور اُس کے بارہ شاگرد وہاں پر تھے۔ بے شمار شرابی جواری اور گنہگار یسوع کے ساتھ کھانے کے لیے آئے۔ مذہبی رہنماؤں نے سوچا یسوع غلطی پر تھا۔ اُنہوں نے کہا، ’’وہ کیوں اِن گنہگاروں کے ساتھ کھاتا ہے؟‘‘ یسوع نے جواب دیا، ’’میں راستبازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو توبہ کرنے کے لیے بُلانے آیا ہوں‘‘ متی9:13)۔

وہ مبلغین جو بے شمار گنہگاروں کو رکھنے سے خوفزدہ ہیں اُنہیں اِس بارے میں سوچنا چاہیے! میں کہتا ہوں، ’’گنہگاروں کو اندر لے کر آئیں! جتنے آپ ڈھونڈ سکتے ہیں اُتنے لائیں! جتنے زیادہ اُتنی ہی خوشی کی بات!‘‘ اُنہیں سیدھے رفاقت میں لائیں، جیسے یسوع نے کیا تھا، جیسے ابتدائی کلیسیا نے کیا تھا! ’’اُنہیں اندر لے کر آئیں۔‘‘ وہ کورس گائیں!

اُنہیں اندر لے کر آئیں، اُنہیں اندر لے کر آئیں،
   اُنہیں گناہ کے میدانوں میں سے اندر لے کر آئیں؛
اُنہیں اندر لے کر آئیں، اُنہیں اندر لے کر آئیں،
   آوارہ گردی کرتے ہوؤں کو یسوع کے پاس لائیں۔

پہلی صدی کی قوت سے بھرپور، جاندار کلیسیا کو سُنیں،

’’یہ لوگ رسولوں سے تعلیم پاتے اور مل جل کر [کواِنّونیاkoinonia] رہتے اور روٹی توڑنے اور دعا کرنے میں برابر مشغول رہتے تھے اور خداوند نجات پانے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ کرتا رہتا تھا‘‘ (اعمال 2:42، 47).

جیک ہائلز، اور اُس کا زانی بیٹا، اور اُس کا ایک نوبالغ داماد کے ساتھ زنّا کرنا – یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اُس ’’دوسری‘‘ عمارت میں رکھا جانا چاہیے! اُنہیں دور رکھیں، وہ شاید غیرنجات یافتہ نئے بچوں کو نقصان پہنچا دیں! اُن مذہبی ناظمین ’’کتّوں‘‘ کو گمراہ نوجوان لوگوں سے دور ہی رکھیں! اور گمراہ نوجوان لوگوں کو سیدھے مرکزی گرجا گھر میں لائیں۔ وہ دُرست ہے، گمراہ کو اندر لے کر آئیں – اور زنا کرنے والے بپٹسٹ فریسیوں کو اور بگڑے ہوئے شیطان بچوں کو اُن کے سنڈے سکولوں میں بند کر دیں! گمراہ بچوں کو اندر لے کر آئیں اور ہم کھانا کھائیں گے اور سالگرہ کی پارٹی منائیں گے – اور پوپائے کے پرانے کارٹون دیکھیں گے! آمین! اور اِس بوڑھے مبلغ کی سُنیں، اور چند ایک حمدوثنا کے گیت گائیں، تالیاں اور زور سے بولیں ’’آمین‘‘ – اور ایک اچھا وقت گزاریں!

وہ تین یونانی الفاظ ہمیں ایک جاندار اور قوت سے بھرپور کلیسیا دکھاتے ہیں! ’’کیوریاسkurios‘‘ – خُداوندا – مسیح ہمارا کیوریاس ہے! وہ ہمارا خُداوند ہے۔ واپس آئیں اور مسیح کے بارے میں جانیں، اور مسیح کی پیروی کریں، اور اپنے تمام دِل کے ساتھ مسیح سے محبت کریں! ’’آگاپے Agapē‘‘ – ’’مسیحی محبت! واپس آئیں اور ہم آپ سے محبت کریں گے۔ اور ہم آپ سے محبت پانے کے شدید طلب گار ہیں۔ پرانے ہپّی لوگ ’’محبت لینے‘‘ کے بارے میں بات کرتے تھے۔ وہ ووڈسٹاک Woodstock کو ’’محبت لینا‘‘ کہتے تھے۔ وہ حقیقی ’’محبت لینا‘‘ یہاں گرجا گھر میں ہے! ہماری محبت کو لینے کے لیے واپس آئیں! یہ ووڈ سٹاک کو سنڈے سکول کی ایک پکنک کی مانند بنا دے گا! اور پھر یہاں وہ لفظ ’’کواِنّونیاkoinonia‘‘ ہے۔ اِس کا مطلب رفاقت، صحبت، دوستی، اچھا ساتھ ہوتا ہے! کواِنّونیا رفاقت ہے۔ رفاقت مقامی گرجا گھر میں ’’آگاپے‘‘ محبت کی توسیع ہے!

ہم یہاں ہیں! ہم آپ کا انتظار کررہے ہیں! اگلے اِتوار کی صبح تشریف لائیں! اگلے اِتوار کی شام کو تشریف لائیں! ہفتے کی رات کو تشریف لائیں! آئیں اور دوسروں کو اندر لانے میں ہماری مدد کریں! آئیں اور اِس گرجا گھر کو وہ جگہ بنانے میں ہماری مدد کریں جہاں پر نوجوان لوگ آ پائیں اور اچھے دوست بنا پائیں؛ جہاں پر نوجوان لوگ تفریح پانے کے لیے آ سکیں؛ جہاں پر نوجوان لوگ مسیح کے شاگرد – اور صلیب کے سپاہی بننے کے لیے آ سکیں! آمین! حمدوثنا کا گیت نمبر آٹھ گائیں – ’’بڑھتے چلو، مسیحی سپاہیو!‘‘ اِسے گائیں!

بڑھتے چلو، مسیحی سپاہیو، جنگ کے لیے قدم بڑھاتے چلو،
   یسوع کی صلیب کی قیادت میں بڑھتے چلو:
مسیح جو شاہی حاکم ہے دشمن کے خلاف رہنمائی کرتا ہے؛
   جنگ میں اُس کے جھنڈے کو آگے بڑھتا ہوا دیکھو۔
بڑھتے چلو، مسیحی سپاہیو، جنگ کے لیے قدم بڑھاتے چلو،
   یسوع کی صلیب کی قیادت میں بڑھتے چلو۔
(’’بڑھتے چلو، مسیحی سپاہیو Onward, Christian Soldiers‘‘ شاعرہ سابین بارنگ گوولڈ Sabine Baring-Gould، 1834۔1924)۔

ڈاکٹر چعین، مہربانی سے دعا میں ہماری رہنمائی کریں۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بینجیمن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’کلیسیا کی ایک بنیاد The Church’s One Foundation‘‘
(شاعر سیموئیل جے۔ سٹون Samuel J. Stone، 1839۔1900)۔

لُبِ لُباب

تین الفاظ ابتدائی کلیسیا کا
راز پیش کرتے ہیں!

THREE WORDS GIVE THE SECRET
OF THE EARLY CHURCH!

ڈاکٹر آر۔ ایل ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’اور وہ ہر روز ایک دل ہو کر ہیکل میں جمع ہوتے تھے اور گھروں میں روٹی توڑتے تھے اور اِکٹھے ہو کر خُوشی اور صاف دلی سے اُسے کھاتے تھے۔ وہ خدا کی تمجید کرتے تھے اور سب لوگوں کی نظر میں مقبول تھے اور خداوند نجات پانے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ کرتا رہتا تھا‘‘ (اعمال 2:46،47).

   پہلا، یہاں پر یونانی لفظ ’’کیوریاس kurios‘‘ ہے، اعمال10:36؛
1 کرنتھیوں1:23؛ 2:2؛ یوحنا10:28؛ متی16:24 .

II۔  دوسرا، یہاں وہ یونانی لفظ آگاپے agapē‘‘ ہے، یوحنا13:34، 35 .

III۔ تیسرا، یہاں وہ یونانی لفظ ’’کواِنّونیاkoinonia‘‘ ہے، افسیوں5:11؛
متی9:13؛ اعمال2:42، 47 .