Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


نوح کا زمانہ – حصّہ III

(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 14)
THE DAYS OF NOAH – PART III
(SERMON #14 ON THE BOOK OF GENESIS)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
ہفتہ کے دِن کی شام، 27 مئی، 2017
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Saturday Evening, May 27, 2017

’’لیکن جیسا نُوح کے دِنوں میں ہوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا‘‘ (متی 24:37).

یہ تیسرا واعظ ہے جس کی میں ’’نوح کے زمانے‘‘ پر منادی کر چکا ہوں۔ مسیح نے اپنے شاگردوں کو بتایا تھا کہ آخری ایام اُس زمانے کی مانند ہونگے جس میں عظیم سیلاب کے آنے سے پہلے نوح نے زندگی بسر کی تھی۔ میں چھ طریقوں پر تبلیغ کر چکا ہوں جن میں ہمارا زمانہ اُن دِنوں سے مماثلت رکھتا ہے جن میں نوح نے زندگی بسر کی تھی۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ متفق ہوں گے کہ ہم تاریخ کے خاتمہ کے قریب زندگی بسر کر رہے ہیں، اگر آپ پیدائش چار، پانچ اور چھ باب کا مطالعہ کریں۔ کلام پاک کے یہ تین ابواب ہمیں بتاتے ہیں کہ نوح کا زمانہ کس طرح کا تھا۔ آپ اُس کا موازنہ ہمارے زمانے سے کر سکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری دُنیا کے پاس زیادہ وقت نہیں بچا ہے۔

’’لیکن جیسا نُوح کے دِنوں میں ہوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا‘‘ (متی 24:37).

اِس موضوع پر پہلے دو واعظوں میں، میں نے ظاہر کیا کہ،


(1) وہ ارتداد کا ایک دور تھا – ایک وقت جب زیادہ تر لوگ خُدا کی سچائی سے مُنہ موڑ چکے تھے۔

(2) وہ وسیع پیمانے پر سفر کرنے کا ایک دور تھا – جب لوگ مستقل سفر میں رہتے تھے۔

(3) یہ وہ زمانہ تھا جب لوگوں کی ان گنت تعداد نے ناقابل معافی گناہ کا اِرتکاب کیا تھا – مسیح میں ایمان لانے کی سچی تبدیلی کو مسترد کرنے کے ذریعے سے جب تک کہ اُن کے دِل اِسقدر سخت نہ ہو گئے کہ اُن کے لیے نجات پانا ناممکن ہو گیا تھا۔

(4) وہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا زمانہ تھا – جب لوگوں نے ایک شخص سے شادی کرنے کے خُدا کے اصول کو توڑا تھا۔

(5) یہ وہ دور تھا جب آسیب ایک بہت بڑے پیمانے پر رونما ہوا کرتے تھے۔

(6) یہ وہ دور تھا جب تسلسل کے ساتھ بُرا سوچا جاتا تھا۔


اب، آج کی شام، میں چاہتا ہوں کہ آپ ہمارے زمانے اور نوح کے دور کے درمیان تین اور مشابہتوں کے بارے میں سوچیں:


(1) یہ موسیقی کے اکثریت میں ہونے کا ایک دور تھا۔

(2) یہ شدید شورش کا ایک دور تھا۔

(3) یہ وہ دور تھا جب سخت تبلیغ کو مسترد کیا جاتا تھا۔


I۔ پہلی بات، نوح کے ایام کو موسیقی میں بہت زیادہ دلچسپی کی وجہ سے خصوصیت حاصل تھی۔

میرے ساتھ پیدائش، چار باب، آیت اکیس کھولیں:

’’اور اُس کے بھائی کا نام یوبل تھا۔ وہ اُن لوگوں کا باپ تھا جو بربط اور بانسری بجاتے تھے‘‘ (پیدائش 4:21).

یہ پہلی مرتبہ ہے کہ بائبل ہمیں موسیقی کے آلات اور موسیقی کے بارے میں بتاتی ہے۔ یہاں پر دوبارہ، ہمیں مسیح کے الفاظ کے بارے میں یاد دلایا گیا ہے،

’’لیکن جیسا نُوح کے دِنوں میں ہوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا‘‘ (متی 24:37).

آج، موسقی ہر طرف ہے۔ جب میں ایک بچہ ہوا کرتا تھا اُس کے مقابلے میں ہم آج کہیں زیادہ موسیقی سُنتے ہیں۔ آج تقریباً ہر عمارت میں جہاں آپ داخل ہوتے ہیں موسیقی جاری ہوتی ہے۔ لِفٹ میں موسیقی چل رہی ہوتی ہے۔ جو گاڑی آپ چلا رہے ہوتے ہیں اُس میں موسیقی ہوتی ہے۔ جب میں ہر روز پارک میں چہل قدمی کرتا ہوں، تو میں موسیقی، موسیقی، موسیقی ہی سُنتا ہوں۔ جب میں تیرنے کے لیے اپنے جمنازیم میں جاتا ہوں، تو ساری عمارت میں میوزک بج رہا ہوتا ہے، ورزش والے کمروں میں، اور یہاں تک کہ نہانے والے کمروں میں بھی۔ میوزک ہم تک ٹیپ ریکارڈنگ کے ذریعے سے، سی ڈی، ریڈیو، ٹیلی وِژن اور فلموں کے ذریعے سے پہنچتا ہے۔ لوگ اپنی گاڑیوں میں اِس قدر اونچا میوزک بجاتے ہیں کہ آپ اُسے سُنے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔

1963 میں کسی دور میں ڈاکٹر ایم۔ آر۔ ڈیحان Dr. M. R. DeHaan نے یہ رائے پیش کی تھی:

ہر طرف – میوزک، میوزک، میوزک! چیخنا اور چِلانا اور خالی کَراہنا اور بچوں کی باتیں اور بناوٹی ماتم کرنا، جب تک ہم دورِ حاضرہ کی جاز موسیقی کی بار بار دہرائی جانے والی تحریک کے جادو کے تحت لوگوں کے تقریباً مکمل طور پر دیوانہ ہونے کے بارے میں پڑھ نہیں لیتے… جی ہاں بِلاشُبہ! یسوع جانتا تھا کہ وہ کس کے بارے میں بات کر رہا تھا جب اُس نے نوح کے ایام کا موازنہ اُن دِنوں کے ساتھ کیا تھا جن میں ہم اب زندگی بسر کر رہے ہیں (ایم۔ آر۔ ڈیحان، ایم۔ ڈی۔ M. R. DeHaan, M.D.، نوح کے ایام The Days of Noah، ژونڈروان Zondervan، 1963، صفحات46۔47)۔

ڈاکٹر ڈیحان نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا:

یوں دکھائی دیتا ہے جیسے کچھ بھی موسیقی کی ہمراہی کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا: ہم اپنی اِشیائے تجارت میوزک کے ذریعے سے فروخت کرتے ہیں، ہم اپنی تیار کردہ چیزوں کی ہانک موسیقی کے ذریعے سے لگاتے ہیں۔ لیکن اُداسی کی بات تو یہ ہے کہ اِس نے ہمارے گرجا گھروں اور مقدس مقامات کے اِحاطوں پر حملہ کر دیا ہے، خُداوند کے پاک کلام کی تبلیغ کے لیے موسیقی کو متبادِل کر دینے کے ذریعے سے۔ احمقانہ کورسز، بہت ناگوار روحانی عمل، خوشخبری کے لیے لوگوں کے دِلوں کو تیار کرنے کے لیے فرض کیے جاتے ہیں۔ بے معنی جملوں کو بار بار تاکیدی اور جاز کے میوزک کی لہروں پر دہرایا جاتا ہے، جب تک کہ جذباتی طور پر تناؤ کے تحت ذہنی بیمار ٹوٹ نہ جائیں اور تصور کرنے لگیں کہ اُںہوں نے آسمان سے ایک آواز سُنی ہے۔ جی ہاں، بِلاشُبہ! ’’جیسا یہ تھا… ویسا ہی یہ ہوگا…‘‘ (ibid.)۔

ڈاکٹر ڈیحان نے اُن الفاظ کو تقریباً پچاس سالوں سے بھی زیادہ عرصہ پہلے، ماضی میں 1963 میں لکھا تھا۔ جو اُنہوں نے کہا وہ اُس وقت سچ تھا، اور یہاں تک کہ یہ آج کے دور میں اُس سے بھی کہیں زیادہ سچ ہے۔ گرجا گھروں میں جس کو وہ ’’احمقانہ‘‘ میوزک کہا کرتے تھے وہ اِس قدر زیادہ بڑھ چکا ہے کہ زیادہ تر عبادات کا آدھے سے زیادہ حصّہ اِن خرافات کے حوالے ہو چکا ہے۔ اِس میں سے زیادہ تر تو واضح طور پر محض بوریت ہوتا ہے! ’’یہاں کہیں میرے دِل میں دُھن ہےThere’s within my heart a melody‘‘ کے مذید اور پانچ کورس گائے۔ تین یا چار طویل خوشخبری کے گیت گائے، جس کی ہمراہی میں واضح طور پر بوسیدہ ’’محفوظ شُدہcanned‘‘ موسیقی۔

مجھے غلط مت سمجھیے گا۔ میانہ روی میں – میں گرجا گھر کی عبادتوں میں موسیقی کے خلاف نہیں ہوں۔ لیکن میرے خیال میں تقریباً تمام کے تمام میوزک کو اجتماعی [مذہبی جماعت]گانے ہونا چاہیے۔ اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہمیں خُدا کی حمدوثنا کے حقیقی گیت گانے چاہیے، محض صرف خوشخبری کے ہی گیت نہیں۔ ہمیں آئزک واٹز، چارلس ویزلی کے حمدوثنا کے گیت، اور پہلی اور دوسری عظیم بیداری میں حیاتِ نوع کے دور میں سے دوسرے حمدوثنا کے گیتوں کو گانا چاہیے۔

’’لیکن جیسا نُوح کے دِنوں میں ہوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا‘‘ (متی 24:37).

II۔ دوسری بات، نوح کے ایام کو شدید ظلم و تشدد کی وجہ سے خصوصیت حاصل تھی۔

مہربانی سے پیدائش چھٹے باب کی آیت گیارہ کو کھولیں:

’’اب زمین خدا کی نگاہ میں بگڑ ہو چکی تھی اور ظلم و تشدّد سے بھری ہُوئی تھی۔ خدا نے دیکھا کہ زمین بہت بگڑ ہو چکی ہے کیونکہ زمین پر سب لوگوں نے اپنے طور طریقے بگاڑ لیے تھے۔ چنانچہ خدا نے نُوح سے کہا، میں سب لوگوں کا خاتمہ کرنے کو ہُوں کیونکہ زمین اُن کی وجہ سے ظلم سے بھر گئی ہے۔ اِس لیے میں یقیناً نوعِ اِنسان اور زمین دونوں کو تباہ کر ڈالوں گا‘‘ (پیدائش 6:11۔13).

پہلی جنگ عظیم سے ہی نسل اِنسانی تدریجی طور پر ظلم و تشدد کی جانب رُخ موڑ چکی ہے۔ گذشتہ اَسی سال تاریخ کے کسی اور دور کے مقابلے میں بہت زیادہ ظلم و تشدد کی خصوصیات کے حامل رہ چکے ہیں۔ پیدائش، چار باب، تیئسویں آیت میں ہمیں نوح کے زمانے میں قتل اور ظلم و تشدد کا ایک واقعہ پیش کیا گیا ہے:

’’اور لمک نے اپنی بیویوں سے کہا، اے عَدہ اور ضِلّہ! میری بات سُنو، اے لمک کی بیویو، میرے سخن پر کان لگاؤ۔ میں نے ایک آدمی کو جس نے مجھے زخمی کیا تھا، مارڈالا ہے، اور چوٹ کھا کر ایک جوان کو قتل کر دیا۔ اگر قائِن کا بدلہ سات گُنا لیا جائے گا تو لمک کا ستّر اور سات گُنا‘‘ (پیدائش 4:23۔24).

ڈاکٹر ایم۔ آر۔ ڈیحان نے کہا:

یہ ہمیں اُس زمانے کی عکاسی پیش کرتا ہے جو پیدائش کے چھٹے باب میں مذید اور نشوونما پا چکا ہے۔ یہ ظلم و تشدد، قتل و غارت گری اور سفاکانہ جرائم کا ایک زمانہ تھا۔ کیا ہمیں یہاں رائے دینے کی ضرورت پڑتی ہے؟ کیا تاریخ میں کبھی بھی ایسا کوئی زمانہ رہ چکا ہے جو آج کے مقابلے میں زیادہ ظالمانہ اور بِلا اشتعال سفاکی یعنی حیوانی خصلت کا ریکارڈ رکھتا ہو؟ یہ دوسروں کو درد میں مبتلا کر کے جنسی تسکین کو حاصل کرنے کا زمانہ ہے۔ ہر اخبار اُداس کہانی بتاتا ہے، اور یہ اِس قدر پریشان کُن ہوتا جا رہا ہے کہ لوگ اب دروازے بند کر کے کُنڈی تلا لگا کر زندگی بسر کرتے ہیں، کہیں اچانک حملہ نہ کر دیا جائے یہاں تک کہ دِن کی روشنی میں وہ ایسا کرتے ہیں، اور ناصرف شہروں میں، بلکہ ہمارے دیہی علاقوں میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ ہماری سڑکوں پر خواتین محفوظ نہیں ہیں، اور چھوٹے بچوں کو اِس موجودہ بُرے زمانے کے غیرانسانی رُجحانات اور حیوانی خصلتوں کے خلاف جو تیزی کے ساتھ سزا کے لیے تیار ہوتے جا رہے ہیں خصوصی تحفظ فراہم کرنا پڑتا ہے۔ یہ موضوع بد اخلاقی سا ہے، اور ہم تمام کی تمام جُزیات میں جانے کی پرواہ بھی نہیں کرتے۔ ہمیں تو بس صرف اپنے اخبارات کو پڑھنا ہوتا ہے اور جرائم میں شاندار اضافے کی شماریات کا مطالعہ کرنا ہوتا ہے، خصوصی طور پر کمسن نابالغوں میں، یسوع کے الفاظ کی سچائی کو دیکھنے کے لیے، ’’جیسا نوح کے دِنوں میں ہوا تھا ویسا ہی اِبن آدم کی آمد کے وقت ہوگا‘‘ (ibid.، صفحات 48۔49)۔

ہمارے زمانے کا ظلم و تشدد دوسری جنگ عظیم سے پہلے کے دِنوں سے مکمل طور پر مختلف ہے، اور خصوصی طور پر پہلی جنگ عظیم کے دِنوں سے پہلے۔ بے شمار لوگ جو تاریخ کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے آپ کو بتائیں گے کہ ہم میں وہ ظلم و تشدد ہمیشہ سے ہی رہا ہے جو ہم آج معاشرے میں دیکھتے ہیں، لیکن وہ لاعلم ہیں۔ خود میری اپنی یاداشت میں، ظلم و تشدد چونکا دینے کی حد تک بڑھ چکا ہے۔ مثال کے طور پر، 11 ستمبر، 2001 سے پہلے، کسی بھی امریکی نے دھشت گردی اور نیوکلیائی حملے کی مسلسل دھمکی کی توقع نہیں کی تھی۔ لیکن اب ہمیں مسلسل اِن دھشت گردوں کے ذریعے سے اور اُن کے ظلم و تشدد کے اعمال کی وجہ سے دھمکایہ جاتا ہے۔ ہمارے زمانے میں ہر ہاتھ پر بے مثل ظلم و تشدد اور دھشت گردی ہے۔ یسوع نے کہا،

’’لیکن جیسا نُوح کے دِنوں میں ہوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا‘‘ (متی 24:37).

III۔ تیسری بات، نوح کے ایام کو سخت منادی کو مسترد کر دینے کی وجہ سے خصوصیت حاصل تھی۔

بائبل تعلیم دیتی ہے کہ عظیم سیلاب سے پہلے کے دِنوں میں دو عظیم مبلغین ہوا کرتے تھے۔ اور اُن کے نام حنوک اور نوح ہیں۔ اُن کے واعظوں کا مرکزی موضوع ہمیں بائبل میں پیش کیا گیا ہے۔ مہربانی سے یہودہ جئ چودھویں آیت کو پڑھنے کے لیے اپنی بائبل کھولیں:

’’اور حنوک نے بھی جو آدم سے ساتویں پُشت میں تھا، اِن کے بارے میں پیش گوئی [تبلیغ] کی تھی کہ دیکھو، خداوند اپنے لاکھوں مُقدّسوں کے ساتھ آتا ہے تاکہ سب لوگوں کا اِنصاف کرے اور سارے بے دینوں کو سزا کا حکم دے، اِس لیے کہ اُنہوں نے بے دینی سے مجبور ہو کر بہت سے بے دینی کے کام کیے ہیں۔ اور خداوند بے دین گنہگاروں کو بھی سزا کا حکم دے گا کیونکہ اُنہوں نے اُس کے خلاف بڑی سخت باتیں کہی ہیں‘‘ (یہوداہ 14۔15).

حنوک نے گناہ کے خلاف انتہائی سخت تبلیغ کی تھی۔ اُس نے مسیح کی آمد ثانی کے موقع پر سزا پر اور قیامت پر انتہائی شدت کے ساتھ تبلیغ کی تھی۔ اُس نے جہنم پر منادی کی۔ یہ وہ مرکزی موضوعات تھے جن پر حنوک نے سیلاب سے پہلے تبلیغ کی تھی: قیامت اور جہنم میں سزا۔ حنوک نے سیلاب سے پہلے بار بار اِن موضوعات پر تبلیغ کی تھی۔

اب 2پطرس، دو باب کھولیں۔ یہاں پر ہم پانچویں آیت میں نوح کی تبلیغ کے بارے میں پڑھتے ہیں:

’’اور پُرانے زمانے کے لوگوں [سیلاب سے پہلے کی دُنیا] کو بھی نہ چھوڑا بلکہ بے دینوں کی زمین پر طوفان بھیج کر صرف راستبازی کی منادی کرنے والے نُوح کو اور سات دیگر اشخاص کو بچالیا‘‘ (2۔ پطرس 2:5).

حنوک ہی کی مانند، نوح بھی ایک مبلغ تھا۔ وہ کوئی بائبل کا اُستاد یا ایک الہٰامی تحریک کار نہیں تھا۔ جی نہیں! وہ ’’راستبازی کا ایک مبلغ‘‘ تھا۔ یونانی لفظ نے ’’مبلغ preacher‘‘ کا ترجمہ ’’کیروکسkerux‘‘ کیا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے ’’آواز لگانے والے ایک عوامی شخص کی حیثیت سے پیغام رسانی کرنا، اعلان کرنا‘‘ (Strong’s Concordance، # 2783، 2784)۔

’’کیونکہ ایسا وقت آ رہا ہے کہ لوگ صحیح تعلیم کی برداشت نہیں کریں گے بلکہ اپنی خواہشوں کے مطابق بہت سے اُستاد بنالیں گے تاکہ وہ وہی کچھ بتائیں جو اُن کے کانوں کو بھلا معلوم ہو‘‘ (2۔ تیموتاؤس 4:3).

یہاں پر لفظ ’’اِساتذہteachers‘‘ یوںانی میں ’’ڈِڈاسکالوسdidaskalos‘‘ سے ہے۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے ’’تعلیم دیناto teach‘‘(Strong’s Concordance، # 1320، 1321)۔

ہم (ایک عوامی قاصد کی مانند اعلان کرنے والی) تبلیغ سے تقریبا مکمل طور پر مُنہ موڑ چکنے کا تجربہ کر چکے ہیں ، اور تقریباً مکمل طور پر تبلیغ کو ’’تعلیم دینے‘‘ کے ساتھ بدل چکے ہیں، جس کے بارے میں بائبل کہتی ہے کہ آخری ایام میں کلیسیاؤں کی خصوصیت ہوگی (حوالہ دیکھیں 2 تیموتاؤس4:2۔4)۔

ڈاکٹر ڈیحان نے یہ رائے پیش کی:

ہم نوح کے ایام کی اِس زمانے کے ایام کے ساتھ مشابہت کی ایک مرتبہ پھر نشاندہی کرتے ہیں۔ متی کے 24 ویں باب کے مرکز [یعنی دِل] میں یسوع کہتا ہے کہ جیسا سیلاب سے پہلے تھا ویسا ہی اُس کے آنے کے وقت پر بھی ہو گا۔ یقینی طور پر سیلاب سے پہلے کے نوح کے ایام بہت زیادہ دھوکہ بازی کے ایام رہے ہونے چاہیے۔ حنوک اور… نوح کی قوت سے بھرپور منادی کے باوجود بھی، دُنیا نے اِن مبلغین کا یقین نہیں کیا؛ اور جب سیلاب آیا، تو صرف آٹھ لوگ تھے جنہوں نے نجات پائی تھی (ibid.، صفحہ56)۔

حنوک نے آنے والی قیامت پر تبلیغ کی تھی۔ نوح نے راستبازی اور قیامت پر منادی کی تھی۔ اُس نے سیلاب کی آنے والی قیامت پر تبلیغ کی تھی (حوالہ دیکھیں2 پطرس2:5؛ عبرانیوں11:7)۔ شاذونادر ہی کوئی نجات پاتا ہے جب اِن دو مبلغین نے باتیں کیں۔ لوگوں نے یوں زندگی گزارتے رہنا جاری رکھا جیسے کبھی بھی کوئی قیامت نہیں آنی۔

اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا آپ قیامت کے لیے تیار ہیں؟ کیا آپ مبلغ کی سُنیں گے اور توبہ کریں گے؟ کیا آپ نجات کی کشتی میں آئیں گے – مسیح میں؟

میں یہاں پر آپ کو بتانے کے لیے ہوں کہ مسیح آپ کے گناہوں کی ادائیگی کے لیے صلیب پر قربان ہوا تھا۔ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا اور آسمان میں اوپر چلا گیا، خُدا باپ کے داہنے ہاتھ پر۔ آپ آنے والی قیامت کے لیے اُس وقت تک تیار نہیں ہوتے جب تک آپ مسیح کے پاس نہیں آتے۔ آپ کو اصل میں مسیح بخود کے پاس آنا چاہیے، ورنہ آپ کا انصاف ہو گا، اور جہنم میں جائیں گے، بالکل نوح کے دِنوں کے لوگوں کی مانند۔

’’لیکن جیسا نُوح کے دِنوں میں ہوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا‘‘ (متی 24:37).

آمین۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک میں سے تلاوت مسٹر نوح سونگ Mr. Noah Song نے کی تھی: پیدائش 4:21۔24۔
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بینجیمن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
نے گایا تھا: ’’ایسے وقتوں کے دوران In Times Like These‘‘
(شاعرہ رُوتھ کائی جونز Ruth Caye Jones، 1944)۔

لُبِ لُباب

نوح کا زمانہ – حصّہ III

(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 14)
THE DAYS OF NOAH – PART III
(SERMON #14 ON THE BOOK OF GENESIS)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’لیکن جیسا نُوح کے دِنوں میں ہوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا‘‘ (متی 24:37).

I.    پہلی بات، نوح کے ایام کو موسیقی میں بہت زیادہ دلچسپی کی وجہ سے خصوصیت حاصل تھی، پیدائش 4:21۔

II.   دوسری بات، نوح کے ایام کو شدید ظلم و تشدد کی وجہ سے خصوصیت حاصل تھی، پیدائش 6:11۔13؛ پیدائش 4:23۔24۔

III. تیسری بات، نوح کے ایام کو سخت منادی کو مسترد کر دینے کی وجہ سے خصوصیت حاصل تھی، یہوداہ 14۔15؛ 2۔ پطرس 2:5؛ 2۔ تیموتاؤس 4:3۔