Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


آخری حد

THE DEADLINE
(Urdu)

مسٹر جان سیموئیل کیگن کی جانب سے
by Mr. John Samuel Cagan

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی صبح، 5 مارچ، 2017
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, March 5, 2017

’’اور تب خداوند نے کہا، میری روح انسان کے ساتھ ہمیشہ مزاحمت نہ کرتی رہے گی‘‘ (پیدائش 6:3).

تصور کریں کہ آپ کی ابھی ابھی کینسرکے مرض کی تشخیص کی گئی ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ آپ کو مار دے گا، لیکن ایک علاج ہے۔ آپ کے کینسر کے لیے ایک علاج ہے، لیکن آپ کو بالکل ابھی سے علاج شروع کروانا چاہیے۔ آپ کیا کریں گے؟ تصور کریں کہ آپ گھر چلے جاتے ہیں، اور اپنا کمپیوٹر چلا لیتے ہیں، اور خود کو انٹرنیٹ میں گم کر لیتے ہیں۔ تصور کریں کہ اگلے دِن، آپ اپنے دوستوں کے ساتھ باہر جاتے ہیں۔ ایک بات دوسری کے ساتھ چلتی جاتی ہے اور چند مہینے یوں ہی گزر جاتے ہیں۔ ڈاکٹر آپ کو گھر پر ٹیلی فون کرتے ہیں، اور آپ کے ساتھ بحث کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ کا علاج ہونا چاہیے اور اِس کو ابھی ہی ہونا چاہیے ورنہ آپ مر جائیں گے۔ لیکن آپ اُن کا یقین نہیں کرتے۔ آپ اُن کی تنبیہہ کے بارے میں سب کچھ بھول جاتے ہیں، اور اپنی زندگی گزارنے میں مگن رہتے ہیں۔ آپ کی لاپرواہی خود ہی ایک جان لے لیتی ہے۔ آپ اپنے کینسر کے بارے میں بھولنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ آپ اب اِس کے بارے میں سرے سے سوچتے ہی نہیں۔

ایک دِن، آپ کو درد محسوس ہوتی ہے، اور اپنے ڈاکٹر سے ملنے جاتے ہیں۔ وہ آپ کو سختی سے دیکھتا ہے، اور اپنے سر کو ہلاتا ہے۔ وہ آپ کو بتاتا ہے کہ اب بہت تاخیر ہو چکی ہے۔ وہ آپ کو بتاتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے جو وہ اب کر پائے۔ وہ آپ کو بتاتا ہے کہ اب کینسر آپ کو مارنے ہی والا ہے۔ آپ شاید چند مہینے اور جی پائیں، شاید چھ ماہ، شاید کم، لیکن آپ مر جائیں گے۔ وہ واقعی میں کینسر نہیں ہے جو آپ کو مار ڈالے گا۔ جس چیز نے آپ کو مارا وہ آپ کی لاپرواہی تھی۔ ایک علاج تھا، لیکن آپ نے اُس کو نظر انداز کر دیا۔ ایک اُمید تھی، لیکن آپ اُس کے بارے میں بھول گئے۔ ایک موقع تھا، لیکن آپ نے اُس کو کھو دیا۔ آپ بہت آگے تک نکل چکے ہیں۔ آپ موت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کرنے کے لیے اب کچھ بھی باقی نہیں بچا ہے، ماسوائے مرنے کے۔

آپ خود سے کہتے ہیں کہ آپ ایسا کبھی بھی نہیں کریں گے۔ اِس کے باوجود اِس ہی طریقے سے آپ اپنی جان کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتے ہیں۔ خُدا کہتا ہے کہ آپ ایک گنہگار ہیں۔ خُدا کہتا ہے کہ گناہ کی اُجرت موت ہے۔ خُدا کہتا ہے کہ آپ کے گناہ کا انصاف جہنم میں ہمیشہ کی زندگی کے ساتھ کیا جائے گا۔ خُدا کہتا ہے کہ اِس سزا سے بچنے کی صرف ایک ہی راہ ہے۔ خُدا کہتا ہے کہ آپ کو یسوع پر بھروسہ کرنا چاہیے اگر آپ گناہ اور سزا سے بچنا چاہتے ہیں۔ تاہم، آپ کا ردِ عمل سُست، خوابیدہ اور غیر دلچسپی والا ہے۔ آپ خوشخبری خوشخبری کی بُلاہٹ کا ردعمل ظاہر نہیں کرتے۔ آپ گھر چلے جاتے ہیں اور اِس کے بارے میں بھول جاتے ہیں۔ آپ یسوع کو مسترد کرتے ہیں۔ آپ اپنی نجات کو ملتوی کر دیتے ہیں۔ آپ سوچتے ہیں کہ آپ مستقبل میں کسی بھی وقت یسوع پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔ اِس لیے آپ یوں عمل کر رہے ہیں جیسے آپ نے ڈاکٹر سے کینسر کی تشخیص موصول کی تھی۔ لیکن فضل کے لیے ایک آخری حد مقرر ہوتی ہے۔ ایک لمحہ آئے گا جس میں نجات کے مہیا ہونے کا موقع نکل جائے گا۔ آپ نے مسیح کو کافی طویل مدت نظر انداز کیا ہے۔ آپ نے خُدا کے پاک روح کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ آپ ناقابلِ معافی گناہ کا اِرتکاب کر چکے ہونگے۔ ایک مرتبہ آپ سے ناقابلِ معافی گناہ سرزد ہو گیا، آپ نااُمیدی سے جہنم کے لیے مقصود ہو جاتے ہیں۔

’’اور تب خداوند نے کہا، میری روح انسان کے ساتھ ہمیشہ مزاحمت نہ کرتی رہے گی‘‘ (پیدائش 6:3).

بائبل ناقابلِ معافی گناہ کے بارے میں بے شمار تنبیہات پیش کرتی ہے۔ بائبل فرعون کے واقعے کو مصر میں سے یہودی لوگوں کے خروج کے دوران پیش کرتی ہے۔ خُدا نے فرعون کو ایک واضح ہدایت کی تھی۔ فرعون نے معجزات دیکھے، لیکن اُس نے جو خُدا کہتا تھا اُس کی فرمانبرداری نہیں کی۔ فرعون ڈھٹائی کے ساتھ خُدا کی ہدایت سے مزاحمت کرتا رہا تھا۔ فرعون کو خود پر اعتماد تھا۔ اُس نے خُدا کے خلاف خود کو مستحکم رکھنا جاری رکھا تھا۔ جب تک کہ انتہائی تاخیر نہ ہوگئی۔ جب تک بالاآخر خُدا نے اُس کو چھوڑ نہ دیا، اور اُس کو خود اُس کی اپنی ڈھیٹ مزاحمت میں مہربند کر دیا۔

’’اور موسٰی اور ہارون نے یہ تمام حیرت انگیز کام فرعون کو دکھائے لیکن خداوند نے فرعون کے دل کو سخت کر دیا اور وہ بنی اسرائیل کو اپنے ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے پر راضی نہ ہُوا‘‘ (خروج 11:10).

آپ کیسے اِس قدر مختلف ہو سکتے ہیں؟ آپ حیرت انگیز باتیں دیکھ چکے ہیں۔ آپ واضح مسیح میں ایمان لانے والی تبدیلیوں کو دیکھ چکے ہیں اور یسوع میں ہمیشہ کے لیے زندگی کو بدلتا ہوا دیکھ چکے ہیں۔ آپ نے آسمان سے آگ کو برستے ہوئے نہیں دیکھا، لیکن آپ کوئی کم قصوروار نہیں ہیں۔ آپ کوئی کم قصوروار نہیں ہیں، کیونکہ آپ مسیح کی خوشخبری کو واضح طور پر آپ کو تبلیغ کرتے ہوئے سُن چکے ہیں۔ آپ اِتوار کے بعد ہر دوسرے اِتوار کو خوشخبری کی منادی کو ہوتا ہوا سُن چکے ہیں، کئی مہینوں اور سالوں تک، اور آپ نے خوشخبری کی بُلاہٹ پر دھیان نہیں دیا۔ آپ نے اپنے گناہ سے مُنہ نہیں موڑا اور یسوع پر بھروسہ نہیں کیا۔ آپ نے اپنے دِل کو سخت کر دیا ہے۔ آپ دوسرے میں نقص تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ دُنیا آپ کو کیا پیش کرتی ہیں۔ آپ خود کے بارے میں فکرمند ہوتے ہیں کہ دوسرے شاید کیا سوچیں گے۔ آپ نے خوشخبری کی بُلاہٹ پر دھیان نہیں دیا ہے۔

’’اور تب خداوند نے کہا، میری روح انسان کے ساتھ ہمیشہ مزاحمت نہ کرتی رہے گی‘‘ (پیدائش 6:3).

اِس طرح سے بے شمار طریقوں سے، آپ فرعون کے مقابلے میں بدترین ہیں، جس نے کبھی بھی خوشخبری کو نہیں سُنا تھا۔ کتنی مرتبہ فرعون موسیٰ کے ذریعے سے خُدا کی ہدایت سے منحرف ہوا تھا؟ دس مرتبہ؟ بیس مرتبہ؟ ایک سو مرتبہ؟ اگر آپ ایک سال کے لیے اِس گرجا گھر کے منادی کے تحت رہ چکے ہیں، آپ پہلے ہی سے خُدا سے اتنی ہی مرتبہ منحرف ہو چکے ہیں جتنی مرتبہ فرعون ہو چکا تھا۔ خُدا نے بالاآخر فرعون کے دِل کو سخت کر دیا تھا۔ تاکہ وہ مذید اور فرمانبرداری نہی کرے۔ وہ مذید اور خُدا کی تنبیہات سُن نہیں سکتا تھا۔ وہ مُر چکا تھا جبکہ وہ زندہ ہی تھا۔ اور کتنی مرتبہ آپ خوشخبری کو سُنیں گے اِس سے پہلے کہ خُدا آپ کے دِل کو سخت کر دے؟ کیا یہ صبح آخری مرتبہ ہو گی کہ خدا آپ سے کبھی نمٹتا ہے؟ کیا یہ صبح آپ کے لیے یسوع پر بھروسہ کرنے کے لیے اور نجات پانے کے لیے آخری موقع ہوگی؟ کیا یہ صبح وہ دِن ہوگی کہ آپ ناقابلِ معافی گناہ کا اِرتکاب کریں گے؟ کیا آج آپ کی آخری حد ہوگی؟

’’اور تب خداوند نے کہا، میری روح انسان کے ساتھ ہمیشہ مزاحمت نہ کرتی رہے گی‘‘ (پیدائش 6:3).

کوئی وقت تھا جب اُس قسم کے خیال نے آپ کو پریشان کیا ہوگا۔ آپ ناقابلِ معافی گناہ کو سرزد کر دینے کے خیال سے کانپ اُٹھے ہونگے۔ اِس کے باوجود، اب یہ آپ کے بالکل ذہن میں سے آپ کے دِل کو چھوئے بغیر ہی گزر جاتا ہے۔ آپ کا دِل سخت ہو چکا ہے۔ آپ کیسے ناقابلِ معافی گناہ کو سرزد کرنا ہے اُس کی ایک کیس سٹڈی بن چکے ہیں۔ ناقابلِ معافی گناہ سخت کیے جانے کا ایک گناہ ہے۔ اپنی جان کے لیے پاک روح کی بات چیت سے بے حِس ہونے کے لیے گناہ۔ ڈاکٹر ھنری سی۔ تھائیسن Dr. Henry C. Thiessen نے کہا،

’’وہ درجہ جس پر دِل خود سخت ہو چکا ہے اور خُدا کے فضل کی لاتعداد پیشکشوں کے لیے غیر تاثر پزیر ہو چکا ہے، جرم کے درجے کا تعین کرتا ہے۔ حتمی سختی کا ہونا پاک روح کے خلاف گناہ ہے اور ناقابلِ معافی ہے، کیونکہ اِس کے ذریعے سے جان الہٰی تاثر کو قبول کرنے کے لیے ختم ہو چکی ہوتی ہے‘‘ (درجہ بہ درجہ علم الہٰیات میں تعارفی لیکچر Introductory Lectures in Systematic Theology (270)۔

حقیقت یہ ہے کہ آخری حد گزر جانے کا آپ پرکوئی اثر نہیں ہوا ہے۔ کیا آپ نے کبھی بھی سکول میں کسی آخری موقع کو مِس کیا؟ کیا آپ کبھی فائنل امتحان کے لیے دیر تک سوتے رہے اور اُٹھنے میں دیر کر دی؟ آپ اِس قدر بُری طرح سے پھنس چکے ہیں کہ صورتحال کو سنبھالنے کی تمام اُمید کھو چکی ہے۔ آپ صرف رحم کے لیے، معافی کے لیے، کسی سمجھوتے کے لیے صرف اپنی مایوسی کے ساتھ سودا کرنےکی اپیل کر سکتے ہیں۔ وہ شاید ایک کالج کے پروفیسر کے ساتھ کام کر جائے، لیکن یہ خُدا کے ساتھ کام نہیں چلائے گی۔ ایک مرتبہ آپ نے خُدا کے دیے ہوئے آخری موقع کو گزار دیا، تو آپ اُمید کے بغیر رہ جاتے ہیں۔ آپ توسیع نہیں مانگ سکتے۔ آپ خُدا سے مذید اور وقت نہیں مانگ سکتے۔ آپ آسمان میں کسی کم تر جگہ کے لیے نہیں کہہ سکتے۔ انتہائی تاخیر ہو چکی ہوتی ہے۔ آپ آخری موقع کو گزار چکے ہوتے ہیں۔ آپ ناقابلِ معافی گناہ کا اِرتکاب کر چکے ہوتے ہیں۔

’’اور تب خداوند نے کہا، میری روح انسان کے ساتھ ہمیشہ مزاحمت نہ کرتی رہے گی‘‘ (پیدائش 6:3).

آپ کی کچھ نہ کرنے کی خصوصیت جب اِس حقیقت کا سامنا کرتی ہے تو وہ نوح کے زمانے کے لوگوں سے مشہابت رکھتی ہے۔ بائبل کہتی ہے کہ نوح راستبازی کا مبلغ کا تھا۔ نوح نے اپنے زمانے کے لوگوں کے ایک بعد دوسری دہائی تک منادی کی تھی۔ اُنہوں نے نوح کے ساتھ اُس طریقے کا ردعمل کیا تھا جس طرح سے آپ آج کل کی منادی کے ساتھ ردعمل کرتے ہیں۔ اُنہوں نے شروع میں دلچسپی کے ساتھ سُنا، لیکن کسی موقع پر آ کر، اُنہوں نے سُننا ہی بالکل بند کر دیا۔ اُنہوں نے اُس کی منادی کو غیراہم جان کر رد کر دیا۔ شاید اُن میں سے کچھ نے سوچا ہو کہ جو کچھ اُس نے کہا سچ تھا، لیکن وہ اُس کے تصورات کے لیے اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے والے نہیں تھے۔ اگر بارش ہونا شروع ہو جاتی، وہ بس بھاگ کر کشتی تک آتے اور اُس میں چھلانگ لگا دیتے۔ وہ دونوں طرح سے اِس کو پا سکتے تھے۔ اُنہیں صرف اِتنا ہی کرنا تھا کہ انتظار کرتے اور دیکھتے کہ آیا بارش ہوتی بھی ہے کہ نہیں، اور اگر وہ ہو جاتی، تو بھاگ کر کشتی میں ہوتے۔ مگر وہ خُدا کے بارے میں بھول چکے تھے۔ وہ بھول چکے تھے کہ خُدا نے ایک آخری حد مقرر کر رکھی تھی۔ بائبل کہتی ہے،

’’اور خدا کے نوح کو دیئے ہُوئے حکم کے مطابق جو جاندار اندر آئے وہ نر اور مادہ تھے۔ تب خداوند نے کشتی کا دروازہ بند کر دیا‘‘ (پیدائش 7:16).

ایک مرتبہ نوح اور اُس کا خاندان کشتی میں چلا جاتا، تو خُدا اُس کے پیچھے کشتی کے دروازے کو بند کر دیتا۔ ایک مرتبہ خُدا دروازہ بند کردیتا، تو انتہائی تاخیر ہو چکی ہوتی۔ وہ لوگ، جو انتظار کر رہے یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا ہو گا، کشتی میں چڑھنے سے پہلے، سیلاب میں ڈوب گئے تھے۔ خُدا آخری حد مقرر کر چکا تھا۔ اُنہوں نے دہائیوں تک سُنا تھا، جب تک کہ اُنہوں نے نوح کو کسی سنجیدہ نوعیت کے ساتھ سُننا چھوڑ نہ دیا۔ اُنہوں نے سوچا تھا یہ تو خُدا کی سزا کے بارے میں باتیں ہی کرتا جائے گا اِس کے رونما ہوئے بغیر۔ اور جب خُدا کی سزا آئی، تو اُن کے بچنے کے لیے انتہائی تاخیر ہو چکی تھی۔ وہ آخری حد کو پار کر چکے تھے۔

’’اور تب خداوند نے کہا، میری روح انسان کے ساتھ ہمیشہ مزاحمت نہ کرتی رہے گی‘‘ (پیدائش 6:3).

بائبل عیسو کے بارے میں بتاتی ہے۔ عیسو کو عام انسان نہیں تھا۔ وہ اضحاق کا بیٹا تھا، جو ایمان کے بزرگان میں سے ایک تھے۔ عیسو خُدا کے بارے میں کہانیاں سُن سُن کر بڑا ہوا تھا۔ بِلاشُبہ عیسو نے سُن رکھا تھا کیسے خُدا نے صدوم اور عمورہ پر آگ اور گندھک کی بارش برسائی تھی۔ عیسو نے خُدا کے بارے میں سُن رکھا تھا لیکن اِس کا اُس کی زندگی پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ عیسو نے خُدا کے بارے میں اِس قدر کم سوچا تھا کہ وہ ایک لمحاتی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اپنے پیدائشی حق تک کو بیچنے کے لیے تیار ہو گیا تھا۔ اُس نے یخنی کے ایک پیالے کی خاطر ہر وہ شے بیچ دی تھی جو وہ پا سکتا تھا۔ کسی نہ کسی موقع پر، عیسو کو احساس ہوا تھا کہ وہ کیا کر گزرا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اُس سے ایک ہولناک غلطی ہوئی تھی۔ وہ اِس سب کو واپس پانا چاہتا تھا۔ وہ ایک اور موقع چاہتا تھا۔ لیکن یہاں ایک آخری حد مقرر تھی۔ بائبل عیسو کے بارے میں بتاتی ہے،

’’کیونکہ تُم جانتے ہو کہ بعد میں جب اُس نے برکت پانے کی کوشش کی تو ناکام رہا۔ اُسے اپنی نیت بدلنے کا موقع نہ ملا حالانکہ وہ آنسو بہا بہا کر اُس کی تلاش کرتا رہا‘‘ (عبرانیوں 12:17).

عیسو بدلنا چاہتا تھا۔ وہ توبہ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن وہ کر نہیں پایا۔ عیسو کے لیے انتہائی تاخیر ہو چکی تھی۔ کچھ نہ کچھ اُس کی روحانی حالت میں بدل چکا تھا۔ کچھ نہ کچھ مختلف تھا۔ کچھ نہ کچھ مختلف تھا جس کی اُس نے توقع نہیں کی تھی۔ بالکل جیسے یعقوب صحرا کے وسط میں اپنی نیند سے جاگا تھا – رات میں، تنہائی میں گھرے ہوئے – یہ احساس کرنے کے لیے کہ خُدا وہاں پر موجود تھا، خُدا اُس کے ساتھ تھا، ویسے ہی عیسو اپنے روحانی نیند سے بیدار ہوا تھا اور احساس کیا تھا کہ خُدا اُس کے ساتھ نہیں تھا۔ خُدا جا چکا تھا۔ خُدا اُس کے ساتھ نہیں تھا، اور اب نہایت تاخیر ہو چکی تھی۔ وہ آخری حد سے گزر چکا تھا۔

’’اور تب خداوند نے کہا، میری روح انسان کے ساتھ ہمیشہ مزاحمت نہ کرتی رہے گی‘‘ (پیدائش 6:3).

آپ جو اپنی ساری زندگی بائبل کو سُن چکے ہیں خصوصی خطرے میں ہیں۔ آپ بائبل کے بارے میں کہانیاں سُن سُن کر بڑے ہوئے تھے۔ داؤد اور جاتی جولیت کی کہانیاں اور یریحو کے دیواریں اور دوسری بے شمار کہانیاں آپ کے ذہن میں کُنندہ ہوتی ہیں۔ لیکن آپ نے یہ کہانیاں اِتنا عرصہ تک سُنی ہوتی ہیں کہ آپ کے لیے وہ کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اُن کا آپ پر وہی اثر ہوتا ہے جو اُنہوں نے عیسو پر کیا تھا۔ وہ زندگی میں خود آپ کے اپنے لائحہ عمل کے پس منظر میں آواز ہوتی ہیں۔ اُن کا آپ کے فیصلوں پر کوئی حقیقی اثر یا تاثر نہیں ہوتا۔ وہ کہانیاں محض بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ ہوتی ہیں۔ اب جب شریعت اور خوشخبری کی تبلیغ ہوتی ہے، تو وہ محض کچھ اور کہانیاں ہوتی ہیں۔ آپ اُن کو سنجیدگی سے لے ہی نہیں سکتے۔ آپ شریعت اور خوشخبری کو اپنے زندگی تک پہنچنے کی اجازت دے ہی نہیں سکتے۔ آپ توبہ نہیں کر سکتے۔ یہ ہی تھا جس کی کمی عیسو کو محسوس ہو رہی تھی۔ اُس نے اختیاط کی بھرپوری کے ساتھ توبہ کو تلاش کیا تھا، اور آنسوؤں کے ساتھ اور کچھ بھی نہیں ڈھونڈ پایا تھا۔ ڈاکٹر جان آر۔ رائس نے ناقابلِ معافی گناہ سے تعلق رکھتے ہوئے کہا،

ایک ایسا گناہ ہوتا ہے جس کے پرے کبھی بھی کچھ نہیں بُھلایا جا سکتا ہے۔ لوگ اِس کے بارے میں کبھی بھی توبہ نہیں کرتے۔ یہ گناہ، ایک مرتبہ سرزد ہو جائے تو ناقابلِ تنسیخ ہوتا ہے۔ جب میں ناقابلِ معافی گناہ کے بارے میں بات کرتا ہوں، تو میرا مطلب ہوتا ہے کہ ایک گناہ ہوتا ہے جس کے لیے کسی کو اِس دُنیا میں معافی نہیں مِل پاتی، جس کے بارے میں انسان کبھی بھی توبہ نہیں کرتا، جس سے انسان کبھی بھی باز نہیں آتا، جو کبھی بھی صاف نہیں کیا جا سکتا اور معاف نہیں کیا جا سکتا… اُس لحاظ سے ناقابلِ معافی گناہ مختلف ہوتا جس میں ایک شخص شاید آخری حد تو گزر جاتا ہے جبکہ وہ زندہ ہی ہوتا ہے، [جبکہ وہ ابھی زندہ ہی ہوتا ہے، وہ] شاید دائمی سزایافتہ لوگوں کی سلطنت میں پہنچ جاتا ہے، شاید رحم سے ہمیشہ کے لیے پرے گزر جاتا ہے اِس کے باوجود اِس دُنیا ہی میں زندہ ہوتا ہے! کس قدر ہولناک ہے یہ گناہ جس کی کوئی معافی نہیں، کوئی توبہ نہیں، کوئی درگزر نہیں‘‘ (آخری حد کو پار کرنا Crossing the Deadline

’’اور تب خداوند نے کہا، میری روح انسان کے ساتھ ہمیشہ مزاحمت نہ کرتی رہے گی‘‘ (پیدائش 6:3).

ڈاکٹر رائس ایک مبشرِ انجیل تھے۔ وہ اِس خطرے کی فوری ضرورت کو سمجھ چکے تھے کہ مسیح کے بغیر ایک بشر ڈاکٹر رائس کے چاہنے والے لوگوں میں خُدا کی آخری حد کے بارے میں اُنہیں سچائی بتانے کے لیے کافی تھا۔ ڈاکٹر رائس نے اپنے مشہور گیت میں لکھا،

اگر نجات دہندہ آپ کو آپ کی آوارہ گردیوں سے واپس بُلاتا ہے،
   اگر روح نے اِلتجا کی ہے کہ آپ اپنے گناہ سے مُنہ موڑ لیں؛
اگر آپ کے دِل کے دروازے پر دستک اِس قدر تسلسل کے ساتھ جاری ہے،
   ہائے، اُس کو مذید اور مسترد مت کریں، [وہ آپ کے گناہ کو معاف کر دے گا]!
[یا] کس قدر دُکھی فیصلے کا سامنا کرنے پڑے گا جس کو آپ کسی رحم کے بغیر یاد کریں گے
   کہ آپ اُونگھتے رہ گئے اور سُستی دکھائی جب تک روح جا چکا تھا؛
کیسا ماتم اور اِلزام تراشی، جب اگر موت آپ کو نااُمید پاتی ہے،
   آپ اُونگھتے رہے اور سُستی دکھائی اور ضرورت سے زیادہ انتظار کیا۔
(’’اگر آپ نےزیادہ دیر سُستی دکھائی If You Linger Too Long‘‘ شاعر ڈاکٹر جان آر۔ رائس Dr. John R. Rice، 1895۔1985)۔

ناقابلِ معافی گناہ کی کوئی توبہ نہیں ہوتی، کوئی معافی نہیں ہوتی، اور اُمید کا اختتام ہوتا ہے۔ یہ خُدا کی آخری حد ہوتی ہے۔ اِسی لیے آپ کو ابھی عمل کرنا چاہیے۔ آپ کو ابھی اپنے گناہ سے مُنہ موڑنا چاہیے۔ آپ کو ابھی یسوع کی جانب مُڑ جانا چاہیے جبکہ آپ ابھی کر سکتے ہیں۔ آپ کو ابھی یسوع کی جانب ایمان کے ساتھ دیکھنا چاہیے۔ یسوع آپ سے محبت کرتا ہے۔ یسوع آپ کے گناہوں کے لیے صلیب پر قربان ہوا تھا۔ یسوع نے اپنے ہاتھوں سے اپنا خون بہایا تھا، اپنے پیروں سے، اپنے سر سے، اپنے سارے بدن سے، آپ کے لیے۔ یسوع کہتا ہے، ’’جو کوئی میرے پاس آئے گا میں اُسے خود سے جُدا نہیں ہونے دوں گا‘‘ (یوحنا6:37)۔ آج، یسوع آپ کو اپنے پاس آنے کے لیے بُلاتا ہے۔ اگر آپ یسوع کے پاس آتے ہیں، تو آپ اُس کے بازوؤں میں محفوظ ہوتے ہیں۔ آپ گناہ سے، اور جہنم سے اور سزا سے محفوظ ہوتے ہیں۔ اگر آپ یسوع کے پاس آتے ہیں تو آپ نجات پا لیتے ہیں!

آپ کو یسوع مسیح بخود کے پاس آنا چاہیے۔ یسوع ایک حقیقی ہستی ہے۔ وہ زندہ ہے اور آسمان میں ہے، اور خُدا باپ کے داہنے ہاتھ پر بیٹھا ہوا ہے۔ یسوع ایک کہانی سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے، یا بائبل میں اصولوں کے ایک سیٹ [set] سے بڑھ کر ہے۔ یسوع اُس تصور کے مقابلے میں جو آپ کے ذہن میں سمجھنے کے لیے ہوتا ہے کہیں بڑھ کر ہے۔ یسوع ایک حقیقی ہستی ہے، جو واقعی میں آپ سے محبت کرتا ہے، اور جو واقعی میں آپ کو قبول کر لے گا اگر آپ اُس پر بھروسہ کرتے ہیں۔ یسوع آپ کے گناہ کی بیماری کے لیے علاج ہے۔ اگر آپ کو کینسر ہوتا، اور آپ سمجھ جاتے کہ علاج کیسے کیا جائے گا، اور اگر آپ یقین کرتے کہ علاج نے کام کر دکھایا، لیکن اگر آپ نے علاج کروایا ہی نہیں، اور آپ اصل میں گئے ہی نہیں اور علاج کروایا ہی نہیں، تو آپ مر جائیں گے۔ اگر آپ یسوع کے بارے میں باتوں پر یقین کرتے ہیں، اُس پر بھروسہ کیے بغیر، اُس کے پاس آئے بغیر، اُس کا تجربہ کیے بغیر، اُس کے بغیر اصل میں آپ کو نجات دلائے بغیر – تو آپ مر جائیں گے۔ اِس لیے اُس پر قائم مت رہیں جو آپ یسوع کے بارے میں یقین کر سکتے ہیں، یسوع بخود میں قائم رہیں۔ اُس پر انحصار مت کریں جو آپ یسوع کے بارے میں سمجھ یا رٹ سکتے ہیں، خُدا کے برّے پر انحصارکریں جو جہاں کے گناہ اُٹھا لے جاتا ہے۔ ایمان کے وسیلے سے یسوع پر بھروسہ کریں!

ڈاکٹر ہائیمرز، مہربانی سے آئیں اور عبادت کا اختتام کریں۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بیجنیمن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا:
’’اگر آپ نےزیادہ دیر سُستی دکھائی If You Linger Too Long‘‘
(شاعر ڈاکٹر جان آر۔ رائس Dr. John R. Rice، 1895۔1985)

۔