Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


ابتدائی کلیسیاؤں میں انجیلی بشارت کا پرچار –
آج کے لیے ایک نمونہ!

EVANGELISM IN THE EARLY CHURCHES –
A MODEL FOR TODAY!

(Urdu)

ایک واعظ جسے ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونئیر نے تحریر کیا
اور جس کی تبلیغ مسٹر جان سیموئیل کیگن نے کی
لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں
خداوند کے دِن کی شام، 12 فروری، 2017
A sermon written by Dr. R. L. Hymers, Jr.
and preached by Mr. John Samuel Cagan
at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, February 12, 2017

’’اور اُس نے اپنے بارہ شاگردوں کو بلایا اور اُنہیں دو دو کرکے روانہ کیا‘‘ (مرقس 6:7).

یہ بارہ لوگ یسوع کے ساتھ صرف چند ایک ہفتوں ہی سے تھے۔ لیکن اُس نے یکدم اُنہیں منادی کے لیے دو دو کر کے روانہ کیا (مرقس6:12)۔ حتّٰی کہ اُس انتہائی وقت جب یسوع نے اُنہیں بُلایا تھا، اُس نے ایسا کیا ’’کہ وہ شاید اُنہیں منادی کے لیے بھیجے گا‘‘ (مرقس3:14)۔ یقین طور پر آپ جانتے ہیں کہ یہ لوگ ابھی تک انتہائی روحانی نہیں ہوئے تھے۔ یقین طور پر آپ جانتے ہیں کہ یہوداہ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہیں ہوا تھا، کہ تھوما نے ابھی تک خوشخبری کا یقین نہیں کیا تھا، کہ پطرس نے بعد میں یسوع کے صلیب کو لے جانے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ اِس کے باوجود یسوع نے اُنہیں باہر خوشخبری کے پرچار کے لیے فوراً بھیج دیا تھا! وہ انتہائی بات جو یسوع نے پطرس اور اندریاس سے کی تھی، ’’میرے پیچھے آؤ اور میں تمہیں انسانوں کا پکڑنے والا بنا دوں گا۔ اور اُنہوں نے اُسی وقت اپنے جال چھوڑ کر اُس کے پیچھے ہو لیے‘‘ (متی4:19۔20)۔

دوبارہ، ایک سال بعد، مسیح نے اپنے پیروکاروں میں سے ستر کو بُلایا، ’’اور اُنہیں دو دو کر کے اپنے سے پہلے اُن شہروں اور قصبوں میں روانہ کیا جہاں وہ خود جانے والا تھا‘‘ (لوقا10:1)۔ مہربانی سے لوقا10 کے اُس حوالے کو کھولیں۔ کھڑے ہو جائیں جب میں 1 تا 3 آیات پڑھوں۔

’’اس کے بعد خداوند نے بہتر شاگرد اور مقرر کیے اور اُنہیں دو دو کر کے اپنے سے پہلے اُن شہروں اور قصبوں میں روانہ کیا جہاں وہ خود جانے والا تھا اور اُس نے اُن سے کہا، فصل تو بہت ہے لیکن مزدور کم ہیں، اِس لیے فصل کے مالک سے التجا کرو کہ وہ اپنی فصل کاٹنے کے لیے مزدور بھیج دے۔ جاؤ، دیکھو میں تمہیں گویا برّوں کو بھیڑیوں کے درمیان بھیج رہا ہُوں‘‘ (لوقا 10:1۔3).

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

انجیلی بشارت کا پرچار کرنے کے لیے دو دو کر کے لوگوں کو باہر بھیجنے کا یہ طریقہ مسیح کا تھا۔ میرے خیال میں بالکل یہی ہے جس کو کرنے کی ہمیں آج ضرورت ہے۔ یہ بھی غور کریں کہ یہ نوسیکھے یعنی اناڑی تھے، بہتر طور پر کہا جائے تو مسیحی بچے تھے لیکن یسوع نے اُنہیں اُسی طرح باہر بھیج دیا تھا۔ اُس نے اُنہیں بھیجنے سے پہلے بائبل کی تعلیم دینے کے لیے سالوں صرف نہیں کیے تھے۔ جی نہیں، اُس نے اُن سے کہا،

’’جاؤ، دیکھو میں تمہیں گویا برّوں کو بھیڑیوں کے درمیان بھیج رہا ہُوں‘‘ (لوقا 10:3).

اِس پر بھی غور کریں کہ مسیح نے اِن ناتجربہ کار نوجوان پیروکاروں کو کونسی دعا مانگنے کے لیے کہا۔ اور اُس نے اُن کو بجا طور پر آیت دو میں کیا دعا مانگنی ہے بتایا،

’’فصل کے مالک سے التجا کرو کہ وہ اپنی فصل کاٹنے کے لیے مزدور بھیج دے‘‘ (لوقا 10:2).

اُس نے اُن ستر ناتجربہ کار نوجوان پیروکاروں کو یہ دعا مانگنے کے لیے کہا کہ خُدا زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فصل کاٹنے کے لیے بھیجے! ڈاکٹر جان آر۔ رائسDr. John R. Rice نے اپنے تحریک دے ڈالنے والے گیتوں میں سے ایک میں بخوبی اِس بات کو ادا کیا،

ہمیں دعا مانگنی چاہیے کہ فصل کاٹنے کا خُداوند،
   ’’کھیتوں میں فصل کاٹنے والے مزدوروں کو بھیجے۔‘‘
فصل پک چکی ہے اور ضائع ہو رہی ہے؛ کاٹنے والے کم ہیں
   کھیت تیار کھڑے ہیں، پیداوار کس قدر زیادہ ہے۔
میں یہاں ہوں! میں یہاں ہوں! مجھے بھیج ڈال، اے فصل کاٹنے کے خُداوند،
   مجھ پر اپنا پاک روح پھونک ڈال۔
میں یہاں ہوں! میں یہاں ہوں!
   مجھے آج کچھ قیمتی بشروں کو جیتنے کے لیے بھیج دے۔
(’’میں یہاں ہوں Here Am I‘‘ شاعر ڈاکٹر جان آر۔ رائسDr. John R. Rice، 1895۔1980)۔

اپنی زمینی خدمت کے اختتام پر، مسیح نے اُنہیں یہی بات بتائی تھی،

’’مجھے آسمان اور زمین پر پورا اختیار دے دیا گیا ہے۔ اِس لیے تُم جاؤ اور ساری قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُنہیں باپ، بیٹے اور پاک رُوح کے نام سے بپتسمہ دو، اور اُنہیں یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جن کا میں نے تمہیں حکم دیا ہے اور دیکھو! میں دنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہُوں۔ آمین‘‘ (متی 28:18۔20).

مرقس کے اختتام پر مسیح نے کہا،

’’ساری دنیا میں جا کر تمام لوگوں میں اِنجیل کی منادی کرو‘‘ (مرقس 16:15).

لوقا کی اختتام پر مسیح نے کہا،

’’… کہ اُس کے نام سے یروشلیم سے شروع کر کے ساری قوموں میں توبہ اور گناہوں کی معافی کی منادی کی جائے‘‘ (لوقا 24:47).

یوحنا کی انجیل کے اِختتام پر مسیح نے کہا،

’’جیسے باپ نے مجھے بھیجا ہے ویسے ہی میں تمہیں بھیج رہا ہُوں‘‘ (یوحنا20:21).

اور آسمان پر اُٹھائے جانے سے پہلے مسیح کے آخری الفاظ تھے،

’’جب پاک رُوح تُم پر نازل ہوگا تو تُم قّوت پاؤ گے اور یروشلیم اور تمام یہودیہ اور سامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہو گے‘‘ (اعمال1:8).

کسی دور میں ایک شخص تھا جس نے اِس گرجا گھر کو یہ کہنے سے منقسم کیا تھا کہ یہ احکامات صرف رسولوں کے لیے تھے، اور آج کسی بھی مسیح کو اِن کی فرمانبرداری کرنے کی ضرورت نہیں۔ اُس نے لوگوں کو اُس کے پیچھے لانے کے لیے اور اپنے گرجے چھوڑنے کے لیے جنونی کیلوِن اِزم کا لبادہ اوڑھ لیا تھا۔ لیکن اِس سے کوئی بھی فائدہ نہیں ہوا تھا، کیونکہ وہاں پر کبھی بھی برکت ہو ہی نہیں سکتی جہاں پر یسوع کے لفظوں کو تروڑ مروڑ کر استعمال کیا جائے اور اُس کے کلمات کی نافرمانی کی جائے۔

سپرجئین پانچ نکاتی کیلوِنسٹ تھے، لیکن وہ جنونی کیلوِنسٹ نہیں تھے۔ جیسا کہ ہم دیکھیں گے، کہ دونوں کے درمیان میں فرق ہوتا ہے۔ سپرجیئن نے کہا،

اوہ! میں کروں گا کہ کلیسیا ابھی نجات دہندہ کے اِن الفاظ کو اُنہیں مخاطب کرتا ہوا سُنے؛ کیونکہ مسیح کے کلمات جیتے جاگتے الفاظ ہیں، صرف کل ہی تنہا اُن میں قوت نہیں تھی، بلکہ آج بھی ہے۔ اُن کے فرائض میں نجات دہندہ کے [احکامات] و ہدایات دوامی ہیں: وہ محض رسولوں پر ہی فرض نہیں کی جا رہی تھی بلکہ ہم پر بھی واجب ہیں، اور ہر مسیح پر یہ جوّا نازل ہوتا ہے، ’’اِس لیے تُم جاؤ اور ساری قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُنہیں باپ، بیٹے اور پاک رُوح کے نام سے بپتسمہ دو۔‘‘ ہم برّے کے پہلے پیروکاروں کی خدمت سے آج مُبّرا نہیں ہیں؛ ہمارے آگے بڑھنے کے احکامات وہی ہیں جو اُن کے تھے، اور ہمارا کپتان ہم سے وہی فرمانبرداری چاہتا ہے جیسی مستعد اور کامل فرمانبرداری اُس نے اُن سے چاہی تھی (سی۔ ایچ۔ سپرجئین C. H. Spurgeon، دی میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی واعظ گاہ The Metropolitan Tabernacle Pulpit، پِلگِرم اشاعت خانے Pilgrim Publications، دوبارہ اشاعت 1986، جلد ہفتم، صفحہ281)۔

کاش ہم میں سے ہر کوئی ڈاکٹر رائس کے ساتھ کہے،

میں یہاں ہوں! میں یہاں ہوں! مجھے بھیج ڈال، اے فصل کاٹنے کے خُداوند،
   مجھ پر اپنا پاک روح پھونک ڈال۔
میں یہاں ہوں! میں یہاں ہوں!
   مجھے آج کچھ قیمتی بشروں کو جیتنے کے لیے بھیج دے۔

شاندار ضیافت کی تمثیل میں یسوع نے کہا، ’’راستوں اور کھیتوں کی باڑوں کی طرف نکل جا اور لوگوں کو مجبور کر کہ وہ آئیں تاکہ میرا گھر بھر جائے‘‘ (لوقا14:23)۔ شادی کی ضیافت کی تمثیل میں یسوع نے کہا، ’’اِس لیے چوراہوں پر جاؤ اور جتنے تمہیں ملیں اُن سب کو ضیافت میں بُلا لاؤ‘‘ (متی22:9)۔

اُس مقامی کلیسیا نے جس کو یروشلیم میں یسوع نے قائم کیا تھا واقعی میں انجیلی بشارت کے اُس حکم کو اپنایا تھا۔ پینتیکوست کے چند ہفتوں کے بعد ہی سردار کاہن نے شکایت کی تھی کہ ’’تم نے سارے یروشلم میں اپنی تعلیم پھیلا دی ہے‘‘ (اعمال5:28)۔ پھر اعمال5:42 میں ہمیں بتایا گیا ہے، ’’اور ہر روز ہیکل میں اور ہر گھر میں خوشخبری سُناتے رہے کہ یسوع ہی مسیح ہے۔‘‘ اعمال6:1 میں ہم پڑھتے ہیں، ’’شاگردوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔‘‘ بعد میں، اعمال12:24 میں، ہم پڑھتے ہیں کہ ’’خُداوند کا کلام ترقی کرتا اور پھیلتا چلا گیا۔‘‘ ڈاکٹر جان آر۔ رائس نے کہا،

      سامریہ میں جہاں خادم مناد منادی کرنے کے لیے گیا تھا، ہمیں اعمال8:6 میں بتایا گیا ہے، ’’جب لوگوں نے فلپس کی باتیں سُنیں اور اُس کے معجزے دیکھے تو وہ سب کے سب بڑے شوق سے اُس کی طرف متوجہ ہونے لگے…‘‘ دوبارہ آیت 12 میں، ’’لیکن جب فلپس نے خُدا کی بادشاہی اور یسوع مسیح کے نام کی منادی شروع کی تو سارے مردوزن ایمان لے آئے اور بپتسمہ لینے لگے۔‘‘ اِس قسم کی خُدا کی شاندار قدرت کی اور لوگوں کے نجات پانے کی لہر نئے عہد نامے کی کلیسیاؤں میں عام تھی۔
      درحقیقت، اعمال9:31 کہتی ہے، ’’تب تمام … میں کلیسیا کو چین نصیب ہوا اور وہ مضبوط ہو گئی اور پاک روح کی مدد سے تعداد میں بڑھنے لگی اور خُداوند کے خوف میں زندگی گزارنے لگی۔‘‘
      کلیسیائیں ’’تعداد میں بڑھنے لگیں،‘‘ یعنی کہ، مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے والے لوگوں کی تعداد بڑھنے لگی اور کلیسیاؤں میں اضافہ ہوا۔ وہ اِن نئے عہد نامے کی کلیسیاؤں کا ایک سلسلہ وار، مستقل نمونہ تھا جہاں مسیحی ہر کسی کو جس کو وہ کر پاتے مسیح میں جیتنے کے لیے تیار رہتے تھے اور روزانہ گواہی دیتے تھے (جان آر۔ رائس، ڈی۔ڈی۔ John R. Rice, D.D.، کیوں ہماری کلیسیائیں بشروں کو نہیں جیت پاتیںWhy Our Churches Do Not Win Souls، خُداوند کی تلوار اشاعت خانے Sword of the Lord Publishers، 1966، صفحہ 25)۔

ڈاکٹر رائس بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ایذارسانیوں کے باوجود، درمیانے کافر، اندھے لوگ، اُنہوں نے ہجومِ غفیر کو جیتا… نئے عہد نامے کی کلیسیاؤں میں حیرت ناک اضافہ ہماری سمجھ سے بھی بالا تر ہے۔ وارناک Warnock اپنی پروٹسٹنٹ مشن کی تاریخ History of Protestant Missions میں کہتے ہیں کہ پہلے صدی کے اختتام پر، پینتیکوست کے [ستاسٹھ] سال بعد، تقریباً 200,000 مسیحی تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ تیسری صدی کے اختتام تک شدت کے ساتھ ایذارسانیوں اور ہزاروں کی شہادت کے باوجود اُس زمانے میں [8,000,000] مسیحی تھے۔ وہ اب رومی سلطنت کا پندرہواں حصہ تھے! [یعنی کہ ہر 15 لوگوں میں سے ایک مسیح تھا]… ساری رومی سلطنت میں خونی ایذارسانیوں کے باوجود۔ یروشلیم میں اِستیفُنس اور جیمس کی شہادتوں کے باوجود، اور بہت سے دوسرے لوگوں کو ’ستایا اور قتل کیا گیا اور مرد و زن دونوں کو باندھ باندھ کر قید خانے میں ڈلوایا گیا‘ (اعمال22:4)، اور پولوس کی قید اور اُس پر قاتلانہ حملے کے باوجود یہودیوں میں سے ہزاروں لوگوں کو مسیح میں جیتا گیا۔ نیرو بادشاہ کی خونی ایذارسانیوں کے باوجود، جس نے پولوس اور دوسروں کے سروں کو قلم کروا دیا تھا؛ ھیڈریئین کے تحت ایذارسانیوں اور خصوصی طور پر انطونئیس پائیس، مارکُس ایریلیئس اور سیپٹیمس سیویرئیس کے تحت ایذارسانیوں کے باوجود تب بھی خوشخبری کا پرچار بھڑکتی ہوئی آگ کی طرح پھیلتا چلا گیا۔ ورک مین کہتے ہیں،

      دو سو سالوں تک، ایک مسیحی ہونے کا مطلب ہوتا تھا بہت بڑی دستبرداری، ایک تحقیرآمیز اور ستائے ہوئے فرقے میں شامل ہونا، مشہور تعصب کے مدوجزر کے خلاف تیرنا، سلطنت کی سرکاری پابندی کے تحت آ جانا، اور قید میں کسی بھی لمحے ڈالے جانے کی ممکنہ صورتحال سے دوچار ہونا اور شدید ترین خوف سے بھرپور شکلوں میں اپنی موت سے ہمکنار ہونا۔ دو سو سالوں تک وہ مسیح کی پیروی کرتا اُسے قیمت کو شمار کرنا پڑتا اور ادائیگی کے لیے تیار رہنا پرتا… اپنی آزادی اور زندگی کے ساتھ۔ دو سو سالوں تک مسیح کا محض اقرار ہی اپنے آپ میں خود ایک جرم تھا‘‘ (رائس Rice، ibid.، صفحات27۔28)۔

ڈاکٹر رائس نے کہا، ’’سب سے زیادہ ناموافق حالت کے درمیان میں، شدید نفرت، ایذارسانیوں، اور ’بند دروازوں‘ میں، نئے عہد نامے کے مسیحیوں نے بشروں کو جیتنے کے اپنے حیرت انگیز کام کو جاری رکھا۔ کیسے نئے عہد نامے کی تعلیم اور اُس کی عادت کا موازنہ ہمارے گرجا گھروں یا کلیسیاؤں کے بشروں کے جیتنے کے ساتھ کیا جاتا ہے؟‘‘ (رائسRice، ibid.، صفحہ29)۔ نئے عہد نامے کی کلیسیاؤں اور نئے عہد نامے کے مسیحیوں کے ساتھ موزانے میں، ہمارے دورِ حاضرہ کی کلیسیائیں اور مسیحی لوگ عمومی طور پر شرمناک اور تباہ کُن انداز میں ناکام ہو جاتے ہیں‘‘ (رائسRice، ibid.، صفحہ29)۔

دوبارہ، ڈاکٹر رائس نے کہا، ’’صرف ایک انتہائی شاندار اور جامع کوشش ہی نئے عہد نامے کے بشروں کے جیتنے سے مطابقت کر سکتی ہے… ہماری بیچاری جسمانی و ذہنی نیّتوں میں جامع فرمانبرداری سے گھسکنا، دہکتے ہوئے ولولے اور جوش سے لاپرواہ ہو جانا، خُدا کے کام کو بے دلی سے کرنے کا رجحان ہوتا ہے۔ جیسا کہ ایک عظیم پرانا گیت کہتا ہے،

اوندھے مُنہ گِرنے پر حیرت کو، خُداوند، میں نے محسوس کیا،
جس خُدا سے محبت کی اُس کو چھوڑنے پر تعجب۔

پس کلیسیاؤں میں بار بار جوش کے حیاتِ نو کی، بشروں کو جیتنے کے جنون کے ایک حیاتِ نو کی، ہم پر خُدا کی قدرت کے حیاتِ نو کی ضرورت ہے۔ نئے عہد نامے کے نمونے پر بشروں کو جیتنے کے لیے کلیسیا کے پاس کوئی اور راہ نہیں ہے ماسوائے ایک شاندار اور جامع کوشش کرنے کے‘‘ (رائسRice، ibid.، صفحہ149۔150)۔

میں جانتا ہوں یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو کہیں گے کہ ڈاکٹر رائس کا ہر شخص کے لیے انجیلی بشارت کے کام کو کرنے پر اصرار ’’کام‘‘ نہیں کرے گا۔ اِس لیے کچھ نے ہائیپر[جنونی] کیلوِن اِزم hyper-Calvinism کا رُخ کیا – ناکہ پانچ نکاتی کیلوِن اِزم – بلکہ ہائیپر[جنونی] کیلوِن اِزم، وہ تصور کہ آپ کو گمراہ انسان کے پیچھے جانے کی ضرورت نہیں پڑتی؛ خُدا اُنہیں مسیحیوں کے انجیلی بشارت کے کام کے کرنے کے بغیر ہی اپنے خود مختیار یا قادرمطلق فضل کے وسیلے سے اندر لے آئے گا۔ جارج وائٹ فیلڈ George Whitefield، ولیم کیری William Carey، سپرجیئن Spurgeon اور بشروں کو جیتنے والے دوسرے عظیم لوگ پانچ نکاتی کیلوِنسٹ تھے، مگر وہ ہائیپر[جنونی] کیلوِنسٹ نہیں تھے۔ وہ یقین کرتے تھے کہ ہم سب کو ’’ایک مبشر کے کام کو سرانجام دینا چاہیے‘‘ (2تیموتاؤس4:5)۔ میں خواہش کرتا ہوں کہ ہر اصلاح پرست پادری محترم آئیعن ایچ۔ میورے Rev. Iain H. Murray کی لکھی ہوئی سپرجیئن بمقابلہ ہائیپر کیلوِن اِزم Spurgeon v. Hyper-Calvinism ، (بینر آف تُرتھ ٹرسٹ Banner of Truth Trust، 1995) تحریر کو پڑھے۔ اِس کا آرڈر دینے کے لیے یہاں پر کِلک کریں۔ یہ ایک شاندار کتاب ہے جو آپ کو متاثر کرے گی، آپ کے دِل کو گرمجوشی دلائے گی، اور گمراہ کو خوشخبری سُنانے کے لیے آپ کے جذبے و جوش کو تروتازہ کرے گی!

ڈاکٹر رائس مسیحی لوگوں کو اپنے دِلوں اور جانوں کو انجیلی بشارت کے کام میں ڈالنے پر زور دینے کے لیے غلط نہیں تھے۔ کمزوری اِس لیے آئی تھی کیونکہ زیادہ تر کلیسیائیں جنہوں نے اُن کی تقلید کی اُنہوں نے اُن گمراہ لوگوں کے ساتھ جو گرجا گھر میں لائے گئے تھے نمٹنے میں ضرورت کے مطابق وقت صرف نہیں کیا تھا۔ وہ عام طور پر لوگوں کو ایک ’’سرسری سی دعا‘‘ پڑھنے کے لیے کہتے اِس بات کو یقینی بنانے میں وقت ضائع کیے بغیر کہ وہ توبہ کرتے ہیں، اور یا کہ اُنہوں نے مسیح یسوع میں ایمان لانے کی حقیقی تبدیلی کا تجربہ بپتسمہ لینے سے پہلے کیا تھا۔ ڈاکٹر ہائیمرز اور میرے والد صاحب ’’فیصلہ سازیتdecisionism‘‘ کے مسائل پر ایک کتاب تحریر کر چکے ہیں جس کو آپ کوئی قیمت ادا کیے بغیر اِس ویب سائٹ پر یہاں پر آج کا اِرتداد: کیسے فیصلہ سازیت ہماری کلیسیاؤں کو تباہ کر رہی ہے Today’s Apostasy: How Decisionism is Destroying Our Churches پڑھنے کے لیے کلک کر سکتے ہیں۔

غسل دینے والے پانی کے ساتھ بچے کو باہر مت پھینکیں! میں مکمل طور پر اُن اِقتباسات کے ساتھ متفق ہوں جو میں نے ڈاکٹر جان آر۔ رائس کی جانب سے پیش کیے۔ ہمیں ابتدائی کلیسیاؤں کے انجیلی پرچار کے جوش و جذبے کو دوبارہ سے جانچنے کی ضرورت ہے، اور اُن کی مثال کی تقلید کرنے کی ضرورت ہے! آئیے خود کو گمراہ لوگوں میں خوشخبری کا پرچار کرنے کے لیے استعمال کریں! اور آئیے ہمیں ہر ممکنہ حد تک انتہائی یقین بھی کر لینا چاہیے کہ ہمارے اُن کو بپتسمہ دینے سے پہلے وہ صحیح معنوں میں مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو چکے ہیں! اِس تمام سے بڑھ کر، آئیے مسیح کے حکم کو یاد کریں،

’’راستوں اور کھیتوں کی باڑوں کی طرف نکل جا اور لوگوں کو مجبور کر کہ وہ آئیں تاکہ میرا گھر بھر جائے‘‘ (لوقا 14:23).

آئیے کھڑے ہوں اور ڈاکٹر اُوسوالڈ جے۔ سمتھ کا عظیم گیت – ’’خوشخبری پھیلاؤ! خوشخبری پھیلاؤ!‘‘ گائیں۔

ہمیں اِس گھڑی کے لیے ایک نعرہ بخش، ایک ہیجان خیز کلمہ، قدرت کا ایک کلمہ،
ایک جنگی پکار، ایک بھڑکتی سانس جو فتح کرنے یا مرنے کے لیے بُلاتی ہے۔
کلیسیا کو فراغت سے جگانے کے لیے ایک کلمہ، آقا کی عظیم درخواست پر توجہ دینے کے لیے۔
پُکار لگائی جا چکی ہے، اے میزبان، اُٹھ، ہمارا نعرہ ہے، خوشخبری پھیلاؤ!

مسرور مبشر اب اعلان کرتا ہے، ساری زمین پر، یسوع کے نام میں؛
یہ کلمہ آسمانوں میں گونج رہا ہے: خوشخبری پھیلاؤ! خوشخبری پھیلاؤ!
مرتے ہوئے لوگوں کے لیے، ایک برگشتہ نسل کے لیے، خوشخبری کے فضل کے تحفے کو مشہور کر دو؛
وہ دُنیا جو اب تاریکی میں پڑی ہوئی ہے، خوشخبری پھیلاؤ! خوشخبری پھیلاؤ!
   (’’خوشخبری پھیلاؤ! خوشخبری پھیلاؤ! Evangelize! Evangelize!‘‘ شاعر ڈاکٹر اُوسولڈ جے۔ سمتھ Dr. Oswald J. Smith، 1889۔1986؛
      بطرزِ ’’اور یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ And Can It Be? ‘‘ شاعر چارلس ویزلی Charles Wesley،
         1707۔1788؛ ڈاکٹر ہائیمرز نے ترمیم کی)۔

ڈاکٹر ہائیمرز، مہربانی سے آئیں اور اِس عبادت کا اختتام کریں۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بیجنیمن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
نے گایا: ’’میں یہاں ہوں Here Am I‘‘
(شاعر ڈاکٹر جان آر۔ رائسDr. John R. Rice، 1895۔1980)۔