Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


آدم کا پیش بند آپ کو چُھپا نہیں سکتا!

(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 91)
!ADAM’S APRON CANNOT HIDE YOU
(SERMON #91 ON THE BOOK OF GENESIS)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی شام، 11 دسمبر، 2016
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord's Day Evening, December 11, 2016

’’جب عورت نے دیکھا کہ اُس درخت کا پھل کھانے کے لیے اچھا اور دیکھنے میں خوشنما اور حکمت پانے کے لیے خوب معلوم ہوتا ہے تو اُس نے اُس میں سے لے کر کھایا اور اپنے خاوند کو بھی دیا جو اُس کے ساتھ تھا اور اُس نے بھی کھایا۔ تب اُن دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور اُنہیں معلوم ہُوا کہ وہ ننگے ہیں۔ اور اُنہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لیے پیش بند بنا لیے۔ تب آدم اور اُس کی بیوی نے خداوند خدا کی آواز سنی جب کہ وہ دِن ڈھلے باغ میں گھوم رہا تھا اور وہ خداوند خدا کے حضور سے باغ کے درختوں میں چھپ گئے‘‘ (پیدائش 3:‏6۔8).

جب میں نوجوان تھا تو مجھے اِرتقاء کے نظریے کی تعلیم دی گئی تھی۔ زمین پر ہر زندہ چیز زندگی کی پہلی قسم سے اِرتقاء ہوئی تھی۔ میں نے اِس پر یقین کیا۔ اب میں اُس میں یقین کرتا ہوں جو بائبل کہتی ہے،

’’اور خداوند خدا نے زمین کی مِٹی سے اِنسان کو بنایا اور اُس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا اور آدم ذی رُوح ہو گیا‘‘ (پیدائش 2:‏7).

کس بات نے میرا ذہن اِس میں یقین کرنے سے کہ انسان زندگی کے کمتر قسموں سے اِرتقاء ہوا بدلا؟ میرا ذہن مضمون کو پڑھنے سے نہیں بدلا تھا۔ بے شمار کتابیں ہیں جو تعلیم دیتی ہیں کہ اِرتقاء ایک جھوٹ ہے۔ لیکن میں نے اُنہیں نہیں پڑھا تھا۔ وہ بعد میں بیشک کارآمد ثابت ہوئیں۔ لیکن اِرتقاء کے خلاف کتابوں نے میری سوچ کو بدلنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔ بالکل بھی نہیں۔ میں نے اِرتقاء کو اُسی لمحے مسترد کر دیا تھا جب میں مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوا تھا۔ یہ خُدا کا ایک عمل تھا۔ یہ خُداوند خود تھا جس نے میرے ذہن کو بدلا تھا۔ یہ خُداوند ہی تھا جس نے مجھے اُس جھوٹے نظریے سے بدلا تھا۔ نئے عہد نامے میں یونانی لفظ ’’تبدیل کرناconvert‘‘ کا مطلب ہوتا ہے ’’واپس مُڑنا یا برعکس، پلٹ‘‘ (Strong)۔ ایک حقیقی تبدیلی میں ہمارے ذہن گھوم جاتے ہیں یا پلٹ جاتے ہیں۔ خُداوند نے میرے ذہن کو بھی پلٹ دیا تھا اور میرے خیالوں کو ڈاروِن کے اِرتقاء سے پلٹا کر تخلیق کی سچائی کی جانب کر دیا تھا۔ دیکھا آپ نے، اِرتقاء میرے لیے نہایت اہم تھا۔ مگر ایک چھوٹے سے لمحے میں مَیں مسیح میں بھروسہ کرنے کی وجہ سے بدل گیا تھا۔ اور مسیح میں ایمان لانے کے اُس چھوٹے سے لمحے میں خُدا نے اچانک میرے ذہن کو گھوما دیا اور میری سوچوں کو پلٹ ڈالا – اور اُس لمحے میں مَیں اپنے ذہن میں جان گیا تھا کہ ارتقاء ایک جھوٹ تھا، ایک شیطانی جھوٹ۔ اور اُس لمحے میں جان گیا تھا کہ خُداوند نے پہلے انسان کو مٹی سے تخلیق کیا تھا۔ ڈاکٹر ایم۔ ھنری مورس نے کہا، ’’انسان کا جسم زمین کے عناصر سے تشکیل دیا گیا تھا، کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن، اور دوسرے اِجزاء‘‘ (دفاع کرنے والوں کا مطالعۂ بائبل The Defender’s Study Bible؛ پیدائش2:‏7 پر غور طلب بات)۔ زمین میں موجود وہی عناصر انسان کے بدن میں پائے جانے والے وہی عناصر ہیں۔ یوں جب میں مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوا تھا، تو میں یقینی طور پر جان چکا تھا کہ پہلا انسان مٹی سے ہی تخیلق کیا گیا تھا – اور میں نے سائنس کی تصوراتی کہانی کی حیثیت سے وہ جھوٹ مسترد کر دیا تھا کہ انسان زندگی کی کمتر قسموں سے ارتقاء پزیر ہوا تھا۔

پہلا انسان آدم کامل طور پر معصوم تخلیق کیا گیا تھا۔ اُس کو ایک خوبصورت باغ میں رکھا گیا تھا۔ باغ میں ہر درخت ذائقہ دار پھل پیدا کرتا تھا۔ آدم کو صرف اُوپر تک پہنچنا ہوتا تھا اور توڑنا ہوتا تھا۔ چونکہ تمام جانور اور پرندے سبزی خور تھے، آدم کے کوئی دشمن نہیں تھے۔ پھر خُدا نے اُس کے لیے ایک خوبصورت بیوی کو پیدا کیا۔ وہ اُس کامل ماحول میں زندگی بسر کرنے لگے۔ خُدا ہر روز بعد از دوپہر نیچے آتا اور اُن کے ساتھ بات چیت کرتا۔ وہاں خُدا کے ساتھ اُن کے ملاپ میں مداخلت کرنے کے لیے کوئی گناہ نہیں تھا۔

تاہم، شیطان وہاں پر تھا۔ وہ خُدا کا ایک عظیم فرشتہ تھا جس نے بغاوت کی تھی۔ اور خُدا نے اُس کو آسمان میں سے نکل کر زمین پر لا پھینکا تھا۔ وہ آدم اور حوّا پر حملہ نہیں کر سکتا تھا۔ خُدا نے اُنہیں شیطان کے براہ راست حملے سے بچایا ہوا تھا۔ شیطان اُنہیں صرف آزمائش میں مبتلا کر سکتا تھا۔ اور وہاں پر اُنہیں آزمائش میں مبتلا کرنے کے لیے صرف ایک ہی چیز تھی۔ اور وہ نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل کھانے کی آزمائش تھی۔ خُدا اُنہیں بتا چکا تھا کہ وہ مر جائیں گے اگر اُنہوں نے وہ پھل کھایا۔

شیطان ایک سانپ کے جسم پر قبضہ جما چکا تھا۔ اور شیطان اِس ہی مخلوق کے منہ سے بولا تھا۔ بعد میں ایک گدھا جھوٹے نبی بعلام کے ساتھ بولا تھا۔

آدم اور حوّا اُس شاندار باغ میں ہمیشہ کے لیے زندگی بسر کرتے۔ وہ ہمیشہ کی زندگی جی پاتے، بغیر بوڑھے ہوئے۔ وہ بغیر کسی بیماری، بغیر کسی دِل کے درد کے، بغیر کسی رنج یا درد کے ہمیشہ تک زندگی گزارتے۔ اُنہیں کبھی بھی مرنا نہ پڑتا۔

مگر وہاں صرف ایک نہایت ہی سادہ سا قانون تھا جس کی اُنہیں فرمانبرداری کرنی تھی۔ ایک انتہائی آسان قانون اور واحد قانون جو خُدا نے اُنہیں ماننے کے لیے کہا تھا۔

’’تُو نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل ہر گز نہ کھانا کیونکہ جب تُو اُسے کھائے گا تو یقیناً مر جائے گا‘‘ (پیدائش 2:‏17).

وہ واحد قانون تھا جو خُدا نے اُنہیں دیا تھا۔

اُس باغ میں کوئی اور بھی تھا۔ شیطان وہاں پر تھا۔ وہاں پر صرف ایک ہی ذریعہ تھا جس سے شیطان اُنہیں آزما سکتا تھا، کیونکہ وہاں پر صرف ایک ہی قانون تھا جس کو وہ توڑ سکتے تھے۔ لہٰذا شیطان نے اُنہیں منع کیے ہوئے درخت کا پھل کھانے کے لیے آزمایا۔ اُس نے حوّا کو یہ بتا کر آزمایا کہ خُدا غلط تھا۔ اُس نے اُس کی سُنی اور منع کیا ہوا پھل کھا لیا۔

’’جب عورت نے دیکھا کہ اُس درخت کا پھل کھانے کے لیے اچھا اور دیکھنے میں خوشنما اور حکمت پانے کے لیے خوب معلوم ہوتا ہے تو اُس نے اُس میں سے لے کر کھایا اور اپنے خاوند کو بھی دیا جو اُس کے ساتھ تھا اور اُس نے بھی کھایا۔ تب اُن دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور اُنہیں معلوم ہُوا کہ وہ ننگے ہیں۔ اور اُنہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لیے پیش بند بنا لیے‘‘ (پیدائش 3:‏6،7).

جیسے ہی اُنہوں نے منع کیا ہوا پھل کھایا وہ گنہگار بن گئے۔ وہ مذید اور معصوم نہیں رہ گئے تھے۔ وہ اب فطرتاً گنہگار ہو چکے تھے۔ اُن کی انتہائی فطرت بدل چکی تھی۔ معصومیت سے بدل کر شیطانی ہو چکی تھی۔ اب اُن کی ایک گنہگار فطرت تھی۔ اب وہ جانتے تھے کہ وہ گنہگار تھے۔ اور اب اُنہوں نے اپنے گناہ کو انجیر کے بنے ہوئے پیش بندوں کے ساتھ ڈھانپنے کی کوشش کی تھی۔ اُس سے بھی بڑھ کر، اُنہوں نے باغ کے درختوں میں خُدا سے چھپنے کی کوشش کی تھی۔

شیطان اپنے شیطانی منصوبے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ وہ گنہگار بن چکے تھے۔ جس لمحے اُنہوں نے منع کیے ہوئے پھل کو کھایا وہ ’’قصوروں اور گناہوں میں مُردہ‘‘ ہو گئے۔ اب وہ ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ تھے۔ (افسیوں2:‏1، 5)۔ وہ ناصرف روحانی طور پر مُردہ ہو چکے تھے، بلکہ اُنہوں نے خُدا کو اپنے دشمن کی حیثیت سے دیکھا تھا۔ ’’کیونکہ جسمانی نیت خُدا کی مخالفت کرتی ہے‘‘ (رومیوں8:‏7)۔ وہ اب اپنے تباہ حال، جسمانی نیت والے ذہنوں میں خُداوند کے دشمن تھے۔

اِس سے بھی بدتر، آدم کی مسخ فطرت اور روحانی طور پر مُردہ روح اُس کی تمام آل اولاد کو وراثت میں ملے گی – زمین پر ہر کسی کو۔ کیونکہ ’’آدم کی نافرمانی سے بہت سے لوگ گنہگار ٹھہرے‘‘ (رومیوں5:‏19؛ KJV، ESV)۔ اِسی لیے … ایک آدمی [آدم] کے قصور کی وجہ سے سب آدمیوں کے لیے موت کی سزا کا حکم ہوا‘‘ (رومیوں5:‏18)۔ آدم کا موروثی گناہ آپ کے دِل میں ہے۔ آپ کا دِل بدکار ہو چکا ہے اور آپ کا دِل گناہ سے بھرا ہوا ہے۔ یہ اُن تمام گناہوں کی جڑ ہے جن کا اِرتکاب آپ کرتے ہیں۔ گناہ سے بھرپور فطرت آپ کو آدم سے منتقل ہوئی ہے۔ ’’ہم گنہگار نہیں ہیں کیونکہ ہم گناہ کرتے ہیں، کیونکہ ہم گناہ کرتے ہیں اِس لیے ہم گنہگار ہیں، ایک ایسی فطرت کے ساتھ پیدا ہوئے جو گناہ کی اسیری میں ہے‘‘ (مذہبی سُدھار کا مطالعۂ بائبل The Reformation Study Bible؛ صفحہ 781 پر ایک غور طلب بات)۔ ’’انسان گناہ میں مُردہ [ہے] [اور] خود اپنی قوت کے ذریعے سے خود کو بدلنے کے قابل نہیں ہے‘‘ (Westminster Confession، IX، 3)۔

پس آپ آدم کے بچے ہیں۔ اُس کی گنہگار فطرت وراثت میں تمام نسل انسانی کو (منتقل) ہوئی ہے۔ آپ گناہ کے ایک غلام ہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہے جوکے کہہ سکنے یا کر سکنے سے آپ کی نجات پانے میں مدد کر سکے۔ فطرت میں آپ ایک گنہگار ہیں۔ بائبل کے پڑھنے یا مطالعہ کرنا آپ کو نجات نہیں دے پائے گا۔ ہر اِتوار کو گرجا گھر میں ہونا آپ کو نجات نہیں دے پائے گا۔ میں ایک شخص کو جانتا ہوں جس نے کبھی بھی اپنی ساری زندگی میں گرجا گھر سے غیرحاضری نہیں کی۔ اُس نے گرجا گھر کی ایک بھی عبادت کو کبھی بھی خطا نہیں کیا۔ لیکن وہ شخص ابھی تک گمراہ ہے۔ وہ ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ ہے (افسیوں2:‏5)۔

آپ شاید سینکڑوں نجات کے واعظوں کو سُنیں، لیکن اُنہوں نے آپ کی مدد نہیں کی ہوگی۔ کیوں؟ کیونکہ آپ گناہ کے غلام ہیں، ’’قصوروں اور گناہوں میں مُردہ‘‘ (افسیوں2:‏1)۔

آپ کہتے ہیں، ’’وہ میں نہیں ہوں!‘‘ لیکن آپ غلط ہیں۔ وہ آپ ہی ہیں۔ بالکل آدم کی مانند، آپ اپنے گناہوں کو ڈھانپنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسے اُس نے انجیر کے پتوں کے پیش بند کے ساتھ کیا تھا۔ آپ اپنے گناہوں کو نیک کام کرنے کے ذریعے سے ڈھانپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں نے وہ پانچ سالوں تک کیا تھا۔

پندرہ برس کی عمر میں میں نے کفن میں اپنی مُردہ دادی کو دیکھا تھا۔ اُس نے مجھے اندر سے جھنجھوڑ ڈالا تھا۔ جب وہ اُنہیں دفنا رہے تھے تو میں گلینڈیلGlendale میں فورسٹ لان سیمٹری میں درختوں میں بھاگ گیا تھا۔ میں بھاگتا رہا اور بھاگتا رہا – جب تک کہ میں پسینے میں شرابور نہ ہوگیا اور زمین پر گِر کر ہانپنے نہ لگا۔ تب خُدا مجھ پر نازل ہوا جیسے وہ یعقوب پر ہوا تھا۔ اور یعقوب نے کہا، ’’یقیناً خُدا اِس جگہ پر ہے اور مجھے اِس کا علم نہیں‘‘ (پیدائش28:‏16)۔ مگر یعقوب نے اُس وقت نجات نہیں پائی تھی، اور نا ہی میں نے پائی تھی۔ مگر اُسی لمحے سے میں قائل ہو چکا تھا کہ خُدا حقیقی تھا اور میں ایک گنہگار تھا۔ اگلے پانچ سالوں تک میں اپنے گناہ سے عذاب میں مبتلا رہا۔ میں نے اُس عذاب کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ میں ہر روز دعا مانگتا۔ میں ہر روز بائبل کیا مطالعہ کرتا۔ میں ہر اِتوار کی صبح اور ہر اِتوار کی شام کو گرجا گھر جاتا۔ میں ہر بُدھ کی شام کو دعائیہ اجلاس میں جایا کرتا۔ میں ہر بُلاوے پر سامنے آ جاتا تھا۔ میں نے ہر ایک اِتوار کی رات خُدا کے لیے اپنی زندگی کو وقف کیا اور پھر دوبارہ وقف کیا۔ میں نے بارہا بار بار ’’گنہگار کی دعا‘‘ پڑھی۔ سترہ برس کی عمر میں مَیں نے اپنی زندگی انجیل کی منادی کے لیے وقف کر دی۔ بعد میں مَیں نے اپنی زندگی ایک مشنری بننے کے لیے وقف کر دی۔ لیکن اِس میں سے کسی بات نے بھی مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا! میں جتنا نیک بننے کی کوشش کرتا، اُتنا ہی میں گناہ سے بھرپور محسوس کرتا۔ میں بدحال اور ہیبت زدہ تھا کہ میں ایک گنہگار تھا۔ میرے تمام کے تمام نیک کام اُس پیش بند کی مانند تھے جو آدم نے خُدا سے اپنی برہنگی چُھپانے کے لیے پہنا تھا۔ لیکن میں اب بھی خُدا کی نظروں میں ایک برہنہ گنہگار ہی تھا – اور میں جانتا تھا۔ میں نے کہا میں نجات پا چکا تھا۔ لیکن ہر مرتبہ جب میں نے کہا میں نجات پا چکا تھا میں جانتا تھا یہ ایک جھوٹ تھا۔ خُدا مجھ سے بالکل بھی خوش نہیں تھا – اور میں یہ بات جانتا تھا۔ میں پانچ سالوں تک گناہ کی سزایابی میں رہا تھا۔ وہ پانچ سال عذاب، خوف اور قانون کی خلاف ورزی کے تھے۔

آئیے مجھے اِس کا اِطلاق آپ پر کر لینے دیجیے۔ آپ یہاں گرجا گھر میں آتے رہے ہیں، یہ سوچتے ہوئے کہ آپ نجات پا چکے ہیں۔ لیکن آپ کے دِل کی کہیں انتہائی گہرائی میں آپ جانتے ہیں کہ یہ ایک جھوٹ تھا۔ آپ جانتے تھے وہ حیات نو جو خُدا نے بھیجا تھا اُس کے دوران یہ ایک جھوٹ تھا۔ دوسرے لوگ اپنے گناہوں کا اعتراف کر رہے تھے اور مسیح میں سکون کو تلاش کرتے پھر رہے تھے۔ لیکن آپ خود کو یہی کہتے رہے آپ کس قدر اچھے ہیں۔ گنہگار، آپ کا انجیر کے پتوں کا پیش بند آپ کو خُدا سے نہیں چُھپا سکتا! آپ کبھی بھی خُدا کے ساتھ صُلح نہیں پا سکتے جب تک کہ آپ اقرار نہیں کر لیتے کہ آپ ایک گمراہ بے دین ہیں۔ جب تک آپ اقرار نہیں کر لیتے کہ آپ ایک گمراہ شخص ہیں، آپ کبھی بھی نجات نہیں پا سکتے!

آج کی صبح جان کیگن نے ایک واعظ کی منادی کی تھی – ’’خُدا صحیح ہے اور آپ غلط ہیں God is Right and You are Wrong.‘‘ جان کیگن نے کہا، ’’میں خود کتنی ہی راتیں اِس بات پر خُدا کے ساتھ آگے اور پیچھے جدوجہد کر کر کے جاگ چکا ہوں۔ میں نے اپنے بس میں ہر ایک بات کر کے دیکھی کہ خُدا کو اور اپنے گناہ کو اپنے ذہن میں سے باہر نکال دوں، کیونکہ میں جانتا تھا خُدا صحیح ہے۔ میں جانتا تھا خُدا صحیح تھا، اور میں غلط تھا، لیکن میں اِس کا اِقرار کرنا نہیں چاہتا تھا… وہ تجربہ انتہائی دردبھرا تھا۔‘‘

جان کیگن آدم کا ایک بچہ تھا، جو خُدا سے چُھپنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اُس نے کہا، ’’وہ حقیقت کہ میں غلط تھا اُس نے میری روح کے جھروکوں کو چٹخانا جاری رکھا۔ میں جس قدر زیادہ اِس کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتا، اُتنی ہی زیادہ یہ ٹال مٹول واضح ہوتی جاتی۔‘‘ کیا آپ آج کی صبح ویسا محسوس کر رہے ہیں؟ اگر آپ وہ محسوس کر رہے ہیں جو میں نے اور جان کیگن نے محسوس کیا تھا، تو اِس کا مطلب ہے کہ خُدا آپ کو بُلا رہا ہے۔ لیکن یہ اِس قدر پُراثر بُلاوہ نہیں ہوگا جب تک کہ آپ اِس قدر بے چینی محسوس نہ کریں کہ آپ کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہو جائیں – اُس ذہنی اذیت اور درد کو روکنے کے لیے جو خدا آپ پر نازل کر رہا ہے دُنیا میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جائیں۔ وہ ذہنی اذیت اور درد جو خُداوند آپ پر بھیج رہا ہے آپ کو توڑنے کے لیے اور یسوع پر بھروسہ کرنے کی رضامندی لانے کے لیے دیا جا رہا ہے۔

مشہور نارویجیئن مبشرِانجیل او۔ ھالیسبی O. Hallesby نے کہا:

’’گنہگار نجات پاتا ہے جب گناہ اُس کے لیے اِس قدر ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے کہ وہ خُدا کے ساتھ مکمل صُلح کی خواہش کرتا ہے اور اپنے گناہوں سے نجات پانے کے لیے خواہش کرتا ہے، ناکہ صرف اُس کی پریشانی اور بے چینی سے‘‘ (اُو۔ ھالیسبی O. Hallesby، حیات نو پر خطوط Letters on Revival ڈاکٹر ای۔ پورٹر Dr. E. Porter کی جانب سے، دوبارہ اشاعت لینڈی پبلیکیشنزLinde Publications نے کی، 1992، صفحہ 192)۔

مسیح صلیب پر آپ کو بہتر محسوس کرانے کے لیے قربان نہیں ہوا تھا۔ وہ آپ کو خوش کرنے کے لیے قربان نہیں ہوا تھا۔ وہ اِس لیے نہیں مرا تھا کہ آپ کو آپ کی نجات کی یقین دہانی کرائے۔ وہ تو اکثر آپ کے اصل میں نجات پا چکنے کے کئی مہینوں یا سالوں کے بعد ہوتی ہے۔ لیکن یہ بہت کم مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کے لمحے میں ہوتی ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو یقین دہانی کا کوئی بھی احساس نہیں ہوتا جب وہ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوتے ہیں۔ وہ مسیح پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اُن کے گناہ دُھل چکے ہوتے ہیں۔ مگر زیادہ تر لوگوں کے لیے کئ کئی دِنوں، مہینوں یا یہاں تک کہ سالوں تک نجات کی کوئی بھی یقین دہانی نہیں ہوتی۔ خود مجھے، مسیح کے مجھے نجات دینے کے چھ ماہ بعد تک احساس نہیں ہوا تھا کہ میں نجات پا چکا ہوں۔ وہ جو نجات کی یقین دہانی کی تلاش کرتے ہیں کبھی بھی نجات نہیں پاتے۔ میں نے کبھی بھی ایک بھی ایسے شخص کو نجات پاتے ہوئے نہیں دیکھا جو ایک احساس یا یقین دہانی کی تلاش میں تھا۔

مسیح صرف ایک اور ایک ہی وجہ کے لیے قربان ہوا تھا – آپ کو گناہ سے نجات دلانے کے لیے اور آپ کے آدم والے بچے کے اُس دِل کو بدل کر خُدا کے بچے کا دِل بنانے کے لیے – آپ کو صرف خود سے محبت کرنے والے سے بدل کر مسیح سے محبت کرنے والا بنانے کے لیے۔

آپ میں سے بے شمار لوگ سامنے آتے ہیں کیونکہ آپ بہتر محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اپنی بے تابی اور خوف کو ہٹانے کی خواہش رکھتے ہیں، مگر آپ کبھی بھی نجات نہیں پاتے ہیں۔ میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو واقعی میں سینکڑوں مرتبہ سامنے آئے اور اُنہوں نے کبھی بھی نجات نہیں پائی کیونکہ وہ صرف بے تابی، پریشانی اور خوف سے آزادی چاہتے تھے۔ وہ صرف ایک احساس کو چاہتے تھے۔ جان کیگن اور میری مانند، آپ کو گناہ کو ناقابلِ برداشت پانا چاہیے – تاکہ آپ خود کو مذید اور اُسی طرح ڈٹا ہوا نہ رکھ پائیں جیسے کہ آپ ہیں۔ صرف تب ہی آپ یسوع کی جانب مُڑیں گے اور اپنے گناہ سے نجات پائیں گے۔ ہم نفسیات دان نہیں ہیں۔ ہم مبلغین ہیں۔ ہم آپ کی نفسیاتی پریشانیوں کو حل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ آپ کو آپ کے گنہگار دِل کے ساتھ انتہائی فکرمندی کرنے کے لیے تیار کر پائیں، تاکہ آپ جیسی زندگی ابھی بسر کر رہے ہیں مذید اور بسر کرنے میں نہ ڈٹے رہیں۔ جب تک وہ رونما ہو نہیں جاتا آپ کبھی بھی نجات نہں پائیں گے۔

یہاں اُس کی ایک مثال ہے۔ کئی سال پہلے ہمارے گرجا گھر میں ایک شخص آیا۔ وہ ایک اچھا شخص دکھائی دیتا تھا۔ وہ ہر عبادت میں آیا۔ لیکن اُس نے یہ کہتے ہوئے میرے ساتھ بار بار بحث کی، ’’میں نجات پا چکا ہوں!‘‘ بار بار میں نے یہی کہا، ’’آپ نے نجات نہیں پائی‘‘ کیونکہ میں اُس شخص کے پس منظرکو تفصیل سے جانتا تھا۔ بار بار اُس نے مجھے لتاڑا اور کہا، ’’میں نجات پا چکا ہوں۔‘‘ ایک رات ایک دعائیہ اِجلاس میں وہ چلا اُٹھا، ’’ڈاکٹر ہائیمرز، میں نجات پا چکا ہوں۔‘‘ میرا دِل کٹ کر رہ گیا کیونکہ میں اُس کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔ مگر خُداوند نے مجھ سے کہا، ’’تم کسی بھی طرح اُس کو نہیں پا سکتے – اُسے جہنم جانے دو!‘‘ اور میں نے وہی کیا! میں نے اُس کی اِس قدر سختی سے سرزنش کی کہ میں نے سوچا میں اِس کو کبھی بھی دوبارہ نہیں دیکھ پاؤں گا۔ مگر چند ایک دِن بعد ہی میں نے جان کیگن کی ساری گواہی ایک واعظ میں پڑھی۔ مگر میں نے کسی وجہ کی بِنا پر کوئی بُلاوا نہیں دیا۔ میں بھول گیا میں نے کیوں نہیں دیا۔ اُس دوپہر کو اِس شخص نے مجھے ڈھونڈا۔ اُس نے کہا، ’’میں توبہ کر پاتا اگر تو نے سامنے بُلایا ہوتا۔‘‘ میں نے کہا، میں آج شام کو سامنے بُلاؤں گا۔‘‘ وہ ساری دوپہر بدحال رہا۔ اُس کا گناہ ’’ اُس کے لیے ناقابلِ برداشت بن چکا تھا اور اُس نے خداوند کے ساتھ ایک مکمل صُلح کی خواہش کی تھی اور اپنے گناہوں سے نجات پانے کے لیے خواہش کی تھی، ناکہ صرف اپنی بے تابی ، پریشانی اور بے چینی سے،‘‘ جیسا کہ ڈاکٹر ھالیسبی نے کہا۔

اُس شام جب میں نے سامنے آنے کے لیے مدعو کیا تو وہ روتا ہوا سامنے آیا۔ چند ایک منٹوں ہی میں وہ یسوع کے وسیلے سے گناہ کی ایک زندگی سے نجات پا چکا تھا۔ وہ کئی سالوں تک انجیر کے پتوں کے پیش بند کے پیچھے چھپتا رہا تھا۔ مگر اُس رات وہ یسوع کے پاس آیا اور نجات دہندہ کے خون سے دُھل کر پاک صاف ہو گیا تھا!

کیا آپ نے کبھی اُس آدمی کی اور جان کیگن اور میری مانند محسوس کیا؟ کیا آپ کے لیے گناہ ناقابلِ برادشت ہوا ہے؟ کیا آپ کے دِل کے گناہ آپ کے لیے ناقابلِ برداشت ہوئے ہیں؟ کیا آپ اپنے دِل کے گناہوں کے وجہ سے عذاب میں متبلا ہوئے ہیں؟ کیا آپ نے اُس میں سے تھوڑ بہت محسوس کیا جو جان کیگن اور میں نے اور مسٹر نیکل Mr. Nickell نے محسوس کیا تھا؟ جب تک آپ ایک ’’احساس‘‘ کی تلاش کرتے رہیں گے آپ اپنے گناہ کو کبھی بھی ناقابلِ برداشت نہیں پائیں گے۔ آپ صرف بے تابی اور بے چینی ہی محسوس کریں گے۔ کیونکہ یسوع آپ کو بے تابی اور بے چینی سے – یا کسی اور بُرے احساس سے نجات دلانے کے لیے صلیب پر قربان نہیں ہوا تھا۔ وہ صلیب پر قربان ہوا اور دوبار جی اُٹھا آپ کے گناہ سے بھرپور دِل کو تبدیل کرنے کے لیے، اُس دِل کو جو آپ کو وراثت میں آدم سے مِلا تھا، ایک مسیحی دِل میں تبدیل کرنے کے لیے۔ وہ صلیب پر قربان ہوا آپ کو باطنی طور پر ایک خودغرض گنہگار سے ایک حقیقی مسیحی میں تبدیل کرنے کے لیے، کوئی ایسا جس نے اپنا آدم والا دِل ایک مسیحی دِل میں تبدیل کیا ہو۔ آپ کا دِل صرف مسیح میں ایمان لانے ہی سے تبدیل ہو سکتا ہے۔ تبدیل ہونے کا مطلب ہوتا ہے ’’بدل جانا۔‘‘ صرف خُدا ہی ایسا کر سکتا ہے۔ اور وہ ایسا صرف تب ہی کرے گا جب آپ کو اپنا گناہ ناقابلِ برداشت لگے۔

اِس صبح جان کیگن نے ایک خاتون کے بارے میں بتایا جنہوں نے کہا، ’’ایک طویل مدت تک میں نے اپنی نجات کو ثابت کرنے کے لیے ایک احساس کی تلاش جاری رکھی تھی۔ حالانکہ ڈاکٹر ہائیمرز اور ڈاکٹر جان کیگن نے مجھے بار بار بارہا بتایا تھا – ایک احساس کی تلاش مت کرو۔‘‘ یہ خاتون اپنے گناہ کو ایک احساس کا تقاضا کرنے کے ذریعے سے چھپا رہی تھی! جان کیگن نے کہا، ’’آپ اپنی سمجھ بوجھ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ آپ صرف اُسی میں یقین کرتے ہیں جو آپ محسوس کرتے ہیں۔ چونکہ آپ مسیح کو ’محسوس‘ نہیں کر سکتے، آپ اُس میں بھروسہ نہیں کریں گے…. آپ کو یا تو اپنی سمجھ بوجھ اور احساسات پر بھروسہ کرتے رہنا جاری رکھنا ہوگا جب تک کہ آپ جہنم کی آگ میں جل نہ رہے ہوں، یا تو پھر آپ کو اقرار کر لینا چاہیے کہ آپ غلط ہیں، کہ خُداوند صحیح ہے، اور ایمان کے وسیلے سے بغیر کسی احساس کے یسوع پر بھروسہ کرنا چاہیے۔‘‘

میرے پیارے دوستو، میں مذید اور بولنے کا اِرادہ رکھتا ہوں، مگر میرا وقت پورا ہو چکا ہے۔ آپ کی فطرت میں موجود آدم نے آپ کو کافی عرصے تک خُدا کے ساتھ صُلح کرنے سے روکے رکھا ہے۔ اُس [خُدا] سے چُھپنا بند کریں، اور یہ ابھی کریں! آپ کی خُدا کے ساتھ کبھی بھی صُلح نہیں ہو گی جب تک کہ آپ اپنے جھوٹے تصورات کو چھوڑ نہیں دیتے۔ جب تک کہ آپ اپنے گناہ سے چُھپنا چھوڑ نہیں دیتے۔ ابھی توبہ کریں، اِس سے پہلے کہ بہت تاخیر ہو جائے۔ اپنے گناہ سے چھپنا چھوڑیں اور یسوع مسیح کے پاس براہ راست چلے آئیں۔ وہ آپ کے گناہ کو اپنے خون کے ساتھ پاک صاف کر دے گا۔ وہ آپ کو خُدا کے ساتھ صُلح بخشے گا۔ وہ صلیب پر آپ کے گناہوں کا کفارا ادا کرنے کے لیے قربان ہوا۔ یسوع کے سامنے اپنے گناہ کا اعتراف کریں اور اُس کے پاس ابھی چلے آئیں۔ یسوع پر ابھی ہی بھروسہ کریں اِس سے پہلے کہ بہت تاخیر ہو جائے۔ ڈاکٹر جان کیگن اور میں یہاں الطار پر ہوں گے۔ جب دوسرے لوگ رفاقت والے بڑے کمرے کی جانب شام کا کھانا کھانے کے لیے جا رہے ہوں، تو یہاں سامنے چلے آئیں اور آئیے ہمیں آپ کے ساتھ یسوع اور اُس کے خون کے بارے میں بات چیت کر لینے دیجیے، اور آج کی رات اپنے گھر جانے سے پہلے دُھل کر پاک صاف ہو جائیں۔ آمین۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک کی تلاوت مسٹر نوح سونگ Mr. Noah Song نے کی تھی: پیدائش3:‏6۔10 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بینجیمن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’اے خُدا، مجھے جانچ Search me, O God‘‘ (زبور 139:‏23۔24).