Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


دو وجوہات کیوں امریکہ اور مغرب میں گرجہ
گھروں کو حیاتِ نو کا تجربہ نہیں ہوتا

THE TWO REASONS WHY THE CHURCHES IN AMERICA
AND THE WEST DON’T EXPERIENCE REVIVAL
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی شام، 25 ستمبر، 2016
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, September 25, 2016

اِس شام میں دو اہم وجوہات پر بات کرنے جا رہا ہوں کیوں امریکہ میں اور مغربی دُنیا میں گرجہ گھروں میں حیاتِ نو نہیں آتا۔ ’’حیاتِ نو‘‘ سے میری مُراد وہ حیات انواع ہیں جن کے بارے میں ہم 18ویں صدی اور 19ویں صدی کے پہلے نصف میں پڑھتے ہیں۔ میں 20ویں صدی میں 21ویں صدی کے پہلے حصّے میں، جس میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں، نئے ایونجیلیکلز اور پینتیکوسٹلز کے نام نہاد کہلائے جانے والے ’’حیاتِ انواع‘‘ کی طرف نشاندہی نہیں کر رہا۔

مہربانی سے اپنی بائبل میں سے 2 تیموتاؤس3:‏1 کھولیں (یہ سیکوفیلڈ بائبل کے صفحہ1280 پر ہے)۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ اُس باب کی پہلی 7 آیات پڑھیں۔

’’لیکن یاد رہے کہ آخری زمانہ میں بُرے دِن آئیں گے لوگ خُود غرض، زَردوست، شیخی باز، مغرور، بدگو، ماں باپ کے نافرمان، ناشکرے، ناپاک، محبت سے خالی، بے رحم، بدنام کرنے والے، بے ضبط، تُندمزاج، نیکی کے دشمن، دغا باز، بے حیا، گھمنڈی، خدا کی نسبت عیش و عشرت کو زیادہ پسند کرنے والے ہوں گے۔ وہ دینداروں کی سی وضع تو رکھیں گے لیکن زندگی میں دینداری کا کوئی اثر قبول نہیں کریں گے۔ اَیسوں سے دُور ہی رہنا۔ اِن میں بعض ایسے بھی ہیں جو گھروں میں دبے پاؤں گھُس آتے ہیں اور نِکمّی اور چھچھوری عورتوں کو اپنے بس میں کر لیتے ہیں جو گناہوں میں دبی ہوتی ہیں اور ہر طرح کی بُری خواہشوں کا شکار بنی رہتی ہیں۔ یہ عورتیں سیکھنے کی کوشش تو کرتی ہیں لیکن کبھی اِس قابل نہیں ہوتیں کہ حقیقت کو پہچان سکیں‘‘ (2۔ تیموتاؤس 3:‏1۔7).

اب آیت 13 پڑھیں۔

’’لیکن بدکار، دھوکہ باز لوگ فریب دیتے دیتے اور فریب کھاتے کھاتے بگڑتے چلے جائیں گے‘‘ (2 تیموتاؤس3:‏13)۔

یہ آیات ہمیں ’’آخری ایام‘‘ میں کلیسیاؤں میں شدید اِرتداد کے بارے میں بتاتی ہیں (3:‏1)۔ آیات 2 تا 4 ہمیں نام نہاد کہلائے جانے والے ہمارے زمانے کے مسیحیوں کی مُرتد حالت بیان کرتی ہیں۔ آیت 5 وجہ پیش کرتی ہے کیوں یہ جھوٹے ’’مسیحی‘‘ اِس قدر بدکار اور باغی ہیں،

’’وہ دینداروں کی سی وضع تو رکھیں گے لیکن زندگی میں دینداری کا کوئی اثر قبول نہیں کریں گے‘‘ (2تیموتاؤس3:‏5)۔

اِس سے پہلے کہ میں آیت سمجھاؤں، میں آپ کو اُس میں سے کچھ پیش کروں گا جو ڈاکٹر جے۔ ورنن میگی Dr. J. Vernon McGee نے اِس حوالے کے بارے میں کہا۔ آیت 1 کے ’’آخری ایام‘‘ سے تعلق رکھتے ہوئے ڈاکٹر میگی نے کہا، ’’’آخری ایام‘ ایک تکنیکی اصطلاح استعمال ہوئی ہے… کلیسیا کے آخری ایام کے بارے میں بات کرنے [کے لیے]۔‘‘ آیت 1 تا 4 سے تعلق رکھتے ہوئے ڈاکٹر میگی نے کہا، ’’ہمارے پاس اُنیس مختلف وضاحتیں آ چکی ہیں… یہ ایک بدصورت [گروہ] ہے… وہ کلیسیا کے آخری ایام [میں] کیا ہو رہا ہے اُس کے بارے میں کلام پاک کی بہترین عکاسی پیش کرتے ہیں‘‘ (جے۔ ورنن میگی، ٹی ایچ۔ ڈی۔J. Vernon McGee, Th.D.، بائبل میں سے Thru the Bible، 2 تیموتاؤس پر غور طلب بات، باب3)۔ پھر ڈاکٹر میگی نے آیت5 کو سمجھایا، ’’وہ دینداروں کی سی وضع تو رکھیں گے لیکن زندگی میں دینداری کا کوئی اثر قبول نہیں کریں گے…‘‘ ڈاکٹر میگی نے کہا، ’’وہ دینداروں کی سی وضع تو رکھیں گے لیکن زندگی میں دینداری کا کوئی اثر قبول نہیں کریں گے! وہ مذہب کے رواجوں کو تو مناتے ہیں لیکن زندگی اور حقیقت میں قلیل ہوتے ہیں‘‘ (ibid.)۔ وہ نام نہاد کہلانے والے ’’مسیحی‘‘ دینداروں کی سی وضع‘‘ رکھتے ہیں – یعنی کہ، اُن کی بیرونی وضع ہوتی ہے، لیکن زندگی میں دینداری کا کوئی اثر قبول نہیں کرتے۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ کبھی بھی خُدا کی قدرت اور مسیح کے خون کے وسیلے سے سچے طور پر مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہیں ہوئے ہوتے۔ یہ بات واضح کر دیتی ہے کیوں آیت 7 آج کل کے ایونجیلیکلز کی ایک بہت بڑی اکثریت کے بارے میں سچی ہے۔ وہ ’’سیکھنے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن کبھی بھی اِس قابل نہیں ہوتے کہ حقیقت کو پہچان سکیں۔‘‘ اُس قسم کے کچھ لوگ آج کی رات یہاں پر ہیں!

وہ دہائیوں تک بائبل کا مطالعہ کر سکتے ہیں، لیکن کبھی بھی مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہیں ہوتے۔ ڈاکٹر چارلس سی۔ رائیری Dr. Charles C. Ryrie نے کہا اِس کا مطلب ہوتا ہے، ’’وہ کبھی بھی مسیح کی نجات دینے والی آگاہی کے بارے میں جاننے کے قابل نہیں ہوتے [ہیں]‘‘ (رائیری کا مطالعۂ بائبل Ryrie Study Bible؛ آیت7 پر غور طلب بات)۔ آج لاکھوں ایونجیلیکلز اُس حالت میں ہیں۔ وہ قدرتی حالت میں غیرنجات یافتہ لوگ ہیں۔ 1 کرنتھیوں2:‏14 اُن کو یوں بیان کرتی ہے، ’’جس میں خُدا کا پاک روح نہیں وہ خُدا کی باتیں قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ اُس کے نزدیک بیوقوفی کی باتیں ہیں اور نہ ہی اُنہیں سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ صرف پاک روح کے ذریعہ سمجھی جا سکتی ہیں۔‘‘ اب میں آپ کو دو وجوہات پیش کروں گا کیوں 140 سالوں سے امریکہ میں اور مغرب میں کوئی بہت بڑا حیاتِ نو نہیں آیا ہے۔

I۔ پہلی وجہ، 140 سالوں سے کوئی بہت بڑا حیاتِ نو نہیں آیا کیونکہ ہم لگ بھگ صرف
 گمراہ لوگوں کو ہی بپتسمہ دیتے ہیں!

لاکھوں ایونجیلیکلز کبھی بھی مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے ہی نہیں ہوتے کیونکہ وہ چارلس جی۔ فنّی Charles G. Finney کے ذریعے سے گرجہ گھروں میں لائے ہوئے ’’فیصلہ سازیت decisionism‘‘ کی وجہ سے دھوکہ کھا چکے ہوتے ہیں۔ اُس کی تعلیمات گرجہ گھروں میں اِس قدر شدت کے ساتھ جگہ بنا چکی ہیں کہ لاکھوں لوگ سوچتے ہیں وہ نجات پا چکے ہیں کیونکہ اُنہوں نے ’’فیصلہ کر لیا تھا،‘‘ گنہگاروں کی دعا‘‘ کے الفاظ کی دعا مانگ لی تھی، یا بائبل میں ایک آیت پر یقین کر لیا تھا۔ لیکن وہ پاک روح کے عمل کے وسیلے سے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہیں ہوئے تھے۔ خُدا کے روح کا پہلا کام گنہگار کو گناہ کی سزایابی کے تحت لانا ہوتا ہے۔ یوحنا16:‏8، 9 کہتی ہے، ’’جب وہ مددگار [پاک روح] آ جائے گا تو جہاں تک گناہ، راستبازی اور انصاف کا تعلق ہے وہ دنیا کو مجرم قرار [سزایابی] دے گا…. گناہ کے بارے میں اِس لیے کہ لوگ میرے پر ایمان نہیں لاتے۔‘‘جب تک کہ ایک گمراہ شخص اپنے گناہ کی گہری سزایابی میں نہیں آ جاتا، وہ کبھی بھی اپنے لیے مسیح کی گہری ضرورت کو، اُس کی صلیب پر قربانی کو اور مسیح کے خون میں اپنے پاک صاف ہونے کی ضرورت کو نہیں دیکھ پائے گا۔ بے شمار مرتبہ ہم لوگوں کو دیکھتے ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ نجات پانا چاہتے ہیں، لیکن چونکہ وہ اپنے گناہ کی سزایابی میں نہیں آئے ہوئے ہوتے، تو وہ کبھی بھی مسیح پر بھروسہ کرنے کے قابل نہیں ہو پاتے۔

پاک روح کا دوسرا کام مسیح کو جلال بخشنا ہے۔ یسوع نے کہا، ’’وہ میرا جلال ظاہر کرے گا کیونکہ وہ میری [جو میرا ہے اپنا کر] زبانی سُن کر تم تک پہنچائے گا‘‘ (یوحنا16:‏14)، یا جیسا کہ یسوع نے یوحنا15:‏26 میں کہا، وہ پاک روح ’’میرے بارے میں گواہی دے گا۔‘‘گناہ کی سزایابی میں سے گزر چکنے کے بعد، پاک روح تب، اور صرف تب ہی، گنہگار کو دکھاتا ہے کہ تنہا یسوع ہی اُس کے گناہ معاف کر سکتا ہے۔ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے میں حتمی عمل خُدا کا گنہگار کو مسیح کی جانب کھینچنا ہوتا ہے۔ یسوع نے کہا، ’’میرے پاس کوئی نہیں آتا جب تک کہ باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اُسے کھینچ نہ لائے‘‘ (یوحنا6:‏44)۔ وہ شخص جوکہتا ہے، ’’میں مسیح کے پاس آؤں؟‘‘ سمجھ نہیں پایا ہوتا ہے کہ اُسے پہلے گناہ کی سزایابی میں آنا ہوتا ہے اور پھر مسیح کو اُس کی گناہ سے نجات کے لیے واحد اُمید کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے، اور پھر مسیح کی طرف کھینچے چلے آنا چاہیے۔ نجات کا سارے کا سارا عمل خُدا کی قدرت میں پنہاں ہوتا ہے۔ شاگردوں نے یسوع سے پوچھا، ’’پھر کون نجات پا سکتا ہے؟‘‘ یسوع نے جواب دیا، ’’یہ انسانوں کے لیے تو ناممکن ہے لیکن خُدا کے لیے نہیں‘‘ (مرقس10:‏26، 27)۔

معیاری پروٹسٹنٹ مسیح میں ایمان لانے والی تبدیلی میں پہلی بات جو رونما ہوتی ہے وہ گناہ کی گہری سزایابی ہوتی ہے جو گنہگار کو اپنے آپ کو بچانے کی مایوسی کے لیے رہنمائی کرتی ہے۔ تب گنہگار مسیح کو اُس کی واحد اُمید کی حیثیت سے دیکھتا ہے اور مسیح کے پاس آ جاتا ہے، جب خُدا اُس کو نجات دہندہ کی جانب کھینچتا ہے۔ بِلاشُبہ یہ سب کا سب دورِ حاضرہ کی ’’فیصلہ سازیت decisionism‘‘ نے مسترد کیا ہے۔ آج جس کی صرف ضرورت پڑتی ہے وہ دعا کے الفاظ ادا کرنا یا نشستوں کے درمیانی راستے سے آگے کی جانب جانا ہوتا ہے۔ انسان کی روح میں خُدا کے عمل کو مکمل طور سے مسترد کیا جاتا ہے۔ یہ پہلی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں حیاتِ نو نہیں آتا۔

ہمارے گرجہ گھر میں جان کیگن John Cagan ایک نوجوان شخص ہے جو مذہبی خدمت میں جانے کا عزم رکھتا ہے۔ وہ 15 برس کی عمر میں مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوا تھا۔ میں یہاں پر اُس کا ساری کی ساری گواہی دو وجوہات کی وجہ سے پیش کر رہا ہوں۔ پہلی، کیونکہ یہ مسیح میں ایمان لانے کی ایک مکمل طور سے ’’پرانے طرز old school‘‘ کی اپنی قسم کی تبدیلی ہے جو فنی Finney کے مسیح میں ایمان لانے کی تبدیلی کو محض ایک فیصلے میں بدلنے سے پہلے رونما ہوتی تھی، وہ قسم جس کی ہمیں آج شدت کے ساتھ ضرورت ہے۔ اور دوسری وجہ، کیونکہ کالج کا ایک ایسا طالب جس نے دو سالوں تک مسیح کی مزاحمت کی تھی گذشتہ اِتوار میرے اِس کو پڑھتے ہوئے سُننے کے بعد مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوا تھا۔ میں انتہائی چند ایک گواہیوں کے بارے میں جانتا ہوں جنہوں نے واقعی میں کسی کو بدل ڈالا۔ یہ ہے جان کیگن کی نجات کی گواہی۔

      میں مسیح میں ایمان لا کر اپنے تبدیل ہونے کے لمحے کو اِس قدر نمایاں اور قریبی طور پر یاد کر سکتا ہوں کہ مسیح نے کس قدر بڑا فرق ڈالا تھا اُس کے موازنے میں الفاظ اِس قدر کم پڑجاتے ہیں۔ اپنی مسیح میں ایمان لانے کی تبدیلی سے پہلے میں غصے اور نفرت سے بھرا پڑا تھا۔ میں اپنے گناہ میں فخر محسوس کرتا تھا اور لوگوں کو تکلیف دینے میں خوشی محسوس کرتا تھا، اور خود کو اُن کے ساتھ شریک کر لیا تھا جو خُدا سے نفرت کرتے تھے؛ میرے لیے گناہ کوئی ایسی ’’غلطی‘‘ نہیں تھا جس پر افسوس کیا جاتا۔ میں نے جان بوجھ کر خود کو اِس راہ پر ڈالا تھا۔ خُدا نے مجھ پر ایسے طریقوں سے کام کرنا شروع کیا کہ میں نے کبھی توقع بھی نہیں کی تھی جب میری دُنیا میرے اِرد گرد ڈھیر ہونا شروع ہو گئی۔ میرے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے سے پہلے کے وہ ہفتے مرنے کی مانند محسوس ہوتے تھے: میں سویا نہیں، میں مسکرا نہیں پاتا، میں کسی قسم کا سکون نہ ڈھونڈ پاتا۔ ہمارے گرجہ گھر میں انجیلی بشارت کے پرچار کے اِجلاس ہو رہے تھے اور میں واضح طور پر اُن پر حقارت کا اِظہار کرنا یاد کر سکتا ہوں جب میں نے مکمل طور پر اپنے پادری صاحب اور اپنے والد کا احترام نہ کیا۔
      اُس عرصے میں پاک روح نے انتہائی یقینی طور پر مجھے میرے گناہ کی سزایابی میں کر دیا، لیکن اپنی تمام تر ہمت کے ساتھ میں نے اُن تمام خیالات کو جو خُدا اور مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کے بارے میں تھے مسترد کر دیا۔ میں نے اِس کے بارے میں سوچنے سے ہی انکار کر دیا، اِس کے باوجود میں اِس قدر زیادہ اذیت میں مبتلا ہونے کے احساس کو روک نہ پایا۔ 21 جون، 2009 کے اِتوار کی صبح تک، میں پوری طرح سے تھکن زدہ ہو چکا تھا۔ میں اِس تمام سے اِس قدر تھک چکا تھا۔ میں نے خود سے نفرت کرنا شروع کر دیا، اپنے گناہ سے نفرت کرنے لگا اور اُس نے مجھے کیسا محسوس کرنے پر مجبور کر دیا۔
      جب ڈاکٹر ہائیمرز تبلیغ کر رہے تھے، میرا تکبر اُس کو فوری طور پر مسترد کرنے کی کوشش کر رہا تھا، نہ سُننے کے لیے، لیکن وہ جیسے جیسے منادی کر رہے تھے میں واقعی میں اپنے تمام گناہ کو اپنی روح پر محسوس کر سکتا تھا۔ میں واعظ کے ختم ہونے کے لیے لمحات گِن رہا تھا، لیکن پادری صاحب نے منادی کرنا جاری رکھا، اور میرے گناہ کبھی نہ ختم ہونے والے بدتر سے بدترین ہوتے چلے گئے۔ میں اُن ڈنگوں کے خلاف مذید اور کچھ نہیں کر پا رہا تھا، مجھے نجات حاصل کرنی ہی تھی! یہاں تک کہ جب بُلاوا دیا گیا تو میں نے مزاحمت کی، لیکن میں بالکل بھی اور برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ میں جان گیا تھا کہ میں وہ انتہائی بدترین گنہگار تھا جو میں ہو سکتا تھا اور کہ خُدا مجھے جہنم میں سزا دینے کے لیے متّقی تھا۔ میں جدوجہد کرنے سے اِس قدر تھک چکا تھا، میں ہر اُس چیز سے جو میں تھا اِس قدر تھک چکا تھا۔ پادری صاحب نے مجھے نصیحت کی اور مجھے مسیح کے پاس آنے کے لیے کہا، لیکن میں نہ آ سکا۔ یہاں تک کہ مجھے میرے سارے گناہ نے سزایابی دی میں اب بھی یسوع کو نہ پا سکا۔ یہ لمحات سب سے بدترین میں سے تھے جیسا کہ میں نے محسوس کیا کہ اگر میں نجات نہ حاصل کر پایا اور مجھے پھر صرف جہنم ہی میں جانا پڑے گا۔ میں نجات پانے کے لیے ’’کوششیں کر رہا‘‘ تھا، میں مسیح پر بھروسہ کرنے کے لیے ’’کوششیں کر رہا‘‘ تھا اور میں کر نہیں پا رہا تھا، میں بس خود میں مسیح کے لیے ہمت نہیں جُتا پا رہا تھا، اور اِس بات نے مجھے اِس قدر نااُمید محسوس کرنے پر مجبور کر دیا۔ میں نے محسوس کیا میرا گناہ مجھے جہنم میں دھکیل رہا تھا اِس کے باوجود میں محسوس کر سکتا تھا میری ڈھٹائی میرے آنسوؤں کو زبردستی روک رہی تھی۔ میں اِس کشمکش میں پھنس چکا تھا۔
      اچانک سالوں پہلے دیے گئے ایک واعظ کے الفاظ میرے ذہن میں ٹکرائے: ’’مسیح کے سامنے گھٹنے ٹیک دو! مسیح کے سامنے گھٹنے ٹیک دو!‘‘ وہ خیال کہ مجھے یسوع کے لیے پسپا ہونا پڑے گا اُس نے مجھے اِس قدر بےچین کیا کہ جو ہمیشہ کے لیے لگتا تھا میں محض کر نہیں پا رہا تھا۔ یسوع نے اپنی زندگی میرے لیے قربان کر دی۔ وہ حقیقی یسوع میری خاطر مصلوب ہونے کے لیے چلا گیا جب میں اُس کا دشمن تھا اور میں اُس کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکوں۔ اِس خیال نے مجھے توڑ ڈالا؛ مجھے اِس تمام کو چھوڑنا ہی تھا۔ میں مذید اور خود پر قابو نہیں کر پا رہا تھا، مجھے یسوع کو پانا ہی تھا! اُس لمحے میں اُس یسوع کے سامنے میں نے گھٹنے ٹیک دیے اور ایمان کے وسیلے سے یسوع کے پاس آیا۔ اُس لمحے میں یوں لگا جیسے مجھے خود اپنے آپ کو مرنے دینا تھا، اور پھر یسوع نے مجھے زندگی بخشی! میرے ذہن کا کوئی عمل دخل یا مرضی شامل نہیں تھی بلکہ میرے دِل کی تھی، مسیح میں سادہ سے سکون کے ساتھ، اُس نے مجھے نجات دی! اُس نے میرے گناہ کو اپنے خون میں پاک صاف کر دیا! اُس واحد لمحے میں، میں نے مسیح کی مزاحمت کرنی چھوڑ دی۔ یہ اِس قدر واضح تھا کہ مجھے صرف اُسی پر بھروسہ کرنا تھا؛ میں اُس بالکل صحیح لمحےکو پہچان سکتا تھا جب ترک کر دینے والا میں تھا اور یہ واحد مسیح تھا۔ مجھے گھٹنے ٹیکنے ہی تھے! اُس لمحے میں کوئی جسمانی احساس یا اندھا کر دینے والی روشنی نہیں تھی، مجھے کسی احساس کی ضرورت نہیں تھی، میرے پاس مسیح تھا! اِس کے باوجود مسیح پر بھروسہ کرنے میں یوں محسوس ہوا جیسے میری روح پر سے میرے گناہ اُٹھائے جا چکے تھے۔ میں نے اپنے گناہ سے مُنہ موڑ لیا، اور میں نے تنہا یسوع پر نظریں جما لیں! یسوع نے مجھے نجات دی۔
      یسوع نے مجھ جیسے کم تر ترین گنہگار کو جو ایک اچھے گرجہ گھر میں پلا بڑھا اور پھر بھی اُس کے خلاف ہوا، معاف کرنے کے لیے کس قدر محبت کی ہے! مسیح کے لیے میری محبت کے اظہار میں اور میرے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کے تجربے کو بیان کرنے کے لیے الفاظ اِس قدر کم دکھائی دیے۔ مسیح نے میرے لیے اپنی جان قربان کر دی اور اِس کے لیے میں نے اپنا سب کچھ اُسے دے دیا۔ یسوع نے اپنے تخت کو میری خاطر ایک صلیب کے لیے قربان کر دیا حتّٰی کہ میں نے اُس کی کلیسیا [گرجہ گھر] پر تھوکا اور اُس کی نجات کا تمسخر اُڑایا؛ میں کبھی بھی کیسے پورے طور سے اُس کی محبت اور اُس کے رحم کا اِعلان کر سکتا ہوں؟ یسوع نے میری نفرت اور غصے کو دور کر دیا اور اُس کے بجائے مجھے محبت دی۔ اُس نے مجھے ایک نئے آغاز کے مقابلے میں بہت کچھ دے دیا – اُس نے مجھے نئی زندگی دی۔ یہ صرف ایمان کے وسیلے سے تھا کہ میں جان گیا یسوع نے میرے تمام گناہوں کو دھو ڈالا تھا، میں نے خود کو تعجب کرتا ہوا پایا میں اپنے ٹھوس ثبوت کی قلت میں کیسے جان پایا، لیکن میں نے ہمیشہ خود کو یاد دلایا کہ ’’ایمان اندیکھی چیزوں کی روح ہوتا ہے‘‘ اور بہت احتیاط کے ساتھ وہ سوچنے کے بعد وہ جان کر مجھے سکون ملا کہ میرا ایمان یسوع پر قائم ہے۔ یسوع ہی میرا واحد جواب ہے۔
      میں اُس فضل کے لیے جو خُدا نے مجھے بخشا بہت شکرگزار ہوں، وہ بے شمار مواقعے جو اُس نے مجھے مہیا کیے، اور اپنے بیٹے کی جانب اِس قدر قوت کی بھرپوری کے ساتھ کھینچنے کے لیے کیونکہ میں خود اپنے طور پر کبھی بھی یسوع کے پاس نہ جا پاتا۔ یہ محض الفاظ ہیں، لیکن میرا ایمان یسوع میں قائم ہے، کیونکہ اُسی نے مجھے بدلا ہے۔ وہ ہمیشہ وہاں رہا ہے، میرا بچانے والا، میرا سکون، اور میرا نجات دہندہ۔ اُس کے مقابلے میں جیتنا اُس نے مجھ سے پیار کیا میری محبت کس قدر کم دکھائی دیتی ہے۔ میں کبھی بھی اُس کے لیے زیادہ عمر تک نہ رہ پاؤں گا یا کافی مخلصی کے ساتھ، میں کبھی بھی مسیح کے لیے کچھ زیادہ نہیں کر پاؤں گا۔ یسوع کی خدمت کرنا میری خوشی ہے! اُس نے مجھے زندگی اور سکون بخشا اِس کے باوجود کہ میں صرف نفرت کیسے کرنی ہے جانتا تھا۔ یسوع میری آرزو اور میری توجہ کا مرکز ہے۔ میں خود پر بھروسہ نہیں کرتا، لیکن تنہا اُسی یسوع میں اپنی اُمید رکھتا ہوں، کیونکہ اُس نے کبھی بھی مجھے ناکام نہیں کیا۔ مسیح میرے پاس آیا اور اِس کے لیے میں کبھی بھی اُس کو نہیں چھوڑوں گا۔

وہ 15 برس کی عمر میں مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے والے جان سیموئیل کیگن John Samuel Cagan کے الفاظ ہیں۔ اب وہ مذھبی خدمت میں آنے کے لیے سوچ رہے ہیں۔ جو کچھ جان کیگن کے ساتھ وہ مسیح میں ایمان لانے کی ایک حقیقی تبدیلی میں رونما ہوتا ہے! خُدا کو آپ کے لیے وہی کرنا چاہیے جو اُس نے جان کے لیے کیا!

آج کے زیادہ تر مبلغین نے اُس کو فوراً ایک دعا مانگنے کے لیے کہا ہوتا، پھر اُس کو بپتسمہ دیا ہوتا – اور ہماری کلیسیاؤں میں لاکھوں گمراہ لوگوں میں سے اُس کو ایک بنا ڈالا ہوتا! پہلی وجہ ہمارے ہاں کوئی حیاتِ نو نہیں آتا یہ ہے کہ مبلغین خُدا کو گنہگاروں کے دِل میں کام کرنے دینا ہی نہیں چاہتے۔ وہ گنہگار کو خُدا کے کام سے پرے جھپٹ لیتے ہیں اور اُس کو گمراہ حالت ہی میں بپتسمہ دے دیتے ہیں! میں یقین کرتا ہوں کہ دورِ حاضرہ کے سارے کے سارے بپتسمے گمراہ لوگوں کے بپتسمے ہوتے ہیں۔ یہ پہلی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کوئی حیاتِ نو نہیں ہوتا! لگ بھگ ہر کسی کو نجات یافتہ قرار دے دیا جاتا ہے اور مسیح میں ایمان لانے کی کسی بھی حقیقی تبدیلی کے بغیر بپتسمہ دے دیا جاتا ہے! میں اقرار کرتا ہوں میں خود بھی وہ گناہ سرزد کرتا رہا ہوں۔ خُدایا، مجھے معاف کر۔ کیوں پھر خُدا نے ہم سے حیاتِ نو کو 140 برسوں سے روکا ہوا ہے؟ کیوں پھر؟ ٹھیک ہے، یہاں ایک وجہ اور بھی ہے!

II۔ دوسری وجہ، 140 برسوں سے کوئی حیاتِ نو نہیں آیا کیونکہ ہم پاک روح پر زور دیتے ہیں بجائے اِس کے کہ مسیحیوں کو اُن کے اپنے گناہوں کا اقرار کرنے دیں اور یسوع کے خون کے وسیلے سے پاک صاف ہونے جانے دیں۔

یہ کچھ ایسا ہے جو میں پہلے ہی سے جانتا تھا۔ لیکن یہ حال ہی میں مجھ پر نہایت واضح ہوا ہے۔ میں تین حیاتِ انواع کا چشم دید گواہ رہ چکا ہوں۔ پہلا والا بہت حد تک سب سے زیادہ طاقتور تھا – اور یہ روح کے، مختلف زبانوں کے، شفایابیوں کے، یا معجزات کے ’’بپتسمہ‘‘ پر انحصار نہیں کرتا تھا۔ یہ مکمل طور سے مسیحیوں کے اپنے گناہوں کے اقرار کرنے پر اور مسیح کے خون کے وسیلے سے نیا ہو کر پاک صاف ہو جانے پر انحصار کرتا تھا۔

آج ہمارے گرجہ گھروں میں، وہ لوگ جو سچے طور پر مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو چکے ہیں اب بھی گناہ پر قائم ہیں – دِل کے گناہ، ذہن کے گناہ، جسم کے گناہ۔ پہلے حیاتِ نو میں میں نے دیکھا، تقریباً ساری کی ساری کلیسیا نے الطار پر خُدا سے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا تھا اور اُس وقت تک شدید آنسو بہائے تھے جب تک خُدا نے اُنہیں مسیح کے خون کے ذریعے سے امن پیش نہ کر دیا۔ یوحںا رسول نے کہا،

’’لیکن اگر ہم اپنے گناہوں کا اقرار کریں تو وہ جو سچا اور عادل ہے، ہمارے گناہ معاف کر کے ہمیں ساری ناراستی سے پاک کر دے گا‘‘ (1۔ یوحنا 1:‏9).

اور خُدا کیسے مسیحیوں کے گناہوں کو پاک صاف کرتا ہے؟ ’’یسوع مسیح اُس کے بیٹے کا خون ہمیں تمام گناہ سے پاک صاف کرتا ہے‘‘ (یوحنا1:‏7)۔

پہلے، تمام گناہوں کا ظاہری اور باطنی طور پر اعتراف۔ دوسرے، یسوع کے خون کے وسیلے سے ہمارے گناہوں کا پاک صاف ہونا۔ آسان سا لگتا ہے، کیا نہیں لگتا؟ اِس کے باوجود کتنے گرجہ گھر اِس پر دورِ حاضرہ میں زور دیتے ہیں؟ میں کسی ایک کے بارے میں بھی نہیں جانتا جو ایسا کرتا ہو۔ اور یہ دوسری وجہ ہے کہ ہمارے ہاں 140 سالوں سے کوئی حیاتِ نو نہیں آیا ہے!

برائین ایڈورڈز کے الفاظ کو سُنیں، جو حقیقی حیاتِ نو کے موضوع پر شدید مطالعہ کر چکے ہیں۔ اُنہوں نے کہا،

حیاتِ نو… گناہ کی ہولناک سزایابی کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ یہ اکثر وہ قسم ہوتی ہے کہ گناہ کی یہ سزایابی وہ تکالیف اپنا لیتی ہے جو اُن کے بارے میں حیاتِ نو میں پڑھتے ہیں۔ کبھی کبھار تجربہ کُچل ڈالنے والا ہوتا ہے۔ لوگ بے قابو ہو کر روتے ہیں، اور بدترین ہوتے جاتے ہیں! لیکن سزایابی کے آنسوؤں اور غموں کے بغیر [حقیقی] حیاتِ نو نامی کوئی چیز نہیں ہوتی (ایڈورڈزEdwards، حیاتِ نو Revival، ایونجیلیکل پریس Evangelical Press، 2004، صفحہ115)۔

کوئی حیاتِ نو گہری، تکلیف دہ اور عاجزانہ گناہ کی سزایابی کے بغیر نہیں ہوتا (ایڈورڈزEdwards، ibid.، صفحہ116)۔

پہلا حیاتِ نو جو میں نے دیکھا وہ چند ایک مسیحیوں کے رونے اور اپنے گناہوں کے اعترافات کرنے کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ جلد ہی سارے کا سارا گرجہ گھر گھنٹوں تک کے لیے روتے ہوئے، اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اور کچھ لوگوں کے مدھم گانوں کے ساتھ بھر گیا تھا۔ یہ ہی سب کچھ تھا۔ کوئی غیرزبانیں نہیں تھی۔ کوئی روحوں کا آنا نہیں تھا۔ کوئی شفایابیاں نہیں تھی۔ روح میں کوئی قتل ہونا نہیں تھا۔ صرف اعترافات، رونا، دعائیں اور مدھم گانے تھے۔ یہ گھنٹوں تک چلتا رہا تھا۔

پھر یہ ایک یا دو دِنوں کے لیے روکا ہوگا – لیکن پھر روح دوبارہ آ گئی – دوبارہ اور دوبارہ تین سال سے زیادہ عرصے تک وقفوں وقفوں میں۔ جب تک حیات نو ختم ہوا گرجہ گھر میں 3,000 سے زیادہ لوگوں کا اضافہ ہو چکا تھا، ایک گرجہ گھر جو 150 سے کم لوگوں کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ اور ہر اِتورا کی صبح، اُنہیں ایک کے بجائے چار چار عبادتیں کرنی پڑتیں، اِس کے ساتھ ساتھ اِتوار کی رات کو دو اور عبادتیں کرنی پڑتیں۔

لیکن میں نہیں یقین رکھتا کہ ہمیں محض اپنے گرجہ گھروں میں زیادہ لوگوں کا اضافہ کرنے کے لیے حیاتِ نو کی دعائیں مانگنی چاہیے۔ اصل مقصد صرف ایک صاف کلیسیا کا پانا ہونا چاہیے! ہمیں ایک پاک کلیسیا کو پانا ضروری ہونا چاہیے!

ہم اپنی بہت بڑی صلیبی جنگیں کر چکے ہیں۔ ہم اپنے مسیحی ٹی وی کے شوز کر چکے ہیں۔ ہم اپنی شفایابی کی عبادتیں کر چکے ہیں۔ ہم گرجہ گھروں میں غیرزبانوں کا استعمال اور دوسرے تجربوں کو دیکھ چکے ہیں۔ لیکن ہم 140سالوں سے بھی زیادہ کے عرصے کے لیے امریکہ میں ایک معیاری، تاریخی حیاتِ نو کو نہیں پا سکتے ہیں! ہم اِن دوسری باتوں کی وجہ سے اصل موضوع سے ہٹ چکے ہیں۔ ہم نے پاک روح کو ہم مسیحیوں کو اپنے گناہوں کی سزایابی میں نہیں لانے دیا ہے۔ ہم یسوع کے آگے اُس کے قیمتی، پاک خون کے ساتھ ہمیں پاک صاف کرنے کے لیے نہیں چلائے ہیں!

ہم اپنے گرجہ گھر میں حیاتِ نو کے ’’لمس‘‘ کو پا چکے ہیں۔ تقریباً 4 راتوں کے اِجلاسوں میں 11 لوگ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے، جن کی ڈاکٹر کیگن نے جو ایک ماہر ہیں دو بار چانچ کی۔ اور وہ تمام 11 کے گیارہ اُنہوں نے کہا مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو چکے ہیں۔ ہمارے پاس تقریباً 8 مسیحی تھے جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا اور ہر رات آنسوؤں کے ساتھ دعائیں مانگیں۔ ہمارے 41 سالوں میں اِس قسم کے اجلاس کبھی بھی نہیں ہوئے، جب سے کا ہمارا گرجہ گھر شروع ہوا۔

لیکن پھر میں نے گناہ کیا۔ ڈاکٹر کیگن نے مجھے اِس کو ’’گناہ‘‘ نہ کہنے کا کہا۔ لیکن میرے خیال میں مَیں نے گناہ کیا۔ میں مغرور ہو گیا، مغرور ہو گیا کہ ہم حیاتِ نو پا چکے ہیں! حیاتِ نو واقعی میں ابھی شروع ہی ہوا تھا۔ لیکن میں نے سزایابی اور مسیح کے خون کے بارے میں منادی کرنا روک دیا۔ میں نے اِجلاسوں کو کسی اور کے حوالے کر دیا، اور زور یسوع سے ہٹ کر پاک روح کی جانب مُڑ گیا۔ مجھے یاد رکھنا چاہیے تھا کہ یسوع نے پاک روح کے بارے میں کہا، ’’وہ میری گواہی دے گا‘‘ (یوحنا15:‏26)۔ مجھے کسی اور کو کبھی بھی آنے اور پاک روح پر منادی نہیں کرنے دینی چاہیے تھی۔ وہ میرے گناہ تھے۔ تکبر کا گناہ اور مفروضوں کا گناہ۔ اور میں اُن کا آج کی رات آپ کے سامنے اعتراف کرتا ہوں۔ میرے تکبر کا گناہ اور میرے مفروضے کا گناہ۔ مہربانی سے، ہر کوئی، دعا کرے کہ خُدا مجھے یسوع کو نظر انداز کرنے اور اعتراف کو نظر انداز کرنے پر معاف کرے (وہ دعا مانگتے ہیں)۔ اب مہربانی سے دعا مانگیں کہ خُدا ہمارے پاس واپس آئے گا، جیسا اُس نے پہلے حیات نو میں کیا تھا جو میں نے دیکھا تھا۔ خُدا کی حضوری کو ہمارے پاس واپس آنے کے لیے دعا مانگیں۔ مہربانی سے آنسوؤں کے ساتھ دعا مانگیں، جیسے وہ چین میں کرتے ہیں (وہ دعا مانگتے ہیں)۔ مہربانی سے کھڑے ہوں اور ’’ھیلیلویاہ، کیا ایک نجات دہندہHallelujah, What a Saviour‘‘ گائیں۔ اب ’’زندہ خُدا کی روح Spirit of the Living God‘‘ گائیں۔ اب ’’اے خُدایا، مجھے جانچ Search Me, O God‘‘ گائیں۔ اب ’’میرے سارے تخّیل کو بھر دے Fill All My Vision‘‘ کے پہلے اور آخری بند کو گائیں۔ مس گیویعنNguyen، مہربانی سے خُدا سے دوبارہ نیچے آنے کے لیے دعا مانگیں۔ یہاں پر بے شمار ایسے ہیں جو ابھی تک گمراہ اور اخلاقی طور پر گِرے ہوئے ہیں۔ خُدا سے اُن کے لیے نیچے آنے کی دعا مانگیں۔

وہ جو آپ کے پاس حیاتِ نو کے واپس آنے کے لیے دعا مانگنا چاہتے ہیں، کھڑے ہوں اور خُدا سے دوبارہ نیچے آنے کے لیے دعا مانگیں۔ ایسے دعا مانگیں جیسے وہ چین China میں مانگتے ہیں۔ وہ جو اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا چاہتے ہیں، الطار کے پاس چلے آئیں۔ وہ جو یسوع کے خون کے وسیلے سے پاک صاف ہونا چاہتے ہیں، یہاں چلے آئیں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کریں۔ وہ جو چاہتے ہیں یسوع اُنہیں نجات دے، وہ بھی چلے آئیں۔ ایک مغربی بپٹسٹ غیر مذہبی شخص جو ایک گمراہ شخص کی حیثیت سے ہمارے گرجہ گھر میں 25 سالوں تک حاضری دیتے رہے، آئے اور ایک سچے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے والے تجربے میں یسوع پر بھروسہ لے آئے۔ آمین۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک کی تلاوت مسٹر ہارون ینسی Mr. Aaron Yancy نے کی تھی: 2تیموتاؤس3:‏1۔5 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بینجیمن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
نے گایا تھا: ’’باپ کے ساتھ Father Along‘‘
(شاعر ڈبلیو۔ بی۔ سٹیونز W. B. Stevens، 1862۔1940؛ ترمیم
اور ترتیب دی بامی ای۔ وارنBamey E. Warren نے، 1867۔1951)۔

لُبِ لُباب

دو وجوہات کیوں امریکہ اور مغرب میں گرجہ
گھروں کو حیاتِ نو کا تجربہ نہیں ہوتا

THE TWO REASONS WHY THE CHURCHES IN AMERICA
AND THE WEST DON’T EXPERIENCE REVIVAL

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونئیر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’لیکن یاد رہے کہ آخری زمانہ میں بُرے دِن آئیں گے لوگ خُود غرض، زَردوست، شیخی باز، مغرور، بدگو، ماں باپ کے نافرمان، ناشکرے، ناپاک، محبت سے خالی، بے رحم، بدنام کرنے والے، بے ضبط، تُندمزاج، نیکی کے دشمن، دغا باز، بے حیا، گھمنڈی، خدا کی نسبت عیش و عشرت کو زیادہ پسند کرنے والے ہوں گے۔ وہ دینداروں کی سی وضع تو رکھیں گے لیکن زندگی میں دینداری کا کوئی اثر قبول نہیں کریں گے۔ اَیسوں سے دُور ہی رہنا۔ اِن میں بعض ایسے بھی ہیں جو گھروں میں دبے پاؤں گھُس آتے ہیں اور نِکمّی اور چھچھوری عورتوں کو اپنے بس میں کر لیتے ہیں جو گناہوں میں دبی ہوتی ہیں اور ہر طرح کی بُری خواہشوں کا شکار بنی رہتی ہیں۔ یہ عورتیں سیکھنے کی کوشش تو کرتی ہیں لیکن کبھی اِس قابل نہیں ہوتیں کہ حقیقت کو پہچان سکیں‘‘ (2تیموتاؤس3:‏1۔7)۔

(2تیموتاؤس3:‏13، 5؛ 1کرنتھیوں2:‏14)

I.   پہلی وجہ، 140 سالوں سے کوئی بہت بڑا حیاتِ نو نہیں آیا کیونکہ ہم لگ بھگ صرف گمراہ لوگوں کو ہی بپتسمہ دیتے ہیں! یوحنا16:‏8، 9، 14؛ 15:‏26؛ 6:‏44؛ مرقس10:‏26، 27 .

II.  دوسری وجہ، 140 برسوں سے کوئی حیاتِ نو نہیں آیا کیونکہ ہم پاک روح پر زور دیتے ہیں بجائے اِس کے کہ مسیحیوں کو اُن کے اپنے گناہوں کا اقرار کرنے دیں اور یسوع کے خون کے وسیلے سے پاک صاف ہونے جانے دیں، 1۔ یوحنا 1:‏9،7؛ یوحنا 15:‏26۔