Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


حیاتِ نو کے لیے خواہش کرنا

LONGING FOR REVIVAL
(Urdu)

ڈٓاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی شام، 24 جولائی، 2016
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles Lord's Day Evening, July 24, 2016

’’کاش کہ تُو آسمان کو چاک کر دے اور نیچے اُتر آئے، اور پہاڑ تیرے حضور میں لرزنے لگیں‘‘ (اشعیا 64:‏1).

حیاتِ نو پر میرا یہ چوتھا واعظ ہے جو میں اِن گرمیوں میں دے چکا ہوں۔ پہلا ’’حیاتِ نو کا ایک تصورA Vision of Revival‘‘ تھا۔ ایک معیاری حیاتِ نو میں کیا رونما ہوتا ہے میں نے بتایا تھا۔ لیکن آپ میں سے بے شمار نے سوچا تھا، ’’وہ باتیں یہاں پر رونما نہیں ہو سکتیں!‘‘ آپ نے ناخوشگوار باتوں کے بارے میں سوچا تھا جیسے گناہوں کا اعتراف کرنا، عبادت میں طویل وقت گزارنا، طویل، اُکتا دینے والی دعائیں۔ آپ میں سے کچھ نے سوچا، ’’وہ کون چاہتا ہے؟ یہ مشکل اور ناگوار لگتا ہے!‘‘ اگلے اِتوار کی رات کو میں نے ’’حیاتِ نو کی مُسرتThe Joy of Revival‘‘ پر منادی کی تھی۔ میں نے کہا تھا لوگ اِس پر شاذونادر ہی بات کرتے ہیں کیونکہ آپ کو اُس مسرت کو جاننے کے لیے ایک حیات نو میں ہونا پڑتا ہے۔ اِس میں ایک مٹھاس ہوتی ہے جس کا زیادہ تر مسیحی کبھی بھی تجربہ ہی نہیں کرتے۔ وہ اِس بات کا احساس کیے بغیر ہی زندگی بسر کرتے ہیں اور مر جاتے ہیں کہ کوئی مٹھاس بھی ہوتی ہے جس کو وہ کبھی بھی جان ہی نہ پائے۔ آپ اِس بات کو الفاظ کے ساتھ واضح نہیں کر سکتے۔ یہ ایسی ہی بات کو سمجھانے کی کوشش کرنا ہوتا ہے جیسے محبت میں پڑنا ہوتا ہے، ایک ایسے شخص کے لیے جس نے کبھی بھی ایک عورت سے محبت ہی نہ کی ہو۔ پرسی سلیج Percy Sledge نے اِس بات کو نقش ہو جانے والے اپنے گیت میں دُرست طور پر بیان کیا، ’’جب ایک آدمی ایک عورت سے محبت کرتا ہے تو کسی بات پر بھی اپنا ذہن قائم نہیں کر سکتا When a man loves a woman, Can’t keep his mind on nothin’ else‘‘۔ وہ تلخ میٹھا احساس سمجھایا نہیں جا سکتا۔ نا ہی حیات نو کے تلخ میٹھے احساس کو سمجھایا جا سکتا ہے۔ جب میں آپ کے ساتھ اِس کے بارے میں بات کرتا ہوں تو آپ میری طرف خالی نگاہوں سے گھورتے ہیں! یہ وہ مٹھاس ہوتی ہے جو کہیں پر بھی نہیں پائی جا سکتی۔ ماسوائے حیاتِ نو میں۔ یہ درخت پر پکی ہوئی خوبانی کی سمجھ سے بالاتر مٹھاس کی مانند ہوتی ہے – جو اب آپ کہیں پر بھی نہیں پا سکتے۔ عضوعی خوراک کے سٹورز میں اِس کا ذائقہ تھوڑا سا ہوتا ہے۔ لیکن اُس جیسا کبھی بھی نہیں جو درخت سے چُنی ہوئی ایک مکمل پکی ہوئی خوبانی میں ہوتا ہے۔ وہ مٹھاس ہے جو اب آپ کبھی بھی کہیں نہیں ڈھونڈ سکتے۔ میں آج ایک ایسے بچے کا تصور بھی نہیں کر سکتا جو اُس جیسی خوبانی کی چاہت کر رہا ہو جیسی میں کرتا تھا جب میں چھوٹا تھا – اپنی دادی کے پچھلے آنگن میں تنہا۔ مجھے یہ یاد ہے، لیکن میں اب اِسے نہیں ڈھونڈ سکتا۔ اب یہ صرف دور کی ایک یاداشت رہ گئی ہے۔ یہ وقت کے ساتھ مدھم ہوتی جاتی ہے، لیکن کبھی بھی اصل میں جاتی نہیں۔ اِس کو دوبارہ چکھنا شاندار ہوگا۔ اگر نہیں، تو یہ آپ کے ذہن کے کسی گوشی میں ہمیشہ کے لیے اٹکی رہتی ہے۔ محض ایک دُھندلائی ہوئی یاداشت – مذید اور ایک حقیقی ذائقہ نہیں، مذید اور ویسی نہیں جیسی پہلے تھی۔ مذید اور ویسی نہیں جیسی یہ 1969 کی گرمیوں میں تھی۔ مذید اور ویسی نہیں جیسی یہ 1972 میں سان فرانسسکو میں تھی۔ مذید اور ویسی نہیں جیسی 1992 میں ورجینیا کے ساحل پر تھی۔ ایک بوڑھے شخص کے ذہن میں دُھندلاتی ہوئی ایک سوچ۔ ایک بوڑھا شخص جو خواہش کرتا ہے کہ اِس کو ایک مرتبہ اور چکھ لے۔ لیکن اب یہ صرف ایک خواب ہے۔ ایک خواب جیسا کافی عرصہ پہلے افریقہ میں ساحل پر ہیمنگوے Hemingway کے بوڑھے شخص نے شیروں کے بارے میں دیکھا تھا۔ ایک خواب جو اُس کو تقریباً ہر روز رات کو آتا ہے۔ ایک خواب جو وہ کبھی بھی بُھلا نہیں سکتا۔

اور یہی تھا جو اشعیا نے محسوس کیا تھا جب اُس نے کہا،

’’کاش کہ تُو آسمان کو چاک کر دے اور نیچے اُتر آئے، اور پہاڑ تیرے حضور میں لرزنے لگیں‘‘ (اشعیا 64:‏1).

کیا آپ آیت میں مٹھاس کو چکھ سکتے ہیں؟ کیا آپ اشعیا نے جو محسوس کیا تھا اُس کا تھوڑا سا بھی محسوس کر سکتے ہیں؟ کیا میں آپ کو یہ تھوڑا بہت محسوس کرا سکتا ہوں؟ میں دعا مانگتا ہوں ایسا ہو جائے۔ آپ شاید اِس کو اُس ’’کاش‘‘ میں محسوس کر سکتے ہیں جس کے ساتھ وہ دعا کا آغاز کرتا ہے۔ ’’کاش کہ تو آسمان کو چاک کر دے اور نیچے اُتر آئے۔‘‘

ڈاکٹر لائیڈ جونز جانتے تھے اشعیا کا مطلب کیا تھا – کیونکہ اُس نے حیاتِ نو کا تجربہ خود کیا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا، ’’سچی دُعا ہمیشہ اُن جیسے لفظ کے استعمال سے مخصوص ہوتی ہے، ’کاش،‘ – ’کاش، کہ تو آسمان کو چاک کر دے اور نیچے اُتر آئے۔‘ اُس لفظ ’’کاش‘‘ کے مقابلے میں کوئی اور لفظ نہیں ہے جو چاہے جانے کے بارے میں اتنا زیادہ متاثرکُن ہو۔ یہ شدید خواہش کی پیاس کا اِظہار کرتا ہے، یہ ایک شخص کی اپنے سہارے کے خاتمے پر پکار، انتظار اور جستجو ہے، خُدا کے لیے چاہت ہے… وہ خُدا پر قائم رہتا ہے… یہ ایک غیرمعمولی تاثر ہے اور اِس کے باوجود یہ کس قدر سچا ہے۔ وہ [حیات نو] کے لیے ایک سچی دعا ہے – نا کہ ہماری خواہش کا ایک سرسرا سا تاثر، کچھ [لاپرواہ] سا اور آدھے دِل کے ساتھ [لیکن] حیات نو میں خُدا کے روح کے آنے کے لیے ایک خاص، مخصوص اور فوری دعا‘‘ (مارٹن لائیڈ جونز، ایم۔ ڈی، Martyn Lloyd-Jones, M.D.، حیاتِ نو Revival، Crossway Books، 1994، صفحہ305)۔

’’کاش کہ تُو آسمان کو چاک کر دے اور نیچے اُتر آئے، اور پہاڑ تیرے حضور میں لرزنے لگیں‘‘ (اشعیا 64:‏1).

وہ ’’کاش‘‘ ظاہر کرتا ہے کہ اشعیا کو خُدا کے نیچے آنے کا چاہت تھی۔ وہ اِس کے لیے اُس آدمی کی مانند چاہت کرتا ہے جو ایک عورت کی چاہت کرتا ہے جسے وہ کھو چکا ہوتا ہے۔ وہ اِس کے لیے ایسی چاہت کرتا ہے جیسی میں نے علیانہ Ileana کے لیے کی تھی جب اُس نے میرا پہلا شادی کا پیغام مسترد کر دیا اور میں نے سوچا تھا کہ میں اُسے ہمیشہ کے لیے کھو چکا ہوں۔ ’’کاش کہ تو… نیچے اُتر آئے۔‘‘ اُس نے اِس کی ایسے ہی چاہت کی جیسے میں نے اپنی ماں کی چاہت کی تھی جب میں نے اُنہیں بارہ برس کی عمر میں کھو دیا تھا اور میں مذید اور اُن کے ساتھ زندگی بسر نہیں کر سکتا تھا۔ ’’کاش کہ تو… نیچے اُتر آئے۔‘‘ اُس نے اِس کی ایسے ہی چاہت کی تھی جیسی میں نے اپنی ماں کی چاہت کی تھی جب وہ مر گئی تھیں۔ کسی اور کے بارے میں مَیں تھوڑا ہی سوچ پایا۔ میں نے اُن کی چاہت کی تھی جب میں صبح سو کر اُٹھا تھا۔ میں نے اُن کی چاہت کی تھی جب میں اُن کے کمرے میں سے گزرا تھا۔ میں نے اُن کی رات گئے میں چاہت کی تھی۔ ہفتہ در ہفتہ، مہینہ در مہینہ، سال کے بعد سال – میں نے اپنی ماں کی آواز کو سُننے اور ایک مرتبہ پھر اُن کے چہرے کو دیکھنے کی چاہت کی تھی۔ ایک ایسی چاہت جس نے کبھی کبھی مجھے آنسوؤں سے رُلایا اور مجھے تیز گزرگاہ سے پرے گاڑی کھڑی کر کے رُکنا پڑ جاتا۔ ٗایسے ہی نبی نے خُدا کے ’’نیچے اُتر آنے‘‘ کے لیے چاہت کی تھی۔ اور اگر آپ اور میں خُدا کے نیچے آنے کے لیے چاہت کر سکتے ہیں، جیسے میں نے اپنی ماں کے لیے چاہت کی تھی، تو یہ ایک بشارت ہو گی، ایک علامت ہو گی، کہ ہم اِن بُرے دِنوں میں جن میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں اپنے گرجہ گھر میں شاید حیات نو کو نیچے آتے ہوئے دیکھ پائیں۔

کیا آپ کسی ایسی چیز کی چاہت کر سکتے ہیں جو آپ نے پہلے کبھی بھی نہیں دیکھی ہو؟ کیا آپ کسی ایسی چیز کی پیاس کر سکتے ہیں جو آپ نے کھبی بھی نہ پی ہو؟ کیا آپ کبھی کسی ایسی چیز کے لیے بھوکے رہ سکتے ہیں جس کا آپ نے کبھی بھی ذائقہ ہی نہ چکھا ہو؟ میرے ابو جب میں دو سال کا تھا چھوڑ کر چلے گئے۔ مجھے کبھی یاد نہیں ہے میرا گھر دوسرے بچوں کی مانند ہوا کرتا تھا۔ میرا کبھی گھر نہیں تھا، لیکن میں ایک گھر کی چاہت کیا کرتا تھا۔ میں نے کبھی بھی خود اپنے گھر کا تجربہ نہیں کیا تھا، لیکن میں ایسے ہی ایک گھر کی چاہت کیا کرتا تھا۔ میں ایک خاندان کے لیے ترستا تھا جو کبھی بھی میرے پاس نہیں تھا۔ ایسے ہی ہوتا ہے جب ہم حیاتِ نو کے لیے تڑپتے ہیں، آرزو کرتے ہیں اور بھوک رکھتے ہیں۔ کافی عرصہ پہلے چینی گرجہ گھر کے اُس پہلے کیمپ میں جس میں مَیں گیا تھا، ہم نے ایک کورس بار بار گایا۔ میں نے اُس کے بعد سے اِس کو کبھی بھی نہیں سُنا – تقریباً ساٹھ سال پہلے۔ لیکن جب میں یہ واعظ لکھ رہا تھا تو یہ میرے ذہن میں سے گزرا۔

میرے دِل میں یسوع کے لیے ایک چاہت ہے،
میرے دِل میں اُس کے لیے ایک چاہت ہے۔
صرف اُس کے قریب ہونے، اُس کی موجودگی کو محسوس کر نے کے لیے
میرے دِل میں اُس کے لیے چاہت ہے۔
   (’’میرے دِل میں یسوع کے لیے چاہت ہےLonging For Jesus‘‘ شاعر رچرڈ ڈی۔ بیکر Richard D. Baker)۔

جب ہم اُس میں سے کچھ محسوس کرنا شروع کر دیتے ہیں، تو ہماری دعائیں بدل جائیں گی۔ کیونکہ خُدا پہلے ہی سے ہمیں بدل رہا ہوتا ہے، اور ہمارے ٹھنڈے دِلوں کو پگھلا رہا ہوتا ہے! تب ہماری دعائیں محض الفاظ ہی نہیں رہیں گی۔ وہ اُس چاہت کے ساتھ لبریز ہو جائیں گی جس سے اشعیا لبریز تھا۔

’’کاش، کہ تو نیچے اُتر آئے۔‘‘
   ’’کاش، کہ تو نیچے اُتر آئے!‘‘
      ’’کاش، کہ تو نیچے اُتر آئے!‘‘

وہ ایک حقیقی دعا ہے! وہ ایک علامت ہے جس کے لیے ہم چاہت کرتے ہیں، تڑپتے ہیں اور خُدا سے ہمارے درمیان نیچے آنے کے لیے التجا کرتے ہیں۔ یہ خُدا پر چیخنے والی ایک دعا نہیں ہے۔ یہ ایک سوچی سمجھی، آنسوؤں سے بھری ہوئی اُس کے نیچے آنے کے لیے دعا ہے۔ آپ کہتے ہیں، ’’میں اُس طرح دعا نہیں مانگ سکتا!‘‘ بیشک آپ ابھی ویسی دعا نہیں مانگ سکتے! چاہے کسی نے کہا ہو آپ مانگ سکتے ہیں؟ لیکن جب خُدا ہمارے گرجہ گھر کام کو شروع کرے گا تو وہ آپ کو اُس کی مانند دعا مانگنے کے قابل بنا دے گا۔ جب خُدا آپ کو ویسا قابل بنا دے گا تو یہ ایک علامت ہوگی کہ وہ ہمیں پہلے ہی سے ایک حیات نو میں لا چکا ہوا ہے۔ بائبل کہتی ہے، ’’تیری لشکر کشی کے دِن تیرے لوگ خوشی سے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں‘‘ (زبور110:‏3)۔ یہ خُدا ہے جو ہمارے دِلوں اور ہمارے آنکھوں میں آنسو لاتا ہے۔ جب ہم اُس کے نیچے آنے کے لیے چاہت کرتے ہیں اور تڑپتے ہیں، یہ ایک علامت ہوتی ہے کہ خُدا ہمارے دِلوں کو پگھلا رہا ہے، ہماری دعاؤں کو بدل رہا ہے، اور ہمیں حیات نو میں لا رہا ہے۔ درحقیقت ہم پہلے ہی سے حیات نو ہی میں جا رہے ہوتے ہیں جب خُدا سوچ سے بھری ہوئی، اُس کے نیچھے آنے کے لیے اور اُس کی حضوری میں دوبارہ زندگی بسر کرنے کے لیے آنسوؤں سے بھری ہوئی ہماری دعا مانگنے کا سبب بنتا ہے۔ جب تک ہماری دعائیں ایسی رہتی ہیں جیسی اب ہیں، تو ہم یقین کر سکتے ہیں کہ خُدا ہمیں تحریک نہیں دے رہا ہے۔ ہماری دعائیں سرد اور میکینکی سی ہی رہیں گی، جیسی کہ وہ اب ہیں، جب تک کہ خُدا ہمارے دِلوں کو پگھلا نہیں دیتا اور ہماری آنکھوں کو اُس کے ہمارے درمیان نیچے آنے کے لیے آنسوؤں سے لبریز نہیں کر دیتا، جب کہ وہ ہمیں یہ احساس کرنے پر مجبور نہیں کرا دیتا کہ ہم اُس کی موجودگی کے بغیر کس قدر بے بس ہیں۔ جب ہم اپنی بے بسی احساس کرتے ہیں تو ہم اُسے پکاریں گے اور اُس سے نیچے آنے اور ہمیں اور ہمارے گرجہ گھر کو بدلنے کے لیے التجا کریں گے۔

جب میں نو برس کی عمر کا تھا تو میں ایک بہت بڑے ڈپارٹمنٹل سٹور میں گم ہو گیا تھا۔ میں اوپر اور نیچے طویل تنگ راستوں پر اپنی ماں کو ڈھونڈنے کے لیے دوڑتا پھرا۔ میں خوفزدہ تھا۔ میں پسینے میں بھیگ گیا تھا۔ میں کھو چکا تھا! میں رویا اور دعا مانگی اور خُدا سے اپنی امی کو ڈھونڈنے کے لیے مدد کی التجا کی۔ اِس ہی طرح سے ہم حیات نو میں خُدا کی موجودگی کے لیے دعا مانگتے ہیں۔ یہ کچھ ہے جو ہم اپنی روح کی گہرائی میں محسوس کرتے ہیں، کیونکہ خُدا ہم میں اُس احساس کو ڈالتا ہے۔ ہم جُدائی میں غمزدہ محسوس کرتے ہیں – ایک شخص کی مانند جس کی بیوی مر چکی ہے اور اُس کو تنہا چھوڑ چکی ہے ایک سرد اور تنہا گھر میں۔ ہم محسوس کرتے کہ ہمارا گرجہ گھر تنہا اور سرد ہے کیونکہ ہمارے پاس ہمارے درمیان خُدا نہیں ہے۔ ہم اُس کو شدت کےساتھ چاہتے ہیں! ہمیں اُس کو پانا ہی چاہیے!

’’کاش کہ تُو آسمان کو چاک کر دے اور نیچے اُتر آئے، اور پہاڑ تیرے حضور میں لرزنے لگیں‘‘

اگر ہم ایسے دعا مانگیں، اپنے دِلوں اور اپنی آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ، یہ ایک علامت ہے کہ خُدا ہمارے درمیان حرکت کر رہا ہے۔ یہ شاید حیاتِ نو کی ایک بشارت ہو سکتی ہے۔ میں مردوں اور عورتوں کو خُدا کے لیے تڑپتا ہوا دیکھنے کی چاہت کرتا ہوں، اُس کی موجودگی کے لیے تڑپتا ہوں، اُس کے نیچے آنے کے لیے تڑپتا ہوا! اُس کا ہمارے درمیان نیچے آنے کے لیے دعا میں روتے ہوئے۔ یہ اکثر ایک بشارت ہوتی ہے، خُدا کے فضل کی ایک علامت۔ جب وہ اُس کی موجودگی کے لیے ہمیں آنسوؤں کے ساتھ دعا مانگنے کے قابل بناتا ہے تو اِس کا شاید مطلب ہوتا ہے کہ وہ آسمان کو چاک کرنے جا رہا ہے اور ایک نئے اور زندہ انداز میں نیچے آنے جا رہا ہے۔

میرے لوگ کینیڈا میں کسان تھے اور نیبراسکا میں اور میسوری میں کسان تھا۔ میرے خوابوں میں اُن کو میں پرانے وقتوں کے بارے میں باتیں کرتا ہوا سُن سکتا ہوں۔ میری ماں کی یاداشت سیدھی ماضی میں 19ویں صدی کے وسط میں اپنے والد سے اور دادا اونیل O’Neill سے چلی جاتی تھی۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں ماضی میں بہت پیچھے لنکن اور خانہ جنگی کو یاد کر سکتا ہوں۔ اور اُن دِنوں میں ہسپتال نہیں ہوا کرتے تھے جیسے اب ہمارے پاس ہوتے ہیں۔ اور کہیں پینسِلین نہیں ہوا کرتی تھی، اور کوئی دوائیوں کی دکانیں اور دوائیاں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ وہ چراغ میں سے کچھ کوئلے کا تیل لیتے اور اُس کو تھوڑی سی چینی اور تھوڑی سی وھسکی کے ساتھ ملاتے تھے۔ وہ واحد دوائی تھی جو اُن کے پاس ہوا کرتی تھی۔ میری دادی اپنی خود ہی ڈاکٹر تھیں۔ جب ڈاکٹر آتا تو وہ نشے میں ہوتا تھا۔ وہ اُس کو بستر پر لٹاتی، اور اپنے بچے کو خود ہی جنم دیتی، اور ناف کی ناڑ کو قینچی کے ساتھ خود ہی کاٹتیں۔ تمام عورتوں میں تین تہائی سے کچھ زیادہ بچے کی پیدائش میں مر جاتی تھیں۔ آدھے بچے ایک سال کی عمر سے پہلے ہی مر جاتے تھے۔ زندہ رہنا دشوار تھا، اور مرنا دشوار تھا۔ جب ایک شخص مرتا تھا تو وہ اُس کو صنوبر کی لکڑی کے تابوت میں رکھتے اور جسم کو بیٹھک میں ایک دِن اور ایک رات کے لیے گھر کے پیچھے ایک درخت کے نیچے اُسے دفانے سے پہلے رکھتے تھے۔ موت اِس قدر عام تھی کہ وہ جنت کے بارے میں کافی زیادہ سوچتے تھے۔

ہم اب اِس قدر بے عیب اور اِس قدر ہوشیار ہیں کہ ہم اِس کے بارے میں کبھی بھی نہیں سوچتے۔ آج جنت ہمیں عجیب دکھاتی دیتی ہے۔ لیکن اُس وقت وہ انتہائی حقیقی تھا – کیونکہ موت اور زندگی کے درمیان صرف ایک ہی قدم ہوتا تھا – اُن دِنوں میں عظیم میدانوں Great Plains میں اور امریکہ کے جنوب مغربی ریگستانوں میں۔ اور میرے لوگ جنت کے بارے میں سوچا کرتے۔ وہ اِس کے بارے میں گیت گاتے۔ وہ اِس کے بارے میں باتیں کرتے۔ وہ اِس کے بارے میں منادی کرتے۔ جنت ہمیشہ اُن کے ذہنوں پر سوار رہتی تھی۔ اور اُن کے گیت آج رات میرے ذہن میں دھیرے دھیرے آتے ہیں۔

جب ہم سارے جنت میں پہنچیں گے،
   وہ کس قدر خوشی منانے کا دِن ہوگا!
جب ہم سارے یسوع کو دیکھیں گے،
   ہم گائیں گے اور فتح کے نعرے لگائیں گے!
(’’جب ہم سارے جنت میں پہنچیں گے When We All Get to Heaven‘‘
      شاعر علیزہ ای۔ ھیووِٹ Eliza E. Hewitt)۔

جب ناموں کی فہرست اوپر پرے بُلائی جائے گی،
   جب ناموں کی فہرست اوپر پرے بُلائی جائے گی،
جب ناموں کی فہرست اوپر پرے بُلائی جائے گی،
   جب ناموں کی فہرست اوپر پرے بُلائی جائے گی
میں وہیں ہوؤں گا!
(’’ جب ناموں کی فہرست اوپر پرے بُلائی جائے گی When the Roll is Called up Yonder‘‘
      شاعر جیمس ایم۔ بلیک James M. Black)۔

اُس پیارے اختتام میں
   ہم اُس خوبصورت ساحل پر ملیں گے؛
اُس پیارے اختتام میں
   ہم اُس خوبصورت ساحل پر ملیں گے۔
(’’اُس پیارے اختتام میں In the Sweet By and By‘‘ شاعر سانفورڈ ایف۔ بینیٹ
      Sanford F. Bennett)۔

اُس معمور شہر میں،
   موتیوں جیسے سفید شہر میں،
میرے پاس ایک محل،
   لبادہ اور تاج ہے،
میں اب دیکھ رہا ہوں،
   انتظار کر رہا ہوں اور چاہت کر رہا ہوں،
کیونکہ اُس سفید شہر
   جلد ہی نیچے آ رہا ہے ۔
(’’موتیوں جیسا سفید شہر The Pearly White City‘‘
      شاعر آرتھر ایف۔ اِنگلر Arthur F. Ingler، 1902)۔

بیولا سرزمین، میں تیری چاہت کرتا ہوں،
   اور کسی نہ کسی دِن میں تجھ پر قدم رکھوں گا،
وہاں پر میرا گھر دائمی ہوگا،
   بیولا سرزمین، پیاری بیولا سرزمین۔
(’’پیاری بیولا سرزمین Sweet Beulah Land‘‘ شاعر سکوئر پارسنز Squire Parsons)۔

کیا وہ غلط تھے؟ جی نہیں، پرانے وقتوں کے لوگ دُرست تھے۔ یہ ہم ہیں جو غلط ہیں۔ ہم سخت، پتھردِل اور مادیت پرست ہو چکے ہیں۔ ہم کبھی بھی بیولا سرزمین کے بارے میں نہیں سوچتے۔ ہم کبھی بھی موتیوں جیسے سفید شہر کے یا اُس پیارے اختتام کے بارے میں بات نہیں کرتے۔ لیکن یہ اِس لیے نہیں ہوتا ہے کیوں ہم ہوشیار ہیں۔ یہ اِس لیے ہوتا ہے کیونکہ ہم غلطی پر ہیں، جتنے وہ تھے اُن کے مقابلے کہیں زیادہ غلطی پر ہیں۔ وہ ابراہام کی مانند تھے، جو ’’اُس پائیدار شہر کے اُمیدوار تھے جس کا معمار اور بنانے والا خُدا ہے‘‘ (عبرانیوں11:‏10)۔ خُدا ابراہام کو برکت دے! خُدا اُن مضبوط اور تنومند بانیوں کو جنہوں نے زمین پر امریکہ کو ایک عظیم قوم بنایا برکت دے۔ وہ جنت میں یقین رکھتے تھے۔ وہ اُن کے لیے انتہائی حقیقی تھی۔ اُنہوں نے اُس کو ایسے ہی دیکھا تھا جیسے ابراہام نے دیکھا تھا – ایمان کی آنکھوں کے ساتھ۔ اُنہوں نے اُس کی چاہت کی تھی۔ وہ اِس کے لیے تڑپے تھے۔ اُنہوں نے ہر روز اِس کے بارے میں سوچا تھا۔ حالانکہ اُنہوں نے اِس کو کبھی بھی نہیں دیکھا تھا، وہ یسوع کے ساتھ ہونے کے لیے جنت کے بھوکے تھے۔

اور اِس ہی طرح سے ہے کہ آج خدا ہمیں بنا سکتا ہے۔ کیونکہ، آپ نے دیکھا، حیاتِ نو آسمان کا چیرا جانا، ایک دوسری ہی وسعت سے، زمین پر ہمارے زندگیوں میں جب خدا نیچے آتا ہے۔ جیسا کہ جان ڈبلیو پیٹرسن اِس کو لکھتے ہیں، ’’آسمان نیچے آ گیا اور جلال نے میری جان کو لبریز کر دیا Heaven came down and glory filled my soul‘‘۔

وہ حیات نو ہے! یہ خُدا ہے جو ایک دوسری ہی وسعت میں سے نکل رہا ہے – ہمارے گرجہ گھر میں، ہماری زندگیوں میں، اور ہمارے دِلوں میں! خدا ہمیں دائمی جلال کا ذائقہ بخش رہا ہے! خُدا ہمیں زمین پر جنت کا تھوڑا سے مزا بخش رہا ہے! خدا ہمیں نئی زندگی بخش رہا ہے، نئی قوت اور نئی اُمید! کیا آپ یہ نہیں چاہتے؟ کیا آپ کو اِس کی چاہت نہیں ہے؟ کیا آپ اُس کی موجودگی، اُس کی محبت، اور ہمارے گرجہ گھر اور ہمارے دِلوں کو اُس کی مسرت سے بھرنے کے لیے نہیں تڑپتے؟ اگر آپ تڑپتے ہیں، تو اِس کے لیے شدید دعا مانگیں! اِس کے لیے ہر روز دعا مانگیں! اِس کے لیے بغیر رُکے دعا مانگیں! اُس وقت تک دعا مانگیں جب تک وہ آ نہیں جاتا۔ اور پھر خُدا کا اِس کے لیے شکریہ ادا کریں۔ یہ ہمیشہ کے لیے آپ کی زندگی کو بدل دے گا۔ اور آپ جب تک زندہ رہیں گے اِس کو کبھی بھی نہیں بھول پائیں گے! ہر اُس گناہ کو جو خُدا کے چہرے کو چُھپا دیتا ہے ایک طرف رکھ دیں۔ ایک دوسرے سے اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور ایک دوسرے کے لیے دعا مانگیں کہ ہم شفا پا جائیں۔ ہر روز حیات ںو کے لیے جئیں اور سانس لیں۔ دِن کے ہر لمحے میں اِس کے بارے میں سوچیں۔ اِس کی چاہت کریں۔ اِس کے لیے تڑپیں۔ خدا سے اِس کے لیے منت سماجت کریں۔ مانگیں، ڈھونڈیں اور اِس کے لیے کھٹکھٹائیں۔ یسوع نے کہا، ’’جب تم بُرے ہو کر بھی اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو کیا آسمانی باپ اُنہیں پاک روح افراط سے عطا نہ فرمائے گا جو اُس سے مانگتے ہیں؟‘‘ (لوقا11:‏13)۔ اور ہر صبح اشعیا کی دعا مانگیں، ہر دوپہر، اور ہر رات کو جب تک کہ ہمارے گرجہ گھر کے لیے اور ہماری زندگیوں کے لیے جواب مل نہیں جاتا!

’’کاش کہ تُو آسمان کو چاک کر دے اور نیچے اُتر آئے، اور پہاڑ تیرے حضور میں لرزنے لگیں‘‘ (اشعیا 64:‏1).

مہربانی سے کھڑیں ہوں اور حمدوثنا کا گیت نمبر سات ’’میرے سارے تخلیل کو پورا کر دے Fill All My Vision‘‘ گائیں۔

میرے سارے تخّیل کو پورا کر، نجات دہندہ، میں دعا مانگتا ہوں،
   آج مجھے صرف یسوع کو دیکھ لینے دے؛
حالانکہ وادی میں سے تو میری رہنمائی کرتا ہے،
   تیرا کھبی نہ مدھم ہونے والا جلال میرا احاطہ کرتا ہے۔
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، الٰہی نجات دہندہ،
   جب تک تیرے جلال سے میری روح جمگا نہ جائے۔
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، کہ سب دیکھ پائیں
   تیرا پاک عکس مجھے میں منعکس ہوتا ہے۔

میرے سارے تخّیل کو پورا کر، ہر خواہش
   اپنے جلال کے لیے رکھ لے؛ میری روح راضی ہے
تیری کاملیت کے ساتھ، تیری پاک محبت سے
   آسمانِ بالا سے نور کے ساتھ میری راہگزر کو بھر دیتی ہے
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، الٰہی نجات دہندہ،
   جب تک تیرے جلال سے میری روح جمگا نہ جائے۔
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، کہ سب دیکھ پائیں
   تیرا پاک عکس مجھے میں منعکس ہوتا ہے۔

میرے سارے تخّیل کو پورا کر، گناہ کے نتیجہ کو ناکام کر دے
   باطن میں جگمگاتی چمک کو چھاؤں دے۔
مجھے صرف تیرا بابرکت چہرہ دیکھنے لینے دے۔
   تیرے لامحدود فضل پر میری روح کو لبریز ہو لینے دے۔
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، الٰہی نجات دہندہ،
   جب تک تیرے جلال سے میری روح جمگا نہ جائے۔
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، کہ سب دیکھ پائیں
   تیرا پاک عکس مجھے میں منعکس ہوتا ہے۔
(’’میرے سارے تخّیل کو پورا کرFill All My Vision‘‘ شاعر ایوس برجیسن کرسچنسن
      Avis Burgeson Christiansen، 1895۔1985)۔

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔ نوح سُونگ Noah Song، ہارون یعنسی Aaron Yancy اور جان کیگن Cagan، مہربانی سے دعا میں ہمارے رہنمائی کریں، اِسی ترتیب میں (دعائیں)۔

اور اب مجھے آپ میں سے اُن کے ساتھ بات کرنی چاہیے جو ابھی تک مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔ یسوع صلیب پر آپ کے گناہ کی ادائیگی کے لیے قربان ہو گیا تھا۔ یسوع نے اُس صلیب پر اپنا خون آپ کو تمام گناہ سے پاک صاف کرنے کے لیے بہایا۔ وہ جسمانی طور پر آپ کو دائمی زندگی بخشنے کے لیے مُردوں میں سے زندہ ہو گیا۔ وہ اب ایک دوسری وسعت میں، اُوپر تیسرے آسمان میں، خُدا باپ کے داھنے ہاتھ پر ہے۔ اگر آپ یسوع پر بھروسہ کرتے ہیں تو آپ گناہ اور فیصلے سے نجات پا لیں گے۔ جب آپ توبہ کرتے اور یسوع پر بھروسہ کرتے ہیں تو آپ کے گناہ اُس کے پاک خون کے وسیلے سے دُھل جاائیں گے۔

اگر آپ یسوع پر بھروسہ کرنے کے بارے میں مشاورت کرنا چاہتے ہوں تو آپ کو ڈاکٹر کیگن کے ساتھ اپنی مشاورت کرنے کے لیے ملاقات طے کرنی پڑے گی۔ یا آپ اُنہیں اُن کے گھر کے نمبر پر ایک ملاقات طے کرنے کے لیے ہفتے کے دوران فون کر سکتے ہیں یا آپ اُن کے ساتھ آج کی رات ملاقات طے کرنے کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔ آمین۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے دُعّا مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: اشعیا 64:‏1۔4۔
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’او زندگی کی سانسO Breath of Life‘‘
(شاعر بیسی پی۔ ھیڈ Bessie P. Head، 1850 – 1936)۔