Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


حیاتِ نو کا ایک تصور

A VISION OF REVIVAL
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
3 جولائی، 2016، خُداوند کے دِن کی شام
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord's Day Evening, July 3, 2016

میرے ساتھ اشعیا64:1 کھولیں۔ یہ سیکوفیلڈ مطالعۂ بائبل کے صفحہ 768 پر ہے۔

’’کاش کہ تُو آسمان کو چاک کردے اور نیچے اُتر آئے، اور پہاڑ تیرے حضور میں لرزنے لگیں! جس طرح آگ سوکھی ٹہنیوں کو جلا دیتی ہے اور پانی میں اُبال لاتی ہے، اُسی طرح تُو نیچے آکر اپنا نام اپنے دشمنوں میں مشہور کر کہ تیری حضوری میں قوموں پر کپکپی طاری ہو جائے! کیونکہ جب تُو نے ایسے بھیانک کام کیے جن کی ہمیں توقع نہ تھی، تب تُو نیچے اُتر آیا اور پہاڑ تیرے سامنے تھر تھرا اُٹھے۔ کیونکہ قدیم زمانہ ہی سے نہ کسی نے سُنا، نہ کسی کان تک پہنچا، اور نہ کسی آنکھ نے تیرے سوا کسی اور خدا کو دیکھا، جو اپنے انتظار کرنے والوں کی خاطر کچھ کر دکھائے۔‘‘ (اشعیا 64:1۔4).

آمین۔ آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

حیاتِ نو شروع میں اُن لوگوں میں آتا ہے جو پہلے ہی سے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو چکے ہوتے ہیں۔ مگر اُن کو اپنی زندگیوں میں خُدا کی حقیقی حضوری کی آگاہی نہیں ہوتی ہے۔ وہ گرجہ گھر عادتاً آتے ہیں، مگر اُن میں خُدا کی حضوری کے کسی زندہ احساس کی سمجھ نہیں ہوتی ہے۔ وہ دعا مانگتے ہیں، مگر یہ احساس ہوتا ہے جیسے وہ صرف الفاظ ہی ادا کر رہے ہیں۔ خُدا اصل میں اُن کو سُن رہا ہے اِس بات کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ وہ محسوس نہیں کرتے کہ اُن کی دعاؤں کا جواب دیا جائے گا۔ اُنہیں احساس نہیں ہوتا کہ خُدا اُن کو سُن رہا ہے۔ وہ یہاں تک کہ شاید دعائیہ اِجلاسوں میں کافی شاندار طور سے دعا مانگتے ہیں۔ اُن کی دعائیں شاید قوت سے بھرپور لگیں۔ مگر اُن کے پاس خُدا کے ساتھ کوئی بھی اندرونی تبدیلی ہوتی۔ اکثر حیاتِ نو میں وہ لوگ جو شدید قوت کے ساتھ دعا میں رہنمائی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں وہی سب سے پہلے ہوتے ہیں جنہیں احساس ہوتا ہے کہ اُن کے ’’گناہوں نے اُسے [خُدا کو] اُن سے ایسا روپوش کیا کہ وہ اُن کی سُنتا ہی نہیں‘‘ (اشعیا59:2)۔

حیاتِ نو اکثر اُس وقت شروع ہوتا ہے جب کوئی رہنما جو ایک اچھا مسیحی ہوتا ہے اُس کو احساس ہوتا ہے کہ اُس کے گناہ کی وجہ سے وہ خُدا کی موجودگی کے پاک اور محبت بھرے احساس کو کھو چکا ہے۔ کچھ ہی دیر میں مَیں ایک عظیم حیاتِ نو کا ایک واقعہ پڑھوں گا۔ وہ کیسے شروع ہوا؟ وہ ہفتے کی رات کو ایک دعائیہ اِجلاس میں شروع ہوا تھا۔ وہ روزمرّہ کی دعائیں تھیں، مگر اِجلاس میں خُدا کی موجودگی کا کوئی احساس نہیں تھا۔ ’’پھر ایک پادری صاحب کی برداشت سے باہر ہو گیا اوروہ رو پڑے۔ یہ ایک انتہائی غیرمعمولی بات تھی۔‘‘ اُنہوں نے کُھلم کُھلا ساری جماعت کے سامنے اقرار کیا ’’کہ اُن کا دِل سخت ہو چکا تھا۔‘‘ جب وہ اپنی آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ بول رہے تھے، تو سزایابی ’’پھیل کر سسکیوں، ماتم اور ہچکیوں میں… سارے کے سارے اِجلاس میں سے۔‘‘ یہ تمام کے تمام مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے لوگ تھے، مگر پادری صاحب کے کُھلم کُھلا اعتراف نے اُنہیں احساس دِلا دیا کہ اُن کے دِل بھی سخت ہو چکے تھے۔ ’’اِجلاس جاری رہا یہاں تک کہ صبح کے دو بج گئے… اور یہ اِسی موقع پر تھا کہ اِجلاس میں پاک روح نازل ہوا تھا۔‘‘

جب میں حیاتِ نو کا تذکرہ کرتا ہوں تو آپ میں سے کچھ جو کئی سالوں سے یہاں پر آتے رہے ہیں اِس کو سُننا نہیں چاہتے۔ یہ اِس لیے ہے کیونکہ آپ نے کبھی بھی ایک حیاتِ نو کو نہیں دیکھا اور نہیں جانتے کہ ہم کس چیز کو کھو رہے ہیں۔ جان کیگن John Cagan نے مجھے بتایا کہ میں حیاتِ نو چاہتا ہوں کیونکہ میں ’’اِس کو چکھ‘‘ سکتا ہوں۔ میں نے ایک حیاتِ نو کو دیکھا اور مجھے اِس کا ’’مزہ‘‘ پسند آیا اور میں اِسے دوبارہ چاہتا ہوں۔ آپ نے اِس کا کبھی بھی مزہ نہیں لیا اِس لیے آپ سوچتے ہیں، ’’پادری صاحب کس بارے میں بات کر رہے ہیں؟ وہ کیوں حیاتِ نو کے بارے میں بتانا جاری رکھتے ہیں؟‘‘ اگر آپ کو کبھی بھی اِس کا مزہ مِل جائے تو آپ بھی اِس کو چاہیں گے۔ آپ بھی اِس کی مانگ کریں گے۔ آپ خُدا کی ہمارے درمیان موجودگی کے لیے چاہت کریں گے۔

آج کی صبح میں نے ’’نئی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ The New Baptist Tabernacle‘‘ پر منادی کی تھی۔ مگر ہم چند چیزیں بدل دینے سے اور گرجہ گھر کی ’’مشینری‘‘ کے ساتھ میکینکی کرنے سے ایک نئے گرجہ گھر کی تخلیق نہیں کر سکتے۔ ہمیں نئی زندگی پانی چاہیے! اور نئی زندگی صرف خُدا کی طرف سے آ سکتی ہے۔ ڈاکٹر اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر Dr. A. W. Tozer نے کہا، ’’خُدا زندگی کی پیشکش کرتا ہے، مگر ایک سُدھری ہوئی پرانی زندگی نہیں۔ وہ موت میں سے زندگی کی پیشکش کرتا ہے… کیونکہ زندگی کے لیے ہم مکمل طور سے اور مسلسل خُدا پر انحصار کرتے ہیں، کیونکہ وہی زندگی کا چشمہ اور منبع ہے۔‘‘ ہم بپتسمہ دینے والی ’’نئی‘‘ عبادت گاہ نہیں پا سکتے جب تک ہمارے دِلوں کی تجدید نہیں ہو جاتی، وہ نئے نہیں ہو جاتے، بحال نہیں ہو جاتے اور خُدا کے پاک روح کے وسیلے سے دوبارہ نئی زندگی نہیں پاتے۔ یہ ایک لفظ ہے جو اِس کو بیان کرتا ہے۔ وہ لفظ حیاتِ نو ہے! ہماری تلاوت میں حیاتِ نو ہی ہے جس کے لیے اشعیا دعا مانگ رہا ہے،

’’کاش کہ تُو آسمان کو چاک کردے اور نیچے اُتر آئے، اور پہاڑ تیرے حضور میں لرزنے لگیں! جس طرح آگ سوکھی ٹہنیوں کو جلا دیتی ہے اور پانی میں اُبال لاتی ہے، اُسی طرح تُو نیچے آکر اپنا نام اپنے دشمنوں میں مشہور کر کہ تیری حضوری میں قوموں پر کپکپی طاری ہو جائے! کیونکہ جب تُو نے ایسے بھیانک کام کیے جن کی ہمیں توقع نہ تھی، تب تُو نیچے اُتر آیا اور پہاڑ تیرے سامنے تھر تھرا اُٹھے۔ کیونکہ قدیم زمانہ ہی سے نہ کسی نے سُنا، نہ کسی کان تک پہنچا، اور نہ کسی آنکھ نے تیرے سوا کسی اور خدا کو دیکھا، جو اپنے انتظار کرنے والوں کی خاطر کچھ کر دکھائے۔‘‘ (اشعیا 64:1۔4).

میں ’’میرے سارے تخّیل کو پورا کرFill All My Vision‘‘ کو گانا روک نہیں سکتا۔ جب میں پارک میں ٹہلتا اور دعا مانگتا ہوں، میں یہ گاتا ہوں۔ جب میں ایک واعظ کو تیار کر رہا ہوتا ہوں، میں یہ گاتا ہوں۔ میں اِس کو سارا سارا دِن گُنگُناتے ہوئے خود کو پاتا ہوں۔ یہ آخری چیز ہوتی ہے جو میں خود کو گا کر سُناتا ہوں جب میں رات کو بستر پر جاتا ہوں۔

میرے سارے تخّیل کو پورا کر، الٰہی نجات دہندہ،
   جب تک تیرے جلال سے میری روح جمگا نہ جائے۔
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، کہ سب دیکھ پائیں
   تیرا پاک عکس مجھ میں منعکس ہوتا ہے۔
(’’میرے سارے تخّیل کو پورا کرFill All My Vision‘‘ شاعر ایوس برجیسن کرسچنسن
      Avis Burgeson Christiansen، 1895۔1985)۔

کھڑے ہو جائیں اور میرے ساتھ اُس کورس کو گائیں۔

میرے سارے تخّیل کو پورا کر، الٰہی نجات دہندہ،
   جب تک تیرے جلال سے میری روح جمگا نہ جائے۔
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، کہ سب دیکھ پائیں
   تیرا پاک عکس مجھ میں منعکس ہوتا ہے۔

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

اشعیا نے دعا مانگی تھی، ’’کاش کہ تُو آسمان کو چاک کردے [اُنہیں پھاڑ کر کُھلا کر دے] اور نیچے اُتر آئے، اور پہاڑ تیرے حضور میں لرزنے لگیں‘‘ (اشعیا64:1)۔ ڈاکٹر لائیڈ جونز Dr. Lloyd-Jones نے اُس کو ’’حیات نو [کے لیے] حتمی دعا‘‘ کہا تھا (مارٹن لائیڈ جونز، ایم۔ ڈی۔Martyn Lloyd-Jones, M.D.، حیاتِ نو Revival، کراسوے کُتب Crossway Books، 1992 اشاعت، صفحہ 305)۔

مجھے شدت کے ساتھ افسوس ہوتا ہے کہ میں نے جو ہمارے گرجہ گھر لاس اینجلز کا پہلا چینی بپتسمہ دینے والا گرجہ گھر First Chinese Baptist Church of Los Angeles میں حیاتِ نو آیا تھا اُس کے کھاتے کی کتاب نہیں بنائی تھی۔ یہ آپ کو ایک جھلک پیش کر پاتی کہ آپ کو دعا کس بات کے لیے مانگنی چاہیے۔ مگر، افسوس، میں نے اِس کا کوئی تحریر حساب کتاب نہیں رکھا۔ جو سب سے بہتر میں کر سکتا ہوں وہ ہے آپ کو ایک دوسرے حیات نو کا واقعہ پیش کروں، وہ والا جو کافی حد تک بالکل اُس عظیم حیاتِ نو جیسا تھا جسے میں نے 1960 کی دہائی کے آخر میں چینی گرجہ گھر میں دیکھا تھا۔ اِس واقعہ کو محترم ڈیوڈ ڈیوس صاحب Rev. David Davies نے 1989 میں پیش کیا تھا۔ میں آپ کو اِس میں سے اِقتباسات پیش کر رہا ہوں۔ محترم ڈیوس نے کہا،

     … یہ انجیلی بشارت کے پرچار کی کوئی مہم نہیں تھی، اور نہ یہ کوئی اپنی طرف سے پھیلائی ہوئی کوئی بات تھی۔ حیاتِ نو ہوتا ہے جب خُدا اپنی موجودگی میں نیچے آتا ہے۔

اُنہوں نے کہا،

     میں ہمارے علاقے میں بےشمار گرجہ گھروں کا رہنما تھا۔ وہ ڈھیر ساری سرگرمی کے ساتھ مصروف گرجہ گھر تھے۔ ہمارے کئی اِجلاس ہوتے تھے… مگر لوگ ٹھنڈے پڑتے جا رہے تھے؛ وہ دعائیہ اِجلاسوں میں آنے کے لیے اب اتنے بیقرار نہیں ہوتے تھے جیسے کہ وہ ہوا کرتے تھے۔ بغیر کسی شک کے نجات وہاں پر تھی اور لوگ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل بھی ہوئے تھے، مگر کسی نہ کسی بات کی کمی تھی۔ ایک مبلغ نے مجھے بتایا، ’’ہم باہر والوں میں اچھائی ڈھونڈتے ہیں۔‘‘ [میری راے: کیا آپ کو کبھی کبھی محسوس نہیں ہوتا کہ ہماری عبادتوں میں کسی نہ کسی بات کی کمی ہے؟]
     کسی نے رہنماؤں کو مجبور کیا کہ مہینے میں ایک سارا دِن دعا میں صرف کیا جائے۔ ہم نے کیا۔ ہم میں سے کچھ کی تعداد آگاہ ہو گئی کہ ہم خُدا کے لیے بیقرار نہیں تھے۔ ہمیں احساس ہوا کہ کہیں غلط رشتے تھے، اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ صحیح ہو گئے۔
     حیاتِ نو دراصل ہفتے کی رات کو بائبل کے مطالعے اور دعائیہ اِجلاس میں شروع ہوا تھا۔ کچھ دیر تک مطالعہ رسولوں کے اعمال کی کتاب میں سے ہوتا رہا تھا، جس میں توجہ کا مرکز ابتدائی کلیسیا میں خُدا کی پرستش تھا۔ مبلغین فکرمند تھے کہ دعا میں آزادی نہیں تھی، اور اِجلاس سرد تھے۔ اور پھر ایک پادری صاحب کی برداشت سے باہر ہو گیا اور وہ رو پڑے۔ یہ ایک غیر معمولی بات تھی۔ اُنہوں نے وضاحت کی کہ اُن میں دِل کی سختی آ چکی تھی، اور جب اُنہوں نے بتایا، تو سزایابی پھیلتی چلی گئی – جب تک کہ سسکیاں، ماتم اور ہچکیاں اور یہاں تک کہ سارے اِجلاس میں سے چیخ و پکار نہ پھیل گئی۔ لوگ اپنے مُنہ کے بل گرے رو رہے اور دعائیں مانگ رہے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ سپرجیئن Spurgeon نے دعا مانگی تھی، ’’خُداوندا، ہمیں جلالی بے چینی کا ایک عرصہ بھیج دے۔‘‘ رہنماؤں نے کافی روکنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے، اور اجلاس صبح کے دو بجے تک جاری رہا۔
     خود میرے اپنے بھائی نے حیاتِ نو کے بارے میں سُنا اور اِس کے خلاف کھڑا ہو گیا کیونکہ یہ ضرورت سے زیادہ جذباتی لگ رہا تھا۔ وہ حیاتِ نو کے لیے دعائیں مانگتا رہا تھا، اور اُس نے خُدا سے کہا یہ نہیں ہے جو وہ چاہتا تھا۔ پھر خُدا نے اُس کو اُس کے بے اعتقادی کے اُس پتھریلے دِل پر حیاتِ نو کی آگ کے سرد پڑ جانے کے بارے میں بتایا۔ اور یہ اِسی موقع پر تھا کہ اِجلاس میں روح نازل ہوا تھا۔ [میری رائے: یہ ہے جب خُدا چیرتا ہے اور یہیں ہے جسے سپرجیئن نے ’’جلالی بےچینی‘‘ کہا۔]

محترم ڈیوس نے کہا،

     اب شک کرنے کی باری میری تھی۔ میں پریشان ہو گیا تھا جب میرے بھائی نے جو کچھ ہو رہا تھا اُس کو بیان کرنے کے لیے واہیات زبان کا استعمال کیا۔ لیکن، پھر، حیاتِ نو ہمیشہ مختلف ہوتا ہے کیونکہ اِس کو انسان نے ترتیب نہیں دیا ہوتا۔ حیاتِ نو سینکڑوں میلوں تک جھاڑی میں آگ کی مانند پھیلتا چلا گیا اور دوسرے گرجہ گھر اِس کی لپیٹ میں آئے۔
     ایک نوجوان مبلغ نے ایک قوت سے بھرپور واعظ دیا، لیکن کچھ رونما نہیں ہوا۔ لہذا میں نے حمدوثنا کا آخری گیت پیش کیا اور دعا کے ساتھ اِجلاس کو ختم کر دیا۔ جب مذہبی جماعت جا رہی تھی، ایک نوجوان اُستاد آیا اور آگے آ کر بیٹھ گیا۔ وہ بے قابو انداز میں کانپ رہا تھا اور سسکیاں لے رہا تھا۔ ایک نوجوان لڑکی نے چِلانا شروع کر دیا، ’’مجھے کیا کرنا چاہیے؟ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میں جہنم میں جا رہی ہوں!‘‘ لوگ گرجہ گھر میں واپس دوڑتے ہوئے آنے لگے۔ وہ لڑکی ایک اچھی مسیحی کی حیثیت سے جانی جاتی تھی۔ مگر وہ بدکاری کے گناہ کی سزایابی میں تھی۔ وہ نوجوان شخص حسد کے جرم میں تھا، جو بے شمار لوگوں کے لیے چھوٹی سی بات تھی، مگر اِس نے اُس کو خوفزدہ کر دیا تھا۔
     میں اُن کو مشورے دے رہا تھا جو مدد کے لیے پکار رہے تھے جب کسی نے مجھے بتایا میری بیوی کو گھر پر میری ضرورت تھی۔ میں نے ایک نیک مسیحی شخص کو اذیت میں زمین پر پڑے ہوئے اور بار بار پکارتے ہوئے پایا، ’’مجھے کیا کرنا چاہیے؟ مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘ کچھ دیر کے بعد اُس نے سب کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار کیا اور خوشی کے ساتھ کہا، ’’میرا دِل یسوع کے خون کے ذریعے سے پاک ہو گیا ہے۔‘‘ ہم سب ایک دوسرے اِجلاس کے لیے گرجہ گھرمیں واپس آ گئے۔ اگلا دِن کُھلم کُھلا اعتراف کا اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات دُرست کرنے کا تھا۔ اچانک خُدا نیچے آ گیا اور یہ آسمان میں سے ایک دورہ تھا۔
     ہم قابو میں نہیں تھے۔ خدا نے قابو میں کیا ہوا تھا، اور ہر ایک چیز مکمل ترتیب میں تھی۔ میں نے غور کیا کہ پہلے دِن گرجہ گھر کے رہنما متاثر ہوئے تھے۔ دوسرے دِن یہ کام کرنے والے لوگ تھے جو سزایابی کے تحت آئے تھے۔ تیسرے دِن خواتین تھیں، چوتھے دِن سکول کے لڑکے تھے اور پانچویں دِن سکول کی لڑکیاں تھی۔ ہم مبلغین ناظرین کی مانند تھے جو خُدا کو کام کرتا ہوا دیکھ رہے تھے۔
     اِس موقعے پر یہ اُن لوگوں کے درمیان حیاتِ نو تھا جو مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے تھے۔ انتہائی چند ایک ہی بے اعتقادوں کو پہلے دو یا تین مہینوں میں نجات مل پائی تھی۔ خُدا پہلے گرجہ گھر کو پاک صاف کر رہا تھا۔ دِلوں کو کھنگالا گیا تھا۔ کچھ لوگوں کے گناہ تھے جو سالوں سے چُھپے ہوئے تھے؛ اور اُنہوں نے محسوس کیا تھا کہ اِن گناہوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خُدا اِفراد کے درد سے نمٹ رہا تھا۔ ایک بہت بڑا، مضبوط مبلغ اپنے ہاتھوں کو مروڑ رہا تھا، اُس کے چہرے سے آنسو بہہ رہا تھے۔ اِس شخص نے بے شمار لوگوں کی مسیح کی جانب رہنمائی کی تھی۔ مگر اُس کو ایک گناہ کا اعتراف کرنا تھا، اور اُس کو کوئی سکون نہیں مل رہا تھا جب تک کہ اُس نے اِس کا ساری کلیسیا کے سامنے کھڑے ہو کر اِس کا اعتراف نہ کر لیا۔ اُس کے الفاظ بجلی کے ایک جھٹکے کی مانند تھے اور لوگ توبہ میں فرش پر گِر پڑے تھے۔ اِس وقت تک سارے کا سارا قضبہ خُدا کے بارے میں باتیں کر رہا تھا۔ [میری رائے: جب مسیحی کُھل کر سامنے آتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ حقیقی بن جاتے ہیں تو گمراہ لوگ متاثر ہوتے ہیں۔]
     کبھی کبھار سزایابی ایک ہولناک بات ہو سکتی ہے، اور وہ جو کُھلم کُھلا اپنے گناہوں کے اعتراف کی مزاحمت کرتے ہیں سب سے زیادہ تکلیف میں ہوتے ہیں۔ ایک شخص فوت ہو گیا تھا۔ ایک عورت نے محسوس کیا تھا کہ وہ سزایابی کے تحت پاگل ہو جائے جب تک کہ اُس نے سب کے سامنے اپنے گناہ کا اعتراف نہ کر لیا۔ یہ اُن کے لیے قیمت تھی جنہوں نے اپنے گناہ کو چھپانے کی کوشش کی تھی اور خُدا کی مزاحمت کی تھی۔ یہ مظہر جلد ہی گزر گیا، مگر حیاتِ نو کے دیرپا پھل پاکیزگی، نرم دِلی اور کلیسیا میں محبت تھی۔ پرانے حسد، خوف اور بدگمانیاں اور تعصب حقیقی چاہت اور حساس محبت سے بدل گئے تھے۔]
     ہر کوئی اِجلاسوں میں آیا، جو طویل مدت تک جاری رہتے تھے۔ یہ ایک اِجلاس کے لیے کوئی معمولی بات نہیں تھی کہ صبح 6:30 بجے شروع ہوتا اور دوپہر تک بھی جاری رہتا۔ لوگ سرگوشیوں میں باتیں کرتے کیونکہ اُنہوں نے خُدا کو اِس قدر نزدیک محسوس کیا تھا۔ ایک شخص نے کہا، ’’ہم خُدا کی موجودگی میں لپٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔‘‘ میں ایسے اِجلاسوں میں رہ چکا ہوں جہاں پر خُدا اِس قدر حقیقی تھا کہ آپ کرسی پر بیٹھنے کی مشکل ہی سے جرأت کر پاتے۔ مجھے ایوب42:5 یاد آ گئی، ’’میرے کانوں نے تیرے بارے میں سُنا تھا، لیکن اب میری آنکھوں نے تجھے دیکھ لیا ہے۔‘‘
     لوگوں نے ایسے دعائیں مانگیں جیسے کبھی بھی نہیں مانگی تھیں۔ حیاتِ نو میں بیک وقت دعائیں مانگنا ایک عام بات تھی، مگر یہ کبھی بھی افراتفری میں یا بیگانہ دکھائی نہ دیا۔ لوگوں میں انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم دینے کے لیے ایک چاہت بھی ہو گئی تھی۔ لوگ سینکڑوں اور ہزاروں میں نجات پا گئے تھے۔ [میرا تبصرہ: میں اِس کو دو حیاتِ نو میں ہوتا ہوا دیکھ چکا ہوں۔]

محترم ڈیوس نے کہا،

     کیا یہ قائم رہا تھا؟ میں نے اٹھارہ مہینوں تک ایک ڈٓائری لکھی، اور اُس عرصے کے اختتام تک خُدا کی قوت اب تک وہیں پر تھی۔ تیس سال بعد گرجہ گھر کے رہنما وہ لوگ تھے جنہوں نے حیاتِ نو کے وسیلے سے برکت پائی تھی۔ مگر یہاں ایک نئی نسل ہے جس کو خود اپنے حیاتِ نو کی ضرورت ہے – کیونکہ، ’’ایک اور نسل پیدا ہوئی جو نہ خُدا کو جانتی تھی اور نہ اُس کام کو جو خُدا نے اسرائیل کے لیے کیا تھا‘‘ (قضاۃ2:10)۔ مگر آپ اپنے گرجہ گھر میں حیاتِ نو آنے کے لیے اُس وقت تک دعا نہیں مانگ سکتے جب تک کہ آپ ذاتی طور پر اِس بات کے لیے تیار نہ ہوں کہ وہ آپ کے پاس آئے – جب تک ہم ’’ایک دوسرے کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار [نہ] کریں اور ایک دوسرے کے لیے دعا [نہ] مانگیں‘‘ (یعقوب5:16)۔

یہ واقعہ محترم ڈیوڈ ڈیوس صحب کی جانب سے ہے۔ میں نے اِس کی کچھ جگہوں پر توضیح کی ہے، اور آسانی سے سمجھ میں آنے کے لیے کچھ الفاظ کو مِنہا کیا ہے، برائن ایچ۔ ایڈورڈز Brian H. Edwards سے حوالہ دیا گیا، حیاتِ نو! خُدا سے معمور لوگ Revival! A People Saturated With God، ایونجیلیکل پریس، 1991 ایڈیشن، صفحات258۔262 .

محترم ڈیوس نے کہا، ’’خُدا جب حیات نو کی قوت میں آتا ہے تو یہ کسی بھی بات سے جس کی آپ توقع کر سکتے ہیں مختلف ہوتا ہے… حیاتِ نو ہوتا ہے جب خُدا اپنی حضوری میں نیچے آتا ہے۔ یہ شروع ہوا تھا جب گرجہ گھر کا ایک رہنما برداشت سے باہر ہو گیا اور رو پڑا۔ اُس نے وضاحت کی کہ اُس میں سخت دِلی تھی، اور جب اُس نے بتایا تو سزایابی اُن لوگوں میں پھیلتی چلی گئی جو پہلے ہی سے مسیح میں ایمان لائے ہوئے لوگ تھے جب تک کہ وہاں پر سسکیاں، ماتم اور ہچکیاں نہ شروع ہو گئیں۔ لوگ رو رہے اور دعائیں مانگ رہے تھے، اِجلاس صبح کے دو بجے تک جاری رہا تھا۔‘‘

یہ بہت حد تک اُس حیاتِ نو کی مانند تھا جو میں نے 1960 کی دہائی کے آخر میں چینی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں دیکھا تھا۔ حیاتِ نو کی اہم خصوصیات آنسو، دعائیں، ساری کلیسیا کے سامنے گناہ کا کُھلم کُھلا اقرار کرنا تھا۔ یہ ایک کرشماتی یا پینتیکوسٹل اِجلاس سے انتہائی مختلف تھا۔ وہاں پر کوئی ’’غیرمرئی زبانیں‘‘ یا شفائیں، یا مخصوص موسیقی نہیں تھی۔ وہاں کوئی ’’پرستش‘‘ نہیں تھی۔ وہ صرف گناہوں کا کُھلم کُھلا اعتراف، رونا دھونا، اور لوگوں کا ایک دوسرے کو معاف کر دینے کے لیے کہنا تھا۔ کئی ہفتوں کے بعد بے شمار وہ لوگ جو گرجہ گھرمیں نہیں آتے تھے وہ آئے اور اُنہوں نے نجات پائی۔ جان کیگن نے مجھ سے پوچھا وہ گمراہ لوگ وہاں تک کیسے پہنچے۔ میرے لیے جواب دینا مشکل تھا۔ لوگ اپنے ساتھ محض دوستوں کو یا خاندان کے اِرکان کو لاتے تھے۔ لانے لے جانے کے لیے گاڑیوں کا کوئی انتظام مرتب نہیں کیا گیا تھا۔ یہ بس رونما ہو گیا۔ آخر میں تقریباً 2,000 لوگ اُس چینی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں آئے اور اُنہوں نے نجات پائی، بپتسمہ لیا اور گرجہ گھر کے پُختہ رُکن بن گئے۔ اُن میں سے سینکڑوں اب بھی اِس دِن تک یہیں موجود ہیں! پاک روح کے اُس نزول سے چار نئے گرجہ گھر وجود میں آئے تھے۔

’’کاش کہ تُو آسمان کو چاک کردے اور نیچے اُتر آئے، اور پہاڑ تیرے حضور میں لرزنے لگیں! جس طرح آگ سوکھی ٹہنیوں کو جلا دیتی ہے اور پانی میں اُبال لاتی ہے، اُسی طرح تُو نیچے آکر اپنا نام اپنے دشمنوں میں مشہور کر کہ تیری حضوری میں قوموں پر کپکپی طاری ہو جائے! کیونکہ جب تُو نے ایسے بھیانک کام کیے جن کی ہمیں توقع نہ تھی، تب تُو نیچے اُتر آیا اور پہاڑ تیرے سامنے تھر تھرا اُٹھے‘‘ (اشعیا 64:1۔4).

مہربانی سے کھڑے ہو جائیں اور حمدوثنا کا گیت نمبر آٹھ گائیں۔

میرے سارے تخّیل کو پورا کر، نجات دہندہ، میں دعا مانگتا ہوں،
   آج مجھے صرف یسوع کو دیکھ لینے دے؛
حالانکہ وادی میں سے تو میری رہنمائی کرتا ہے،
   تیرا کھبی نہ مدھم ہونے والا جلال میرا احاطہ کرتا ہے۔
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، الٰہی نجات دہندہ،
   جب تک تیرے جلال سے میری روح جمگا نہ جائے۔
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، کہ سب دیکھ پائیں
   تیرا پاک عکس مجھ میں منعکس ہوتا ہے۔

میرے سارے تخّیل کو پورا کر، ہر خواہش
   اپنے جلال کے لیے رکھ لے؛ میری روح راضی ہے
تیری کاملیت کے ساتھ، تیری پاک محبت سے
   آسمانِ بالا سے نور کے ساتھ میری راہگزر کو بھر دیتی ہے
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، الٰہی نجات دہندہ،
   جب تک تیرے جلال سے میری روح جمگا نہ جائے۔
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، کہ سب دیکھ پائیں
   تیرا پاک عکس مجھ میں منعکس ہوتا ہے۔

میرے سارے تخّیل کو پورا کر، گناہ کے نتیجہ کو ناکام کر دے
   باطن میں جگمگاتی چمک کو چھاؤں دے۔
مجھے صرف تیرا بابرکت چہرہ دیکھ لینے دے۔
   تیرے لامحدود فضل پر میری روح کو لبریز ہو لینے دے۔
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، الٰہی نجات دہندہ،
   جب تک تیرے جلال سے میری روح جمگا نہ جائے۔
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، کہ سب دیکھ پائیں
   تیرا پاک عکس مجھ میں منعکس ہوتا ہے۔
(’’میرے سارے تخّیل کو پورا کرFill All My Vision‘‘ شاعر ایوس برجیسن کرسچنسن
      Avis Burgeson Christiansen، 1895۔1985)۔

خُدا سے حیات نو کے آنے کے لیے دعا مانگنا مت چھوڑیں۔ خُدا سے آسمان کو چاک کرنے اور ہمارے درمیان نیچے آنے کے لیے دعا مانگنا مت چھوڑیں! خُدا سے دعا مانگنا مت چھوڑیں کہ ہمیں سبب بنائے ’’ایک دوسرے کے سامنے [اپنے] گناہوں کا اقرار کریں اور ایک دوسرے کے لیے دعا کریں تاکہ [ہم] شفا پائیں‘‘ اپنی سرد مہری اور اپنے گناہوں سے (یعقوب5:16)۔ یہ اُن حیاتِ نو کی خصوصیات ہیں جو اِس وقت چین میں اور تیسری دُنیا کے دوسرے حصوں میں اب بھی جاری ہیں۔ خُدا سے دعا مانگنا مت چھوڑیں کہ نیچے آئے اور ہمارے دِلوں کو شفا بخشے اور ہمیں ایک نئی اور بہت زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ قوت سے بھرپور بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ بخشے! میں ہارون ینسی Aaron Yancy اور جان کیگن سے چاہتا ہوں کہ کھڑے ہوں اور خُدا کے ہمارے درمیان نیچے آنے کے لیے دعا میں رہنمائی کریں۔ پہلے ہارون، پھر جان۔ کوئی اور؟ مہربانی سے کھڑے ہوں اور دعا مانگیں!

یسوع مسیح زمین پر نیچے گنہگاروں کی جگہ پر تکلیف برداشت کرنے اور صلیب پر مرنے کے لیے آیا تھا۔ اگر آپ نے ابھی تک نجات نہیں پائی ہے، تو آپ کو اپنے خودغرضانہ اور گناہ سے بھرپور طرز زندگی سے مُنہ موڑ لینا چاہیے۔ آپ کو توبہ کرنی چاہیے اور یسوع پر بھروسہ کرنا چاہیے، جو خُدا کا اِکلوتا بیٹا ہے۔ صرف وہ ہی آپ کے تمام گناہوں کو اپنے خون کے ساتھ دھو سکتا ہے۔ صرف وہ ہی آپ کوجہنم کے شعلوں سے بچا سکتا ہے۔ صرف یسوع ہی آپ کو آپ کے گناہوں سے نجات دلا سکتا ہے۔ اگر آپ مشورہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو جمعرات کی رات کو ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan سے ملاقات کرنے کا وقت طے کر لینا چاہیے۔ آپ اُنہیں ملاقات طے کرنے کے لیے فون کر سکتے ہیں یہ اِس عبادت کے بعد اِس بارے میں اُن سے بات کر سکتے ہیں۔ آمین۔

اگر اِس واعظ نے آپ کو برکت بخشی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا چاہیں گے۔ جب آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو آپ اُنہیں ضرور بتائیں کہ آپ کس مُلک سے لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای میل کو جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل لکھیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں اُس کا نام شامل کریں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے دُعّا مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: اشعیا 64:1۔3 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’میرے سارے تخّیل کو پورا کرFill All My Vision‘‘ )شاعر ایوس برجیسن کرسچنسن
Avis Burgeson Christiansen، 1895۔1985)۔