Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


ایک شخص کے کردار کی مضبوطی –

ڈاکٹر ہائیمرز کو اُن کی 75ویں سالگرہ پر خراج تحسین
THE STRENGTH OF A MAN’S CHARACTER –
A TRIBUTE TO DR. HYMERS ON HIS 75TH BIRTHDAY
(Urdu)

ڈاکٹر سی۔ ایل۔ کیگن کی جانب سے
by Dr.C. L. Cagan

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی شام، 10 اپریل، 2016
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, April 10, 2016

’’اگر تو مصیبت کے ایام میں ڈگمگانے لگتا ہے تو تیری قوت کتنی کم ہے‘‘
(اِمثال24:10)۔

آپ کو ایک انسان کی قدروقیمت کو کیسے ناپنا چاہیے؟ دُںیا پیسوں کے حساب سے تولتی ہے۔ مگر یسوع نے کہا، ’’کسی کی زندگی کا انحصار اُس کی مال و دولت کی کثرت پر نہیں ہے‘‘ (لوقا12:15)۔ یہ دولت نہیں ہے – نہ ہی خطابات، یا وقار، یا خوشیاں – جو سچی قدروقیمت ظاہر کرتی ہیں۔ تو پھر کیا چیز ظاہر کرتی ہے؟ ہماری تلاوت کہتی ہے،

’’اگر تو مصیبت کے ایام میں ڈگمگانے لگتا ہے تو تیری قوت کتنی کم ہے‘‘ (اِمثال24:10)۔

لفظ ’’بدبختیadversity‘‘ کا مطلب ہوتا ہے ’’وہ وقت جب حالات آپ کے خلاف ہوں۔‘‘ ’’غش کھا جاناfaint‘‘ کا مطلب ہوتا ہے ’’ہمت ہارناgive up۔‘‘ میتھیو پول Mathew Poole کا تبصرہ کہتا ہے، ’’یہ علامت ہوتی ہے کہ تیرے پاس ماسوائے تھوڑی سی مسیحی قوت اور حوصلہ کچھ نہیں کیونکہ بدبختی میں وہی بہتر طور پر پہچانا جاتا ہے۔‘‘ ایک شخص کا امتحان وہ ہوتا ہے جو وہ اُس وقت کرتا ہے جب حالات اُس کے خلاف ہوتے ہیں! 1599 کا جینیوا کا مطالعۂ بائبل کہتا ہے، ’’انسان کے پاس اُس کی قوت کی کوئی آزمائش نہیں ہوتی جب تک وہ مصیبت میں نہیں گرفتار ہوتا‘‘ (اِمثال24:10 پر ’b‘ غور طلب بات)۔

وہ ایک انسان کا حقیقی امتحان ہوتا ہے – ناکہ جب روشنی ہوتی ہے، بلکہ جب تاریکی ہوتی ہے۔ اُس اِمتحان کے ذریعے سے، ہمارے پادری صاحب ڈاکٹر ہائیمرز ایک قابلِ ذکر و ممتاز مسیحی ہیں! اُن کی زندگی بدبختی سے بھری رہی ہے۔ حالانکہ اُنہوں نے کمزور محسوس کیا لیکن اُنہوں نے کبھی بھی ہمت نہیں ہاری۔ ڈاکٹر بوب جونز سینئرDr. Bob Jones, Sr. (1883۔1968) نے کہا، ’’آپ کے کردار کا اِمتحان ہی ہے جو آپ کو رُکنے پر مجبور کرتا ہے۔‘‘ آئیے اِس بات کو ایک اور طریقے سے پیش کریں۔ ’’آپ کے کردار کا اِمتحان ہے جو آپ کو نہیں روکتا ہے۔ ’’اگر کچھ بھی آپ کو روک نہیں پاتا تو آپ کے پاس ایک شاندار کردار ہوتا ہے۔‘‘ یہ ہے جو ہمارے پادری صاحب کے پاس ہے!

آج کی رات ہم اُن کی 75 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ اُن کی زیادہ تر زندگی بدبختی سے بھری تھی۔ حالات اُن کے خلاف تھے۔ لوگ اُن کے خلاف تھے۔ لیکن اُنہوں نے ہمیشہ کوشش جاری رکھی۔ یہ خود اُن کی اپنی قوت کے وسیلے سے نہیں تھا۔ اُن کی زندگی کی آیت فلپیوں4:13 ہے، ’’مسیح جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس کے وسیلے سے میں سب کچھ کر سکتا ہوں۔‘‘ آج کی رات ہم اپنے پادری صاحب کو عزت بخشتے ہیں – اور ہم مسیح کو شکریہ ادا کرتے ہیں!

میں آپ کو ڈاکٹر ہائیمرز کی زندگی کے بارے میں جو کچھ اُنہوں نےسامنا کیا اُس کی اصطلاح میں بتانا چاہتا ہوں۔ اُن کی زندگی ثابت قدمی اور مضبوطی کی اور مسیح کے ذریعے سے فتح کی ایک کہانی ہے! بدبختی کی گہرائی اُن کی قوت و مضبوطی کی گہرائی کو ظاہر کرتی ہے۔

یہاں تک کہ پادری صاحب کی ابتدائی زندگی بھی بدبختی کے ساتھ بھری ہوئی تھی۔ اُنہوں نے ایک مسیحی گھرانے میں پرورش نہیں پائی تھی۔ درحقیقت، وہ ایک ٹوٹے ہوئے گھرانے سے تھے۔ جب وہ دو برس کے تھے تو اُن کے والد اُن کو چھوڑ کر چلے گئے۔ اُن کی والدہ سیسیلیا، اُن سے پیار کرتی تھیں اور جب تک وہ بارہ برس کی عمر کے نہ ہو گئے اُن کی دیکھ بھال کرتی رہیں۔ پھر وہ رشتے داروں کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ پر زندگی بسر کرتے رہے۔ ہائی سکول سے گریجوایشن کرنے سے پہلے وہ 22 مختلف سکولوں میں گئے۔ سکول میں وہ ہمیشہ ہی ’’نیا بچہ‘‘ ہوتے تھے – ایک باہر والا۔ اپنی زندگی میں وہ ایک ’’حقیقی یتیم‘‘ تھے – بغیر کسی سہارے یا محبت یا دیکھ بھال کے۔

خُدا اُن کے ساتھ تب بھی اچھا تھا۔ بائبل کہتی ہے، ’’خُداوند سب پر مہربان ہے اور اُس کا کرم اُس کی ساری مخلوق پر ہے‘‘ (زبور145:9)۔ خُدا اپنے بچوں کی نگہبانی یہاں تک کہ اُن کے نجات پانے سے پہلے بھی کرتا ہے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کے تقریر اور ڈرامہ کے اُستاد، رے فلپسRay Phillips نے، اُن کی اداکاری اور بولنے کی قدرتی صلاحیت کو پہچانا۔ اُنہوں نے ہمارے پادری صاحب میں دلچسپی لی اور اُن کی اصل دیکھ بھال کی۔ مسٹر فلپس اُن کے ساتھ مہربان اور اچھے تھے۔ مگر میں خوش ہوں کہ ڈاکٹر ہائیمرز نے بعد میں دیکھ لیا کہ تھیٹر زعمِ باطل تھا، اور وہ ایک مبلغ بن گئے!

ڈاکٹر ہائیمرز نے ایک گرجہ گھر میں پرورش نہیں پائی تھی۔ اُن کا ایک باضابطہ خاندان نہیں تھا۔ اگر اُن کا ہوتا، تو وہ لوگوں سے ملنے ملانے والے اور سماجی ہوتے – ایک ظاہر پرست ہستی۔ مگر جگہ جگہ رہنے اور مسترد کیے جانے نے اُنہیں اِنٹروورٹintrovert [خود میں مگن رہنے والا] بنا ڈالا – ایک شخص جو باطن میں دیکھتا ہے۔ اُنہوں نے سنجیدگی کے ساتھ خود کی ذات میں جھانکا اور اُنہوں نے خُدا کے بارے میں سوچا۔ آپ شاید ڈاکٹر ہائیمرز کے بارے میں خود میں مگن رہنے والی ہستی کی حیثیت سے نہ سوچیں، چونکہ وہ اِس قدر خوبی کے ساتھ تبلیغ کرتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ اِس قدر زیادہ بات چیت کرتے ہیں۔ مگر اندر سے وہ ایک حساس شخصیت ہیں، خود اپنی کمزوری سے آشنا۔ وہ خود پر انحصار نہیں بلکہ خُدا پر انحصار کرتے ہیں۔

بدبختی کی اِس دُنیا میں، خُدا نے اپنی محبت نازل کی جس کو میں ’’فضل کی کھڑکیاں‘‘ بُلاتا ہوں۔ ہمارے پادری صاحب کے دو پڑوسیوں میں ڈاکٹر اور مسز میک گوون Dr. and Mrs. McGowan شامل ہیں۔ وہ اُن کے لیے فضل کی ایک کھڑکی تھے۔ وہ اُن کے ساتھ مہربان تھے۔ وہ اُنہیں شام کے کھانے پر بُلاتے۔ وہ اُنہیں اپنے گرجہ گھر لے کر جاتے، جہاں پر وہ ایک بپتسمہ یافتہ بنے۔ خُدا ہمارے پادری صاحب کے ساتھ جب وہ ایک تنہا شخص تھے اچھا تھا۔

ایک نوعمر بالغ کی حیثیت سے ڈاکٹر ہائیمرز نے فیصلہ کیا کہ اپنے رشتہ داروں کو پسند نہیں کرنا۔ اُنہوں نے اُن کو شراب نوشی اور لعن طعن کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ اُنہوں نے گرجہ گھر جانے اور ایک مسیحی کی حیثیت سے زندگی بسر کرنے کا تہیہ کیا۔ وہ ابھی تک مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہیں ہوئے تھے۔ وہ ابراہام کی مانند تھے جب خُدا نے اُس سے کہا، ’’تو اپنے گھر اور اپنے لوگوں اور اپنے باپ کے گھر سے روانہ ہو اور اُس مُلک میں چلا جا جو میں تجھے دکھاؤں گا‘‘ (پیدائش12:1)۔ اور

’’ایمان ہی سے جب ابرہام بُلایا گیا تو وہ خدا کا حکم مان کر اُس جگہ چلا گیا جو بعد میں اُسے میراث کے طور پر ملنے والی تھی حالانکہ وہ جانتا بھی نہ تھا کہ کہاں جا رہا ہے‘‘ (عبرانیوں 11:8).

ابراہام مکمل طور پر نہِیں جانتا تھا کہ خُدا کے ذہن میں کیا تھا۔ وہ ابھی تک ایمان لا کر تبدیل نہیں ہوا تھا۔ مگر اُس نے ’’فرمانبرداری دکھائی؛ اور وہ وہاں سے چلا گیا۔‘‘ یہ ہی تھا جو ڈاکٹر ہائیمرز نے کیا۔ وہ ابھی تک مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہیں ہوئے تھے۔ مگر اُنہوں نے اپنی زندگی بدل لی۔ عالمین الہٰیات اِس کو ’’ایمان سے پہلے ایمان‘‘ کہتے ہیں – ایمان لا کر تبدیل ہونے سے پہلے خُدا کے لیے ردعمل کا اظہار کرنا۔

ہمارے پادری صاحب کو گرجہ گھر جانے سے کوئی سہارا یا تعریف نہیں ملتی تھی۔ اُن کے رشتہ دار اُن کا مذاق اُڑاتے اور کہتے، ’’رابرٹ مذھبی ہو گیا ہے۔‘‘ لیکن اُس تضحیک سے، ہمارے پادری صاحب نے خُدا کی بُلاہٹ کی پیروی کی۔ ہماری تلاوت کہتی ہے، ’’اگر تو مصیبت کے ایام میں ڈگمگانے لگتا ہے تو تیری قوت کتنی کم ہے۔‘‘ خُدا کا شکر ہے وہ ڈگمگائے نہیں۔ اُن کی قوت کم نہیں تھی کیونکہ خُدا نے اُنہیں قوت بخشی تھی!

یسوع نے کہا، ’’میرے پاس کوئی نہیں آتا جب تک کہ باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اُسے کھینچ نہ لائے‘‘ (یوحنا6:44)۔ وہ کھینچ لانا کیا ہے؟ ہم اِس کے بارے میں عام طور پر سوچتے ہیں جیسے خُدا انسان پر اُس لمحے میں قریب آ رہا ہے جب وہ مسیح پر بھروسہ کرتا ہے یا اُس کے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے سے بالکل پہلے۔ مگر خُدا کا کھینچنا اُس سے بھی بہت پہلے ہی شروع ہو سکتا ہے۔ جب خُدا نے میک گوون فیملی کو ڈاکٹر ہائیمرز کو بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں لانے کے لیے استعمال کیا تو وہ اُس کھینچے جانے کا ایک حصہ ہی تھا۔

سترہ برس کی عمر میں ڈاکٹر ہائیمرز نے اپنے پادری صاحب ڈاکٹر میپلز Dr. Maples کو کہتے سُنا، ’’یہاں ایک نوجوان انسان ہے جو مذہبی خدمت کے لیے خود کو حوالے کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ ڈاکٹر ہائیمرز نے اپنے پادری صاحب کو سراہایا اور اُن جیسا بننا چاہا۔ وہ خیال کس نے وہاں پر ڈالا؟ وہ خدا ہی تھا۔ ڈاکٹر ہائیمرز نے اپنی زندگی کو مذہبی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔ کس نے اُنہیں وہ کرنے کے لیے تحریک دی؟ یہ خُدا کے کھینچنے کا ایک حصہ ہی تھا۔ حالانکہ وہ بُری طرح سے پہلی چند ایک مرتبہ جب اُنہوں نے تبلیغ کی ناکام ہوئے تھے، مگر وہ جاری رہے۔ بعد میں، وہ چینی لوگوں کے لیے ایک مشنری بننا چاہتے تھے۔ لہٰذا وہ بپتسمہ دینے والے پہلے چینی گرجہ گھر میں چلے گئے۔ وہ بھی، خدا کے کھینچنے کا ہی حصہ تھا۔

1961 کے موسم خزاں میں ہمارے پادری صاحب نے بائیولا کالج میں پڑھنا شروع کیا۔ ڈاکٹر چارلس جے۔ ووڈ بریج Dr. Charles J. Woodbridge نے چھوٹے گرجہ گھرمیں ایک ہفتے کے لیے منادی کی تھی۔ ڈاکٹر ووڈ بریج چین میں پیدا ہوئے تھے۔ اُنہوں نے اُس آزاد خیالی کی وجہ سے فُلر سیمنری کو خیر آباد کہہ دیا تھا جو وہاں پر آ رہی تھی۔ لہٰذا، اُن دو وجوہات کی بِنا پر، ڈاکٹر ہائیمرز اِس خطاب کرنے والے سے متاثر تھے اور اُنہیں نہایت احتیاط کے ساتھ سُنتے تھے۔ کس نے اُس کا بندوبست کیا؟ وہ خُدا تھا! چھوٹے گرجہ گھر کی اُن عبادتوں میں ڈاکٹر ہائیمرز نے چارلس ویزلی Charles Wesley کا حمدوثنا کا گیت ’’حیرت انگیز محبت! یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تجھے اے خُدایا میرے لیے مرنا پڑا؟ Amazing Love! How can it be that Thou, my God, shouldst die for me?‘‘ اُنہوں نے وہ دیکھا کہ یسوع اُن سے محبت کرتا ہے اور اُن کے لیے مرا۔ جب ڈاکٹر ووڈ بریج 28 ستمبر، 1961 کو صبح 10:30 پر منادی کر رہے تھے، ڈاکٹر ہائیمرز نے مسیح پر بھروسہ کیا اور مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے۔

یوں، اُنہوں نے اپنی مسیحی زندگی کا آغاز کیا۔ یہ آسان نہیں تھا۔ اُنہیں کالج جانا ہوتا تھا۔ یہ اُن کے لیے مشکل تھا۔ اُن کے رشتہ دار کالج نہیں گئے تھے۔ اُنہیں کوئی پُشت پناہی نہ ملی اور نہ کوئی پیسہ ملا۔ اُنہوں نے محسوس کیا وہ یہ نہیں کر پائیں گے۔ مگر ایک مشنری بننے کے لیے اُنہیں کالج تو جانا ہی تھا، اور اِس لیے وہ گئے۔ خُدا نے اُنہیں اُن کی زندگی کی آیت دی، ’’مسیح جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس کے وسیلے سے میں سب کچھ کر سکتا ہوں‘‘ (فلپیوں4:13)۔ مسیح کی طاقت میں، اُنہوں نے وہ کیا جو وہ محسوس کرتے تھے وہ نہیں کر سکتے! ایک کے بعد دوسرے سال – اُنہوں نے دِن کے دوران پورے دورانیے کی نوکری کی اور رات میں کالج میں پڑھائی کی، جبکہ گرجہ گھر میں بھی کئی کئی گھنٹوں کام کیا۔ وہ ڈگمگائے نہیں، حالانکہ راہ طویل اور دشوار تھی۔ اُنہوں نے نہ صرف اپنی بیچلر کی ڈگری اور ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی بلکہ ڈاکٹریٹ کی بھی تین ڈگریاں حاصل کیں۔ مسیح میں اُنہیں طاقت ملتی تھی۔ ’’اگر تو مصیبت کے ایام میں ڈگمگانے لگتا ہے تو تیری قوت کتنی کم ہے‘‘ (اِمثال24:10)۔ مگر مسیح میں، اُن کی طاقت بہت زیادہ تھی!

ڈاکٹر ہائیمرز نے مجھے ایک اور شخص کا تزکرہ کرنے کے لیے کہا تھا۔ وہ ایک اوسط عمر کی خاتون تھیں جو جہاں پر ڈاکٹر ہائیمرز کام کرتے تھے وہاں پر ٹائپسٹ تھیں۔ اُنہوں نے طویل سالوں کے رات کے سکول کے دوران ہولناک طور پر ذہنی دباؤ محسوس کیا تھا۔ یہ خاتون، جن کا نام گووین ڈیولِن Gwen Devlin تھا، ہر رات کام کے بعد اُن سے بات چیت کرتیں اور اُنہیں حوصلہ دیتی۔ اُنہوں نے مجھے اکثر بتایا کہ وہ اُس خاتون کے بغیر یہ کبھی بھی نہ کر پاتے۔

اِس واعظ کی منادی کر چکنے کے بعد ڈاکٹر ہائیمرز نے مجھے آپ کو چار اور ہستیوں کے بارے میں بتانے کے لیے کہا۔ مرفی Murphy اور لورنا لم Lorna Lum چینی گرجہ گھر میں ایک نوجوان جوڑا تھا۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز وہاں پر پہلی مرتبہ گئے تو اُنہوں نے اُن کی دیکھ بھال کی اور اپنے چھوٹے بھائی کی مانند اُن کے ساتھ برتاؤ کیا۔ وہ اُنہیں اپنے گھر لے گئے۔ تقریباً ہر اِتوار کی شام وہ اُنہیں شام کی عبادت کے بعد کھانے کے لیے باہر لے کر جایا کرتے اور اُن کے ساتھ حقیقی دوستوں کی مانند تھے۔ تیسری ہستی جن کا تزکرہ ڈاکٹر ہائیمرز چاہتے تھے میں کروں مسٹر یوجین وِلکرسن Eugene Wilkerson تھے۔ وہ چینی گرجہ گھر میں ایک بوڑھے سفید فام شخص تھے۔ وہ چینی گرجہ گھر کے سیکرٹری تھے اور وہاں پر دوسری بے شمار ذمہ داریاں نبھاتے تھے۔ وہ ڈاکٹر ہائیمرز کی زندگی بھر کے ساتھی دوست بن گئے۔ ہمارے پادری صاحب نے اُن کے ساتھ بہت سارا وقت گزارا اور گرجہ گھر کا مختصر اِطلاع نامہ اُن کے ٹائپ کر چکنے کے بعد ہر ہفتے کی رات دیر گئے ڈاکٹر ہائیمزر اُنہیں گاڑی میں گھر چھوڑ کر آتے۔ جب وہ فوت ہوئے تو اُن کے خاندان والوں نے ڈاکٹر ہائیمرز سے اُن کے جنازے کو پہلی چینی بپتسمہ گرجہ گھر میں ادا کرنے کو کہا۔ ایک اور دوست جنہوں نے ڈاکٹر ہائیمرز کی مدد کی جیکسن لاؤJackson Lau تھے، ایک نوجوان چینی شخص جو اُن کا بہترین دوست بنا۔

چینی گرجہ گھر میں، ڈاکٹر ہائیمرز نے اپنے پادری صاحب ڈاکٹر ٹموتھی لِن Dr. Timothy Lin (1911 - 2009) کی ماتحتی میں کام کیا۔ ڈاکٹر لِن بائبل کے ایک شاندار عالم تھے۔ وہ ایک پاک انسان تھے جو یقین رکھتے تھے کہ مسیحیت کوئی بیرونی قسم نہیں تھی، بلکہ ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے۔ خُدا نے ہمارے پادری صاحب کو ڈاکٹر لِن کی ماتحتی میں رکھا کہ بذات خود وہ خُدا کی طاقت سے بھرپور ایک شخص بن پانے کے لیے تربیت پائیں۔

وہ سال کوئی آسان نہ تھے۔ ڈاکٹر ہائیمرز گرجہ گھر میں واحد سفید فام شخص تھے۔ کام سخت تھا، جمعہ کی شام کو، ہفتے کی شام کو اور اِتوار کو سارا دِن تبلیغ کرنا اور تعلیم دینا۔ نظم و ضبط سخت تھا۔ مگر وہ اچھے کے لیے ہی تھا۔ بائبل کہتی ہے، ’’انسان کے لیے بہتر ہے کہ وہ اپنی جوانی ہی میں مشقت کا جؤا اُٹھانے لگے‘‘ (نوحہ3:27)۔ خُدا نے اِس کو اُنہیں خُدا کا ایک قوی آدمی بنانے کے لیے استعمال کیا۔ وہ اُن کی سچی سیمنری تھی۔ خُدا نے اِس وقت کو اُنہیں پر مسیحی مذہبی خدمت اصل میں ہوتی کیا ہے ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا۔ وہ سال دشوار گزار تھے۔ راہ کی دشواری ہمارے پادری صاحب کے کردار کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے۔ ڈاکٹر ہائیمرز نہیں ڈگمگائے۔ راہ دشوار تھی – مگر قوت بہت زیادہ تھی!

چینی گرجہ گھر بپتسمہ دینے والا ایک مغربی گرجہ گھر تھا۔ اِس لیے ڈاکٹر ہائیمرز مغربی بپٹسٹ سیمنری میں چلے گئے۔ مگر یہ ایک آزاد خیال سیمنری تھی جہاں پر پروفیسرز بائبل پر حملے کیا کرتے تھے۔ خُدا نے ہمارے پادری صاحب کو بائبل کے لیے ڈٹے رہنا سکھایا، حتیٰ کہ اُنہیں اکیلے ہی کھڑے رہنا پڑا۔ خُدا اُنہیں مضبوطی بخشتا اور سکون پہنچاتا جب وہ تنہا اور اُداس محسوس کرتے۔ ’’مسیح جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس کے وسیلے سے میں سب کچھ کر سکتا ہوں۔‘‘ (فلپیوں4:13)۔

ایک مذہبی خادم کی حیثیت سے، ڈاکٹر ہائیمرز ایمان سے بھرپور اور جرأت مند تھے۔ بے شمار مبلغین آسان راہ کو اپناتے ہیں۔ وہ کچھ نہیں کہتے اور کچھ نہیں کرتے۔ وہ اسرائیل میں اُن مبلغین کی مانند ہیں جب یرمیاہ نے کہا،

’’کیونکہ اُن میں چھوٹوں سے لے کر بڑوں تک سبھی اپنے مفاد کے لالچی ہیں … سلامتی، سلامتی کہتے ہیں؛ جب کہ سلامتی ہوتی نہیں ہے‘‘ (یرمیاہ 6:13، 14).

مگر ڈاکٹر ہائیمرز نے سچ بولا جب وہ بولنا آسان نہیں تھا۔ وہ مغربی بپٹسٹ سیمنریوں میں آزاد خیالی کے خلاف کھڑے ہوئے۔ اُنہوں نے اِس کو بے نقاب کرنے کے لیے ایک کتاب لکھی، اور اِس کو بار بار بے نقاب کرنے کے لیے تمام گرجہ گھروں میں تحریری مواد بھیجا۔ آج وہ سیمنریاں قدامت پسند ہیں۔

وہ اینٹی نومیئین اِزم antinomianism کے خلاف کھڑے ہوئے – یہ تصور کہ آپ گناہ کی زندگی بھی گزار سکتے ہیں اور ایک مسیحی بھی ہو سکتے ہیں۔ انجیلی بشارت کا پرچار کرنے والے نئے لوگوں نے اِتوار کو گرجہ جانا چھوڑ دیا، ناچ گانا، نشہ پینا، پرائی عورت کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنا شروع کر دیا۔ تب ڈاکٹر ہائیمرز نے کہا – اور اب کہتے ہیں – کہ وہ لوگ جو اِس طرح کی زندگی بسر کرتے ہیں سرے سے مسیحی ہوتے ہی نہیں!

ہمارے پادری صاحب اِسقاط حمل کے خلاف کھڑے ہوئے۔ وہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ڈاکٹر ہائیمرز سڑک کے پار کھڑے پولیس اہلکاروں کی مار کھانے اور جیل جانے کا خطرہ مول اُٹھاتے ہوئے اِسقاط حمل کرنے والے کلینکوں کے سامنے بیٹھ جاتے۔ مگر ہمارے گرجہ گھر نے دو اِسقاط حمل کرنے والے سنٹروں کو بند کروا دیا۔ مصیبت بہت بڑی تھی، لیکن ڈاکٹر ہائیمرز نہیں ڈگمگائے۔ خُدا کا کیسا ایک بندہ!

ہالی ووڈ نے ایک گُستاخانہ فلم ’’مسیح کی آخری آزمائشThe Last Temptation of Christ‘‘ نامی فلم بنائی۔ سچ، اور لوگ بھی تھے جو فلم کے ساتھ متفق نہیں تھے۔ مگر صرف ڈاکٹر ہائیمرز نے ہی اُس کے خلاف زبردست لڑائی لڑی! وہ وہ تھے جس کو سپاہی ’’نشانے پر انسانpoint man‘‘ کہتے ہیں، جو دوسروں سے آگے چلتا ہے اور دشمنوں کی گولی کھانے کا خطرہ مول اُٹھاتا ہے۔ مصیبت بہت بڑی تھی، مگر ڈاکٹر ہائیمرز ڈگمگائے نہیں۔ 1988 کے اگست میں، آج کی مسیحیت Christianity Today میگزین میں، ڈاکٹر بوب جونز جونیئرDr. Bob Jones, Jr.، جو بوب جونز یونیورسٹی کے چانسلر ہیں، اُنہوں نے کہا، ’’مجھے یوں لگتا ہے جیسے ہائیمرز کے مظاہرے ہی واحد ایسے تھے جن کا کوئی اثر ہوا تھا!‘‘ ہالی ووڈ نے کبھی بھی ویسی فلم پھر دوبارہ نہیں بنائی! اُن کی راہ کی دشواری اور درد ظاہر کرتا ہے ڈاکٹر ہائیمرز کس قسم کے انسان ہیں۔ صدر تھیوڈور روز ویلٹ نے کہا،

یہ تنقید نگار نہیں ہوتا جو شمار کیا جاتا ہے؛ نا ہی وہ شخص ہوتا ہے جو نشاندہی کرتا ہے کیسے ایک مضبوط شخص لڑکھڑاتا ہے، یا کہاں پر نیک کام کرنے والوں کو کوئی فائدہ ہوا ہو۔ سہرا تو اُس شخص کو جاتا ہے جو اصل میں اکھاڑے میں ہوتا ہے، جس کا چہرہ مٹی اور پسینے اور خون سے لتھڑا ہوتا ہے، جو بہادُرانہ کوشش کرتا ہے… جو خود کو ایک عظیم مقصد میں صرف کرتا ہے، جو کہیں بہتر طور بڑی بڑی کامیابیوں کی فتح کو آخر میں جان جاتا ہے اور جو بدتر طور سے، اگر ناکام ہوتا ہے، تو کم از کم نہایت جرأت مندانہ طور پر ہوتا ہے، تاکہ اُس کی جگہ کبھی بھی اُن سرد مہر اور بزدل لوگوں میں نہ ہو جو نہ تو فتح کو اور نہ ہی شکست کو جانتے ہیں۔

ڈاکٹر ہائیمرز اکھاڑے میں ایک آدمی ہیں، جو پسینے اور خون میں جدوجہد کرتا ہے – اپنے نجات دہندہ کے لیے!

ڈاکٹر ہائیمرز نے ایک پادری کی حیثیت سے ایمان کی بھرپوری کے ساتھ مشقت کی۔ اُنہوں نے دو گرجہ گھروں کی بنیاد رکھی۔ اُن میں سے ایک ہمارا گرجہ گھر ہے۔ تقریبا! چالیس سالوں کی جنگوں بُرے حالات میں جبکہ ہر جگہ پر دشمن اور خطرات تھے۔ یہ ایسے تھا جیسے پولوس رسول نے کہا، ’’یہاں میرے لیے منادی کرنے کا ایک وسیع دروازہ کھلا ہوا ہے، حالانکہ مخالفت کرنے والے بھی بہت ہیں‘‘ (1کرنتھیوں16:9)۔ یہ بُرے حالات کے چالیس سال تھے، جب بے شمار لوگ اُن کے خلاف تھے۔ یہ جیسا کہ پولوس رسول نے کہا، ’’میں اپنے سفر کے دوران بارہا دریاؤں کے، ڈاکوؤں کے، اپنی قوم کے، اور غیریہودیوں کے ، شہر کے، بیابان کے، سمندر کے، جھوٹے بھائیوں کے خطرے میں گھرا رہا ہوں‘‘ (2کرنتھیوں11:26)۔ ڈاکٹر ہائیمرز اُس بوجھ کو اُٹھائے رہے جو پولوس نے اُٹھایا، ’’تمام کلیسیاؤں کی فکر کا بوجھ‘‘ (2 کرنتھیوں11:28)۔ اِس کے باوجود ڈاکٹر ہائیمرز نے حوصلہ نہیں ہارا۔ اُنہوں نے قلت محسوس کی، یہاں تک کہ ذہنی دباؤ کا شکار رہے۔ لیکن اُنہوں نے کبھی بھی حوصلہ نہیں ہارا۔ اُن کے کردار کی مضبوطی نہایت زیادہ تھی!

جی ہاں، وہاں فضل کی کھڑکیاں تھیں۔ خُداوند نے ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک شاندار بیوی اور دو بیٹے بخشے – اور ایک پوتی۔ سب سے بہترین، لوگ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے۔ آج نہایت چند پادری صاحبان دُنیا میں سے لوگوں کو مسیح میں ایمان دِلا کر تبدیل کر سکتے ہیں۔ اِس کے بجائے وہ لوگوں کو دوسرے گرجہ گھروں کو چُھڑوا کر اپنے گرجہ گھر میں لے آتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر ہائیمرز کے لیے خراج تحسین ہے کہ وہ غیر مسیحی پس منظر سے لوگوں کو مسیح کے لیے جیتتے ہیں۔ سارا اعزاز اُنہی کا ہے!

اب بھی، یہ جنگوں اور دھوکہ بازیوں اور ناکامیوں کے سال تھے۔ یہ دو قدم آگے اور ایک قدم پیچھے والی بات تھی – اور اکثر اوقات تو دو قدم آگے اور تین قدم پیچھے ہوتے تھے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کے ساتھ گندگی کی مانند برتاؤ کیا جاتا تھا اور کبھی کبھار ویسا محسوس ہوتا تھا۔ مگر وہ ایمان سے بھرپور رہے۔ وہ نہیں ڈگمگائے!

پھر ایک بہت بڑی مصیبت آئی۔ ہمارے گرجہ گھر کے ایک ’’سابقہ رہنما‘‘ نے گرجہ گھر کو چھوڑا اور 400 بالغوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ ہمارے گرجہ گھر نے تقریباً اِس عمارت کو کھو ہی دیا تھا۔ ہم تقریباً دیوالیہ ہو چکے تھے۔ ایک مشہور مبلغ نے ڈاکٹر ہائیمرز کو سان جوزSan Jose کے نزدیک ایک گرجہ گھر میں بحال کرنے کی پیشکش کی۔ اُںہوں نے کہا، ’’فرار ہونے کا یہ آپ کا آخری موقع ہے۔‘‘ بے شمار پادری صاحبان فرار ہو چکے ہوتے۔ مگر ممبران کو چھوڑنا اور گرجہ گھر کو مالی مشکلات میں چھوڑنا – ڈاکٹر ہائیمرز رُکے رہے! اُن کی اور ’’اُنتالیس‘‘ ایمانداران کی وجہ سے وہ لوگ جنہوں نے اپنا وقت اور پیسا دیا، ہمارے پاس آپ کے لیے ایک گرجہ گھر ہے!

میں اُس وقت جان گیا تھا کہ ایک انسان کا امتحان وہ ہوتا ہے جو وہ مصیبت کے وقت میں کرتا ہے۔ وہ بیس سال تھے جب سب کچھ بُرا لگتا تھا۔ وہ مصیبتیں جن کا سامنا ہمارے پادری صاحب نے کیا اُن کے کردار کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہیں۔ مشکلات بہت بڑی تھیں۔ طاقت کس قدر زیادہ تھی!

اب یہاں پر گرجہ گھر کی کوئی تقسیم نہیں ہے۔ مگر یہاں ایک مختلف قسم کی آفت ہے۔ چند ایک سال پہلے ڈاکٹر ہائیمرز نے مجھے بتایا اُن کے لیے ابھی اور بے شمار امتحانات سے گزرنا موجود ہے۔ وہ 70 برس کی عمر سے زیادہ کے ہو گئے تھے۔ میں خود ساٹھ سے زیادہ کا ہو گیا تھا۔ اِس کے باوجود میں سمجھ نہیں پایا۔ میں نے کہا، ’’کیا؟ آپ اپنے بستر مرگ پر مسیح کا انکار کرنے تو نہیں جا رہے ہیں!‘‘ اِس کے باجود اِمتحانات تھے، اور مسیح میں ہمارے پادری صاحب نے عمر کے اِمتحانات کو عزت اور شاندار طریقے سے پاس کیا۔

75 برس کی عمر میں، کینسر اور طبّی علاج کی وجہ سے کمزوری کے ساتھ، زیادہ تر لوگ ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ مگر ہمارے پادری صاحب نے ہمارے گرجہ گھر اور خُدا کے لیے کام کو جاری رکھا! میں نے اُنہیں چل پانے کے لیے مشکلوں سے قابل ہونے کے باوجود اور پیٹ میں پڑتے بلوں کے ساتھ اور گذشتہ رات کو انتہائی کم نیند کے ساتھ، خود کو واعظ گاہ میں گھسیٹ کر لے جاتے ہوئے اور منادی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اور وہ منادی کیسے کرتے ہیں؟ ایک شیر کی مانند! اُن کا سب سے زیادہ تھکا دینے والا واعظ بھی میں جانتا ہوں آپ کے کہیں اور سُنے جانے والے واعظ کے مقابلے میں کہیں بہتر ہوتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ 140,000 سے زیادہ لوگ اُن کے واعظوں کے مسودوں کو پڑھتے ہیں اور گذشتہ ہفتے 217 ممالک میں اُن کو ویڈیو پر دیکھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ساری دُنیا میں پادری صاحبان اُن کے واعظوں کی اپنے گرجہ گھروں میں منادی کرتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کی آیت کا ثبوت ہیں، ’’مسیح جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس کے وسیلے سے میں سب کچھ کر سکتا ہوں‘‘ (فلپیوں4:13)۔

میں دعا مانگتا ہوں کہ وہ کینسر کا مقابلہ کر پائیں اور مذہبی خدمت کے اور زیادہ سال گزار پائیں۔ مگر ڈاکٹر ہائیمرز ہمیشہ تک زندہ نہیں رہ پائیں گے۔ بائبل کہتی ہے، ’’ہمیں صحیح طور سے اپنے دِن گننا سکھا، تاکہ ہمارے دِل کو دانائی حاصل ہو‘‘ (زبور90:12)۔ زیادہ تر لوگ زندگی کے مختصر ہونے کے بارے میں نہیں سوچتے۔ نا ہی زیادہ تر پادری صاحبان سوچتے ہیں۔ وہ منصوبہ نہیں ترتیب دیتے کہ جب وہ چلے جائیں گے تو کیا ہو گا۔ اِس لیے اُن کے گرجہ گھر تقسیم میں پھٹ جاتے ہیں، یا وہ آہستگی سے کمزور ہوتے اور مر جاتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے ہمارے پادری صاحب ہمارے گرجہ گھر کے لیے فکر کرتے ہیں! یہ کمزوری یا خود ترسی کی وجہ سے نہیں ہے جو وہ اپنی مستقبل میں ہونے والی موت کے بارے میں بولتے ہیں اور آپ نوجوان لوگوں کا جوش بڑھاتے ہیں – یہ وفاداری اور جرأت کا ایک عمل ہے! جب وہ نوجوان مسیحی لوگوں کو اتنی دور جتنی دور وہ مذہبی خدمت سرانجام دینے کے لیے جا سکتے ہیں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں – یہ احترام اور محبت میں ذمہ داری اور فرض کا ایک عمل ہے!

آج ہمارے پادری صاحب کی بڑھتی ہوئی عمر، بیماری اور زندگی کے مختصر ہونے کا سامنا ہے۔ ایک انسان کا پیمانہ بدبختی میں دیکھا جاتا ہے جب حالات اُس کے خلاف ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز جونیئر میں ہم بِلاشُبہ ایک بہت بڑے انسان کو دیکھتے ہیں!

وہ کیسے یہ تمام کام کرتے ہیں؟ وہ کیسے یہ سب کچھ کر پاتے ہیں؟ مسیح میں! ہمارے پادری صاحب خوشی کے ساتھ کہیں گے کہ وہ ’’[صرف] مسیح میں جو [اُنہیں] طاقت بخشتا ہے اُس کے وسیلے سے سب کچھ کر پاتے ہیں۔‘‘ طاقت کہاں پر ہے؟ مسیح، مسیح اور دوبارہ مسیح!

پولوس رسول نے کہا، ’’تم میرے نمونہ پر چلو جیسے میں مسیح کے نمونے پر چلتا ہوں‘‘ (1کرنتھیوں11:1)۔ میں آپ سے کہتا ہوں، ہمارے پادری صاحب کے نمونے پر چلیں، جیسے وہ مسیح کے نمونے پر چلتے ہیں۔ مسیح پر بھروسہ کریں۔ جتنی آپ اُس کی خدمت کر سکتے ہیں کریں۔ میں آپ سے کہتا ہوں، مسیح، مسیح اور دوبارہ مسیح!

آج کی رات ہم اپنے پادری صاحب کی 75 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ ہم نے اُن کے لیے محبت کا ہدیہ لیا ہے۔ مگر کچھ اِس سے بھی زیادہ اہم ہے جو آپ دے سکتے ہیں۔ اُنہیں ایک عظیم کلیسیا دیں! میں اپنے گرجہ گھر کے بارے میں سوچتا ہوں وہ کیا ہوگا، وہ کیا ہو سکتا ہے، اور خدا کے فضل سے، وہ کیا ہوگا! اُنہیں نوجوان لوگوں سے بھرا ہوا ایک گرجہ گھر دیں! دعا مانگیں اور انجیل کا پرچار کریں اور لوگوں سے اُس وقت تک محبت کریں جب تک کہ ہمارے پاس وہ گرجہ گھر [کلیسیا] نہیں آ جاتا جو خُدا چاہتا ہے! اُنہیں ایک عظیم کلیسیا دیں!

اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کیا آپ کے پاس ہمارے پادری صاحب کا مسیح ہے؟ کیا آپ کے پاس اُن کا نجات دہندہ ہے؟ کیا آپ نے یسوع پر بھروسہ کیا ہے؟ مسیح کے بغیر آپ کے پاس ماسوائے گناہ کے کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر آپ مسیح پر بھروسہ کرتے ہیں تو آپ اُس کے خون کے ذریعے سے معافی پائیں گے۔ اگر آپ یسوع پر بھروسہ کرتے ہیں، تو آپ دائمی زندگی کے لیے دوبارہ جنم لیں گے۔ میں دعا مانگتا ہوں کہ آپ جلد ہی یسوع پر بھروسہ کریں گے۔ آمین۔

اگر اِس واعظ نے آپ کو برکت بخشی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا چاہیں گے۔ جب آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو آپ اُنہیں ضرور بتائیں کہ آپ کس مُلک سے لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای میل کو جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل لکھیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں اُس کا نام شامل کریں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: ڈاکٹر ہائیمرز کا پسندیدہ زبور، زبور27:1۔14 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجیمن کنکیتھ گریفتھMr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
The Master Hath Come” (by Sarah Doudney, 1841-1926).
’’آقا آ چکا ہے‘‘ (شاعر سارہ داؤدنیSarah Doudney، 1841۔1926)۔