Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


کیسے یہوداہ اسخریوطی
شیطان کے ذریعے سے تباہ کیا گیا تھا

HOW JUDAS ISCARIOT
WAS DESTROYED BY SATAN
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی شام، 13 مارچ، 2016
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, March 13, 2016

’’اور اُس نوالہ کے بعد شیطان اُس میں سما گیا‘‘ (یوحنا13:27)۔

وہ ’’نوالہ‘‘ بِناخمیر کے روٹی کا ایک ٹکڑا تھا جو یسوع اور شاگردوں نے آخری کھانے پر کھایا تھا۔ ’’اور اُس نوالہ کے بعد شیطان اُس میں سما گیا۔‘‘بائبل میں یہ سب سے دھشت ناک آیات میں سے ایک ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ شیطان بذاتِ خود یہوداہ میں سما گیا تھا – اور وہ شیطان کے ذریعے سے دیوانہ سا ہو گیا تھا۔ یہ انتہائی غیر معمولی ہے کیونکہ یہوادہ مسیح کے نزدیک ترین شاگردوں میں سے ایک تھا۔ ہم سب کے لیے یہوداہ کی کہانی میں ایک تنبیہہ ہے – چاہے ہم نجات یافتہ ہیں یا نہیں۔

یہوداہ اسخریوطی شمعون اسخریوطی کا بیٹا تھا۔ ’’اسخریوطIscariot‘‘ جنوبی یہوداہ میں قریتKerioth کے اُس کے آبائی قصبہ کی جانب حوالہ دیتا ہے۔ پس یہوداہ بارہ شاگردوں میں سے واحد اکیلا تھا جو شمال میں گلیل سے نہیں تھا۔ شاگردوں کی فہرست میں اُس کا نام ہمیشہ آخر میں لیا جاتا ہے۔ وہ یقینی طور پر ایک اہم شاگرد تھا۔ اُس نے اُن کے خزانچی کی حیثیت سے خدمات سرانجام دی تھیں۔

یہوداہ اسخریوطی کی کہانی تاریک اور خوف سے بھرپور ہے۔ مگر چونکہ اِس کو تمام چاروں اناجیل میں پیش کیا گیا ہے اِس لیے یہ اہم ہے اور ایک مبلغ کے لیے اِس پر کبھی کبھار بات کرنا ضروری ہے۔ میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں کہ کیسے یہوداہ آسیب زدہ بنا۔ کہانی یہ ہے۔

مرقس کا تیسرا باب کہتا ہے کہ مسیح پہاڑ پر اوپر گیا اور اپنے پاس شاگردوں کو بُلایا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں مسیح کے واپس آسمان میں اُٹھائے جانے کے بعد کلیسیاؤں کو قائم کرنا تھا۔ اب سے مسیح کا مرکزی کام اِن بارہ شاگردوں کو تعلیم دینا اور اُن کی تربیت کرنا ہو گا۔ یسوع نے اُن کو رسول کہا – جس کا مطلب تھا وہ ’’بھیجے‘‘ ہوئے تھے۔ اُس نے اُن کو اپنے ساتھ رہنے، اُس کی مثال سے سیکھنے اور اُس کی منادی یا مذہبی خدمت میں شریک ہونے کے لیے بُلایا تھا۔ وہ اُنہیں منادی کرنے، بیماریوں سے شفا دینے اور اُس کے نام میں بدروحوں کو نکالنے کا اختیار دے گا۔ اُن کی ذمہ داریوں میں سے ایک آسیبوں پر قابو پانا تھا۔ اُن کے تمام نام مرقس3:16۔19 میں درج ہیں۔ پہلے شاگرد کا نام پطرس تھا۔ بارہویں شاگرد کا نام یہوداہ اسخریوطی تھا۔

متی10:1۔4 میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ یسوع نے اِن شاگردوں کو بدروحوں کو نکالنے، بیماروں کو شفا دینے اور منادی کرنے کے لیے بھیجا۔ دوبارہ اُن بارہ کے نام درج ہیں۔ دوبارہ پہلے والے کا نام پطرس اور آخری والے کا نام یہوداہ اسخریوطی ہے۔ متی 10:1 کہتی ہے کہ یسوع نے اِن تمام شاگردوں کو ’’ناپاک روحوں کے خلاف قوت، اُنہیں باہر نکالنے‘‘ کے ساتھ ساتھ دوسرے معجزات کرنے اور منادی کرنے کی قوت بخشی تھی۔ یہوداہ کو یہ ’’قوت‘‘ بخشی گئی تھی – اور اُس نے خود بدروحوں کو نکالا، بیماروں کو شفا دی اور منادی کی تھی۔ یہوداہ بعد میں وہ شخص تھا جس نے یسوع کو دھوکہ دیا۔ مگر یسوع نے اِس شخص کو منادی کرنے کی قوت اور اختیار بخشا تھا (متی10:7)۔ اُس کو ’’بیماروں کو شفا دینے، کوڑھیوں کو پاک کرنے، مُردوں کو زندہ کرنے اور بدروحوں کو نکالنے‘‘ کی قوت بھی بخشی گئی تھی (متی10:8)۔ ہمارے لیے یاد رکھنے کے لیے آج یہ انتہائی اہم نکتہ ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر کسی پر جو مسیحی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے بھروسہ نہیں کیا جا سکتا – یہاں تک کہ اگر وہ بیماروں کو شفا دینے، بدروحوں کو نکالنے کے بھی قابل ہوں – اور، جی ہاں، مُردوں کو زندہ کرنا! کچھ مکار لوگ ساری مسیحی تاریخ میں وہ کام کرنے کے قابل رہے ہیں۔ مثال کے طور پر راسپوٹین ہی کو لے لیجیے، وہ ایک روسی راہب تھا جس کو روسی شہنشاہ کے اپنے محل میں روسی شنہشاہ کے بیٹے کو شفا دینے کے لیے لایا گیا تھا۔ اور آج ہمیں بینی حِن Benny Hinn، اور دوسرے ’’شفا دینے والے‘‘ مبشران انجیل سے بچے رہنے کے لیے انتہائی محتاط رہنا چاہیے۔ وہ شاید اتنے ہی بُرے ہوں جتنا یہوداہ اسخریوطی تھا – جس نے بعد میں گتسمنی کے باغ میں مسیح کو دھوکہ دیا تھا۔ مگر یہوداہ یکدم ہی ابلیس کے قبضے میں نہیں آ گیا تھا۔ کچھ قدم تھے جو اُس نے تباہی کی راہ پر چلنے کے لیے اُٹھائے تھے!

جیسا کہ میں نے کہا، یہوداہ شاگردوں کا خزانچی تھا۔ وہ ایک بٹوے یا ’’تھیلی‘‘ میں جو تھوڑا بہت پیسہ اُن کے پاس ہوتا تھا اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ وہ دوسرے شاگردوں کو جب اُنہیں اِس کی ضرورت ہوتی تھی کچھ پیسے اِس تھیلی میں سے دیتا تھا۔ بائبل کہتی ہے کہ یہوداہ اسخریوطی ’’ایک چور تھا اور چونکہ اُس کے پاس تھیلی رہتی تھی جس میں لوگ رقم ڈالتے تھے، وہ اُس میں سے اپنے استعمال کے لیے کچھ نہ کچھ [رقم] نکال لیا کرتا تھا‘‘ (یوحنا12:6)۔

یہوداہ ’’ایک چور تھا۔‘‘ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ اُس کے پاس ایک چور کا دِل تھا۔ وہ تھیلی (یا بٹوے) میں سے جو وہ اپنے پاس رکھتا تھا کچھ رقم چُراتا تھا۔ متھیو ھنری Mathew Henry کا تبصرہ کہتا ہے، ’’اُس کو اپنے دِل میں پیسے چھونے یا گننے سے محبت تھی۔‘‘ ایمانداری سے کام کر کے پیسے کمانے میں کوئی بُرائی نہیں ہے۔ مگر پولوس رسول نے کہا،

’’زَر دوستی ہر قسم کی بُرائی کی جڑ ہے اور بعض لوگوں نے دولت کے لالچ میں آکر اپنا ایمان کھو دیا اور طرح طرح کے غموں سے اپنے آپ کو چھلنی کر لیا‘‘ (1۔ تیموتاؤس 6:10).

جے۔ سی۔ رائیلی J. C. Ryle نے ’’پیسے کی محبت کے شدید خطرے‘‘ کے بارے میں بتایا… یہ غریبوں کے ساتھ ساتھ امیروں کے لیے بھی ایک پھندا ہے۔ اِس میں بھروسہ کرنا روح کو تباہ کر ڈالتا ہے۔ آئیے ایسی چیزوں کے ساتھ جو ہمارے پاس ہیں قناعت کریں‘‘ (جے۔ سی۔ رائیلیJ. C. Ryle ، مرقس کی انجیل پر تفسیراتی خیالات Expository Thoughts on Mark، بینر آف ٹُرتھBanner of Truth، دبیز کاغذ کی جلد والی کتاب1994، صفحات210، 211؛ مرقس10:23 پر غور طلب بات)۔

میں بے شمار لوگوں کو اس قدر بھٹکا ہوا دیکھ چکا ہوں کیونکہ وہ ’’تحفظ‘‘ چاہتے ہیں۔ میں اُنہیں آہستہ آہستہ مضبوط مسیحی وابستگی کو ایک اعلٰی تنخواہ والے روزگار کے ’’تحفظ‘‘ کی تلاش میں چھوڑتا ہوا دیکھ چکا ہوں۔ گذشتہ رات جب میں نے یہ الفاظ لکھے تو میں نے ایک پرانے دوست کے بارے میں سوچا، جس کو طویل مدت پہلے اِس دُنیا کے ذریعے سے آزمایا گیا اور جس نے یسوع سے مُنہ موڑ لیا۔ تحفظ کے لیے ایک دوسرا لفظ [پیسہ] دولت ہے۔ پیسے میں بھروسہ کرنا خطرناک ہوتا ہے۔ یسوع نے کہا، ’’دولت [پیسے] پر بھروسہ رکھنے والوں کا خُدا کی بادشاہی میں داخل ہونا کتنا مشکل ہے‘‘ (مرقس10:24)۔

میرے ساتھیوں میں سے ایک ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan کی زندگی کی آیت امثال11:4 ہے، ’’قہر کے دِن دولت کام نہیں آتی‘‘ (امثال11:4)۔ ڈاکٹر کیگن نے مجھے بتایا کہ نوجوان لوگ اکثر سوچتے ہیں کہ ’’شہوت یا آرزو کرنا‘‘ صرف جنسی گناہ اور نشے بازی کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ اُنہوں نے کہا، ’’اُن لوگوں کو احساس نہیں ہوتا ہے کہ دولت اور عزت و وقار کے لیے ’’آرزو کرنا‘‘ اتنا ہی خطرناک ہے جتنا کہ جنسی گناہ اور ھیروئین کا نشہ – شاید نوجوان مسیحیوں کے لیے کچھ اِس سے بھی زیادہ۔‘‘ خود شیطان کے ذریعے سے ڈاکٹر کیگن کو بھی وقار اور تحفظ کی زندگی بسر کرنے کے لیے آزمایا گیا تھا۔ ان کی بہت بڑی خواہش تھی کہ اُنہیں تیس برس کا ہونے سے پہلے ایک ملین ڈالر کمانے تھے۔ اُںہوں نے جب سے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے تو اُس آرزو کو چھوڑ دیا۔ وہ اب ہمارے گرجہ گھر کے ساتھی پادری صاحب ہیں۔۔ اُن کی مثال کی پیروی کریں!

یہوداہ اسخریوطی تباہ ہو گیا اور جنہم میں گیا کیونکہ اُس نے اُس تھیلی کی دولت کی جو وہ اُٹھائے رکھتا تھا آرزو کی تھی! بیج بونے والے کی تمثیل کو یاد رکھیں!

’’جھاڑیوں میں گرنے والے بیج سے مُراد وہ لوگ ہیں جو کلام کو سُنتے تو ہیں لیکن رفتہ رفتہ زندگی کی فکروں، دولت اور عیش و عشرت میں پھنس جاتے ہیں اور اُن کا پھل پک نہیں پاتا‘‘ (لوقا 8:14).

آپ ’’اِس زندگی کی دولت اور عیش و عشرت‘‘ کے تعاقب میں اِس طرح سے جکڑے جاتے ہیں کہ آپ آہستہ آہستہ ’’پھنس‘‘ جاتے ہیں اور صرف نام ہی کے مسیحی رہ جاتے ہیں۔ یہ تھا جس نے اُس سابقہ رہنما کو تباہ کر دیا جس نے سالوں پہلے ہمارے گرجہ گھر کو تقسیم کیا تھا۔ اِس سے پرے ہو جائیں! اِس سے پرے ہو جائیں! یہوداہ کی آرزو سے پرے ہو جائیں!

’’پہلے تُم اُس کی بادشاہی اور راستبازی کی جستجو کرو تو یہ چیزیں بھی تمہیں عطا کر دی جائیں گی‘‘ (متی 6:33).

آپ میں سے اکثر جب میں کالج میں تھا تو میرے ساتھ کیا ہوا اِس کے بارے میں کچھ نہ کچھ بتاتے ہوئے سُن چکے ہیں۔ میں نے وہ انتہائی سخت وقت گزارا۔ مجھے صبح 8:00 بجے سے لیکر شام 5:00 بجے تک کام کرنا پڑتا۔ پھر مجھے رات میں کیلیفورنیا سٹیٹ لاس اینجلز میں کلاسز پڑھنی پڑتیں۔ راتوں کو پڑھ پڑھ کر مجھے اپنی بیچیلر ڈگری حاصل کرنے میں آٹھ سال لگ گئے۔ کالج کی تعلیم کے تقریباً وسط میں میں اِس قدر تھک گیا اور حوصلہ ہار گیا کہ میں بُری طرح سے شیطان کے ذریعے سے آزمایا گیا تھا۔ بالکل اُسی دوران میرے پروفیسروں میں سے ایک نے مجھے اُستاد بننے کا مشورہ دیا۔ وہ ایک ایسے شخص تھے جنہیں میں سراہاتا تھا جو دورِ حاضرہ کا ادب پڑھاتے تھے۔ اُنہوں نے مجھے بتایا کہ میں ایک انگریزی کے اُستاد کی حیثیت سے اچھا روزگار کما سکتا ہوں۔ میں نے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ مذہبی خدمت میں جانے کے تصور کو چھوڑنے کے بارے میں اور اِس کے بجائے ایک اُستاد بننے کا سوچا۔ میں یہ تقریباً کر ہی چکا تھا مگر میں پہلے اپنے پروفیسر ڈاکٹر لِن Dr. Lin کو دیکھنے کے لیے گیا۔ اُنہوں نے مجھے بتایا کہ میں مذہبی خدمت کے مقابلے میں کسی دوسری بات سے کم پر کبھی بھی مطمئن نہیں ہو پاؤں گا۔ مجھے یہ احساس کرنا یاد ہے کہ انگریزی کا ایک اُستاد بننے کا خیال ابلیس کی جانب سے ایک آزمائش تھی۔ ڈاکٹر جان آر۔ رائس Dr. John R. Rice اپنی مذہبی خدمت میں جانے سے پہلے بالکل اِسی طرح سے آزمائے گئے تھے۔ کسی دوسرے کے لیے ایک اُستاد بننا گناہ سے بھرپور نہیں تھا مگر میرے لیے یہ ایک گناہ ہی رہا ہوتا۔ یہ نہیں تھا جو خُدا چاہتا تھا میں اپنی زندگی کے ساتھ کروں۔

اگر میں اُس آزمائش میں ہار چکا ہوتا تو آج کی رات آپ میں سے کوئی بھی یہاں پر نہ ہوتا! مسٹر گریفتھ Mr. Griffith نجات نہ پا چکے ہوتے۔ ڈاکٹر چعینDr. Chan نجات نہ پا چکے ہوتے۔ نہ ہی مسٹر لی Mr. Lee، یا ہمارے گرجہ گھر کے رہنماؤں میں سے کوئی بھی۔ نہ ہی آپ نجات پا چکے ہوتے۔ دراصل آپ میں سے تو بے شمار کبھی پیدا ہی نہ ہوئے ہوتے! آپ میں سے بے شمار کے والدین کی ملاقات یہاں ہمارے گرجہ گھر میں ہوئی۔ اُن کی شادی نہ ہوئی ہوتی اور آپ کبھی پیدا ہی نہ ہوئے ہوتے۔ اِس گرجہ گھر کا کوئی وجود نہ ہوتا۔ میں کبھی بھی اپنی شاندار بیوی کو جان نہ پایا ہوتا۔ میرا بیٹا پیدا نہ ہوا ہوتا، اور اُس کا بچہ حنّہHannah کبھی زندگی نہ جی رہا ہوتا۔

وہ گرجہ گھر جو میں نے شمالی کیلیفورنیا میں شروع کیا تھا وجود نہ رکھتا۔ وہ چالیس گرجہ گھر جو اِس میں سے نکلے وجود نہ رکھتے۔ سینکڑوں لوگ نجات نہ پاتے – اور ہماری ویب سائٹ پر واعظوں کے مسوّدے اور ویڈیوز کی دُنیا بھر میں تشہیر اور منادی کبھی بھی نہ ہوئی ہوتی۔ واقعی میں ہزاروں زندگیاں بدترین کے لیے تبدیل ہو چکی ہوتی اگر میں کسی کالج یا یونیورسٹی میں ایک انگریزی کا پروفیسر بننے کے لیے آزمائش میں پڑ گیا ہوتا۔

بعد میں، جب میں نے کالج سے گریجوایشن کی اور سیمنری میں چلا گیا، تو میں دوبارہ مذہبی خدمت چھوڑنے کے لیے شدت کے ساتھ آزمایا گیا تھا۔ میں نے تو چند ایک دِنوں کے لیے اصل میں مذہبی خدمت کو چھوڑ بھی دیا تھا۔ مگر خُدا نے مجھے ایک رات واپس بُلا لیا۔ میں کافی تنہائیوں اور دِل کے دردوں میں سے گزرا – اور میں خوش ہوں کہ میں گزرا۔ یہ گرجہ گھر میرے لیے زمین پر تمام سونے کے مقابلے میں کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ انٹر نیٹ پر ساری دُنیا میں پھیلی ہوئی یہ مذہبی خدمت میرے لیے کروڑوں ڈالرز کے مقابلے میں کہیں زیادہ قیمتی ہے! یہ آپ کو ایک چھوٹی سی بات کی مانند لگتا ہے، مگر یہ گرجہ گھر دُنیا میں میرے لیے سب سے زیادہ اہم چیز ہے!

میری زندگی، میری محبت میں تجھے سونپتا ہوں،
   تو خُدا کا برّہ جو میرے لیے مرا؛
ہائے کاش میں کبھی وفادار بھی رہا ہوتا،
   میرے نجات دہندہ اور میرے خُداوندا!
میں اُس کے لیے جیئوں گا جو میرے لیے مرا،
   میری زندگی کس قدر مطمئن ہو گئی!
میں اُس کے لیے جیئوں گا جو میرے لیے مرا،
   میرے نجات دہندہ میرے خُداوندا!
(’’میں اُس کے لیے جیئوں گا I’ll Live for Him‘‘ شاعر رالف ای۔ ہڈسن
      Ralph E. Hudson، 1843۔1901؛ ڈاکٹر ہائیمرز نے ترمیم کی)۔

میں نا صرف یہ دیکھتا ہوں کہ اب یہ گرجہ گھر کیسا ایک خزانہ ہے – میں یہ بھی دیکھتا ہوں اِس گرجہ گھر کو کیسا ہونا چاہیے، یہ کیسا ہو سکتا ہے، اور خُدا کے فضل سے، یہ کیسا ہوگا! میرے اپنے ذہن میں میں اِس اجتماع گاہ کے ہر کونے کو خوش نوجوان لوگوں سے بھرا ہوا دیکھتا ہوں! میں خُدا کی روح کو نازل ہوتا ہوا دیکھتا ہوں۔ میں نوجوان لوگوں کے دمکتے چہروں کو روتا ہوا، دعائیں مانگتا ہوا اور خوشی کے لیے پکارتا ہوا دیکھ سکتا ہوں! میں نوجوان لوگوں کو منسٹری کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرتا ہوا دیکھتا ہوں – اور کچھ کو مشنریوں کی حیثیت سے انجانے علاقوں میں جاتا ہوا دیکھ سکتا ہوں۔ میں ایک بہت بڑے گرجہ گھر کو دراڑ میں سے پوٹھتا ہوا دیکھ سکتا ہوں – اِس جگہ سے ہمارے مُلک اور ہماری دُنیا کے تاریک کونوں تک خُدا کی محبت کے ساتھ آگے بڑھتا ہوا دیکھ سکتا ہوں! میں یسوع کو اُوپر اُٹھتا ہوا اور اپنی محبت کو ساری دُنیا میں سینکڑوں اور ہزاروں لوگوں پر اُنڈیلتا ہوا دیکھ سکتا ہوں! میں اُن کو گاتا ہوا سُن سکتا ہوں،

میں اُس کے لیے جیئوں گا جو میرے لیے مرا،
   میری زندگی کس قدر مطمئن ہو گئی!
میں اُس کے لیے جیئوں گا جو میرے لیے مرا،
   میرے نجات دہندہ میرے خُداوندا!

یہوداہ نے ایک مرتبہ ایسا محسوس کیا تھا۔ مگر وہ یسوع کا بدنصیب چاہنے والا تھا۔ وہ دو کشتیوں میں سوار تھا۔ اُس کا کچھ حصّہ یسوع کو چاہتا تھا۔ مگر اُس کو دوسرا حصّہ اِس دُنیا کی چیزوں کو چاہتا تھا۔ بائبل کہتی ہے، ’’ایک دو دِلا شخص اپنی تمام راہوں میں مُستقل نہیں ہوتا‘‘ (یعقوب1:8)۔ اور یوں، یہوداہ نے اپنے ہاتھ کو شاگردوں کے پیسوں کی چھوٹی سی تھیلی میں ڈبویا۔ یہ کافی نہیں تھا – محض چند مُٹھی بھر سکّے جو لوگ یسوع کو جب وہ اُس کے وسیلے سے برکت پاتے تو ہمدردانہ طور پر دیتے تھے۔ مگر یہوداہ نے بار بار پیسوں پر انگلیاں چلائیں۔ گاہے بگاہے وہ خود کے لیے چند ایک سکّے چُرا لیا کرتا۔

دوسرے شاگردوں کی مانند اُس نے سوچا تھا کہ یسوع اپنی زمینی بادشاہت اِسی وقت قائم کر دے گا۔ یہاں تک کہ اُس کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد اُںہوں نے کہا، ’’خُداوند! کیا تو اِسی وقت پھر سے اِسرائیل کو اُس کی بادشاہی عطا کرنے والا ہے؟‘‘ (اعمال1:6)۔ وہ منصوبہ بنا رہے تھے اُن میں سے کون بادشاہی میں سب سے بڑا ہوگا۔ وہ خود کے مابین ’’اُن میں سے سب سے بڑا کون ہوگا‘ کے بارے میں بحث کیا کرتے (لوقا9:46)۔

’’اُس کے بعد یسوع نے اپنے شاگردوں پر ظاہر کرنا شروع کر دیا کہ اُس کا یروشلم جانا لازمی ہے تاکہ وہ بزرگوں اور سردار کاہنوں اور شریعت کے عالموں کے ہاتھوں بہت دُکھ اُٹھائے، قتل کیا جائے، تیسرے دِن مُردوں میں سے جی اُٹھے… ‘‘ (متی16:21)۔ میرا یقین ہے کہ یہوداہ نے سوچنا شروع کر دیا تھا کہ یسوع مر جائے گا اور اپنی بادشاہی قائم نہیں کرے گا – کہ مذید اور یسوع کے پیچھے چلنے سے اِسے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا تھا۔ جوں جوں وہ اِن باتوں کے بارے میں سوچتا گیا شیطان اُس کے نزدیک تر ہوتا چلا گیا۔

اب فسح کی عید آ رہی تھی۔ سردار کاہن اور شریعت کے عالمین یسوع کو قتل کرنے کے لیے کوئی راہ تلاش کر رہے تھے۔ ’’تب شیطان یہوداہ میں سما گیا… وہ سردار کاہنوں اور ہیکل کے پاسبانوں کے سرداروں کے پاس گیا اور اُن سے مشورہ کرنے لگا کہ وہ کس طرح یسوع کو اُن کے حوالے کرے۔ وہ بڑے خوش ہوئے اور اُسے روپیہ دینے کا وعدہ کیا‘‘ (لوقا22:3۔5)۔ ’’تب شیطان یہوداہ میں سما گیا۔‘‘ وہ شروع سے ہی روپے کی چاہت کرتا تھا۔ اب ابلیس نے اُس کی کمزور رَگ پر پاؤں رکھا تھا اور یہودہ شکست کھا گیا – ’’تب شیطان یہوداہ میں سما گیا‘‘ – اور وہ سردار کاہنوں کے پاس نجات دہندہ کو دھوکہ دینے کے لیے گیا۔ یہوداہ اسخریوطی نے روپے کے لیے مسیح کو دھوکہ دیا تھا! حرص و طمع نے اُس کی جان کو تباہ کر دیا!

آج کی صبح ڈاکٹر کیگن نے ’’آنکھوں کی آرزو اور زندگی کے غرور‘‘ پر ایک قوت سے بھرپور واعظ دیا (1یوحنا2:16)۔ ڈاکٹر کیگن نے کہا، ’’میرا ’’آنکھوں کی آرزو اور زندگی کے غرور‘‘ سے کیا مطلب ہے؟ میں روپے اور اُن سے جو چیزیں خریدیں جا سکتی ہیں اُن کے بارے میں بات کر رہا ہوں – ایک گھر، ایک گاڑی، اچھے کپڑے، خوش گماں سیریں، باقی ہر ایک چیز… جب پیسہ اور جو چیزیں اِس سے خریدی جا سکتی ہیں آپ کی نظروں میں سماتی ہیں اور آپ کا اہم ہدف بنتی ہیں، اور آپ مذید اور کے بعد مذید اور کی تلاش جاری رکھتے تو آپ آنکھوں کی آرزو کے ذریعے سے قیدی اور غلام بنائے جا چکے ہوتے ہیں۔ میں گمراہ لوگوں کی تعریفوں کے بارے میں [بھی] بات کر رہا ہوں۔ میں تمغوں اور ترقیوں اور اعزازات اور اسناد کی بات کر رہا ہوں، اور آپ کے بارے میں لوگ جو اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں اُس کی بات کر رہا ہوں۔ جی ہاں، آپ کو سکول میں بہترین کرنا چاہیے۔ جی ہاں، آپ کو ایک نوکری ملنی چاہیے اور اِس میں جان لگانی چاہیے۔ مگر جب تمغے اور ترقیاں اور اعزازات اور اسناد اور تعریفیں خُدا کی باتوں سے آپ کا مُنہ موڑ دیتی ہیں تو آپ زندگی کے غرور کے ذریعے سے قیدی بنا لیے جاتے ہیں۔‘‘

پھر ڈاکٹر کیگن نے اُن لوگوں کے بارے میں بات کی جو شیطان آپ کو آزمانے کے لیے استعمال کرے گا۔ ڈاکٹر کیگن نے کہا، ’’وہ اُن لوگوں کو استمعال کرے گا جنہیں آپ پسند کرتے اور جن کی عزت کرتے ہیں۔ وہ اُن لوگوں کو استعمال کرے گا… جن سے آپ نے کچھ سیکھا تھا – جن کو کاروباری دُنیا میں ’’گرو‘‘ کہتے ہیں۔ وہ آپ کے کالج میں لوگوں کو استعمال کرے گا جن کو آپ سراہتے اور جن کی عزت کرتے ہیں – آپ کے پروفیسرز اور آپ کی زندگی میں دوسرے ’اُستاد‘۔ آپ اُن کی سُنیں گے اور اُن کی نصیحت پر عمل کریں گے۔ آپ اِس طرح سے اِس کے بارے میں نہیں سوچیں گے، مگر وہ آپ کے حقیقی نگہبان بن جائیں گے – آپ کے چرواہے، آپ کی رہنمائی کرنے والے… آپ نہیں سوچیں گے کہ یہ ایک آزمائش ہے۔ یہ آپ کو اچھا لگے گا۔ مگر یہ مسیح سے آپ کی محبت کو پرے دھکیل دے گا… جب آپ بچے تھے تو مسیح اور گرجہ گھر انتہائی اہم دکھائی دیتے تھے، لیکن اب آپ اُنہیں اپنی زندگی کے ایک تھوڑے سے حصے میں ایک خانے میں رکھنا شروع کر دیں گے… اور یوں یہ جاری رہتا ہے – اور جاری رہتا ہے – جب تک کہ آپ قیدی نہیں بن جاتے – جیسا سیمسن تھا، اندھی آنکھوں کے ساتھ، دُںیا کی چکی کے پہیے کو پیستا ہوا!‘‘ (کرسٹوفر ایل۔ کیگن، پی ایچ۔ ڈی۔ Christopher L. Cagan, Ph.D.، ’’گرجہ گھر کی دُنیا یا کُشادہ دُنیا؟ The Church World or the Wide World?‘‘ خُدا کے دِن کی صبح، 13 مارچ، 2016)۔

جب میں نے ڈاکٹر کیگن کا عظیم واعظ پڑھا تو میں نے سوچا، ’’اوہ خُدایا! مجھے تو اِس کی کافی عرصہ پہلے منادی کر چُکنی چاہیے تھی!‘‘ کیا یہ ہمارے لوگوں میں سے ایک یا دو پر ہی لاگو ہوتا ہے؟ میں نے کچھ دیر تک اِس بارے میں سوچا۔ پھر میں نے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر ہمارے گرجہ گھر کے اُن بارہ نوجوان لوگوں کے نام لکھے جو ڈاکٹر کیگن کے ذریعے سے بتائی گئی ایسی ہی آزمائشوں کے شیطانی اندھے پن میں چلے گئے۔ میرے دِل کو دُکھ ہوا تھا جب مجھے احساس ہوا کہ اِس نکتے پر میری منادی ناکام ہوئی تھی، جب وہ بارہ نوجوان لوگ اِسی بُری روح کے ذریعے سے جس نے یہوداہ اسخریوطی کو قدم بہ قدم نجات دہندہ کو دھوکہ دینے کے لیے رہنمائی کی، دُنیا داری میں دھنستے چلے گئے!

یہوداہ نے کبھی بھی تصور نہیں کیا تھا کہ اِس کا خاتمہ اِس طرح سے ہوگا، جب وہ تھوڑا تھوڑا کر کے آزمائش میں دھنستا جا رہا تھا۔ بالاآخر شیطان اُس میں سما گیا اور اُس نے یسوع کو دھوکہ دیا۔ کیا آپ جانتے ہیں مسیح کو دھوکہ دینے کے لیے اُس کو کتنے پیسے ملے تھے؟ اُس کو صرف چاندی کے 30 سکّے ملے تھے۔ بائبل کی ڈیوس لغت The Davis Dictionary of the Bible کہتی ہے وہ ’’تقریباً 19.50 ڈالرز تھے، جو ایک غلام کی معمولی سی قیمت‘‘ تھی۔ شیطان زیادہ تر لوگوں کو سستے میں حاصل کر لیتا ہے! وہ کبھی کبھار ہی بھاری ادائیگی کرتا ہے۔ وہ زیادہ تر لوگوں کو سستے ہی میں حاصل کر لیتا ہے! حیرت انگیز طور پر، میں نے شیطان کے اِس طرح سے ہمارے گرجہ گھر سے لے جانے والے 12 نوجوان لوگوں کو گِنا۔ پھر میں اپنے ذہن میں تیس سال پہلے گیا، اور میں نے صحیح طور سے اُن 12 لوگوں کے نام درج کیے جو کبھی ہمارے گرجہ گھر میں تنخواہ دار ملازم تھے – جنہیں شیطان نے بالکل اِسی طرح سے تباہ کیا! اوہ میرے خُداوندا، مجھے اِس موضوع پر بار بار منادی کرنی چاہیے! جی ہاں، میں نے وعدہ کیا ہے کہ آج رات ہی سے میں اپنی منادی میں دُنیاداری کی آزمائش کو بہت زیادہ نمایاں جگہ دوں گا!

اور یوں، یہوداہ نے اُس ہولناک رات کو گتسمنی کے باغ میں مسیح کے دشمنوں کی رہنمائی کی۔ اور اِس طرح سے، یہوداہ کو اُس کے چاندی کے 30 سکّے ملے – جو تقریباً 19.50 ڈالر کی قیمت کے تھے۔

بعد میں اُس رات، ’’جب یہوداہ نے، جس نے یسوع کو پکڑوایا تھا، جب دیکھا کہ یسوع کو مجرم ٹھہرایا گیا تھا، تو [بہت پچھتایا] اور چاندی کے وہ تیس سکّے سردار کاہنوں اور بزرگوں کے پاس واپس لایا، اور کہنے لگا

’میں نے گناہ کیا کہ ایک بے قصور کو قتل کے لیے پکڑوایا۔‘

اور اُس نے اُن تیس سکّوں کو ہیکل میں پھینکا، اور چلا گیا، اور پھانسی لے لی‘‘ (متی27:3۔5)۔ اُس نے اپنی گردن کے گرد ایک رسّی ڈالی اور خود کو پھانسی دے دی! یہ پہلی بائبل کی آیت تھی جو میں نے حفظ کی تھی، ’’میں نے گناہ کیا کہ ایک بے قصور کو قتل کے لیے پکڑوایا‘‘ (متی27:4)۔ میں نے اُس آیت کو حفظ کیا تھا اور اِس کو اُس وقت شدید جنون میں کہا تھا جب میں نے کیلیفورنیا کے ہونٹنگٹن پارک کے پہلے چینی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں ایک ڈرامے میں یہوداہ اسخریوطی کا کردار ادا کیا تھا۔ میں اٹھارہ برس کی عمر کا تھا۔ وہ آیت میرا آسیب کی طرح پیچھا کرتی رہی تھی جب تک کہ میں دو سال بعد مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہ ہو گیا۔ ’’میں نے گناہ کیا کہ ایک بے قصور کو قتل کے لیے پکڑوایا۔‘‘

میں آج کی رات آپ سے پوچھتا ہوں، کیا آپ اپنی زندگی میں یسوع کو دھوکہ دیں گے؟ یا آپ اپنے دِل اور اپنی زندگی میں مسیح اور گرجہ گھر کو اوّلین جگہ دیں گے؟ کیا آپ یسوع پر بھروسہ کریں گے اور اُس کے لیے جئیں گے اور تنہا اُسی کے لیے جئیں گے؟ اب سے تین سال بعد کیا آپ تب بھی اُس گیت کو دِل کے ساتھ گانے کے قابل ہوں گے؟

میری زندگی، میری محبت میں تجھے سونپتا ہوں،
   تو خُدا کا برّہ جو میرے لیے مرا؛
ہائے کاش میں کبھی وفادار بھی رہا ہوتا،
   میرے نجات دہندہ اور میرے خُداوندا!
میں اُس کے لیے جیئوں گا جو میرے لیے مرا،
   میری زندگی کس قدر مطمئن ہو گئی!
میں اُس کے لیے جیئوں گا جو میرے لیے مرا،
   میرے نجات دہندہ میرے خُداوندا!

اوہ، اے نوجوان شخص، اپنا دِل اور اپنی زندگی یسوع کے حوالے کر دو – اور اِس دُنیا کی آزمائشوں کے لیے یسوع سے کبھی بھی مُنہ مت موڑو! حمدوثنا کے اُس گیت کو میرے ساتھ گائیں۔ آپ کے گیتوں کے ورق پر یہ گیت نمبر تین ہے۔

میری زندگی، میری محبت میں تجھے سونپتا ہوں،
   تو خُدا کا برّہ جو میرے لیے مرا؛
ہائے کاش میں کبھی وفادار بھی رہا ہوتا،
   میرے نجات دہندہ اور میرے خُداوندا!
میں اُس کے لیے جیئوں گا جو میرے لیے مرا،
   میری زندگی کس قدر مطمئن ہو گئی!
میں اُس کے لیے جیئوں گا جو میرے لیے مرا،
   میرے نجات دہندہ میرے خُداوندا!

آمین۔

اگر اِس واعظ نے آپ کو برکت بخشی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا چاہیں گے۔ جب آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو آپ اُنہیں ضرور بتائیں کہ آپ کس مُلک سے لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای میل کو جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل لکھیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں اُس کا نام شامل کریں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: یوحنا13:21۔20.
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجیمن کنکیتھ گریفتھMr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’آزمائش کے آگے گھٹنے مت ٹیکوYield Not to Temptation‘‘
(شاعر ہوریشو آر۔ پالمرHoration R. Palmer، 1834۔1907)۔