Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

صدر ریگن کی ماں –
ماں کے دِن پر ایک واعظ

PRESIDENT REAGAN’S MOTHER –
A MOTHER’S DAY SERMON
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائمیرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی صبح، 10 مئی، 2015
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, May 10, 2015

مہربانی سے میرے ساتھ اپنی بائبل خروج کی کتاب، باب دو، آیت دو کے لیے کھولیں۔ یہ سیکوفیلڈ مطالعۂ بائبل کے صفحہ 72 پر ہے۔ آئیے کھڑے ہوں اور اِس آیت کو باآوازِ بُلند پڑھیں۔

’’اور وہ عورت حاملہ ہُوئی اور اُس کے ایک بیٹا ہُوا۔ جب اُس نے دیکھا کہ وہ ایک خوبصورت بچّہ ہے تو اُس نے تین مہینے تک اُسے چھِپائے رکھا‘‘ (خروج 2:2).

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

یہ موسیٰ کی پیدائش کا واقعہ ہے۔ موسیٰ کی ماں یوکِبد نامی ایک عبرانی عورت تھی۔ جب مصر کے فرعون نے فرمان جاری کیا تھا کہ تمام عبرانی لڑکے بچوں کو دریا میں ڈبو دیا جائے، تو موسیٰ کی ماں یوکِبد نے اُس کو تین مہینوں تک چھپائے رکھا تھا۔ جب وہ اُس کو مذید اور نہ چھپا پائی تو اُس نے ایک چھوٹی سی کشتی بنائی ایک ٹوکری کی طرح کی اور بچے کو اُس میں رکھ دیا اور اُس کو دریا کے بہاؤ کے ساتھ اُس جگہ تک جہاں فرعون کی بیٹی نہانے کے لیے آیا کرتی تھی تیرنے دیا۔ یوکِبد جانتی تھی کہ واحد اُمید جو اُس کے بچے کے پاس تھی وہ اِس بات پر انحصار کرتی تھی کہ فرعون کی بیٹی اُس کو بچا لی گی۔ اُس نے ضرور شدید دعا مانگی تھی جب وہ دریا میں اُگی سرکنڈوں کی لمبی جھاڑیوں میں چھپی ہوئی تھی اور اُس چھوٹی سی کشتی کو جس میں اُس کا بچہ تھا دریا کے بہاؤ کے ساتھ اُس جگہ تک جہاں فرعون کی بیٹی غسل کرنے کے لیے آیا کرتی تھی تیرتے ہوئے جاتا دیکھا۔ خُدا نے اُس کی دعاؤں کا جواب دیا تھا اور فرعون کی بیٹی نے بچے کو اُٹھا لیا اور ’’اُس کو اُس بچے پر رحم آیا‘‘ (خروج2:6)۔

خُدا کی پروردگاری میں فرعون کی بیٹی نے اپنے ملازماؤں کو بھیج کر اُس بچے کو دودھ پلانے کے لیے ایک عبرانی عورت کی تلاش کرنے کے لیے بھیجا۔ وہ یوکِبد، اُس کی حقیقی ماں کو اُس کے پاس لے کر آئیں کہ وہ دودھ پلائے۔ یوکِبد نے موسیٰ کی دیکھ بھال اُس کے تقریباً دس یا بارہ برس کی عمر ہونے تک کی۔ اُس کے بعد اُس کی پرورش مصری دربار میں فرعون کی بیٹی کے بیٹے کی حیثیث سے ہوئی۔

’’اور مُوسٰی نے مِصریوں کی ساری تعلیم و تربیت حاصل کی‘‘ (اعمال 7:22).

موسیٰ نے فرعون کے دربار میں پرورش پائی۔ اُس نے مصری بُت پرستوں کے کافرانہ مذھب کے بارے میں ساری تعلیم و تربیت حاصل کی۔ ہر کوئی سوچتا تھا کہ وہ ایک مصری تھا۔ مگر اپنے دِل میں موسیٰ خُدا کے بارے میں جانتا تھا، کیونکہ اُس کی حقیقی ماں، یوکِبد نے اُس کو خُدا کے بارے میں اور موسیٰ کی عبرانی وراثت کے بارے میں جب وہ اُس کی دائی تھی بتایا تھا۔

یوکِبد کا اپنے بیٹے پر مصر کے فرعون سے کہیں زیادہ اثر تھا۔ اُس کا موسیٰ پر اثر ’’مصریوں کی ساری تعلیم و تربیت‘‘ کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھا (اعمال7:22)۔ جب موسیٰ مرد بن گیا تو بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ اُس نے اپنی ماں کے خُدا کی پیروی کرنے کے لیے مصر کے مذھب کو مسترد کیا تھا۔ بائبل کہتی ہے،

’’ایمان ہی سے مُوسٰی نے بڑے ہوکر فرعون کی بیٹی کا بیٹا کہلانے سے اِنکار کیا۔ گناہ کا چند روزہ لطف اُٹھانے کی بجائے اُس نے خدا کے لوگوں کے ساتھ مل کر بدسلوکی برداشت کرنا زیادہ پسند کیا… ایمان ہی سے اُس نے بادشاہ کے غُصّہ سے خوف نہ کھایا بلکہ ملک مِصر کو چھوڑ دیا۔ اِس لیے کہ وہ اندیکھے خدا کو گویا دیکھ کر ثابت قدم رہا‘‘ (عبرانیوں 11:24،25،27).

موسیٰ اپنی ماں کے ایمان سے اِس قدر شدت کے ساتھ متاثر ہوا تھا کہ مصر کی تمام دولت، طاقت اور تعلیم و تربیت اُس کو اپنی ماں کے خُدا کی پیروی کرنے سے باز نہ رکھ سکے۔

خُدائی ماؤں نے ساری تاریخ میں اپنے بچوں کو شدت کے ساتھ متاثر کیا۔ صدر تھیوڈور روزویلٹ President Theodore Roosevelt نے کہا،

اچھی ماں، عقلمند ماں سماج کے لیے ایک قابل ترین شخص کے مقابلے میں زیادہ اہم ہوتی ہے؛ اُس کا پیشہ عزت کا زیادہ حق دار ہوتا ہے اور سماج کے لیے کسی دوسرے شخص کے پیشے کے مقابلے میں زیادہ کارآمد ہوتا ہے، اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کتنا کامیاب ہے۔

کیا صدر تھیوڈور روزویلٹ درست تھے؟ میرے خیال میں تھے۔ یوکِبد کی زندگی یہ بات ظاہر کرتی ہے۔ اُس کا بیٹا تاریخ میں سب سے عظیم ترین اور خُدائی لوگوں میں سے ایک بنا تھا۔ اُس نے عبرانیوں کو مصر میں غلامی سے رہائی دلائی۔ یہاں تک کہ مصری دربار میں کافرانہ بت پرستی کے درمیان، موسیٰ نے وہ نہیں بُھلایا جو اُس نے اپنی دیندار ماں سے سیکھا تھا۔

کیا یہ بات ہمارے زمانے میں برقرار ہے؟ جی ہاں، یہ ہوتی ہے۔ میں نیلّی ریگن Nelle Reagan کے علاوہ کسی اور بہت بڑی مثال کا نہیں سوچ سکتا – اور اُن کے بیٹے رونلڈ ولسن ریگن Ronald Wilson Reagan جو کہ ریاست ہائے متحدہ کے چالیسویں صدر تھے۔

رونلڈ ریگن جو جیک اور نیلّی ریگن کے دوسرے بیٹے تھے اور ایلینوائس Illinois کے چھوٹے سے قصبے ٹیمپیکو Tampica میں 1911 میں پیدا ہوئے تھے۔ رونلڈ ریگن کے والد نے پیار سے اُن کا نام ’’ڈچ Dutch‘‘ رکھا تھا۔ وہ نام مشہور ہو گیا اور اکثر قریبی دوست مرحوم صدر کو آج کے دِن تک ’’ڈچ‘‘ پکارتے ہیں۔ مگر ڈچ کے والد نام کے کاتھولک تھے اور پکّے شرابی تھے۔ اُن کی ماں، نیلّی ایک پروٹسٹنٹ تھیں جو اپنے ایمان میں سنجیدگی سے برقرار تھیں۔

جیک ریگن اپنے خاندان کو لیکر بہتر کام کی تلاش کے لیے اِدھر اُدھر نقل و حرکت کرتے رہے۔ آخر کار وہ ٹیمپیکو کے چھوٹے سے قصبے سے نکل کر ایلینوائس کے شہر ڈکسن میں آ گئے، جہاں پر وہ پانچ مختلف کرائے کے مکانات میں رہے۔ ہمارے پڑوسی نے کہا، ’’وہ بے انتہا غریب تھے۔‘‘

اِس قدر زیادہ جگہوں پر نقل مکانی نے ’’ڈچ‘‘ کو گم سم، شرمیلا اور تنہا کر دیا۔ ایک بچے کی حیثیت سے ڈچ نے کہا ’’دوست بنانے کے معاملے میں وہ سُست تھے۔ کچھ طریقوں میں میرے خیال سے اِس ہچکچاہٹ نے مجھے لوگوں کے قریب آنے کے لیے کبھی بھی مکمل طور پر نہیں چھوڑا۔‘‘ جب میں اُن کو اُن کے آفس میں اپنے خاندان کے ساتھ مِلا تو میں نے اُن کے بارے میں ایک شرمیلے پن کو محسوس کیا۔ مگر اُنھوں نے ایک صدر کی حیثیت سے اِس کو بخوبی چھپا لیا۔ آپ صدر ریگن کے ساتھ میرے لڑکوں، میری بیوی اور میری تصاویر کو دوسری منزل پر ہمارے گرجہ گھر میں دیکھ سکتے ہیں۔

میں اب براہ راست ڈاکٹر پال کینگور Paul Kengor کی لکھی ہوئی کتاب خُدا اور رونلڈ ریگن God and Ronald Reagan (ہارپر کولینز پبلیشرز Harper Collins Publishers، 2004) سے حوالہ دینے جا رہا ہوں۔ میں متعدد پیراگرافوں کے حوالے دوں گا۔

[رونلڈ ریگن] نے ایک تنہا لڑکے کی حیثیت سے پہلے خُدا کو تلاش کیا اور اُس سے تعلق قائم کیا… [اُن کی والد] کی ایک اور ناکامی نے ڈچ کا خُدا کی طرف رُخ کرنے کے لیے مذید اہم کردار ادا کیا… بچے ریگن کی گیارہویں سالگرہ کے کچھ ہی عرصے بعد… وہ ایک خالی گھر میں گھر واپس آنے کی توقع کر رہا تھا۔ اِس کے بجائے وہ [اپنے والد] کے سامنے کے صحن میں برف میں بے ڈھنگے انداز میں پھیلے ہوئے جسم کے نظارے سے دھچکے میں پہنچ گیا، وہ اپنی کمر کے بل سیدھے ہوش سے بیگانہ، نشے کی حالت میں چور چور دروازے تک نہ پہنچ سکنے کی حالت میں منجمد ہو رہے تھے۔ ’’وہ نشے میں تھے،‘‘ اُن کے بیٹے کو یاد آیا۔ ’’دُنیا کے لیے مُردہ۔‘‘؎

ڈچ نے [اپنے والد کے] لمبے کوٹ کو مٹھی بھر کر جکڑا اور دروازے تک زور لگا کر کھینچ کر لے گیا۔ وہ اُنھیں گھسیٹ کر گھر کے اندر خوابگاہ تک لایا… یہ ایک اُداس لمحہ تھا۔ ڈچ نے کوئی غصہ، کوئی خفگی محسوس نہیں کی، بس صرف غمگینی… اُن کی دُنیا ابتری میں پڑی ہوئی تھی – دوبارہ… وہ صرف 11 برس کی عمر کے تھے۔

وہ واقعہ بچے ریگن کی روحانی نشوونما میں ایک نہایت اہم وقت میں رونما ہوا تھا۔ چار ماہ بعد اُن کا بپتسمہ ہو جانا تھا، ایک گرجہ گھر کے رُکن کی حیثیت سے زندگی کا دوبارہ آغاز ہونا تھا۔ اپنے والد کے بے ڈھنگے انداز میں برف میں پڑے ہوئے جسم کی سوچ نے شاید ریگن کے ذہن میں اُس دِن کو ٹال دیا ہو، جیسا کہ یہ اُن کی باقی تمام زندگی میں ہو سکتا ہو۔

[اُس موقع پر، اُن کی ماں] رونلڈ ریگن کو ایک مسیحی بنانے کے لیے رہنمائی کرنے میں ایک ابتدائی شخصیت بن گئیں۔

سوانح نگار عام طور پر کہانی کا آغاز ڈکسن میں خود نیلّی کے اپنے ایمان سے شروع کرتے ہیں، مگر اِس سے پہلے ٹیمپیکو میں گرجہ گھر میں اُن کا کردار توجہ کا مستحق ہے۔ آخری مہینوں میں اِس سے پہلے کے [اُن کے والد] خاندان کی پھر سے دوبارہ نقل مکانی کرتے، نیلّی گرجہ گھر میں انتہائی سرگرم رُکن تھیں… وہاں پر 1910 کے حیات نو کے آ جانے کی وجہ سے وہ کھینچی چلی گئی تھیں، ایک ذریعہ دعویٰ کرتا ہے کہ نیلّی نے لگ بھگ تنہا ہی بغیر پادری کے گرجہ گھر کو چلایا تھا، مختصر اطلاع نامے لکھنے، اِتوار کے پروگراموں کو ترتیب دینا، جدوجہد کرتے ہوئے گرجہ گھر کی بہتر حمایت کرنے کے لیے مجمع کو اُکسانا، اور یہاں تک کہ ایک معقول حد تک منادی بھی کرنا… یہاں تک کہ ڈکسن میں نقل مکانی کر چکنے کے بعد بھی نیلّی نے ڈچ کو اپنے ساتھ لیے ہوئے، گاہے بگاہے اپنے پرانے گرجہ گھر کی مدد کرنے کے لیے ٹیمپیکو میں واپس سفر کیے۔

[پھر ریگن کی ماں نے ٹیمپیکو میں گرجہ گھر میں شمولیت اختیار کر لی]۔ اُس [گرجہ گھر] کی پہلے عبادتیں قصبے کے YMCA کے تہہ خانے میں ہوتی تھی جب تک کہ اُس نے عمارت کے لیے فنڈز نہیں جمع کر لیے۔ نیا گرجہ گھر شروع ہوا… 18 جون، 1922 میں۔

نیلّی [ریگن] قائد بن گئیں، جو کہ مقامی گرجہ گھر میں آخر کو ایک ستون تھیں۔ مذھبی خادم سے ہٹ کر وہ سب سے زیادہ نمایاں ہستی تھیں… نیلّی کی [سنڈے سکول] کی کلاس میں سب سے زیادہ تعداد تھی۔ 1922 کے سال کے لیے گرجہ گھر کی ناموں اور پتوں کی فہرست نے اُن کی کلاس میں اکتیس طالب علموں کے نام درج تھے؛ پادری کی کلاس میں صرف پانچ اور اُن کی بیوی کی کلاس میں نو طالب علم درج تھے۔

نیلّی نے مذھبی تلاوتیں پیش کیں دونوں گرجہ گھر کے اندر اور باہر – ایک ایسی خدمت جس کے لیے اُن کی بہت زیادہ طلب تھی۔ ایک پُرکشش آواز اور ایک قدرتی اداکار کے اعتماد کی برکت کے ساتھ – وہ خصوصیات جو اُنھوں نے اپنے بیٹے میں منتقل کیں – اُنھوں نے بے شمار ڈراموں میں بھی اداکاری کی… جون 1926 میں، اُنھوں نے گھر کو ایک بپتسمہ دینے والے گرجہ گھرمیں بنا ڈالا جس کا ’’ایمان کی کشتی‘‘ کے عنوان اور تلاوت کے ساتھ نام رکھا۔

… 1926 … میں، … نیلّی نے ’’نظم جنگ بندی کا دِن‘‘ شائع کی، جس میں اُنھوں نے شدید خواہش ظاہر کی کہ ’’خُدا معاف کرے کہ ہم بھول جاتے ہیں‘‘ اُن سپاہیوں کو جنھوں نے [دوسری جنگ عظیم میں] اپنی زندگیاں نچھاور کر دیں۔ اُن بہادر لوگوں نے، نیلّی نے لکھا، ’’دُنیا کی جمہوریت کے لیے جیت حاصل کی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ظالم آمرانہ حکومت کا خاتمہ کیا‘‘ … 1927 میں، نیلّی امریکی لشکر کے سامنے جارج واشنگٹن کے لڑکپن پر بات کرنے کے لیے ظاہر ہوئیں جس کو ایک ’’شاندار گفتگو‘‘ کی حیثیت سے بیان کیا گیا – یقینی طور پر ایک کہانی جس نے [اُن کے کم عمر بیٹے] پر ایک تاثر چھوڑا تھا۔

دعا کی طاقت میں یقین رکھنے والی ایک مضبوط ایماندار، اُنھوں نے گرجہ گھر میں دعائیہ مجلسوں کی قیادت کی۔ جب مذھبی خادم چھٹی پر ہوتے… وہ وسط ہفتہ کی دعاؤں کے لیے انچارج مقرر کی جاتیں اور وہ دعاؤں پر بات چیت میں قیادت کرتیں… نیلّی نے ایک ’’قائد‘‘ کی حیثیت سے [بھی] کردار ادا کیا، جس میں اُنھوں نے ’’گھر پر دعاؤں کی خدمت‘‘ مہیا کی۔

[درج ذیل مسز مِلڈریڈ نیر Mrs. Mildred Neer کی اُن کی بیٹی کے سے تعلق رکھتے ہوئے نیلّی ریگن کی دعا کی گواہی ہے۔ وہ لڑکی اِس قدر زیادہ بیمار ہو گئی تھی کہ نا ہی تو کھا پی سکتی تھی اور نہ ہی سو سکتی تھی۔ وہ ماں گرجہ گھر میں گئیں۔ یہ ہےجو اُنھوں نے کہا]:

     جب عبادت ختم ہوئی تو میں اپنی نشست نہ چھوڑ پائی۔ آخر کار ہر کوئی چلا گیا ماسوائے مسز ریگن کے…
     میں نے سوچا، ’’اگر میں صرف مسز ریگن سے ہی بات کر پاؤں،‘‘ اور اُن تک بات کرنے کے لیے گئی… میں نے اُن کو ہماری بیٹی کے متعلق بتایا اور اُنھوں نے کہا، ’’آئیے عقبی کمرے میں چلتے ہیں۔‘‘ ہم چلے گئے۔ پھر مسز ریگن نے کہا، ’’آئیے اپنے دوزانو ہوتے ہیں اور اِس کے بارے میں دعا کرتے ہیں۔‘‘ اُنھوں نے ایک شاندار دعا مانگی اور جب ہم [کھڑے ہوئے] میں نے محسوس کیا کہ اُس دعا کا جواب مل چکا تھا۔ میں گھر چلی گئی۔ بہت ہی جلد گھر کے دروازے پر ایک دستک ہوئی۔ وہ مسز ریگن تھیں۔ اُنھوں نے وہ ساری دوپہر ہمارے ساتھ [دعا میں] گزاری۔ وہ تقریباً شام کو چھے بجے کے قریب چلی گئیں۔ لمحوں بھر بعد [بیٹی کے جسم پر] پھوڑا پھٹ گیا۔ اگلی صبح ڈاکٹر نے کہا، ’’مجھے اِس کو چیرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ خُدا نے نیلّی ریگن کی دعا کو سُنا تھا اور اُس کا جواب دیا تھا۔

مذھبی جماعت کے ایک اور رُکن نے یاد دلایا:

… وہ کبھی بھی ہاتھوں کے بل نہیں لیٹی یا اِس قسم کی کوئی اور حرکت۔ اُن کا دعا مانگنے کا طریقہ یہ تھا، اپنے گھٹنوں پر گِر کر، آنکھیں اُٹھائے ہوئے اور ایسے بات کرنا جیسے وہ خُدا کو ذاتی طور پر جانتی تھیں، جیسے اُن کے خُدا کے ساتھ پہلے بھی بے شمار زیادہ معاملات حل ہو چکے تھے۔ اگر کسی کو واقعی میں کوئی شدید مشکل ہوتی یا بیمار ہوتا، نیلّی اُن کے گھر چلی جاتیں اور دوزانو ہوتیں اور دعا مانگتی… لوگ اُن کے چلے جانے کے بعد حالات کو کافی بہتر محسوس کرتے۔

… یہ شاید ہی تعجب کی بات ہے کہ یہاں تک کہ ایک بالغ کی حیثیت سے نیلّی کے بیٹے نے اِس قدر شدت کے ساتھ دعا کی قوت میں یقین کیا۔

نیلّی ریگن نے اپنی زندگی کو ایمانداری کے ساتھ ’’غریبوں اور بے بسوں‘‘ کے لیے وقف کر دیا۔ یہ وہ ایک وعدہ تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُنھوں نے اپنی ماں کے ساتھ اُن کے بسترمرگ پر کیا تھا… اُنھوں نے اُن لوگوں کو خصوصی توجہ دی جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے… وہ [اکثر] ایمان کی بھرپوری کے ساتھ جیل میں قید لوگوں کو بائبل سُنانے کے لیے جایا کرتیں… یہاں تک کہ ایسے واقعات ہیں جن میں مجرموں نے اُن کی منادی کے براہ راست نتیجے میں اپنے روئیوں کو بدل ڈالا – ایک نے تو اپنے مجرمانہ عمل کے بالکل درمیان میں خود کو بدل ڈالا۔

[ایک نوجوان بدمعاش نے جیل میں نیلّی سے بات چیت کی۔ بعد میں، جب وہ رہا ہوا، اُس نے ایک سواری سے لفٹ مانگی اور بندوق کی نوک پر ڈرائیور کو لوٹنے کا منصوبہ بنایا۔ جب وہ گاڑی میں سے باہر نکلا، اُس نے کہا] ’’خُدا حافظ، لفٹ دینے کا شکریہ‘‘… آپ کو پچھلی نشست پر ایک بندوق ملے گی۔ میں اِس کو استعمال کرنے جا رہا تھا، مگر میں جیل میں ایک خاتون کے ساتھ باتیں کر رہا تھا…‘‘ نیلّی ریگن نے اُس کو مجرمانہ زندگی کو چھوڑ دینے کے لیے قائل کر لیا تھا

۔

1924 کی گرمیوں میں، اُنھوں نے نیویارک شہر میں ایک روسی کلیسیا کے لیے ایک چھوٹے سے گرجہ گھر کو بنانے کے لیے پیسے اکٹھے کرنے میں مدد کی، جو کہ ایک علامتی عمل تھا جس سے روسی مسیحیوں [جو اشتراکیت پسند کے تحت تھے اُن ] کے ساتھ یک جہتی ظاہر ہوتی تھی۔

1927 کے اپریل میں… اُنھوں نے چاپان اور وہاں پرمسیحیوں کے رُتبے پر بات چیت منعقد کی۔

نیلّی ریگن کے پاس خُدا کے لیے ایک دِل تھا، اور اُنھوں نے اپنی پوری کوشش کی کہ اُس ایمان کو اپنے بیٹے رونلڈ میں اُجاگر کر دیں۔ یہ اُن کی دعا تھی کہ ایک نہ ایک دِن اُن کا بیٹا اُس ایمان کو دُنیا کے لیے لے جائے۔

21 جولائی، 1922 کو، گرجہ گھر کُھلنے کے تین دِن بعد… ڈچ، اُن کا بھائی نیل Neil اور تیئیس اور وہ پہلے لوگ تھے جنہوں نے اُس نئے گرجہ گھر میں بپتسمہ لیا۔ بپتسمہ لینے کا یہ رونلڈ ریگن کا خود کا آئیڈیا تھا۔ اُنھوں نے کہا اُن کا ’’مسیح کے ساتھ ایک ذاتی تجربہ‘‘ہو چکا تھا۔

ایک بالغ کی حیثیت سے، [صدر] ریگن اپنے پسندیدہ کتاب کے لیے اور کبھی بھی لکھے جانے والے ’’سب سے عظیم ترین پیغام کی‘‘ حیثیت سے بائبل کا ہی حوالہ دیں گے۔ کہ اِس کے الفاظ کی ابتدا الہٰی تھی اور الہٰام سے تھی اُنھوں نے کہا اُنھیں ’’کبھی بھی اِس پر شک نہیں ہوا۔‘‘

بپتسمہ لے چکنے کے بعد [رونلڈ] ریگن [اُس گرجہ گھر کے] خصوصی طور پر ایک سرگرم رُکن بن گئے۔ [ریگن، اُن کی ماں اور بھائی نے یہی بات ہر اِتوار کو کی۔ اُن کے بھائی لائحہ عمل کو یاد دلاتے رہتے]۔ ’’سنڈے سکول اِتوار کی صبح، گرجہ گھر اِتوار کی صبح، مسیحی کاوش اِتوار کی شام، مسیحی کاوش کے بعد گرجہ گھر، اور دعائیہ مجلس ہر بُدھ کو‘‘ … پندرہ برس کی عمر میں، ڈچ نے خود اپنے سنڈے سکول کی جماعت کو تعلیم دینی شروع کر دی… ’’وہ اُن لڑکوں کے درمیان قائد بن چکا تھا، ’’بچپن کی دوست سیویلہ پالمر Savila Palmer نے یاد دلایا۔ ’’وہ اُس کی راہ تکا کرتے۔‘‘

رونلڈ ریگن ایک مسیحی کالج میں پڑھنے کے لیے چلے گئے۔ 1981 میں وہ امریکہ کی ریاست ہائے متحدہ کے صدر بن گئے۔ اُنھوں نے اپنی ماں کی بائبل پر اپنا ہاتھ رکھ کر صدر کی حیثیت سے عہدے کا حلف اُٹھایا، اور کہا، اِس لیے خُداوند میری مدد فرما۔‘‘

صدر کی حیثیت سے، رونلڈ ریگن نے بائبل کی بنیادوں پر اسقاطِ حمل کی مخالفت کی۔ اُنھوں نے کہا،

تمام انسانوں کی زندگی کے حق کو بحال کرنے کے مقابلے میں امریکہ کے کردار کے لیے کوئی اور چیلنج اتنا زیادہ اہم نہیں ہے۔ بغیر اُس حق کے، کوئی دوسرے حقوق معنی نہیں رکھتے۔ ’’بچوں کو میرے پاس آنے سے مت روکو کیونکہ آسمان کی بادشاہی ایسوں ہی کی ہے۔‘‘

اپنے 1986 کے یونین کے ریاستی خطاب میں، اُنھوں نے کہا،

آج ہمارے قومی ضمیر پر ایک زخم ہے۔ امریکہ کبھی بھی مکمل نہیں ہو پائے گا جب تک کہ ہمارے خالق کی جانب سے زندگی کے لیے بخشے گئے حق کو اُن بچوں کے لیے جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے مسترد کیا جاتا رہے گا۔

اسقاطِ حمل ایک اخلاقی معاملہ تھا جس پر اُنھوں نے صدر کی حیثیت سے سمجھوتا کرنے سے انکار کر دیا۔

صدر ریگن نے شدت کے ساتھ بے دین اشتراکیت پسندی کی اپنی تمام صدارت کے دوران مخالفت کی۔ وہ سویت یونین کو ایک ’’بدی والی سلطنتEvil Empire‘‘ کہتے تھے۔ اُنھوں نے دیوارِ برلن Berlin Wall پر اپنے عظیم خطاب کے دوران کہا، ’’مسٹر گورباچوف، اِس دیوار کو چیر ڈالیں۔‘‘ وہ یقین کرتے تھے کہ اشتراکیت پسندی کی دہریت خلقی طور پر بدی تھی۔ اُنھوں نے یہ جانتے ہوئے امریکی فوجی قوت کو تعمیر کیا کہ سویت یونین کا اِس سے مقابلہ ہو جائے گا اور وہ نتیجے کے طور پر ڈھیر ہو جائے گی۔ وہ ڈھیر ہو گئی تھی، بالکل جیسے وہ جانتے تھے ہو جائے گی۔ کسی دوسرے واحد فرد کے مقابلے میں کہیں زیادہ، رونلد ریگن ’’بدی والی سلطنت Evil Empire‘‘ کا اور عالمگیر سطح پر اشتراکیت پسندی کے پھیلنے کا خاتمہ کرنے کے ذمہ دار تھے۔ اُن کے سوانح نگار ایڈمنڈ مورس Edmund Morris نے کہا، ’’وہ ماسکو میں مسیحیت چاہتے تھے، اِس سے زیادہ آسان بات اور کیا ہے۔‘‘ اور رونلڈ ریگن نے اپنی دعا کو حقیقت میں بدلتے ہوئے اپنی زندگی ہی میں دیکھا۔

اِس ماں کے دِن کے موقع پر، میں آپ ماؤں سے چاہتا ہوں کہ اِس گرجہ گھر سے یوکِبد جو موسیٰ کی ماں تھی – اور نیلّی ریگن، جو ہمارے چالیسویں صدر کی ماں تھیں اُن کی جانب سے حاصل کی گئی خُدائی ہدایت کے ساتھ جائیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ جانیں کہ یسوع مسیح آپ کی جگہ پر آپ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے صلیب پر مرا تھا۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ جان جائیں کہ یسوع کا خون آپ کو تمام گناہ سے پاک صاف کر سکتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ جان جائیں کہ یسوع جسمانی طور پر مُردوں میں جی اُٹھا اور اِس وقت زندہ خُدا باپ کے داہنے ہاتھ پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ یسوع کے پاس آئیں اور کامل طور پر اُس پر بھروسہ کریں۔ اور پھر اِس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ ہر اِتوار کو گرجہ گھر میں موجود ہوں گے۔ اِس بات کو یقینی بنائیں کہ یسوع مسیح کے لیے زندگی گزرانے کے لیے اپنے بچوں پر آپ روحانی تاثر بنائیں گے۔ خُدا آپ کو برکت دے۔ آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: عبرانیوں11:23۔27.
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
          نے گایا تھا: ’’میں اُس کی ستائش کروں گا I Will Praise Him‘‘ (شاعر مارگریٹ جے۔ ہیرس Margaret J. Harris، 1865۔1919)۔