Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

ہمارے زمانے میں آزادی
کے لیے روزہ اور نماز

(حیاتِ نو پر واعظ نمبر3)
PRAYER AND FASTING FOR
DELIVERANCE IN OUR TIME
(SERMON NUMBER 3 ON REVIVAL)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی شام، 3 اگست، 2014
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, August 3, 2014

’’اور جب وہ گھر میں داخل ہوا تو اُس کے شاگردوں نے چُپکے سے اُس سے پُوچھا، ہم اُس بدرُوح کو کیوں نہیں نکال سکے؟ یسوع نے اُنہیں جواب دیا کہ اِس قسم کی بدرُوح دعا اور روزہ کے سِوا کسی اور طریقہ سے نہیں نکل سکتی‘‘ (مرقس 9:28،29).

اگر آپ یہ واعظ پڑھ رہے ہیں، یا ہماری ویب سائٹ پر اِس کو دیکھ رہے ہیں، یا یو ٹیوب پر دیکھ رہے ہیں تو میں دعا کرتا ہوں کہ آپ مجھے بند نہیں کریں گے جب میں تلاوت کے دو الفاظ ’’اور روزہ‘‘ کے قابل اعتماد ہونے کی اہلیت کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کروں گا۔ حالانکہ میں جس سے غلط نہ ہو اُس سے بہت دور ہوں، مگر میں نہایت شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہوں اُن دو الفاظ کو ذہن میں یاد رکھنا چاہیے۔ ایک وجہ یہ ہے کیونکہ تلاوت اِن کے بغیر کوئی معنی نہیں رکھتی۔ پچھلے مواقعے پر شاگردوں نے یقیناً دعا کی تھی جب اُنہوں نے بدروحوں کو نکالا تھا۔ اِس لیے نماز کے بعد کسی اور بات کا شامل ہونا تھا – اور یہ یہاں پر ہے ’’اور روزہ‘‘ زیادہ تر قدیم صحائف میں۔ اُنہوں نے اِس سے پہلے دعا کی تھی جب اُنہوں نے کمزور بدروحوں کو نکالا تھا۔ مگر اب اُن کا سامنا ایک طاقتور بدروح سے ہوا تھا جو صرف دعا کے سامنے ہی گھٹنے نہیں ٹیکے گی۔ لہٰذا یسوع نے کہا، ’’اِس قسم کی بدروح دعا اور روزہ کے سوا کسی اور طریقے سے نہیں نکل سکتی‘‘ (مرقس9:29)۔ اور اب میں آپ کو ایک دوسری وجہ پیش کروں گا کہ کیوں اُن دو الفاظ کو یاد رکھا جانا چاہیے۔ یہ میں اپنے تمام ذہن اور دِل کے ساتھ یقین رکھتا ہوں! مہربانی سے مجھے دیکھنا بند مت کیجیے گا!

میری بیوی اور میں نے کئی سال پہلے کوہ سینا پر چڑھائی کی تھی۔ جب ہم نیچے اُترے، تو ہمیں مقدسہ کیتھرین کی خانقاہ کا دورہ کروایا گیا۔ یہ کوہ سینا کے پہلو میں واقع ہے۔ اِس کی ایک تاریک اور مضطرب کر دینے والا مشرقی اورتھوڈکس گرجہ گھر کی عمارت ہے جو 6ویں صدی میں تعمیر ہوئی تھی۔ ایک کونے میں چھ فٹ سے زیادہ اونچا انسانی کھوپڑیوں کا ڈھیر – مختلف راہبوں کی کھوپڑیاں جو گزری ہوئی صدیوں میں وہاں پر زندگی بسر کرتے رہے تھے۔ ایک راہب کا مکمل ڈھانچہ سامنے کے دورازے پر زنجیروں سے بندھا ہوا تھا۔ دھندلی روشنی کے اِس مقدس مقام میں، موم بتیاں پھڑپھڑا رہی تھیں، اور شترمرغ کے انڈے چھت سے لٹکے ہوئے تھے۔ یہ ایک شیطانی جگہ کی مانند دکھائی دے رہی تھی جو شاید آپ نے ٹیلی ویژن پر ’’ریڈرز آف دی لاسٹ آرک Raiders of the Lost Ark‘‘ کی ویڈیو میں دیکھی ہو۔ اِس تاریک اور مضطرب کر دینے والی عمارت کے ایک کونے میں ایک شیلف ہے جس پر مختلف زبانوں میں لکھی ہوئی ایک غور طلب بات ہے۔ غور طلب بات کا انگریزی میں نسخہ کہتا ہے کہ یہ یہیں پر تھا جہاں نئے عہد نامے کا سینائیٹیکس مسودہ رکھا گیا تھا، ’’جب تک کہ ٹیشین ڈورف Tischendorf نے اِسے چرا کر برطانیہ کو بیچ نہیں دیا۔‘‘ یہ اِسی ہاتھ سے لکھے ہوئے صیحفے کی بنیاد پر ہے، جو کہ اُس تاریک اور یقینی طور پر شیطانی جگہ سے چُرایا گیا تھا، کہ الفاظ ’’اور روزہ‘‘ لکھے نہیں جاتے۔ پھر اُس مسودے کو برطانیہ نے خرید لیا۔ ایک اور دورے پر، لندن میں ایک برطانوی میوزیم میں، میری بیوی اور میں نے اُسے دیکھا تھا۔ یہ وہیں پر تھا کہ دو آزاد خیال گرجہ گھروں کے انگلستانی پادریوں، بروک ویسٹ کوٹ Brooke Westcott(1825۔1901) اور فینٹن ہورٹ Fenton Hort (1828۔1892) نے سینائیٹیکس مسودے کے ٹیشین ڈورف Tischendorf کو لیا تھا اور اِس کو ویسٹ کوٹ اور ہورٹ کے یونانی نئے عہد نامے (1881) کے لیے سند کے طور پر استعمال کیا۔ لگ بھگ اِس میں تمام تبدیلیوں کی بنیاد مقدسہ کیتھرین کی خانقاہ سے صحیفے کی بنیاد پر مشتمل ہیں۔ تمام کے تمام جدید ترجمے ویسٹ کوٹ اور ہورٹ کے یونانی متن سے ہیں۔ لہٰذا، جب آپ جدید ترجمے کو پڑھتے ہیں، تو آپ اُس ہاتھ سے لکھی ہوئی نقل کو پڑھ رہے ہوتے ہیں جو ٹیشین ڈورف Tischendorf نے مقدسہ کیتھرین کے تاریک اور شیطانی خانقاہ سے لیا تھا۔ میں قائل ہو چکا ہوں کہ کسی قدیم راہب نے، جو گنوسٹک اِزم سے متاثر تھا، اُس نے الفاظ ’’اور روزہ‘‘ اِس میں سے ہٹا دیے جب اُس نے اِس سینائیٹیکس مسودے کو ہاتھ سے لکھا تھا۔ اِس کے علاوہ، میں یقین کرتا ہوں کہ شیطان نے جدید زمانے تک سنبھال کر رکھا تھا – اور پھر اِس کو زمانے کے اختتام کے اِس اِرتداد میں ہمارے تمام ترجموں کو زہریلا کرنے کے لیے جاری کر دیا۔ میں یقین کرتا ہوں کہ آج کل جو کچھ انجیلی بشارت کا پرچار کرنے والے جدید ترجموں میں پڑھتے ہیں وہ واقعی میں ’’شیطان کی بائبل‘‘ میں سے ہے۔

اِس بارے میں کوئی غلطی مت کیجیے گا! شیطان ’’اور روزہ‘‘ کے الفاظ کو ہٹوانا چاہتا تھا۔ کیوں؟ بہت آسان سی بات ہے! شیطان اُن دو الفاظ کو ہٹوانا چاہتا تھا کیونکہ ’’اِس قسم کی بدروح دعا اور روزہ کے سوا کسی اور طریقے سے نہیں نکل سکتی‘‘!!! نہایت سادہ! ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز Dr. Martyn Lloyd-Jones نے کہا، ’’شیطان ہمیشہ ہمیں پریشان کُن حالات اور اُلجھن میں ڈالنے کے لیے انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ وہ خُدا کے کاموں کو تباہ کرنا چاہتا ہے‘‘ (روحانی برکات Spiritual Blessing، کنگزوے اشاعت خانے Kingsway Publications، 1999، صفحہ158)۔

کیا آپ نے کبھی تعجب نہیں کیا کہ کیوں 1859 سے امریکہ میں کوئی قومی حیات نو نہیں آیا ہے؟ تعجب کرنا چھوڑ دیں! مسیحی لوگوں نے ویسٹ کوٹ اور ہورٹ کی بائبل کے مشہور ہونے کے بعد سے روزے رکھنا چھوڑ دیے ہیں۔ یہ اہم وجوہات میں سے ایک ہے کہ ہمارے مُلک میں 154 سالوں سے کوئی حیات نو نہیں آیا ہے! اِس سے قبل یہاں پر تقریباً ہر دس سالوں میں خُدا کے بھیجے ہوئے حیات نو آیا کرتے تھے! اِس کے بارے میں غور کریں۔ 18ویں صدی میں پہلی بیداری کے دوران تمام کے تمام مبلغین روزے رکھتے اور دعا کرتے تھے جو اِن الفاظ کی بنیاد پر تھے، ’’اِس قسم کی بدروح دعا اور روزہ کے سوا کسی اور طریقے سے نہیں نکل سکتی۔‘‘ متی کی انجیل میں اِس سے متماثل حوالے میں، عظیم انجیلی بشارت کا پرچار کرنے والے جان ویزلی John Wesley نے کہا – ’’یہاں پر روزے کی اثرانگیزی [مؤثر ہو جانے کی خاصیت] پر کیسی ایک گواہی ہے، جب اِس کا اضافہ سرگرم دعا میں کیا جاتا ہے!‘‘ (جان ویزلی، ایم۔ اے۔ John Wesley, M.A.، نئے عہد نامے پر تشریحاتی غور طلب باتیں Explanatory Notes on the New Testament، بیکر کُتب گھرBaker Book House، اشاعت1983، جلد اوّل، متی17:21 پر غور طلب بات)۔ اُس عظیم حیات نو کے جارج ویٹ فیلڈ George Whitefield، ھاویل ھیرس Howell Harris، جناتھن ایڈورڈز Jonathan Edwards، اور دوسرے تمام مبلغین نے جان ویزلی کے ساتھ مکمل طور پر اتفاق کیا کہ دعا کے ساتھ روزے کو شامل کرنا انتہائی شدید اہم ہے! مگر اُس وقت ماضی میں اُن کے پاس ویسٹ کوٹ اور ہورٹ کی تباہ کر دینے والی بائبل نہیں تھی!

پھر دوسری عظیم بیداری کے بارے میں سوچیں۔ اُس وقت کے عظیم مبلغین کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ٹموتھی ڈوائٹTimothy Dwight نے روزے رکھے۔ ایساھل نیٹیلٹن Asahel Nettleton نے روزے رکھے۔ رابرٹ مرے میکچین Robert Murray M’Cheyne نے روزے رکھے۔ جان اینجل جیمس نے روزے رکھے۔ اُن کے دور میں عظیم حیات نو آئے تھے، اور اُنہوں نے اُن کے لیے روزے رکھے اور دعائیں کی تھیں۔ مگر اُس وقت اُن کے وہاں ویسٹ کوٹ اور ہورٹ کی مسخ کر دینے والی بائبل نہیں تھی!

اور، جیسا کہ میں نے کہا، اُن کے پاس شیطان کی بائبل آنے سے پہلے 1857۔59 میں تیسری عظیم بیداری آئی تھی۔ اُن دِنوں میں روزے رکھنا اِس قدر عام تھا کہ خانہ جنگی کے دوران صدر ابراہام لنکن نے روزہ رکھنے اور دعا کرنے کے لیے ایک قومی دِن مقرر کیا تھا۔ اور 1859 کا حیات نو ایک دعائیہ اجلاس میں آیا تھا، جہاں پر وہ لوگ جنہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا دعا کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ تیسری عظیم بیداری کا عظیم ترین مبلغ سپرجیئن Spurgeon تھا۔ سپرجیئن نے اکثر روزے رکھے تھے، اور روزہ رکھنے اور دعا کرنے پر واعظ کی منادی کی تھی! یہاں تک کہ 1905 کے ویلش حیات نوWelsh Revival مبلغین کے وھیلز Wales میں اچھی، پرانی کنگ جیمس بائبل کے استعمال کو روکنے سے پہلے آیا تھا۔ وھیلز کے لوگوں کو دعا اور روزے کے لیے مانا جاتا تھا۔ یہ لوئیس کے جزیرے پر حیات نو کے بارے میں بھی سچ ہے، جو کہ سکاٹ لینڈ کے ساحل سے پرے 1949 میں آیا تھا، جہاں پر دو اندھی خواتین نے روزے رکھے اور دعائیں مانگیں جب تک کہ خُدا نے حیات نو بھیج نہیں دیا!

چین کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تمام کے تمام چین کے مسیحی بزرگان نے روزے رکھے تھے اور دعائیں مانگی تھیں۔ اُنہیں ایسا کرنے کے لیے عظیم مشنری بانی جیمس ھڈسن ٹیلر James Hudson Taylor (1832۔1905) نے تعلیم دی تھی۔ اشتراکیت پسندوں کے قبضہ کرنے سے کچھ عرصہ قبل چین میں بہت بڑے حیات نو کو قوت بخش انجیلی بشارت کا پرچار کرنے والے جان سُنگ John Sung(1901۔1944) نے دیکھا تھا۔ ڈاکٹر سُنگ نے مسلسل روزے رکھے تھے اور دعائیں مانگی تھیں۔ چینی بزرگ وینگ مِنگ داؤ Wang Mingdao(1900۔1991) نے خوشخبری کی تبلیغ کرنے پر بائیس سال قید میں گزارے۔ اُنہوں نے بھی مسلسل روزے رکھے تھے اور دعائیں مانگی تھیں۔ ڈاکٹر جیمس ہڈسن ٹیلر سوئم Dr. James Hudson Taylor III، جو کہ ھڈسن ٹیلر کے پوتے تھے، اُنہوں نے وینگ مِنگ داؤ کے بارے میں کہا، ’’کسی بھی مسیحی چینی رہنما نے اِس قدر زیادہ واضح طور پر مسیح کی خوشخبری کی طاقت کا اظہار نہیں کیا‘‘ (ڈیوڈ ایکمین David Aikman، بیجنگ میں یسوع Jesus in Beijing، ریجینری اشاعتی کمپنی Regnery Publishing Company، 2006 ایڈیشن، صفحہ 56)۔ ایلین یوآن Allen Yuan (1914۔2005) نے بھی 20 سال سے زیادہ کا عرصہ خوشخبری کی منادی کرنے کی وجہ سے قید میں گزارا۔ اُنہوں نے مسلسل روزے رکھے تھے اور دعائیں مانگی تھیں۔ سیموئیل لیمب Samuel Lamb(1924۔2013)، موسس ژائی Moses Xie(1918۔2011) اور دوسروں نے روزے رکھ کر اور دعائیں مانگ کر قید میں خُداوند کی خدمت کی۔ خُدا نے اُن کی سُنی اور چین میں ’’سماجی انقلاب‘‘ کی خوفناکیوں کے دوران اُن کی سُنی اور مسیحیت کو زندہ رکھا۔ پھر، 1980 کی دہائی میں، خُدا نے حیات نو کی ایک سونامی کو اُنڈیلا جو کہ آج کے دِن تک جاری ہے! امریکی بائبل کی سوسائٹی نے اندازہ لگایا ہے کہ تقریباً 700 لوگ چین میں ہر گھنٹے، ایک دِن کے چوبیس گھنٹوں میں مسیحیت کو قبول کر رہے ہیں – تقریباً 17,000 مسیحی ہر روز تبدیل ہو رہے ہیں! اُن چینی پادریوں نے کبھی بھی ویسٹ کوٹ اور ہورٹ کی مسخ کر دینے والی بائبل کو نہیں دیکھا۔ وہ اب بھی پابندی کے ساتھ روزے رکھتے اور دعائیں مانگتے ہیں، اور خُدا اُن کی سُنتا ہے۔ ’’دی کراس The Cross‘‘ دیکھیں (Amazon.com پر آڈر کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں)، جو کہ حیات نو کے بارے میں چینیوں کی بنائی ہوئی فلم ہے، اور آپ یوں محسوس کریں گے جیسے آپ نے اعمال کی کتاب کو زندہ ہوتے ہوئے دیکھ لیا ہو! 23 سالوں تک میرے پادری بوڑھے چینی ڈاکٹر ٹموٹھی لِن تھےDr. Timothy Lin۔ وہ ہمیشہ ایک پُرانی چینی بائبل اُٹھائے رکھتے تھے جو اُن کے پاس ساٹھ سالوں سے بھی زیادہ عرصے سے تھی۔ اِس پر ویسٹ کوٹ اور ہورٹ کا اثر نہیں ہوا تھا۔ الفاظ کو ہٹایا نہیں گیا تھا۔ ڈاکٹر لِن نے اپنی تمام منادی کے دوران روزے رکھے اور دعائیں مانگی تھیں۔ میں نے تقریباً اُن کے گرجہ گھر کو حیات نو میں انتہائی تیزی سے بڑھتے ہوئے دیکھا تھا، جس میں سینکڑوں نوجوان لوگ صرف چند ہی مہینوں میں اُمڈتے چلے آئے تھے۔ ڈاکٹر لِن کو خُدا کی برکات پانے کے لیے روزے رکھنے اور دعا مانگنے میں یقین تھا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے بہت دُکھ ہوتا ہے کہ وہ جو اُن کی پیروی کرتے تھے اکثر ’’مغربی سوچ‘‘ اور ویسٹ کوٹ اور ہورٹ کی مسخ شُدہ بائبل سے متاثر ہو جاتے تھے۔

میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ سوچیں گے کہ جدید ترجموں کو رسوا کرنے کے لیے میں انتہائی دور تک چلا گیا ہوں۔ لیکن اُن سے میرا وہی ایک سوال ہے جو شاگردوں نے مسیح سے پوچھا تھا، ’’ہم اُس بدروحوں کو کیوں نہیں نکال پائے؟‘‘ (مرقس9:28)۔ سپرجیئن نظرثانی کی ہوئی نسخۂ بائبل میں، اِس آیت میں ’’روزے‘‘ کے مٹائے جانے کے بارے میں جانتے تھے، جب اُنہوں نے1886 ’’ناکامی کا رازThe Secret of the Failure‘‘ کے عنوان سے ایک واعظ پیش کیا (دی میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی واعظ گاہ The Metropolitan Tabernacle Pulpit، جلد بیالیس XLII، پلگرم اشاعت خانے Pilgrim Publications، ایڈیشن1976، صفحات97۔106)۔ لیکن اُنہوں نے اِس کو کامیابی سے سر کیا اور کہا، ’’دعا اور روزہ میں شدید قوت ہوتی ہے... یہاں ایک قسم کا آسیب [بدروح] ہوتا ہے جو ایک عام دعا سے نہیں باہر نکلتا، اُس التجا میں کچھ اضافہ ہونا چاہیے کچھ ایسا جس سے ہمارا جوش اِس سے بھی زیادہ بڑھ جائے: یہاں ’دعا اور روزہ رکھنا‘ ہونا چاہیے۔‘‘ (ibid.، صفحہ 105)۔

سپرجیئن نے بھی شاگردوں والا سوال ’’ہم اِس بدروح کو باہر کیوں نہیں نکال پائے؟‘‘ کلیسیاؤں کی کمزور حالت پر لاگو کیا تھا۔ سپرجیئن نے کہا،

’’ہم اِس بدروح کو کیوں نہیں نکال سکے؟‘‘ آئیے خُدا کی کلیسیا... کہتے ہیں، ’یہ ہزاروں لوگ کیوں نہیں خوشخبری کو سُننے کے لیے آتے جب ہم اِس کی منادی کرتے ہیں؟‘ یہاں ہماری سڑکوں پر زنا کی دعوت دی جاتی ہے: کیوں خُدا کی کلیسیا نے اِس کو ختم نہیں کیا؟ سب سے غلیظ گناہ کثرت سے پایا جاتا ہے – وہ گناہ جس کے بارے میں ہم بات کرنے کی جرأت نہیں کرتے، یہ اِس قدر غلیظ ہے؛ کیا وجہ ہے کہ ہم اِس کو باہر نہیں نکال سکتے؟... ہم کیوں نہیں اِن غلیظ قوتوں کو نکال باہر کرتے؟... اور بہت سے ایسے جو سالوں کی منادی کے بعد، ہمیشہ کی طرح پہلے ہی جیسے رہتے ہیں۔ یہ کونسا آسیب [بدروح] ہے جو اُن میں گُھس گیا ہے؟ ہم کیوں نہیں اِس کو باہر نکال سکتے؟ (ibid.، صفحہ 101)۔

سپرجیئن کا جواب بھی وہی تھا جو مسیح کا تھا، ’’اِس قسم کی بدروح دعا اور روزہ کے سوا کسی اور طریقے سے نہیں نکل سکتی۔‘‘ (مرقس9:29)۔

ڈاکٹر لائیڈ جونز نے بھی اُس سوال ’’ہم کیوں نہیں اُس بدروح کو نکال سکتے؟‘‘ اور مسیح کے جواب ’’اِس قسم کی بدروح دعا اور روزہ کے سوا کسی اور طریقے سے نہیں نکل سکتی‘‘ پر بات کی تھی۔ ’’ڈاکٹر‘‘ نے کہا ہمیں آج ’’اِس قسم‘‘ کیا ہے کی تشخیص کرنی پڑتی ہے۔ اُنہوں نے کہا،

’’اِس قسم‘‘ کیا ہے؟ وہ کیا مسئلہ ہے جس کا سامنا آج ہمیں کرنا پڑ رہا ہے؟ میں انتہائی شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہوں، کہ جب ہم اِس کا سچائی کے طور پر معائنہ کرتے ہیں، تو ہم دیکھیں گے کہ جس قسم کے مسٔلے کا ہم سامنا کر رہے ہیں وہ تمام کا تمام گہرا ترین اور بہت زیادہ مایوس کُن ہے اُس کے مقابلے میں جس کا ایک طویل صدی کے لیے مسیحی کلیسیا کو سامنا کرنا پڑا تھا (مارٹن لائیڈ جونز، ایم۔ ڈی۔ Martyn Lloyd-Jones, M.D.، حیات نو Revival، کراسوے کُتب Crossway Books، 1997، صفحہ 15)۔

اُنہوں نے کہا کہ ماضی کے طریقے ’’اِس قسم‘‘ پر آج کسی بھی طرح کا اثر ڈالتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ پھر اُنہوں نے کہا کہ کئی اور ’’نئے طریقے‘‘ ہیں جو کہ پائیدار نہیں ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ نئے ترجمے مسٔلے کو چھوتے تک نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ خوشخبری کے کتابچے اور بہت زیادہ تعداد میں انجیلی بشارت کی تحریکیں ہمارے گرجہ گھروں میں کھوئے ہوئے لوگوں کو نہیں لا رہی ہیں۔ اُنہوں نے کہا، ’’آپ کو اِس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ آپ کا سامنا کسی ایسی چیز سے ہے جو آپ کے طریقوں کے لیے انتہائی گہری ہے‘‘ (ibid.، صفحہ 19)۔

میں یقین کرتا ہوں کہ وہ اِس تمام کے بارے میں دُرست تھے۔ کھوئے ہوئے لوگوں کو آج گرجہ گھروں کے لیے اپنی ضرورت دکھائی نہیں دیتی ہے۔ وہ محسوس نہیں کرتے ہیں کہ وہ گناہ سے بھرپور ہیں اور اُنہیں معاف کیے جانے کی ضرورت ہے۔ وہ کیا ہے جو کہ گرجہ گھر مہیا کرسکتا ہے جس سے ہماری جدید صورتحال میں ایک ’’اشد ضروری‘‘ فائدہ حاصل کیا جا سکے؟ اِس موضوع کے بارے میں کئی سالوں تک سوچ بچار کے بعد، میں قائل ہو چکا ہوں کہ تنہائی ہی وہ بنیادی ’’اشد ضرورت‘‘ ہے جس کو ہمارے گرجہ گھروں سے حل نہیں کیا جا سکا ہے۔ ڈاکٹر ولیم گلیسر Dr. William Glasser، جو کہ ایک جانے مانے نفسیات دان ہیں اُنہوں نے یہ حیران کر دینے والا بیان اپنی کتاب معاشرے کی شناخت The Identity Society میں دیا،

تمام نشانیاں، چاہے وہ نفسیاتی ہوں یا جذباتی عوامل پیدا کرنے والے مرض ہوں، اور تمام کے تمام جارحانہ، بے تُکے روئیے تنہائی کی پیداوار ہیں اور تنہا، مصائب اُٹھاتے لوگوں کے ساتھی ہیں جوشناخت کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، مگر کامیاب نہیں ہوتے (حوالہ دیا گیا جے۔ اوسولڈ سینڈرز، ڈی۔ڈی۔ J.Oswald Sanders, D.D.، تنہائی کا سامنا Facing Loneliness، ڈسکوری ہاؤس پبلیکیشنز Discovery House Publications، 1990 ایڈیشن، صفحہ 46)۔

ذہنی دباؤ، کئی قسم کے نشے، نااُمیدی – ’’تمام کی تمام نشانیاں ... اور تمام کے تمام جارحانہ، بے تُکے روئیے تنہائی کی پیداوار ہیں۔‘‘ میرے خیال میں ڈاکٹر گلیسر بجا طور پر دُرست تھے! ہمارے معاشرے میں ’’بڑے گناہ‘‘ ’’سب‘‘ کی جڑیں تنہائی میں ہیں! آج ہمارے معاشرے میں ’’اِس قسم‘‘ ’’تنہائی‘‘ میں ہے۔ اگر ہم تنہائی سے چُھٹکارہ نہیں دلاتے، تو ہم توقع نہیں کر سکتے کہ بے شمار کھوئے ہوئے لوگ ہمارے گرجہ گھروں میں آنے کی دلچسپی رکھیں گے!

ڈاکٹر ٹموتھی لِن Dr. Timothy Lin، جو کہ چینی بپتسمہ دینے والی گرجہ گھر میں میرے دیرینہ پادری تھے، یہ جانتے تھے! وہ چین کی سرزمین سے ایک بوڑھے آدمی تھے، مگر وہ ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے بہت سا وقت روزے رکھنے اور دعائیں مانگنے میں گزارا۔ اور خُدا نے اُنہیں تنہائی کے علاج کی اہمیت کھوئے ہوئے نوجوان لوگوں کو مسیح کے پاس لانے کے ذریعے کے طور پر دکھائی۔ وہ اکثر کہا کرتےتھے، ’’ہمیں نوجوانوں کی تنہائی کا علاج کرنا ہے۔ ہمیں گرجہ گھر کو اُن کا دوسرا گھر بنانا ہے۔‘‘ میں مکمل طور پر اُن سے اتفاق کرتا ہوں! 1960 کی دہائی میں اُس گرجہ گھر نے وہ کیا جو ڈاکٹر لِن نے کہا تھا، اور سینکڑوں لوگ دُنیا بھر سے گرجہ گھر میں آئے۔ اور گرجہ گھر نے خُدا کا بھیجے ہوئے حیات نو کا تجربہ کیا۔ کچھ لوگ یہ بھول جانے کا رُجحان رکھتے ہیں کہ وہ تمام کی تمام باتیں ڈاکٹر لِن کے تحت ہی رونما ہوئی تھیں، بعد میں نہیں!

مگر مجھے یہاں پر رُکنا ہے اور احتیاط کے لیے کہنا ہے۔ ہمیں نہیں سوچنا چاہیے کہ دعائیں مانگنا اور روزے رکھنا خودبخود حیات نو کو پیدا کر دے گا – یا بے شمار لوگ مسیح میں تبدیل ہو جائیں گے۔ خُدا کے بارے میں ایک ’’اختیار‘‘ کی حیثیت سے جسے ہم حسب منشاء استعمال کر سکتے ہیں، ہمیں بہت احتیاط برتنی چاہیے۔ یہی تھا جو شمعون جادوگر نے سوچا تھا جب اُس نے کہا، ’’مجھے بھی یہ اختیار دو‘‘ (اعمال8:19)۔ اگر ہم خُدا کے بارے میں ایک غیر شخصی ’’اختیار‘‘ کے طور پر سوچیں گے جسے ہم حسب منشاء استعمال کر سکتے ہیں اور دعائیں مانگنے اور روزے رکھنے سے ’’استعمال‘‘ کر سکتے ہیں تو ہم خطرناک طور پر ’’سفید جادو‘‘ کے قریب بڑھ رہے ہونگے۔ ’’کالے جادو‘‘ میں جادوگر مخصوص جادو منتروں اور دعاؤں کا استعمال ’’نیک روحیں‘‘ کہلانے والیوں کو قابو کرنے اور اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کے لیےکرتا ہے – یہاں تک کہ اُن کا خُدا، جسے شاید وہ ’’مقدس روح‘‘ کہتے ہیں۔ غلط طور پر سمجھے جانے کے خدشے میں، میں قائل ہوں کہ بینی ھن Benny Hinn، اور بہت سے دوسرے ’’کرشماتی‘‘ رہنما درحقیقت ’’سفید جادو‘‘ میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔

خُدا کی سچی روح ایک ہستی ہے۔ اُس کو ’’نیچے نہیں لایا‘‘ جا سکتا ہے اور مخصوص الفاظ کے کہنے سے ’’استعمال‘‘ نہیں کیا جا سکتا ہے – یہاں تک کہ روزے رکھنے اور دعائیں مانگنے کے ذریعے سے بھی نہیں۔ وہ ایک ہستی ہے، ناکہ ایک غیر شخصی ’’اختیار۔‘‘ آج کل زیادہ تر کہلایا جانے والا ’’حیات نو‘‘ درحقیقت شیطانی ہے، جو کہ ’’سفید جادو‘‘ کی پیداوار ہے۔

لہٰذا، جب ہم ہمارے گرجہ گھر میں نوجوان لوگوں کے کھینچے چلے آنے کے لیے خُدا کے حضور میں روزے رکھتے اور دعائیں مانگتے ہیں، تو ہمیں اِس احساس کے لیے انتہائی محتاط ہونا چاہیے کہ وہ ایک پاک خُداوند ہے۔ وہ ایک حقیقی ہستی ہے، جس کو انتہائی تعظیم کے ساتھ عزت و احترام بخشنا چاہیے۔ ایک اور واعظ میں، سپرجیئن نے کہا،

میں پُریقین نہیں ہوں کہ آیا ہم روزے نہ رکھنے سے مسیحی کلیسیا میں ایک عظیم برکت کو کھو تو نہیں چکے ہیں... ایک بوڑھے پیوریٹن کی رسمی سی تفسیر جو ’’روزے کا روح کو اُجاگر کر دینے والا ادارہ The Soul-fattening Institution of Fasting،‘‘ کہلاتی ہے، اور وہ خود اپنا تجربہ پیش کرتا ہے کہ اُس نے کسی اور دوسرے وقت میں جو اُس نے محسوس کیا روزے کے دوران اُسکے مقابلے میں دعا کے وقت میں روح کی انتہائی شدید تمنا محسوس کی تھی (دی میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی واعظ گاہ The Metropolitan Tabernacle Pulpit، جلد دہم، پلگرم اشاعت خانے Pilgrim Publications، 1991 ایڈیشن، صفحہ 35)۔

اگلے ہفتے ہم ایک اور روزے کا دِن رکھیں گے، شام 5:00 بجے تک، جب ہم یہاں پر گرجہ گھر میں کھانا کھانے اور زیادہ دعائیں مانگنے کے لیے آئیں گے۔ ہم دعا مانگ رہے ہونگے کہ خُدا لوگوں کو اُن کی تنہائی کی ’’اشد ضرورت‘‘ کے ذریعے سے گرجہ گھر میں لے آئے۔ مگر یہ اُن میں سے زیادہ تر کو یہاں پر زیادہ عرصے تک روک نہیں پائے گا جب تک کہ گناہ کی سزایابی کے تحت نہیں آتے اور مسیح کے لیے تبدیل نہیں ہوتے۔ اِس لیے لوگوں کے آنے کی دعائیں مانگیں، اور حقیقی تبدیلیوں کے لیے بھی دعائیں مانگیں۔

اگر آپ ابھی تک تبدیل نہیں ہوئے ہیں، تو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یسوع آپ سے محبت کرتا ہے۔ وہ ہمارے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے صلیب پر مرا۔ اُس کا خون اُس صلیب پر ہمیں تمام گناہ سے پاک صاف کرنے کے لیے بہا تھا۔ وہ مُردوں میں سے جسمانی طور آپ کو زندگی دینے کے لیے جی اُٹھا۔ ’’خُداوند یسوع مسیح پر ایمان لا تو تُو اور تیرا سارا خاندان نجات پائے گا‘‘ (اعمال 16:31)۔ تنہا یسوع پر ہم اپنے دِل اور ذہن کی توجہ مرکوز رکھیں – آپ کو نجات دلانے کے لیے صلیب پر خون بہایا اور مرا! تمام دِل کے ساتھ اُس پر بھروسہ کریں۔ وہ آپ کو گناہ، موت، اور جنہم سے نجات دلائے گا! آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: مرقس9:23:29 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بینجمن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا:
’’پرانے دور کا اختیار Old-Time Power‘‘ (شاعر پال ریڈر Paul Rader، 1878۔1938)۔