Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

حقیقی نوح اور حقیقی قیامت!

!THE REAL NOAH AND THE REAL JUDGMENT
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی صبح، 27 اپریل، 2014
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, April 27, 2014

اپنی تبدیلی کے لمحے سے ہی میں جان چکا ہوں کہ نوح کا واقعہ اور سیلاب سچا ہے۔ بچپن کے ابتدائی دِنوں سے ہی مجھے ڈارون کے ارتقاء پر اعتقاد کرنے کی تعلیم دی گئی تھی۔ 1949 میں ایریزوناArizona جانے سے پہلے میں زیادہ تر اوقات انتہائی بیمار رہتا تھا۔ میں کان درد، کھانسی، اور دوسری بیماریوں کے ساتھ آدھے سے زیادہ وقت بستر میں گزارتا تھا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لاس اینجلز کی فضا میں پھولوں کے زرگُل اور دھند بھری فضا اور دھوئیں کے ذریعے سے شروع ہوتی تھیں۔ مجھے بستر ہی میں کچھ نہ کرتے ہوئے کئی کئی دِن گزارنے پڑتے تھے۔ 1940 کی دہائی کے اُن دِنوں میں تو ہمارے پاس ٹیلی ویژن بھی نہیں تھا۔ اِس لیے میری والدہ گھنٹوں کے حساب سے مجھے پڑھ پڑھ کر سُناتی تھیں۔ اپنے پڑھانے کے مرکزی موضوعات میں سے ایک جس کو وہ بار بار سُناتی تھیں ارتقاء کا تھا۔ وہ گالاپیگس کے جزائر کے لیے ڈاروِن کے سمندری سفر کے بارے میں باآوازِ بُلند پڑھ کر سُناتی، اور حتٰی کہ ڈاروِن کے ’’انسان کی نسل‘‘ کے کچھ سادہ حصوں کو سُناتیں۔

جب میں کچھ بہتر ہوا تو میں نے اُن سے التجا کی کہ وہ مجھے یونیورسٹی آف ساؤتھرن کیلیفورنیا (USC) کے ایکسپوزیشن پارک کے قدرتی تاریخی میوزیم میں لے چلیں – جو کہ لاس اینجلز کے مرکز کے قریب ہی تھا۔

جب میں اُس میوزیم میں نمائش میں سے گزر رہا تھا تو میں ارتقاء کے نظریے کے بارے میں مذید اور قائل ہو گیا تھا۔ میں نے اِس پر اپنے تمام دِل کے ساتھ یقین کر لیا تھا۔ بعد میں جب میں نے ایک مبلغ کو کہتے سُنا کہ یہ ارتقاء محض ایک دھوکے بازی ہے، تو میں نے سوچا کہ وہ ایک دیوانہ تھا۔ مگر اِس کے بھی بعد میں، بائیولا یونیورسٹی میں 1961 میں 28 ستمبر کو میں نے ایک اور مبلغ کو 2پطرس کے تیسرے باب میں سے منادی کرتے ہوئے سُنا۔ اُنہوں نے تیسری آیت کا حوالہ دیا جو کہتی ہے، ’’سب سے پہلے تمہیں یہ جان لینا چاہیے کہ آخری دِنوں میں ایسے لوگ آئیں گے جو اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق زندگی گزاریں گے۔‘‘ اُنہوں نے کہا کہ یہ طعنہ زن انسان کے تخلیق اور اُس عظیم سیلاب کے بارے میں جس نے نوح کے زمانے میں تقریباً تمام نسل انسانی کو تباہ کر دیا تھا’’جان بوجھ کر انجان‘‘ بن جائیں گے۔

اچانک ایسا لگا جیسے پردہ اُٹھا لیا گیا ہو اور میں نے سچ کو دیکھا! اُس لمحے میں مَیں جان گیا کسی بھی شک سے پرے کہ میں نے ایک جھوٹ کا یقین کیا تھا! خُدا نے ارتقاء کا مطالعہ کرنے والوں اور یونیفارمی ٹیرینز کی عقلوں کو اندھا کر دیا تھا۔ جب میری ماں تبدیل ہوئی تھیں تو اُن کو بھی بالکل ایسا ہی تجربہ ہوا تھا۔ اُنہوں نے کہا، ’’رابرٹ، میں نہیں جانتی کہ کیوں ہم نے کبھی ایسی دیوانگی پر یقین کیا!‘‘ ایک اور سیاق و سباق میں پولوس رسول نے کہا، ’’خُدا اُن پر گمراہی کا ایسا اثر ڈالے گا کہ وہ جھوٹ کو سچ تسلیم کرنے لگیں گے‘‘ (2 تسالونیکیوں2:11)۔ اور میری تبدیلی کے لمحے میں مجھے احساس ہوا کہ ڈاروِن کے ارتقاء کے نظریے میں اور عظیم سیلاب کی تردید میں کچھ بھی نہیں تھا ماسوائے ایک سائنس فیکشن کے۔ پھر میں نے دیکھا کہ ڈاروِن اور لائیل Lyell اور حکسلے Huxley کسی طور پر بھی جیولز ورنے، ایچ۔ جی۔ ویلز یا آئزک ایسیمو کی سائنس فکشن کہانیوں کے مقابلے میں بالکل بھی حقیقی اور سچے نہیں تھے۔ ڈاروِن کی بالکل بھی سائنٹیفک تربیت نہیں تھی۔ اُس نے علم الہٰیات میں بی۔ اے کیا ہوا تھا، مگر اُس نے سائنس میں ایک بھی کورس کالج سے نہیں کیا تھا! اِس کے باوجود وہ اُس کے سامنے ایک عظیم سائنسدان کے طور پر سر جھکاتے ہیں۔ جب سے میں 1961 میں مسیح میں تبدیل ہوا تھا میں بزرگ نوح کے دور میں سیلاب کی تاریخی حقیقت اور انسان کی تخلیق کے بائبل کے واقعے کی قطعی سچائی کا قائل ہو چکا ہوں۔

جب مجھے پتا چلا کہ ہالی ووڈ نے نوح اور سیلاب پر ایک فلم ریلز کی تھی تو میں اِس کو دیکھنے کے لیے چلا گیا۔ اب میں شاید ہی کبھی ہالی ووڈ کی فلمیں دیکھتا ہوں۔ وہ اذیت پسندی، بدچلنی، تشدد والی اور پیچیدہ ہوتی ہیں۔ کسی کو بھی اپنی عقل کو ہالی ووڈ سے باہر نکلنے والے اِس کچرے کے ذریعے سے آلودہ نہیں ہونے دینا چاہیے۔ مگر میں نے محسوس کیا کہ مجھے نوح والی فلم دیکھنی چاہیے تاکہ آپ کو شروعات ہی میں بتانے کے قابل ہو جاؤں کہ یہ کیسے بائبل کے نوح اور سیلاب کے واقعے کو ایک شیطانی جھوٹ میں بدلتی ہے۔

ورلڈ نیٹ ڈیلی میں ایرون کیلیئن Aaron Klein کے مطابق ’’نوح‘‘ فلم کا پروڈیوسر ایک دہریہ ہے۔ فلم ڈاروِن کے ارتقاء کی تشریح کرتی ہے۔ فلم میں کالے جادو اور غیبی طاقت کے عناصر بھی شامل ہیں۔ متوسلح کو ایک جادوگر کے طور پر پیش کرتی ہے۔ نوح کو قتل کی طرف مائل ہو جانے والے ایک دیوانے کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو نسل انسانی کے آخری سُراغ تک کو تباہ کر دینا چاہتا ہے۔ ڈاکٹر کین حان Dr. Ken Ham نے کہا فلم کا پیغام ’’ماحولیات‘‘ پر مشتمل ہے – کہ جانوروں کو انسانوں کے مقابلے میں بچانا زیادہ ضروری تھا۔‘‘ ڈاکٹر رابرٹ ایل۔ سمنر Dr. Robert L. Sumner نے کہا، ’’اگر آپ نوح کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو آپ کہاں جائیں گے؟ کیوں، بلاشبہ خُدا کے کلام کی جانب جہاں پر وہ ہے – اور اُس کی منادی ہے – اور جنہیں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اور جو بائبل میں پہلے نو ابواب کے تقریباً آدھ تک چھائے ہوئے ہیں۔ یہ ایک شاندار… خُدا کی قوت کے بارے میں کہانی ہے، اس کے باوجود بہت عمدگی کے ساتھ ایک خُدا کو بیان کرتی ہے جو گناہ سے نفرت کرتا ہے اور اُن گنہگاروں پر جو اُس کے فضل کو مسترد کرتے ہیں سزا بھیجنے کے لیے تیار ہے‘‘ (ڈاکٹر رابرٹ ایل۔ سمنر، بائبل کے مبشر The Biblical Evangelist، مئی۔ جولائی 2014، صفحہ8)۔

چند ایک مہینے پہلے، مسٹر پرودھوم نے نوح اور سیلاب سے تعلق رکھتی ہوئیں پیدائش چھٹے باب کی پہلی 14 آیات پڑھی تھیں، اب میرے ساتھ عبرانیوں کی کتاب کھولیں، باب 11، آیت7۔ مہربانی سے کھڑے ہو جائیں جب میں اِس کو پڑھوں۔

’’ایمان ہی سے نُوح نے اُن باتوں کے بارے میں جو مستقبل میں پیش آنے والی تھیں خدا کی طرف سے ہدایت پائی اور خدا ترسی کے باعث اُس پر عمل کیا اور ایک کشتی بنائی جس میں اُس کا سارا خاندان بچ نکلا۔ ایسا کرنے سے اُس نے دُنیا کو مُجرم ٹھہرایا اور اُس راستبازی کا وارث بنا جو ایمان سے حاصل ہوتی ہے‘‘ (عبرانیوں 11:7).

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔ اِس تلاوت میں سے مَیں اہمیت کے تین نکات پیش کرنے کے لیے جا رہا ہوں۔

I۔ اوّل، نوح کا ایمان۔

تلاوت کہتی ہے، ’’ایمان ہی سے نوح نے اُن باتوں کے بارے میں جو مستقبل میں پیش آنے والی تھیں، خُدا کی طرف سے ہدایت پائی اور خُدا ترسی کے باعث اُس پر عمل کیا اور ایک کشتی بنائی…‘‘ (عبرانیوں11:7)۔

خُدا نے نوح کو آنے والے سیلاب کے بارے میں کیسے خبردار کیا تھا؟ پیدائش 6:13 میں ہمیں سادگی سے بتایا جاتا ہے،

’’خدا نے نوح سے کہا، ’’میں سب لوگو کا خاتمہ کرنے کو ہوں…‘‘

میرے خیال میں نوح کو اندازہ تھا کہ سزا کا حکم بہت سے طریقوں سے آ جائے گا۔ اوّل، نوح کے عظیم پردادا حنوک نے آنے والے انصاف اور سزا کے حکم کے بارے میں منادی کی تھی۔ حنوک نے منادی کی تھی کہ خُدا ’’سب پر فیصلہ صادر‘‘ کرے گا (یہوداہ 15)۔ ہم پیچھے مُڑ کا دیکھتے ہیں اور احساس کرتے ہیں کہ حنوک کی پیشن گوئی کا حتمی طور پر پورا ہونا مسیح کی دوسری آمد پر رونما ہو گا۔ مگر نوح اِس کو خُود اپنے زمانے کے ساتھ لاگو کر کے سمجھ گیا ہوگا، جیسا کہ یہ ہوا، کیونکہ سیلاب کے فیصلے سے سزا کا حکم آنا بلاشبہ آنے والے فیصلے کی سزا کے حکم کی ایک تشبیہہ ہے۔ حنوک نے جو کچھ منادی کی کہ خُدا نسل انسانی کی سزا کے فیصلے پر عمل کرنے جا رہا تھا اُس کے بارے میں نوح جانتا تھا۔ دوئم، نوح کے عظیم پردادا حنوک نے اپنے بیٹے کا نام متوسلح رکھا تھا۔ آرتھر ڈبلیو پنک Arthur W. Pink نےکہا کہ متوسلح کے نام کا مطلب ہوتا ہے، ’’جب وہ مر جائے گا تو اِس کو بھیجا جائے گا‘‘ (پیدائش میں جھلکیاں Gleanings in Genesis)۔ یہی متوسلح کے نام کا ترجمہ تھا جو تھامس نیوبیری Thomas Newberry (1811۔1901) نے اپنی سطروں کے درمیان لکھی ہوئی انگلش لوگوں کی بائبل Interlinear Englishman’s Bible میں پیش کیا تھا (1883، ھوڈر اور سٹوھوٹن Hodder and Stoughton)۔ نیوبیری کو عالم ایف۔ ایف بُرس F. F. Bruce نے بہت سراہا تھا۔ نیوبیری نے سیموئیل بوکارڈ Samuel Bochart (1599۔1667) کے ترجمے ھنری آئینزورتھ Henry Ainsworth (1571۔1622) کی پیروی اپنی کتاب Annotations on the Pentateuch میں کی تھی۔ ڈاکٹر جے ورنن میگی Dr. J. Vernon McGee (1904۔1988) نے کہا، ’’متوسلح کا مطلب ہوتا ہے: ’جب وہ مر جائے گا، یہ بھیج دیا جائے گا۔‘ کیا بھیج دیا جائے گا؟ وہ سیلاب… وہ سال جب متوسلح مرا تھا وہی سال تھا جب سیلاب آیا تھا۔ ’جب وہ مر جائے گا، یہ بھیج دیا جائے گا‘ – یہ اُس کے نام کا مطلب ہوتا ہے‘‘ (جے۔ ورنن میگی، ٹی ایچ۔ ڈی۔ J. Vernon McGee, Th. D.، بائبل میں سے Thru the Bible، جلد اوّل، تھامس نیلسن بپلیشرز Thomas Nelson Publishers، 1981، صفحہ 34)۔

لہٰذا، آنے والے فیصلے کی سزا کے حکم کے بارے میں نوح حنوک کی منادی میں سُن چکا تھا – اور وہ جانتا تھا کہ متوسلح کے نام کا مطلب تھا کہ فیصلے کی سزا کا حکم نازل ہو جائے گا بزرگ کی موت کے فوراً ہی بعد۔ وہ سیلاب واقعی میں، اُسی سال کے دوران متوسلح کی موت کے کچھ ہی دیر بعد آ گیا تھا ۔

نوح کا ایمان اِن ہی بوڑھے لوگوں کی منادی کے سبب سے بنا تھا۔ آج منادی ہی سب سے اہم ذریعہ ہے جس سے خُدا ہمارے ساتھ ہمکلام ہوتا ہے۔ پولوس رسول نے کہا،

’’ایمان کی بنیاد پیغام سننے پر ہے‘‘ (رومیوں 10:17)، اور،

’’جب تک کوئی اُنہیں خوشخبری نہ سُنائے وہ کیسے سُنیں گے‘‘ (رومیوں 10:14).

پھر، اِس کے علاوہ نوح نے اپنے زمانے میں دُنیا کا ہولناک گناہ بھی دیکھا تھا۔ بائبل کہتی ہے،

’’خداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی ہے اور اُس کے دِل کے خیالات ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہتے ہیں‘‘ (پیدائش 6:5).

’’خدا نے نُوح سے کہا، میں سب لوگوں کا خاتمہ کرنے کو ہُوں کیونکہ زمین اُن کی وجہ سے ظلم سے بھر گئی ہے۔ اِس لیے میں یقیناً نوع انسان اور زمین دونوں کو تباہ کر ڈالوں گا‘‘ (پیدائش 6:13).

ایک اور طریقہ بھی تھا کہ خُدا نے نوح کے ایمان کو بُلایا تھا۔ پیدائش 6:3 میں ہمیں پاک روح کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ یہ انسان کے ساتھ خُدا کے روح کی کوششوں کے بارے میں بات کرتی ہے۔ اِس کا چاہے کچھ بھی مطلب نکلتا ہو، یہ ہمیں ظاہر کرتی ہے کہ اُن دِنوں میں پاک روح اپنا کام کر رہا تھا۔ خُدا نے حنوک اور متوسلح کی منادی کو استعمال کیا تھا۔ اُس نے نوح کے خود اپنے مشاہدے کو گناہ میں ڈوبی ہوئی دُنیا کے لیے استعمال کیا۔ اور اُس نے پاک روح کو نوح کے دِل کے ساتھ ہمکلام کرنےاور اُس کو شعور بخشنے کے لیے بھیجا۔

1965 کے زمانے میں مجھے اپنی گاڑی میں ریڈیو پر بیری میگوائر Barry McGuire کا گایا ہوا ایک گیت سُننے کا موقع ملا۔ اس نے ویت نام کی جنگ اور نیوکلئیر جنگ کی ہولناکیوں کے بارے میں بتایا تھا، اور بہت سی دوسری باتوں کے بارے میں بتایا تھا جو اُس وقت رونما ہو رہی تھیں۔

اور تم مجھے بار بار اور بار بار اے میرے دوست بتاؤ گے،
ہائے تم یقین نہیں کرتے ہو کہ ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہوئے ہیں۔

میں جانتا ہوں کہ یہ ایک ناچنے گانے والا گیت ہے، اور ہمیں ناچنے گانے والے گیتوں کو نہیں سُننا چاہیے۔ مگر میں ایک مغربی بپتسمہ دینے والا شخص تھا اور اُس وقت یہ بات نہیں جانتا تھا۔ میں نے مسٹر گریفتھ سے اِس کو گانے کے لیے کہا کیونکہ الفاظ میرے دِل پر کسی تیر کی مانند لگے تھے۔ میں ریڈیو پر بائبل کی پیشن گوئیوں پر ڈاکٹر ایم۔ آر۔ ڈیحان M. R. DeHaan کی منادی سُنتا رہا تھا، جو مسیح کی دوسری آمد اور دُنیا کے خاتمے کے بارے میں بات کرتے تھے۔ اور تب میں نے یہ گیت سُنا تھا – اور اِس نے میرے ہوش اُڑا دیے! یہ ایک گندہ سا، خشک سا گیت ہے – اور اِس نے مجھے محسور کر دیا تھا! مجھے بہت اچھی طرح سے یاد ہے کہ میں کہاں پر تھا جب میں نے اِسے سُنا تھا۔ میں نے گاڑی کو سائیڈ میں روک لیا تھا اور پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا! وہ گیت یہ ہے! مسٹر گریفتھ، اِسے گائیے!

مشرقی دُنیا شدت سے بڑھ رہی ہے، تشدد بڑھ رہا ہے، گولیاں مسلسل چل رہی ہیں،
آپ قتل کرنے کے لیے کافی عمر کے ہیں مگر ووٹ نہیں دے سکتے،
آپ کا جنگ میں اعتقاد نہیں ہے، مگر وہ کیا بندوق آپ نے سنبھال رکھی ہے،
اور حتٰی کہ دریائے یردن میں بھی لاشیں تیر رہی ہیں،
اور تم مجھے بار بار اور بار بار اے میرے دوست بتاؤ گے،
ہائے تم یقین نہیں کرتے ہو کہ ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہوئے ہیں۔

کیا آپ کو سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کیا بتانے کی کوشش کر رہا ہوں؟
کیا آپ اُس خوف کو محسوس نہیں کر سکتے جو میں آج محسوس کر رہا ہوں؟
اگر بٹن دبا دیا گیا تو پھر بھاگ کر بچنا محال ہوگا،
ساری دُنیا میں سے آپ کو قبر میں جانے سے روکنے کے لیے کوئی بھی نہیں ہوگا۔
اپنے ارد گرد نظر ڈورائیں، میرے خُدایا، یہ آپ کو خوفزدہ کردینے کے لیے ہی ہے، میرے خُدایا،
اور تم مجھے بار بار اور بار بار اے میرے دوست بتاؤ گے،
ہائے تم یقین نہیں کرتے ہو کہ ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہوئے ہیں۔

جی ہاں، میرا خون اِس قدر دیوانہ ہو چکا ہے، کہ منجمند ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے،
میں یہاں پر بیٹھا ہوا ہوں اور صرف سوچ بچار کر رہا ہوں،
میں سچ کو مروڑ نہیں سکتا، اِس کو کسی بھی ضابطے کا نہیں پتا،
مٹھی بھر اسمبلی کے اراکین قانون کو پاس نہیں کرتے،
اور صرف سڑکوں پر جلوس نکالنے سے اتحاد نہیں ہو جاتا،
جب انسانی احترام کو پامال کیا جاتا ہے،
تو یہ تمام کی تمام دیوانی دُنیا بس بہت زیادہ ظالم ہو جاتی ہے،
اور تم مجھے بار بار اور بار بار اے میرے دوست بتاؤ گے،
ہائے تم یقین نہیں کرتے ہو کہ ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہوئے ہیں۔

سوچیں سُرخ چین میں وہاں پر کس قدر نفرت ہے،
پھر ذرا سلمیٰ الابامہ Selma, Alabama کے شہر کو جا کر دیکھیں،
آپ چاہیں خلا میں چار دِنوں تک رہنے کے لیے یہاں سے چلے جائیں،
مگر جب آپ واپس آئیں تو یہ وہی پرانی جگہ ہی ہوگی،
وہ ڈھولوں کے تھاپ، وہ تکبر اور رسوائی،
آپ اپنے مُردوں کو تو لا سکتے ہیں، مگر اپنی کوئی نشانی نہیں چھوڑ سکتے،
اپنے پڑوسی سے نفرت تو کر سکتے ہیں، مگر کھانے پر خُداوند کا فضل مانگنا نہیں بھول سکتے،
اور تم مجھے بار بار اور بار بار اے میرے دوست بتاؤ گے،
ہائے تم یقین نہیں کرتے ہو کہ ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہوئے ہیں،
ہائے تم یقین نہیں کرتے ہو کہ ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہوئے ہیں۔
(’’تباہی کا دھانہ Eve of Destruction‘‘ شاعر پی۔ ایف۔ سلواین P. F. Sloan، 1965؛ گلوکار بیری میگوائر Barry McGuire)۔

اور تم مجھے بار بار اور بار بار اے میرے دوست بتاؤ گے، ہائے، آپ یقین نہیں کرتے ہو کہ ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہوئے ہیں، جی نہیں، جی نہیں، آپ یقین نہیں کرتے ہیں کہ ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہوئے ہیں۔‘‘

میرے خیال میں بالکل ایسا ہی نوح نے بھی محسوس کیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ سزا کے حکم کا فیصلہ اور تباہی آنے والی ہے – بالکل جیسے مجھے ماضی میں 1965 کے موسم گرما میں معلوم تھا۔ ’’مگر،‘‘ آپ کہتے ہیں، ’’یہ تو انچاس سال پہلے کی بات تھی!‘‘ اوہ جی ہاں، اور ہم انچاس سال سے بھی زیادہ کے عرصے سے تباہی کے دہانے پر کھڑے ہوئے ہیں! نوح کے زمانے میں دُنیا 120 سالوں تک تباہی کے دہانے پر کھڑی رہی تھی (پیدائش6:3)۔ میں آج کی صبح اِس کے بارے میں اتنا ہی قائل ہوں – حتٰی کہ اِس سے بھی زیادہ – جتنا کہ میں 1965 میں تھا! میں 24 سال کا تھا۔ میں نے اپنی گاڑی سائیڈ پر کھڑی کر لی تھی اور پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا! ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہوئے ہیں۔ نوح یہ جانتا تھا – اور میں یہ جانتا ہوں۔ اور میں اِس کو پہلے سے بھی کہیں زیادہ بہتر طور پر جانتا ہوں! تباہی کے گردباد نے ہمارے ہزاروں نوجوانو کو ویت نام کی ہولناکیوں میں نگل لیا تھا، اُسی بھنور میں صدر نیکسن نگلے گئے تھے، جیسے ہزاروں لاکھوں نوجوان لوگ، منشیات، فحاشی اور جان بوجھ کر اسقاط حمل کروانے کے بھونر میں نگلے جاتے ہیں۔ ہماری دُنیا تو کب ہی کی تباہی کے دہانے پر جھول رہی ہے۔ میں یہ 1965 میں جانتا تھا اور میں یہ اب بھی جانتا ہوں!

’’ایمان ہی سے نُوح نے اُن باتوں کے بارے میں جو مستقبل میں پیش آنے والی تھیں خدا کی طرف سے ہدایت پائی اور خدا ترسی کے باعث اُس پر عمل کیا اور ایک کشتی بنائی جس میں اُس کا سارا خاندان بچ نکلا۔ ایسا کرنے سے اُس نے دُنیا کو مُجرم ٹھہرایا اور اُس راستبازی کا وارث بنا جو ایمان سے حاصل ہوتی ہے‘‘ (عبرانیوں 11:7).

II۔ دوئم، نوح کی منادی۔

’’ایمان ہی سے نُوح نے اُن باتوں کے بارے میں جو مستقبل میں پیش آنے والی تھیں خدا کی طرف سے ہدایت پائی اور خدا ترسی کے باعث اُس پر عمل کیا اور ایک کشتی بنائی جس میں اُس کا سارا خاندان بچ نکلا۔ ایسا کرنے سے اُس نے دُنیا کو مُجرم …‘‘ (عبرانیوں 11:7).

اُس نے دُنیا کو مجرم ٹھہرایا۔‘‘ میں لوگوں کو کہتے ہوئے سُنتا ہوں، ’’اِس قدر سخت مت ہوا کریں! ہمارے لیے اندازے مت لگایا کریں! ہمیں مجرم مت قرار دیا کریں!‘‘ مجھے یقین ہے کہ نوح نے بھی یہ سب کچھ سُنا ہوگا! مگر اُس نے اُن کی نہیں سُنی! ’’اُس نے دُنیا کو مجرم ٹھہرایا‘‘! ’’اُس نے دُنیا کو مجرم ٹھہرایا‘‘! اُس نے دُنیا کو مجرم ٹھہرایا‘‘! ہمیں آج اُس قسم کی منادی کی ضرورت ہے – منادی جو گناہ کو مجرم ٹھہراتی ہے! 1950 اور 60 کی دہائی میں بلی گراھم Billy Graham ایک عظیم مبلغ تھے۔ ایک انجیلی بشارت دینے والے لیڈر نے مجھے بتایا کہ اُن دِنوں میں اُس کی منادی ’’جھنجھوڑ دینے والی‘‘ ہوتی تھی۔ میرے خیال میں ہمیں آج کچھ جھنجھوڑ دینے والی منادی کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس بے شمار بائبل کو پڑھانے والے ’’اساتذہ‘‘ ہیں اور بہت زیادہ ’’تفسیر کرنے والے‘‘ ہیں۔ نوح ایک جھنجھوڑ دینے والا مبلغ تھا! بائبل نوح کو ’’راستبازی کا مبلغ‘‘ کہتی ہے (2پطرس2:5)۔ 1960 کی دہائی میں نیویارک کے میڈیسن سکوائر کے باغ میں بلی گراھم کی منادی کو سُنیں۔ وہ نوح کے زمانے پر منادی کر رہا تھا، لوگ کیسے عظیم سیلاب سے پہلے زندگی گزار رہے تھے،

وہ کھانے پینے کا ایک دور تھا۔ یسوع نے کہا کہ وہ کھا پی رہے تھے۔ وہ مادی چیزوں میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اُن کے پاس خُدا اور روحانی باتوں کے لیے انتہائی کم بھوک تھی۔ اُن کی بھوک صرف اُن کا پیٹ بھرنے کے لیے تھی، اُن کی جنسی خواہشات کی تسکین کے لیے تھی… ہم جو امریکہ اور یورپ میں ہیں… بہت دیو قامت بھوکے بن چکے ہیں۔ دُنیا میں کئی دوسرے حصوں میں لاکھوں کروڑوں لوگوں کے مقابلے میں ہمارے کتوں کو کھانے کے لیے بہتر خوراک ملتی ہے… یہ نوح کے زمانے میں ہوا تھا…

     اس کے علاوہ جنسیات پر بھی ایک غیر معمولی زور ڈالا گیا ہے۔ یسوع نے کہا، وہ شادیاں کرتے کراتے تھے۔ وہ غلیظ، عیاش، جنسی بدچلنی میں بگڑ چکے تھے… یسوع نے کہا کہ یہ تاریخ میں ایک دفعہ ہوا تھا اور سیلاب آ گیا۔ یہ اب تاریخ میں دوبارہ ہو رہا ہے اور جرم کی سزا کا فیصلہ آنے والا [ہے]۔
     نوح نے ایک دغاباز دُنیا اور گمراہ نسل کے درمیان خُدا کا اعتقاد کیا تھا اور اُس نے اکیلے ہی کھڑے ہونے کی جرأت کی تھی… نوح اکیلا کھڑا رہا اور ایک دِن خداوند اُس کے پاس آیا اور کہا، ’نوح، میں نسل انسانی کو ایک سیلاب کے ذریعے سے تباہ کرنے لگا ہوں‘… اور بائبل کہتی ہے کہ نوح نے خُدا کا یقین کیا… بائبل کہتی ہے کہ ایمان ہی سے نُوح نے اُن باتوں کے بارے میں جو مستقبل میں پیش آنے والی تھیں خدا کی طرف سے ہدایت پائی اور خدا ترسی کے باعث اُس پر عمل کیا (غور کریں کس بات نے اُس کو تحریک دی، خوف نے) اور اُس نے ایک کشتی بنائی۔ اب اگر کسی نسل کو خوف کے باعث عمل کرنے کی ضرورت ہے اور خُدا کی راہ پر آنے کی ضرورت ہے تو یہ ہماری نسل ہے۔ [اخبارات] کی شہ سُرخیاں اِس کو چیخ چیخ کر ہمیں بتا رہی ہیں۔ یہ ہر روز اِس کی ہمیں منادی کر رہے ہیں… نوح لوگوں کو منادی کر رہا تھا، اُنہیں خبردار کر رہا تھا، ’توبہ کرو، سزا کے حکم کا فیصلہ آ رہا ہے، یقین کرو۔‘ مگر اُنہوں نے مذاق اُڑایا اور حقارت بھرے انداز میں مسکرائے اور یقین نہ کیا (بلی گراھم Billy Graham، دی چیلنج: میڈیسن سکوائر باغ میں سے واعظ The Challenge: Sermons from Madison Square Garden، ڈبل ڈے اور کمپنی Doubleday and Company Inc.، 1969، صفحات 162۔168)۔

گناہ کے خلاف اپنی منادی کے ذریعے سے نوح نے ’’دُنیا کو مجرم ٹھہرایا‘‘۔ میں خواہش کرتا ہوں کہ کاش اب ہمارے پاس اُس طرح کے اور زیادہ مبلغین ہوتے! اگلے ہی دِن ڈاکٹر کیگنDr. Cagan نے مجھے بتایا، اگر پتا نہ ہوتا کہ وہ کون ہے، تو بلی گراھم کو آج امریکہ میں ہمارے زیادہ تر انجیلی بشارت کے گرجہ گھروں میں اِس طرح سے منادی کرنے کے لیے اجازت نہ دی گئی ہوتی۔ ہم دُنیا داری میں انتہائی پسپائی تک گِر چکے ہیں۔ ہمارے گرجہ گھر گمراہ اور کھوئے ہوئے اراکین سے بھرے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر کیگن نے کہا وہ آج نوجوان بلی گراھم کو آج برداشت نہ کر پائیں گے۔ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ اُس طرح سے ہمارے زیادہ تر قدامت پسند گرجہ گھروں میں اب منادی کر پائے گا! ایسا ہی نوح کے زمانے میں تھا۔ وہ ’’راستبازی کا ایک مبلغ‘‘ تھا (2پطرس2:5) – مگر کسی نے بھی توبہ نہیں کی۔ کوئی بھی گناہ سے باز نہیں آیا اور کوئی بھی نجات کی کشتی میں سوار نہیں ہوا۔ صرف اُس کے بیٹے اور اُن کی بیویاں، اور خود اُس کی اپنی بیوی نے اُس کی منادی کو سُنا اور بچائے گئے تھے۔ اُس نے ایک کشتی تیار کی ’’جس میں اُس کا سارا [گھرانہ] خاندان بچ نکلا؛ ایسا کرنے سے اُس نے دُنیا کو مجرم ٹھہرایا‘‘ (عبرانیوں11:7)۔ کیا آپ میری منادی کو سُنیں گے؟ کیا آپ اِس شہر کی بدکاری اور گناہ سے منہ موڑیں گے؟ کیا آپ توبہ کریں گے اور مسیح کی جانب آئیں گے – اور ہر اتوار کو یہاں اِس گرجہ گھر میں ہونگے؟ یا کیا آپ خُدا کی سزا کے حکم کے آنے والے فیصلے کے سیلاب میں غرق ہو جائیں گے؟ اِس نئی فلم کے بارے میں ایک اچھی بات ہے۔ فلم ظاہر کرتی ہے کہ نوح کا واقعہ کوئی بچوں کی کہانی نہیں ہے! بالکل بھی نہیں۔ یہ گناہ سے بھرپور دُنیا کے بارے میں خُدا کی سزا کے حکم کے فیصلے کی ایک کہانی ہے!

III۔ سوئم، نوح کی نسل، اُس کی ’’دُنیا۔‘‘

’’ایمان ہی سے نُوح نے اُن باتوں کے بارے میں جو مستقبل میں پیش آنے والی تھیں خدا کی طرف سے ہدایت پائی اور خدا ترسی کے باعث اُس پر عمل کیا اور ایک کشتی بنائی جس میں اُس کا سارا خاندان بچ نکلا۔ ایسا کرنے سے اُس نے دُنیا کو مُجرم ٹھہرایا…‘‘ (عبرانیوں 11:7).

’’دُنیا‘‘ نشاندہی کرتی ہے اُن لوگوں کی جو سیلاب سے پہلے زمین پر رہ رہے تھے۔ نوح کے زمانے کی ’’دُنیا‘‘ حوالہ تھا مسیح کی جانب ایک مثال کے طور پر، ایک تصویر کے طور پر، کہ دُنیا کے اختتام سے پہلے لوگ کیسے ہو جائیں گے۔ آخری فیصلے سے پہلے، مسیح نے کہا،

’’جیسا نوح کے دِنوں میں ہوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا۔ کیونکہ طوفان سے پہلے کے دِنوں میں لوگ کھاتے پیتے اور شادی بیاہ کرتے کراتے تھے۔ نُوح کے کشتی میں داخل ہونے کے دِن تک یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ اُنہیں خبر تک نہ تھی کہ کیا ہونے والا ہے، یہاں تک کہ طوفان آیا اور اُن سب کو بہا لے گیا۔ ابنِ آدم کی آمد بھی ایسی ہی ہوگی‘‘ (متی 24:37۔39).

جی ہاں، میں جانتا ہوں کہ نوح کے زمانے میں بہت سے لوگ تشدد کرتے تھے۔ جی ہاں، میں جانتا ہوں کہ اُنہوں نے پاک روح کی نیکیوں کو مسترد کیا تھا اور اُن کے دِل بُرے خیالات سے بھرے تھے۔ مگر اُن لوگوں کا بدترین گناہ مادیت پرستی تھی۔ یہ تھا جس پر مسیح نے توجہ مرکوز کی تھی – اُنکی مادیت پرستی۔ وہ صرف سوچتے تھے تو کھانے پینے کے بارے میں اور شادیاں کرنے کرانے کے بارے میں۔ اُن کی سوچوں کی سوئی اِس دُنیا کی باتوں پر، اور اِسی زندگی پر اٹکی ہوئی تھیں۔ اُنہوں نے ابدی زندگی کے بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچا تھا۔ وہ خُدا کے بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچتے تھے۔ اُنہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ جب وہ مر جائیں گے تو اُن کی روحیں کہاں پر جائیں گی۔ وہ آج کے نوجوان لوگوں کی مانند تھےجو صرف ویڈیو گیمز اور فلموں کے بارے میں سوچتے ہیں، جو صرف اپنے سکول کے کام اور ہنسی مذاق کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اُنہیں سنجیدگی سے اپنے گناہ کے بارے میں سوچنے کے لیے کوئی وجہ دکھائی ہی نہیں دیتی۔ اُنہیں جب وہ مر جائیں گے تو اُن کی روحوں کے ساتھ کیا ہوگا اِس بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی کوئی وجہ دکھائی ہی نہیں دیتی۔

بائبل تعلیم دیتی ہے کہ ایک حقیقی آسمان اور ایک حقیقی جہنم ہے۔ آپ مرنے کے بعد کہاں پر جائیں گے؟ ہر کوئی یا تو آسمان میں جائے گا یا پھر جہنم میں جائے گا۔ آپ کہاں پر جائیں گے؟ آسمان میں جانے کے لیے صرف ایک ہی طریقہ ہے – اور وہ ہے یسوع مسیح میں ایمان کے وسیلے سے۔ یہ کیوں سچ ہے؟ کیونکہ کسی اور نے نہیں بلکہ یسوع نے آپ کے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے صلیب پر مرنا قبول کیا تھا۔ خُدا کی حضوری میں صرف یسوع کا خون ہی آپ کو گناہ سے پاک صاف کر سکتا ہے۔ صرف یسوع ہی آپ کو بچا سکتا ہے۔

خُدا فیصلہ کرنے والا خُدا ہے۔ اُس کو گناہ سے نفرت ہے۔ وہ گناہ پر نظر نہیں ڈال سکتا۔ اگر آپ کے گناہوں کی ادائیگی مسیح کے صلیب پر مرنے سے نہ کی گئی ہوتی، اور مسیح کے خون کے وسیلے سے دُھل کر پاک صاف نہ کیے گئے ہوتے تو آپ آسمان میں داخل نہیں ہو سکتے۔ مسیح نے کہا، ’’میرے وسیلے کے بغیر کوئی باپ کے پاس نہیں آتا‘‘ (یوحنا14:6)۔

میں آپ سے توبہ کرنے کے لیے کہہ رہا ہوں، اپنی گناہ سے بھرپورطرزِزندگی سے منہ موڑیں، اور ایمان کے وسیلے سے یسوع مسیح کے پاس آئیں۔ مسیح پر بھروسہ کریں اور اُس کے خون کے وسیلے سے اپنے گناہ سے پاک صاف ہو جائیں۔ اور گرجہ گھر میں آئیں، اور ہر اتوار کو گرجہ گھر میں آئیں! وہ پرانا گیت جو مسٹر گریفتھ Mr. Griffith نے میرے اس واعظ کی منادی کرنے سے پہلے گایا تھا اِس کو بہت خوبی سے نبھاتا ہے۔

آؤ۔ اے گنہگارو، کھوئے ہوؤں اور بے بس لوگو،
   یسوع کا خون آپ کو آزادی دلا سکتا ہے؛
کیونکہ اُس نے تم میں سے بدترین لوگوں کو بچایا،
   اور جب اُس نے مجھ جیسے تباہ حال کو بچایا۔
اور میں جانتا ہوں، جی ہاں، میں جانتا ہوں،
   یسوع کا خون غلیظ ترین گنہگار کو بھی پاک صاف کر سکتا ہے۔
اور میں جانتا ہوں، جی ہاں، میں جانتا ہوں،
   یسوع کا خون غلیظ ترین گنہگار کو بھی پاک صاف کر سکتا ہے۔
(’’جی ہاں، میں جانتا ہوں!Yes, I Know! ‘‘ شاعرہ آنہ ڈبلیو۔ واٹرمین
      Anna W. Waterman ، 1920)

کیا آپ ایک حقیقی مسیحی بننے کے بارے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ یسوع اپنے قیمتی خون کے ساتھ آپکے گناہوں کو دھو کر پاک صاف کر دے؟ کیا آپ ایک حقیقی مسیحی بننے کے بارے میں اور یسوع کے وسیلے سے پاک صاف ہونے کے بارے میں ہمارے ساتھ بات چیت کرنا پسند کریں گے؟ اگر آپ ہمارے ساتھ بات چیت کرنا پسند کریں تو مہربانی سے باکل ابھی اپنی نشست چھوڑیں اور اجتماع گاہ کی پچھلی جانب چلے جائیں۔ ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan آپ کی رہنمائی ایک اور کمرے میں کریں گے جہاں پر ہم دعا اور بات چیت کر سکتے ہیں۔ ابھی اجتماع گاہ کی پچھلی جانب چلے جائیں۔ اگر آپ یہاں پر پہلی مرتبہ آئیں ہیں، تو میں خود آپ سے بات چیت کروں گا، اور آپ کے سوالات کے جواب دوں گا۔ پچھلی جانب ابھی چلے جائیں۔ ڈاکٹر چعین Dr. Chan، مہربانی سے دعا کریں کہ آج کی صبح کوئی نہ کوئی یسوع پر بھروسہ کرے گا۔ آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: پیدائش 6:1۔14 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’جی ہاں، میں جانتا ہوں!Yes, I Know! ‘‘ (شاعرہ آنہ ڈبلیو۔ واٹرمینAnna W. Waterman ، 1920)۔

لُبِ لُباب

حقیقی نوح اور حقیقی قیامت!

!THE REAL NOAH AND THE REAL JUDGMENT

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’ایمان ہی سے نُوح نے اُن باتوں کے بارے میں جو مستقبل میں پیش آنے والی تھیں خدا کی طرف سے ہدایت پائی اور خدا ترسی کے باعث اُس پر عمل کیا اور ایک کشتی بنائی جس میں اُس کا سارا خاندان بچ نکلا۔ ایسا کرنے سے اُس نے دُنیا کو مُجرم ٹھہرایا اور اُس راستبازی کا وارث بنا جو ایمان سے حاصل ہوتی ہے‘‘ (عبرانیوں 11:7)۔

(2 پطرس3:3؛ 2تسالونیکیوں2:11)

I.   اوّل، نوح کا ایمان، عبرانیوں 11:7الف؛ پیدائش6:13؛ یہوداہ15؛
رومیوں10:17، 14؛ پیدائش6:5، 13، 3 .

II.  دوئم، نوح کی منادی، عبرانیوں11:7ب؛ 2پطرس2:5 .

III. سوئم، نوح کی نسل، اُس کی ’’دُنیا،‘‘ عبرانیوں 11:7 ج؛
متی24:37۔39؛ یوحنا14:6۔