Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

اَن دیکھی دُنیا میں یسوع کو تلاش کرنا!

!LOOKING TO JESUS IN THE UNSEEN WORLD
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
15 ستمبر، 2013، خُداوند کے دِن کی صبح
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, September 15, 2013

’’ہم دیکھی ہوئی چیزوں پر نہیں، بلکہ اندیکھی چیزوں پر نظر کرتے ہیں: کیونکہ دیکھی ہوئی چیزیں چند روزہ ہیں؛ مگر اندیکھی ہمیشہ کے لیے ہیں‘‘ (2۔کرنتھیوں4:18)۔

وہ آیات جو اِس تلاوت سے پہلے آتی ہیں اہم ہیں۔ پولوس رسول ہمیں اُن تکلیف دہ تجربات کے بارے میں بتاتا ہے جن سے وہ گزر چکا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ اُس کو ہر طرف سے پریشان کیا گیا۔ وہ کہتا ہے اُس کو اذیت دی گئی۔ وہ بتاتا ہے کہ اُس نے ہر روز موت کا سامنا کیا۔ اُس نے بہادری کے ساتھ خطرات اور قید و بندش کا سامنا کیا۔ اُس نے کبھی بھی کسی بھی قسم کی مصیب سے مُنہ موڑنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ مسیح کے لیے آگے بڑھنا چاہے اُس کو عزت ملی یا اُس پر حملہ کیا گیا۔ اُس کو ایک شہر سے گھسیٹ کر باہر نکالا گیا اور سنگسار کیا گیا اور مرنےکے لیے چھوڑ دیا گیا۔ یہ ایک معجزہ ہے کہ وہ ایسی اذیتیوں سے زندہ بچ گیا۔ اِس کے باوجود وہ کہہ سکا، ’’اِن میں سے کوئی بھی چیز مجھے ہلا نہیں سکی، نا ہی میری جان میرے لیے کوئی قدروقیمت رکھتی ہے۔‘‘

میں بہت سے مسیحی شہیدوں کے بارے میں پڑھ چکا ہوں۔ لیکن پولوس کی اذیت جاری ہی رہتی ہے – اُن میں سب سے زیادہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ جنہوں نے مسیح کے لیے مصیبتیں برداشت کیں۔ کس بات نے اُس کو جاری رکھا؟ وہ کیسے اِس قدر پُرسکون ہوگا جب کہ اُس کو پیٹا گیا، بحری جہاز تباہ ہوا، سنگسار کیا، قید میں ڈالا اور اذیت دی گئی؟ مسیح کے لیے اُس کی شدید وابستگی کا راز کیا تھا جبکہ وہ اِس قدر زیادہ مصیبتوں میں سے گزر رہا تھا؟ اُس کی بِلا ڈر و خوف کی وابستگی کا راز ہماری تلاوت میں پایا جاتا ہے، جو کہ اِس تناظر میں قائم ہوا،

’’ہماری یہ معمولی سی مصیبت جو کہ عارضی ہے، ہمارے لیے ایسا ابدی جلال پیدا کر رہی ہے جو ہمارے قیاس سے باہر ہے؛ لہٰذا ہم دیکھی ہوئی چیزوں پر نہیں، بلکہ اندیکھی چیزوں پر نظر کرتے ہیں: کیونکہ دیکھی ہوئی چیزیں چند روزہ ہیں؛ مگر اندیکھی ہمیشہ کے لیے ہیں‘‘ (2۔کرنتھیوں4:17۔18)۔

پولوس پُرسکون اور خوش تھا حالانکہ اُس کی زندگی میں تشدد، دھشت اور تباہی بھری پڑی تھی۔ وہ ایسا کیسے کر سکا ہوگا؟ وہ ایسا کر سکا کیونکہ وہ اُن چیزوں پر نظر نہیں ڈالتا تھا جنہیں وہ دیکھ سکتا تھا، بلکہ اُن اندیکھی چیزوں پر نظر ڈالتا تھا جو وہ دیکھ نہیں سکتا تھا۔ وہ پُرسکون تھا کیونکہ اُس کا ذہن اُس اندیکھی دُنیا پر مرکوز تھا، جہاں مسیح خُدا کے داھنے ہاتھ پر بیٹھا ہے! یہ ہماری زندگی میں بھی سچ ہو سکتا ہے اگر ہم اِس تلاوت کی فرمانبرداری کرتے ہیں،

’’ہم دیکھی ہوئی چیزوں پر نہیں، بلکہ اندیکھی چیزوں پر نظر کرتے ہیں: کیونکہ دیکھی ہوئی چیزیں چند روزہ ہیں؛ مگر اندیکھی ہمیشہ کے لیے ہیں‘‘ (2۔کرنتھیوں4:18)۔

I۔ اوّل، ’’اُن چیزوں پر نظر مت ڈالو جو دیکھی جا سکتی ہیں۔‘‘

آپ ایک مسیحی نہیں بن سکتے ہیں اگر آپ اُس بیان کی سچائی کو نہیں سمجھتے۔ ’’ہم دیکھی ہوئی چیزوں پر نظر نہیں ڈالتے ہیں۔‘‘ اِس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ کو اندیکھی دُنیا کی کم از کم کچھ آگاہی ہونی چاہیے۔ دُنیاوی امریکیوں کے مقابلے میں ابتدائی لوگوں کی عموماً روحانی دُنیا میں کہیں زیادہ بصیرت ہے۔ میرے خیال میں وہ روحانی رغبت تیسری دُنیا میں جاری عظیم حیات نو کے عناصر میں سے ایک ہے۔ تمام امریکی جو دیکھ سکتے ہیں وہ جگمگاتی نیون روشنیوں کی علامات، بڑی عمارات، اور فینسی گاڑیاں ہیں۔ یہی تمام ہے جس پر وہ نظر ڈالتے ہیں۔ یہی تمام ہے جو وہ دیکھتے ہیں۔

جب ہم غیر مسیحیوں کو بتاتے ہیں کہ ہمارا گرجہ گھر نوکیا سنٹر Nokia Center سے کچھ بلاک کے فاصلے پر ہے، اور سٹیپلز سنٹرStaples Center سے ایک بلاک جہاں لیکرز Lakers کی ٹیم باسکٹ بال کھیلتی ہے، تو وہ متاثر ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، عمدہ و لطیف! واقعی میں! وہ سوچتے ہیں کہ یہ انتہائی دلچسپ ہے، انتہائی متاثر کُن ہے! ایل۔ اے۔ براہ راست – حیرت انگیز! بہت فاصلے پر! وہ نوکیا سینٹر – حیران کُن! وہ سٹیپلز سینٹر – بہت خوب! لیکن میرے لیے وہاں ماسوائے سیمنٹ کے ڈھیر، نیون لائٹز اور خالی پن کے کچھ بھی نہیں ہے – یہاں تک کہ گزرتے ہوئے بھی دلچسپی کا کچھ نہیں ہے! آپ کہتے ہیں، ’’وہ اِس لیے کیونکہ آپ بوڑھے ہیں!‘‘ جی نہیں، میں نے جب سے میں نوعمری میں تھا اُن جگمگاتی چیزوں کے بارے میں ایسا ہی محسوس کیا ہے۔ میں نے ایل۔ اے۔ براہ راست کے بارے میں یہی بات کہی تھی جب میں سترہ برس کا تھا جو میں اِس صبح کہہ رہا ہوں۔ وہاں پر کچھ بھی نہیں ہے – ماسوائے چونچلے پن کے! کچھ بھی اہم نہیں ہے! کچھ بھی دیرپا نہیں ہے! ’’اُن چیزوں پر نظر نہ ڈالو جو دیکھی جا سکتی ہیں۔‘‘

بالکل ایسا ہی میں نے یروشلم کے پرانے شہر میں محسوس کیا تھا۔ وہ ویہ ڈولوروسہ Via Dolorosa، گارڈن مزار Garden Tomb، یہاں تک کہ ماتمی دیوار Wailing Wall – وہاں پر کچھ بھی نہیں ہے! ماسوائے چٹانوں کے ایک ڈھیر کے؛ ایک پہاڑی میں صرف ایک سوراخ کے؛ صرف ایک گندی سڑک کے جو چیختے چلاتے لوگوں سے بھری پڑی ہے اور وہ نمائشی زیور بیچنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں؛ وہاں پر کچھ بھی نہیں ہے؛ دائمی اہمیت کا کچھ بھی نہیں ہے؛ آخرکار دیرپا رہنے والا کچھ بھی نہیں ہے۔ کیا آپ نے کبھی پیگی لی Peggy Lee کا جذباتی درد و کرب والا گیت ’’کیا یہی سب کچھ وہاں ہے؟ Is That All There Is?‘‘ سُنا ہے، بیشک اگر آپ نے اِسے نہیں بھی سُنا ہے، تو اِس کا عنوان ہی سب کچھ بتا دیتا ہے! ایک اچھا عنوان – ’’کیا یہی سب کچھ وہاں ہے؟

میں لاس ویگاس کو حقارت سے دیکھتا ہوں – ہمیشہ دیکھتا ہوں، اور ہمیشہ دیکھتا رہوں گا۔ میرا اندازہ ہے کہ اِس کا کچھ نہ کچھ تعلق اِس حقیقت سے ہے کہ میرے کچھ رشتے داروں نے وہاں پر جوئے میں بہت زیادہ پیسہ کھویا ہے۔ اِس نے اُن کی زندگیاں تباہ کردیں! میرے لیے ویگاس صرف ایک ایسی جگہ ہے جہاں مادہ پرست لوگ جوئے میں اپنی دولت لُٹانے اور شراب میں دُھت ہونے جاتے ہیں۔ پھر پیٹ کی بیماری، نڈھال آنکھوں، اور ٹوٹے ہوئے دِل کے ساتھ گھر واپس آتے ہیں – اور کہتے ہیں، ’’لڑکے، میں نے ویگاس میں شاندار وقت گزارا!‘‘ معاف کیجیے گا! یہ مجھے کچھ نامعقول سا لگتا ہے! وہاں پر کچھ بھی نہیں ہے! جگمگاتی روشنیاں، چیختی موسیقی، سکّے ڈال کر کھیلنے والی مشینیں – ’’کیا یہی سب کچھ وہاں ہے؟‘‘ اگر میں جس کی تلاش کر رہا تھا وہ جگمگاتی روشنیاں اور تیز موسیقی تھی، تو اِس کی بجائے مجھے سرکس چلے جانا چاہیے! کم از کم آپ کو سرکس سے خراب پیٹ اور خالی بٹوے کے ساتھ تو گھر واپس نہیں آنا پڑتا!

پھر یہاں پر امریکی گھرانوں کے الیکٹرانک عجوبے ہیں۔ ہر ایک کا ایک ’’تفریحی سنٹر‘‘ ضرور ہونا چاہیے۔ ہر ایک کے پاس سٹیریو موسیقی، تھری ڈی 3-D ٹیلی وژن، ایک بلیک بیری، یا کم از کم آئی پوڈ iPod ضرور ہونا چاہیے! جی ہاں، میں جانتا ہوں کہ آپ کے پاس واقعی میں ایک کمپیوٹر اور ایک موبائل فون ابھی ضرور ہونا چاہیے، لیکن ایک دِن میں کئی کئی گھنٹے آئی پوڈ iPod کو کلک کرتے رہنا، الیکٹرونکس کے غیرحقیقی دُنیا میں جیتے رہنا، صحت مندانہ نہیں ہوسکتا ہے! اِن مفید آلات کے ساتھ کیا ہو گا جو وہ ’’بہت بڑا‘‘ [زلزلہ] آئے گا اور یہاں پر ہفتوں کے لیے کوئی بجلی نہیں ہوگی؟ وہ نہیں جان پائیں گے کہ کیا کریں – کیونکہ اُنہوں نے کبھی بھی ریاضت کرنے کے بارے میں سیکھا ہی نہیں، اُنہوں نے کبھی بھی سوچنے کے بارے میں سیکھا ہی نہیں، اُنہوں نے کبھی بھی خوش ہونے کے لیے پڑھنا سیکھا ہی نہیں! وہ کیا کریں گے جب وہاں پر کوئی بجلی ہی نہیں ہوگی! کوئی کہتا ہے۔ ’’کیوں، یہاں پر ہمیشہ بجلی ہوگی،‘‘ غلط! جہنم میں کوئی بجلی نہیں ہوگی! جہنم میں کوئی کمپیوٹر نہیں ہونگے! جہنم میں کوئی فحش فلمیں نہیں ہونگی! جہنم میں کوئی دیوانی موسیقی یا ٹیکنو موسیقی نہیں ہوگی! ماسوائے کراہنے کے! ماسوائے رونے کے! ماسوائے چیخنے چلانے کے! ماسوائے دانتوں کے پیسینے کے! ماسوائے اِس کے کہ شیطان آپ پر ہنس رہا ہوگا! ہا! ہا! ہا! احمق! اب تم پکڑے گئے! احمق! اب تم پکڑے گئے! احمق! اب تم پکڑے گئے! ہا! ہا! ہا!‘‘ اور بائبل کہتی ہے،

’’ایسے لوگوں کے عذاب کا دھواں ابد تک اُٹھتا رہے گا: اور اُنہیں دِن رات چین نہ ملے گا‘‘ (مکاشفہ14:11)۔

دِن اور رات چین نہ ملے گا! ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عذاب! ھا! ھا! ھا! ھا! ھا! ھا! ھا! احمق! اب تم پکڑے گئے!

آپ نے مادی دُنیا پر اپنے ذہن کو مرکوز رکھا – اور اب آپ معائع شعلوں کی دُنیا میں عذاب میں مبتلا ہیں – ہمیشہ کے لیے!

’’دیکھی ہوئی چیزوں پر نہیں، بلکہ اندیکھی چیزوں پر نظر کرتے ہیں...‘‘ (2۔کرنتھیوں4:18)۔

II۔ دوئم، ’’اندیکھی چیزوں پر‘‘ نظر کرو۔

اگرہم صرف اُن پر نظر کریں جو دیکھا جا سکتا ہے تو ہم جلد ہی حوصلہ ہار جائیں گے۔ میں بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے تمام اُمید کھو دی کیونکہ اُنہوں نے اِس کو اِس دُنیا میں دیکھنے کی کوشش کی۔ لیکن اُمید اِس دُنیا میں وجود نہیں رکھتی ہے۔ پولوس رسول اُن لوگوں کے بارے میں بتاتا ہے جن کے پاس ’’کوئی اُمید نہیں‘‘ اور ’’دُنیا میں خُدا کے بغیر‘‘ ہیں (افسیوں2:12)۔ وہ ’’دوسرے جن کے پاس کوئی اُمید نہیں‘‘ کے بارے میں بتاتا ہے (1۔تسالونیکیوں4:13)۔ اِس مادی دُنیا میں کیسے اُمید ہو سکتی ہے؟ توانائی کے مختلف اقسام کی تبدیلی کا دوسرا قانون [تھرموڈائنیمکز] اِس کی ممانعت کرتا ہے۔ یہ کہتا ہے کہ دُنیا میں ہر قوت توانائی کھوتی ہے، دُھندلی ہوتی ہے، اور بالاآخر ختم ہو جاتی ہے۔ تمام پودے اور تمام جانور مر جاتے ہیں۔ تمام بنی نوع انسانوں کا خاتمہ مٹی ہوتا ہے۔ ایک شاعر نے کہا، ’’شان و شوکت کے راستے ماسوائے قبر کے اور کہیں رہنمائی نہیں کرتے۔‘‘ شاعر ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ T. S. Eliot (1888۔1965) نے کہا، ’’اپریل ظالم ترین مہینہ ہوتا ہے۔‘‘ اِس سے اُس کا کیا مطلب تھا؟ اپریل میں پھول کھلتے ہیں، گھاس سرسبز و شاداب ہو جاتی ہے، پرندوں کے بچے اپنے گھونسلوں میں نکلتے ہیں۔ چھوٹے جانور پیدا ہوتے ہیں۔ یہ پیاری باتیں اپریل میں ہوتی ہیں۔ لیکن ایلیٹEliot نے اِس کو ’’ظالم ترین مہینہ‘‘ کہا، کیونکہ وہ تمام خوبصورت پھول، اور پیاری چھوٹی مخلوقات مر جاتی ہیں۔ ہر پھول مرجھاتا اور مر جاتا ہے۔ ہر خرگوش کے بچے اور ہر پرندے کے بچے کا اختتام موت ہوتی ہے۔ توانائی کے مختلف اقسام کی تبدیلی کا دوسرا قانون [تھرموڈائنیمکز] اِس بات کو یقینی بناتا ہے کہ یہاں کوئی اُمید نہیں ہوتی ہے، اِس دُنیا میں – کسی قسم کی بھی کوئی اُمید نہیں ہوتی ہے۔

میں کبھی نہیں بھولوں گا جب پہلی مرتبہ میں نے اِس ناخوشگوار سچائی کا احساس کیا۔ میں صرف دو سال کی عمر کا تھا، ممکن ہے تقریباً تین کا، لیکن اِس سے بڑا نہیں تھا۔ یہ ایسٹر کا موقع تھا۔ میرے ابو نے مجھے ایک خوبصورت سی پیلے رنگ کی بطخ کا بچہ لا کر دیا۔ میری امّی مجھے بچوں کی ایک کتاب پڑھ کر سُنا رہی تھیں۔ یہ ’’می ٹو Me Too‘‘ نامی ایک بطخ کے بچے کے بارے میں تھی۔ لہٰذا میں نے اپنی چھوٹی بطخ کا نام ’’می ٹو‘‘ رکھ دیا۔ وہ اُس کو گھر میں لے آئے اور میں نے اُسے سامنے کے برآمدے میں کُھلا چھوڑ دیا۔ وہ چہچہاتے ہوئے میرے قدموں کے گرد دوڑنے لگا۔ میں اُس کے ساتھ اِس قدر خوش تھا کہ میں اُدھم کود کر ناچا۔ بطخ کا بچہ میرے قدموں تلے آ گیا۔ اُسکا سر کُچلا گیا۔ میں اُس کو صرف چند منٹ رکھ پایا تھا۔ میں تقریباً دس منٹوں کے لیے – اُس کے ساتھ بے انتہا خوشی میں تھا۔ اُن مختصر لمحات کے لیے، میں اُسے پانے پر خوشی سے اُچھلا تھا۔ پھر وہ مر گیا۔ میرا دِل ٹوٹ گیا۔ ستر سال گزرنے کے بعد بھی یہ میری آنکھوں میں آنسو لے آتا ہے جب میں اِس کے بارے میں سوچتا ہوں! کیا یہ عجیب ہے؟ جی نہیں – یہ حقیقت ہے – یہ ناگوار حقیقت کہ یہاں اُمید نہیں ہے – ہماری اِس گناہ میں گِری ہوئی دُنیا میں – بالکل بھی کوئی اُمید نہیں ہے۔

تقریباً اُسی دور میں میری ایک چھوٹی لڑکی دوست تھی۔ میں اُس کے ساتھ کھیلنا پسند کرتا تھا۔ مجھے یہاں تک کہ اُس کے بارے میں ایک خواب تک دیکھنا یاد ہے۔ میں ابھی تین سال کی عمر کا نہیں ہوا تھا، لیکن مجھے ابھی تک وہ یاد ہے۔ پھر وہ چلی گئی۔ میں نے اپنی ماں سے پوچھا کہ وہ کہاں پر تھی۔ اُنہوں نے کہا، ’’اوہ، وہ تو کل یہاں سے چلے گئے۔ میں تمہیں بتانا نہیں چاہتی تھی، کیونکہ اِس سے تم اُداس ہو گئے ہوتے۔‘‘ بالغوں کی کبھی کبھی کس قدر عجیب منطق ہوتی ہے! مجھے محض اُداس کرنے کی بجائے، اِس نے میرا دِل توڑ دیا۔ جب میں اُس چھوٹی لڑکی کے لے جائے جانے کے بارے میں سوچتا ہوں، یہاں تک کہ وہ ’’خُدا حافظ‘‘ بھی نہ کہہ سکی، تو یہ اب بھی، ستر سال بعد، مجھے تھوڑا بہت پریشان کرتا ہے۔

کیوں آپ کو اپنے بچپن میں سے یہ دُکھی کہانیاں بتائیں؟ کیونکہ اُنہوں نے مجھے اِس قدر صفائی کے ساتھ، اِس قدر واضح طور پر ظاہر کیا، کہ یہاں اُمید نہیں ہے، ہماری اِس گناہ میں گھری دُنیا میں کوئی بھی اُمید نہیں ہے۔

اور یوں، حتٰی کہ ایک چھوٹے بچے کی حیثیت سے، یہ میرے لیے سمجھنا شروع کرنا آسان تر ہوگیا، کہ یہ حقیقی دُنیا، مستحکم دُنیا، ’’چیزیں جو اندیکھی ہیں‘‘ صرف اُن پر مشتمل ہے۔ میں جان گیا، اُس عمر میں بھی، کہ وہ چیزیں جن کو میں نے پیار اور اِس دُنیا میں عزیز جانا اچانک مجھ سے جھپٹ لی جائیں گی۔ اور یوں ہی ہوا تھا۔ ہمارے اختیار سے پرے کے حالات کی وجہ سے، میری بارھویں جماعت میں گریجویشن سے پہلے، میں بیس سے زیادہ مختلف سکولوں میں پڑھنے کے لیے گیا۔ کوئی شاید کہتا، ’’وہ کتنا ھولناک تھا۔ اِس نے ضرور تمہیں نقصان پہنچایا ہے۔‘‘ لیکن اصل میں اِس نے مجھے نقصان پہنچانے سے زیادہ مدد کی۔ مجھے بار بار سیکھایا گیا کہ اِس گناہ میں گِری ہوئی دُنیا میں کچھ بھی مستقل نہیں ہے۔ مجھے اِس سبق کے ساتھ یہ خاص بات بار بار ذہن نشین ہو گئی،

’’ہم دیکھی ہوئی چیزوں پر نہیں، بلکہ اندیکھی چیزوں پر نظر کرتے ہیں: کیونکہ دیکھی ہوئی چیزیں چند روزہ ہیں؛ مگر اندیکھی ہمیشہ کے لیے ہیں‘‘(2۔کرنتھیوں4:18)۔

اور اِس طرح میں نے انتہائی ابتدا ہی میں سیکھ لیا کہ وہ چیزیں جو دیکھی جا سکتی ہیں صرف ’’عارضی‘‘ ہیں، صرف وقتی طور پر ہیں۔ ہر چیز جو ہم دیکھتے ہیں صرف وقتی طور پر ہے! صرف وقتی طور پر ہے! صرف وقتی طور پر ہے! ’’مگر اندیکھی ہمیشہ کے لیے ہیں۔‘‘ دوسرے بچے شاید سوچیں میں پچھلے صحن میں خُدا کے ساتھ باتیں کرنے اور فرشتوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے ایک دیوانہ تھا۔ اپنی دادی کے پچھلے صحن میں نارنجی پھولوں کی ایک بہت بڑی نسٹرٹیئم [جھاڑی نما پودے کا نام] جھاڑی کے نیچے چھپ کر، میں نے اُنہیں کبھی بھی نہیں بتایا کہ میں ایک دوسری دُنیا کے ساتھ رابطے میں تھا جو اُن کے سمجھنے کے لیے انتہائی غیر حقیقی تھی۔ یہ کسی بھی طرح سے ایک فوق الفطرت تجربہ نہیں تھا۔ یہ کامل طور پر مناسب تھا، جیسا کہ میں نے بعد میں، بائبل کی دُنیا کے ساتھ سیکھا، جو اِس قدر خوبصورتی کے ساتھ ڈاکٹر ڈبلیو۔ اے۔ ٹوزر Dr. W. A. Tozer نے اپنے مضمون ’’بائبل کی دُنیا حقیقی دُنیا ہےThe Bible World is the Real World‘‘ میں بیان کیا۔

یہ صرف بعد میں مجھے پتا چلا کہ میرے گناہ نے ایک چھوٹے لڑکے کی حیثیت سے اُس خُدا سے مجھے جُدا رکھا جس کا میں نے سامنا کیا تھا۔ اور میں نے اُس خُدا کو دوبارہ جاننے کی چاہت کی، جیسی کہ مجھے ماضی میں، اپنی دادی کے پچھلے صحن میں نسٹرٹیئم کی جھاڑی کے نیچے ہوا کرتی تھی۔

جیسے جیسے میں عمر میں بڑھتا گیا میں نے نیکی کرنے سے دوبارہ خُدا کو ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ لیکن اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں کتنا اچھا بننے کی کوشش کرتا، خُدا اب دور تھا۔ میں نے اُسے خوش کرنے کے لیے نیک کام کرنے سے خُدا کو دوبارہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔ لیکن میں چاہے کچھ بھی کرتا، میں اُس کو دوبارہ تلاش نہیں کر سکا۔ صرف جب ساری انسانی کوشش رائیگاں گئیں، اور میرے پاس کوئی اُمید نہیں تھی، تو یسوع جلال کی ایک چمک میں میرے پاس آیا۔ صرف جب میں نے خود اپنے آپ سے مُنہ موڑا اور اُس کی طرف رُخ کیا، تو یسوع میرے لیے آیا، اور اپنے قیمتی خون کے ساتھ مجھے میرے گناہ سے پاک صاف کیا! تب، اور صرف تب، میں نے مسیح کی حقیقت کو تجربے کے وسیلے سے جانا۔ صرف تب ہی رسول کے لفظوں نے مکمل معنی اختیار کیے،

’’ہم دیکھی ہوئی چیزوں پر نہیں، بلکہ اندیکھی چیزوں پر نظر کرتے ہیں: کیونکہ دیکھی ہوئی چیزیں چند روزہ ہیں؛ مگر اندیکھی ہمیشہ کے لیے ہیں‘‘ (2۔کرنتھیوں4:18)۔

کیا آپ اُمید پانا چاہتے ہیں جو وہ کبھی بھی نہیں جان سکتے جو صرف مادی دُنیا میں زندگی گزارتے ہیں؟ کیا آپ ذاتی طور پر یسوع کو جاننا چاہتے ہیں – آمنے سامنے؟ تو پھر تنہائی میں آئیں اور اپنے تمام دِل کے ساتھ یسوع کو تلاش کریں۔ وہ آپ کے گناہ کی ادائیگی کے لیے صلیب پر مرا۔ وہ آپ کو زندگی دینے کے لیے مُردوں میں سے جی اُٹھا۔ مہربانی سے کھڑے ہو جائیں اور گیتوں کے ورق میں سے حمد و ثنا کا گیت نمبر7 گائیں۔

اگر آپ اپنے گناہ سے آزاد ہونا چاہ رہے ہیں، خُدا کے برّے کی طرف دیکھیں؛
وہ، آپ کے گناہ بخشنے کے لیے، کلوری پر مرا، خُدا کے برّے کی طرف دیکھیں۔
خُدا کے برّے کی طرف دیکھیں، خُدا کے برّے کی طرف دیکھیں،
کیونکہ وہی تنہا آپ کو بچانے کے قابل ہے، خُدا کے برّے کی طرف دیکھیں۔

جب شیطان آزماتا ہے، اور شکوک اور خوف دھاوا بولتے ہیں، برّے کی طرف دیکھیں؛
آپ اُس کی قوت میں فتح حاصل کر لیں گے، خُدا کے برّے کی طرف دیکھیں۔
خُدا کے برّے کی طرف دیکھیں، خُدا کے برّے کی طرف دیکھیں،
کیونکہ وہی تنہا آپ کو بچانے کے قابل ہے، خُدا کے برّے کی طرف دیکھیں۔

کیا آپ ایک خستہ حال ہیں؟ کیا راہ طویل نظر آتی ہے؟ خُدا کے برّے کی طرف دیکھیں؛
اُس کی محبت شادمانی دے گی اور آپ کے دِل کو گیت کے ساتھ بھر دے گی؛ خُدا کے برّے کی طرف دیکھیں۔
خُدا کے برّے کی طرف دیکھیں، خُدا کے برّے کی طرف دیکھیں،
کیونکہ وہی تنہا آپ کو بچانے کے قابل ہے، خُدا کے برّے کی طرف دیکھیں۔

خوف نہ کھائیںجب سائے آپ کی پگ ڈنڈی پر پڑیں، خُدا کے برّے کی طرف دیکھیں؛
خوشی یا دُکھ میں مسیح ہی سب کچھ ہے، خُدا کے برّے کی طرف دیکھیں۔
خُدا کے برّے کی طرف دیکھیں، خُدا کے برّے کی طرف دیکھیں،
کیونکہ وہی تنہا آپ کو بچانے کے قابل ہے، خُدا کے برّے کی طرف دیکھیں۔
(’’خُدا کے برّے کی طرف دیکھیں Look to the Lamb of God‘‘ شاعر ایچ۔ جی۔ جیکسن H. G. Jackson، 1838۔1914)۔

ایک حقیقی تبدیلی میں مسیح کو تلاش کرنے کے بارے میں ہم آپ کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے حاضر ہیں۔ اگر آپ ہمارے ساتھ ایک حقیقی مسیحی بننے کے بارے میں بات چیت کرنا چاہیں، تو مہربانی سے اپنی نشست چھوڑیں اور اجتماع گاہ کی پچھلی جانب ابھی چلے جائیں۔ ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan آپ کو دعا کے لیے ایک پُرسکون کمرے میں لے جائیں گے۔ ابھی جائیں۔ ڈاکٹر چعین، مہربانی سے دعا کریں کہ کوئی یسوع کے لیے دیکھے گا اور آج کی صبح نجات پائے گا۔ آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھومی  Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: 2۔کرنتھیوں4:8۔18 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’خُدا کے برّے کی طرف دیکھیں Look to the Lamb of God‘‘
(شاعر ایچ۔ جی۔ جیکسن H. G. Jackson، 1838۔1914)۔

لُبِ لُباب

اَن دیکھی دُنیا میں یسوع کو تلاش کرنا!

!LOOKING TO JESUS IN THE UNSEEN WORLD

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’ہم دیکھی ہوئی چیزوں پر نہیں، بلکہ اندیکھی چیزوں پر نظر کرتے ہیں: کیونکہ دیکھی ہوئی چیزیں چند روزہ ہیں؛ مگر اندیکھی ہمیشہ کے لیے ہیں‘‘ (2۔کرنتھیوں4:18)۔

(2۔کرنتھیوں4:17۔18)

I.   اوّل، ’’اُن چیزوں پر نظر مت ڈالو جو دیکھی جا سکتی ہیں،‘‘ مکاشفہ14:11 .

II.  دوئم، ’’اندیکھی چیزوں پر‘‘ نظر کرو، افسیوں2:12؛ 1۔ تسالونیکیوں4:13 .