Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

اٹلی میں اینٹی نومیئین اِزم

ANTINOMIANISM IN ITALY
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
8 ستمبر، 2013، خُداوند کے دِن کی شام
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, September 8, 2013

’’اِس لیے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے۔ پُرانی چیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو! وہ نئی ہو گئیں‘‘ (2۔ کرنتھیوں 5:‏17).

’’بعض بے دین لوگ چوری چھِپے تُم میں آگھُسے ہیں جو ہمارے خدا کے فضل کو اپنی شہوت پرستی کا بہانہ بنائے ہُوئے ہیں اور ہمارے واحد مالک اور خداوند یعنی یسُوع مسیح کا اِنکار کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی سزا کا حکم بہت پہلے ہی سے پاک کلام میں درج کر دیا گیا ہے‘‘ (یہوداہ 4).

اگلے ہی دِن مجھے اُس پیاری خاتون کی جانب سے جو میرے واعظوں کا اٹیلیئن [اٹلی کی زبان] میں ترجمہ کرتی ہیں ایک ای میل موصول ہوا۔ اُنہوں نے مجھے بتایا کہ اُنہوں نے میرے واعظوں میں سے ایک واعظ اٹلی میں کچھ ’’ایمان رکھنے والوں‘‘ کو سُنایا۔ لیکن میں نے پایا کہ کلام کی بائبل کے حوالے سے سمجھ بوجھ میں دراصل وہ ’’ایمان رکھنے والے‘‘ نہیں تھے! یہ اصطلاح ’’ایمان رکھنے والے‘‘ میری سوچ کے مطابق، ضرورت سے زیادہ استعمال ہوئی اور کبھی کبھار تذبذب میں ڈال دینے والی ہے۔ یہ سچ ہے کہ نئے عہد نامے میں ’’ایمان رکھنے والوں‘‘ کے بارے میں دو مرتبہ تزکرہ کیا گیا ہے (اعمال5:‏14؛ 1۔تیموتاؤس4:‏12)، لیکن آج اِس لفظ کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اکثر اُن کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جن کا ایک حقیقی تبدیلی میں مسیح کے ساتھ ملاپ کے بغیر، بائبل میں ’’فرضی‘‘ اعتقاد ہوتا ہے۔ اِن لوگوں کے بارے میں یوں بیان کیا گیا ہے ’’وہ دین داروں کی سی وضع تو رکھیں گے لیکن زندگی میں دینداری کا کوئی اثر قبول نہیں کریں گے‘‘ (2۔تیموتاؤس3:‏5)۔ وہ ’’ہمیشہ سیکھنے کے لیے تیار ہوتے‘‘ ہیں، اور کبھی بھی سچائی یا حقیقت کی آگہی تک پہنچنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں (2۔تیموتاؤس3:‏7)۔ اور ’’یہ لوگ حق کی مخالفت کرتے ہیں: اُن کی عقل بگڑی ہوئی ہے، اور یہ ایمان کے اعتبار سے نامقبول ہیں‘‘ (2۔تیموتاؤس3:‏8)۔ یہ آیات اُن ’’ایمان رکھنے والوں‘‘ کو بیان کرتی ہیں جو اِس بات سے انکار کرتے ہیں کہ مسیح میں تبدیلی ایک تبدیل ہونے والے کی زندگی کا رُخ موڑدیتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگ لگاتار گناہ میں بھی رہ سکتے ہیں اور مسیحی بھی ہو سکتے ہیں، کیونکہ وہ بائبل کی کچھ آیات پر یقین کرتے ہیں۔ اُن کے لیے، بائبل کی کچھ آیات پر اعتقاد رکھنا اُنہیں خود خداوند یسوع مسیح کے ساتھ میلاپ کیے بغیر ہی نجات دلا دیتا ہے۔ پہلی تلاوت کہتی ہے، ’’اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے‘‘ (2۔کرنتھیوں5:‏17)۔ لیکن یہ اُس کو توڑ مروڑ کر یوں مطلب نکالتے ہیں، ’’اگر کوئی آدمی بائبل کی کچھ آیات پر اعتقاد رکھتا ہے تو وہ نجات پایا ہوا ہوتا ہے۔‘‘ یہ ’’سینڈی مینئین اِزمSandemanianism ‘‘ کے نام سے جانی جانے والی بہت بڑی بدعت ہے۔

اِس کے علاوہ یہ ’’دین دار یا ایماندار‘‘ کہلانے والے سوچتے ہیں کہ ایک مسیحی کے لیے گناہ میں زندگی گزارتے رہنا ایک عام سی بات ہے۔ یوں وہ ’’ہمارے خدا کے فضل کو اپنی شہوت پرستی کا بہانہ بنائے ہُوئے ہیں اور ہمارے واحد مالک اور خداوند یعنی یسُوع مسیح کا اِنکار کرتے ہیں‘‘ (یہودہ4)۔ یہ دوسری اینٹی نومیئین اِزم antinomianism کہلانے والی علم الہٰیات کی ایک غلطی ہے۔ حال ہی میں مصرف بیٹے پر ایک واعظ میں مَیں نے کہا،

چند سال پیشتر یہاں لاس اینجلز میں ایک عورت نے جو عصمت فروشی کے ایک گروہ کی سرغنہ تھی کہا کہ وہ ’’نئے سرے سے جنم لی ہوئی مسیحی‘‘ تھی۔ ایک بشارتی انجیل کے رہنما نے مجھے کہا، ’’اِس کا فیصلہ مت کرو۔‘‘ کیسی دیوانگی! مبشرانِ انجیلی بشارت کا یہ پریشان کُن کلنک کا دھبہ ’’اینٹی نومیئین ازم antinomianism‘‘ کہلاتا ہے اور یہ اِس اعتقاد سے جنم لیتا ہے کہ کوئی سؤوروں کے گناہ کے باڑے میں زندگی گزار سکتا ہے اور اِسی اثنا میں خُدا کا ایک بچہ بھی ہو سکتا ہے(آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر، ٹی ایچ۔ ڈی۔ R. L. Hymers, Jr. Th. D.، ’’مصرف بیٹے کی غلط تعبیر کرنا Misinterpreting the Prodigal Son،‘‘ ‏25 اگست، 2013)۔

یوں، اینٹی نومیئین اِزم ’’خُداوند کے فضل کو شہوت پرستی میں‘‘ بدل دیتی ہے (یعنی کہ فحاشی، ناشائستگی، بےشرم برتاؤ‘‘ – ڈبلیو۔ ای۔ وائن W. E. Vine)۔ یونانی لفظ جس نے ’’شہوت پرستی lasciviousness‘‘ کا ترجمہ کیا، دوسرے ’’انسانی فطرت کے کاموں‘‘ کے ساتھ، غلاطیوں5:‏19 میں بھی نظر آتا ہے – اور ہمیں تب بتایا جاتا ہے، ’’ایسے کام کرنے والے خُدا کی بادشاہی میں شریک نہ ہوں گے‘‘ (غلاطیوں5:‏21)۔ پورا حوالہ کہتا ہے،

’’اب اِنسانی فطرت کے کام صاف ظاہر ہیں یعنی حرامکاری، ناپاکی اور شہوت پرستی، بُت پرستی، جادُوگری، دُشمنی، جھگڑا، حسدَ، غصّہ، خُود غرضی، تکرار، فرقہ پرستی، بُغض، نشہ بازی، ناچ رنگ اور اِن کی مانند دیگر کام۔ اِن کی بابت میں نے پہلے بھی تُم سے کہا تھا اور اب پھر کہتا ہُوں کہ ایسے کام کرنے والے خدا کی بادشاہی میں کبھی شریک نہ ہوں گے‘‘ (گلتیوں 5:‏19).

میں نہیں جانتا واضح کیا ہے! ’’ایسے کام کرنے والے خُدا کی بادشاہی میں کبھی شریک نہ ہوں گے۔‘‘ اِس کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ وہ بادشاہت میں شریک ہوں گے! کیسا پاگل پن! افسیوں4:‏17۔19 میں، یونانی لفظ جس نے ’’شہوت پرستی‘‘ کا ترجمہ کیا غیرنجات یافتہ کو بیان کرنے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ اِس سے زیادہ واضح کیا ہوگا؟ اور اِس کے باوجود جدید انجیلی بشارت کے اینٹی نومیئین لوگ ’’خُدا کے فضل کو شہوت پرستی میں بدلنے کے لیے‘‘ جاری ہیں (یہودہ4)۔ یہ بدعت اٹلی تک ہی محدود نہیں ہے۔ بالکل بھی نہیں! یہ یہاں امریکہ میں اِس قدر بکثرت ہیں کہ تقریباً ہر کھویا ہوا شخص جس سے آپ ملتے ہیں سوچتا ہے کہ وہ نجات یافتہ ہیں، حالانکہ وہ حسب معمول گناہ میں زندگی گزارتے ہیں۔ دراصل اینٹی نومینئین اِزم امریکہ میں مسیحیت کو تباہ کر رہی ہے!

یہودہ کہتا ہے وہ ’’ہمارے خُداوند کے فضل کو شہوت پرستی کا بہانہ بنائے ہوئے ہیں، اور ہمارے واحد مالک اور خُداوند، یعنی یسوع مسیح کا انکار کرتے ہیں۔‘‘ وہ باپ کی آقائیت سے انکار کرتے ہیں، اور وہ مسیح کی آقائیت سے انکار کرتے ہیں۔ وہ اکثر ایسا مسیح بحیثیت نجات دہندہ کو مسیح بحیثیت خُداوند سے علٰیحدہ کرنے کے ذریعے سے کرتے ہیں۔ ہماری اٹلی کی مترجم نے کہا، ’’اٹلی میں بہت سے انجیلی بشارت کے لوگ کہتے ہیں کہ یسوع نجات دہندہ ہو سکتا ہے، لیکن ضروری نہیں ہے کہ ہمارا خداوند ہو۔‘‘ ڈاکٹر اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر Dr. A. W. Tozer نے اِس جھوٹے عقیدے کے خلاف ایک شدید بیان دیا تھا۔ اُنہوں نے کامیابی سے کہا،

      ایک قابل ذکر بدعت ہماری انجیلی بشارت کے مسیحی حلقوں میں وجود میں آ چکی ہے – بڑے پیمانے پر قبول کیے جانے والا تصّور کہ ہم انسان مسیح کو قبول کرنے کے لیے انتخاب کر سکتے ہیں صرف اِس لیے کیونکہ ہمیں اُس کی بحیثیت نجات دہندہ کے ضرورت ہوتی ہے اور ہمارے پاس جتنی دیر تک ہم چاہیں اُس کی تابعداری کو بحیثیت خُداوند کے ملتوی کرنے کے لیے حق ہے!...
      کیسا ایک المیہ ہے کہ ہمارے زمانے میں اِس قسم کی بنیادوں پر ہم اکثر انجیل کی التجا کی جانی سُنتے ہیں: یسوع کے پاس آئیں! آپ کو کسی کی بھی فرمانبرداری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو کچھ بھی بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو کچھ بھی چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے – محض اُس کے پاس آئیں اور اُس پر بطور نجات دہندہ یقین کریں!‘‘
      لہٰذا وہ آتے ہیں اور نجات دہندہ میں یقین کرتے ہیں۔ بعد میں، ایک اجلاس میں یا کانفرنس میں، وہ ایک اور التجا سُنیں گے: ’’اب جبکہ آپ نے اُس کو نجات دہندہ کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے، تو آپ کس طرح سے اُس کو ایک خُداوند کی حیثیت سے قبول کرنا چاہیں گے؟‘‘
      یہ حقیقت کہ ہم یہ ہر جگہ سُنتے ہیں اِس کو درست نہیں کرتا ہے۔ عورتوں اور مردوں کو ایک منقسم مسیح میں یقین کرنے کے لیے مجبور کرنا بُری تعلیم ہے کیونکہ کوئی بھی آدھے مسیح کو قبول نہیں کر سکتا... جب ایک انسان یسوع مسیح پر یقین کرتا ہے تو اُس کو مکمل خداوند یسوع مسیح پر یقین کرنا چاہیے – کوئی بھی شک و شُبہ نہیں کرنا چاہیے! میں مطمئن ہوں کہ یسوع پر بطور ایک قسم کے الہٰی تیماردار کی حیثیت سے نظر ڈالنی غلط ہے جس کے پاس ہم جب گناہ نے ہمیں بیمار کر دیا ہوتا ہے جا سکتے ہیں، اور اُس کے ہماری مدد کر دینے کے بعد، ’’خُدا حافظ‘‘ کہہ سکتے ہیں – اور اپنی راہ ہو لیں ...
      ہم اُس کے پاس اُس ایک کی طرح نہیں جاتے جو، اپنے گھر کا سازو سامان خریدنے کے لیے اعلان کرتا ہے: ’’میں یہ میز لوں گا لیکن میں وہ کُرسی نہیں چاہتا ہوں‘‘ – اس کو تقسیم کرتا ہے! جی نہیں، جناب! یہ یا تو مسیح کا سب کچھ ہوتا ہے یا مسیح کا کچھ بھی نہیں ہوتا!
میں یقین کرتا ہوں ہمیں دُنیا کے لیے دوبارہ مکمل مسیح کی منادی کرنے کی ضرورت ہے – مسیح جسے ہماری معذرتوں کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، مسیح جو تقسیم نہیں کیا جائے گا، مسیح جو یا تو سب کا خداوند ہوگا ورنہ جو بالکل بھی خداوند نہیں ہو گا!
      میں آپ کو خبردار کرتا ہوں – آپ اُس سے اِس طرح سے مدد نہیں پا سکیں گے کیونکہ خُداوند اُنہیں نجات نہیں دے گا جن پر وہ حکم نہیں چلا سکتا! وہ اپنے اختیارات کو تقسیم نہیں کرتا ہے۔ آپ ایک آدھے مسیح پر یقین نہیں کر سکتے ہیں۔ وہ چاہے جیسا بھی ہے ہم اُسے قبول کرتے ہیں – مسح کیا ہوا نجات دہندہ اور خُداوند جو بادشاہوں کا بادشاہ اور خُداؤں کا خُدا ہے! وہ نہیں ہوگا اگر وہ یہ جانے بغیر کہ اگر اُس نے ہمیں نجات دی ہے اور ہمیں بُلایا ہے اور ہمیں چُنا ہے تو وہ ہماری زندگیوں کی رہنمائی بھی کر سکتا ہے اور اختیار بھی رکھ سکتا ہے ...
      کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم واقعی میں سوچتے ہیں کہ ہم پر یسوع مسیح کی فرمانبرداری واجب الادا نہیں ہے؟ ہم اپنی فرمانبرداری اُسی لمحے سے واجب الادا کر چکے ہیں جب ہم نے نجات کے لیے اُس کو پکارا تھا، اور اگر [آپ] اُس کو وہ تابعداری نہیں دیتے ہیں، تو میرے پاس حیران ہونے کے لیے وجہ ہے کہ آیا [آپ] واقعی میں تبدیل ہوئے ہیں!
      مسیحی لوگ جو کچھ کر رہے ہیں وہ کام میں دیکھتا اور وہ باتیں میں سُنتا ہوں اور جب میں اُنہیں دیکھتا ہوں... تو میں اِس بارے میں سوال ضرور اُٹھاتا ہوں کہ آیا وہ سچے طور پر تبدیل ہو چکے ہیں...
      میں یقین کرتا ہوں کہ شروع کرنے کے لیے یہ ناقص تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ وہ خُداوند کے بارے میں ایک ہسپتال کی طرح اور یسوع کے بارے میں سٹاف کے سربراہ کی طرح سوچتے ہیں جو مصیبت میں پھنسے بیچارے گنہگاروں کا بندوبست کرنے کے لیے ہوتا ہے! ’’میرا بندوبست کریں، اے خداوند،‘‘ وہ اصرار کرتے ہیں، ’’تاکہ میں اپنے راستے جا سکوں!‘‘
      یہ بُری تعلیمات ہیں... یہ خود فریبی کے ساتھ بھری ہوتی ہیں۔ آئیے ہمارے خداوند یسوع کی جانب ہم دیکھتے ہیں، جو اعلٰی مرتبہ، پاک ترین، تاج پہنے ہوئے، خُداؤں کا خُدا اور سب کا شہنشاہ ہے، جس کے پاس اُس کے تمام نجات یافتہ لوگوں پر مکمل تابعداری کرنے کا حکم دینے کے لیے کامل حق ہے!...
      خُدا خواہش رکھتا ہے کہ ہم اُس کے ساتھ تمام دوسری باتوں سے بڑھ کر ایماندار ہوں۔ کلام پاک میں تلاش کریں، نئے عہد نامے کو پڑھیں، اور اگر آپ پائیں کہ میں نے سچائی کی خُدائی ہدایت پیش کی ہے، تب میں آپ کو زور دیتا ہوں کہ اِس کے بارے میں کچھ کریں۔ اگر آپ کو ایک تقسیم شُدہ نجات دہندہ میں ناقص طور پر یقین دلایا گیا ہے، تو خوش ہوں کہ آپ کے پاس اِس کے بارے میں کچھ کرنے کے لیے ابھی بھی وقت ہے! (اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر، ڈی۔ ڈی۔ A. W. Tozer, D.D.، میں اِس کو بدعت کہتا ہوں! I Call It Heresy!، مسیحی اشاعتی خانے Christian Publications، ایڈیشن1974، صفحات9۔21)۔

لیکن میں نے پایا ہے کہ ایک انیٹی نومیئین کے لیے اپنی لاقانونیت کے لیے توبہ کرنا اور سچے طور پر تبدیل ہونا انتہائی شاذونادر ہوتا ہے۔ میں 55 سالوں سے زیادہ عرصے تک منادی کر چکا ہوں، اور میں ذاتی طور پر کبھی بھی کسی ایک مخلص انیٹی نومیئین سے نہیں ملا جس نے اپنی بدعت سے توبہ کی ہو اور پھر حقیقی تبدیلی کا تجربہ کیا ہو۔ میں یقین کرتا ہوں کہ یہ سچ ہے کیونکہ مخلص اینٹی نومیئین شیطان کے قابو میں ہوتے ہیں۔ میں اِس کو 1۔یوحنا3:‏8 کی بنیاد پر کہتا ہوں، جو کہ میں یہاں انگریزی معیاری نسخے English Standard Version سے پیش کر رہا ہوں، ’’جو گناہ کرتا رہتا ہے وہ ابلیس کا ہے... ‘‘ یوں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اینٹی نومیئینز جو گناہ کرتے رہتے ہیں ’’ابلیس کی پیروی کرتے ہیں‘‘ – یعنی کہ، وہ شیطان کے قابو میں ہوتے ہیں۔ شیطان ’’ہوا کی عملداری کا حاکم ہے، جس کی روح اب تک نافرمان لوگوں میں تاثیر کرتی ہے‘‘ (افسیوں2:‏2)۔ میں یہاں پر اصلاحی مطالعۂ بائبل Reformation Study Bible میں سے ’’اینٹی نومیئین اِزم‘‘ پر ایک غور طلب بات کو حوالہ دیتا ہوں۔ اِس میں لکھا ہے،

اینٹی نومیئین اِزم کا مطلب ’’شریعت کے لیے مخالفت کرنا‘‘ ہوتا ہے۔ اینٹی نومیئین کے نظریات وہ ہیں جو انکاری کرتے ہیں کہ کلام پاک میں خُدا کی شریعت کو براہ راست مسیحی کی زندگی پر قابو کرنا چاہیے... وہ غلط نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اُن کے روئیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، اگر وہ یقین رکھنا جاری رکھتے ہیں۔ لیکن 1۔یوحنا1:‏8 اور 2:‏1 اور 3:‏4۔10 ایک مختلف سمت میں اشارہ کرتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ مسیح کے بھی ہوں اور اِسی اثنا میں گناہ کو طرز زندگی کے طور پر گلے سے بھی لگائے رکھیں (صفحہ1831)۔

اِس کے علاوہ، اُن اٹلی میں موجود اینٹی نومیئینز نے 1۔کرنتھیوں5:‏1 کے لیے التماس کیا،

’’میں نے اُس حرامکاری کا ذکر سُنا ہے جو تمہارے درمیان ہو رہی ہے۔ ایسی حرامکاری جو بُت پرستوں میں بھی نہیں ہوتی۔ مثلاً یہ کہ تمہاری کلیسیا میں ایک آدمی ایسا بھی ہے جو اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ گناہ کی زندگی گزار رہا ہے‘‘ (1۔ کرنتھیوں 5:‏1).

اُن اٹلی کے اینٹی نومیئینز نے کہا کہ ’’یہ ایمان رکھنے والوں کے درمیان زِنائے محرُم کی ایک مثال ہے۔‘‘ اِس لیے، اُنہوں نے کہا، یہ ثابت کرتا ہے ’’کہ ایک ایمان رکھنے والا جسمانی خواہشات والا بھی ہو سکتا ہے۔‘‘ میں اِس قسم کی بیہودگی یہاں امریکہ میں بھی سُن چکا ہوں۔ لیکن 1۔کرنتھیوں5:‏2۔13 ظاہر کرتی ہے کہ پولوس نے کرنتھیوں کی کلیسیا کو ’’اُس حرامکار کو اپنے درمیان سے نکال دینے‘‘ کے لیے کہا (1۔کرنتھیوں5:‏13)۔ یہ واضح ہے کہ پولوس رسول نے اُنہیں ’’حرامکار‘‘ کو اِسی طرح کلیسیا سے نکالنے کے لیے کہا، اور یہاں تک کہ اُس جیسے شخص کے ساتھ کھانے پینے سے بھی منع کیا (1۔کرنتھیوں5:‏11)۔ اِس پر تبصرہ 1۔کرنتھیوں6:‏9۔11 میں، ایک باب کے بعد پیش کیا گیا ہے،

’’کیا تُم نہیں جانتے کہ بدکار خدا کی بادشاہی کے وارث نہ ہوں گے؟ دھوکے میں نہ رہو: نہ حرامکار خدا کی بادشاہی کے وارث ہوں گے، نہ بُت پرستِ نہ ذِنا کار، نہ زن نما مرد، نہ لونڈے باز نہ چور، نہ لالچی، نہ شرابی، نہ منفی باتیں پھیلانے والے، نہ وہ مجرم جو پیسے اینٹھنے کے لیے بدنامی کی دھمکی دیتے ہیں۔ تُم میں بعض ایسے ہی تھے: مگر تُم خداوند یسُوع مسیح کے نام اور خدا کے پاک رُوح سے دھُل گئے، پاک ہوگئے اور راستباز ٹھہرائے گئے‘‘ (1۔ کرنتھیوں 6:‏9۔11).

رسول نے یہاں اُن اینٹی نومیئینز جیسوں کی ایک فہرست پیش کی ہے جو ’’خُدا کی بادشاہی کے وارث نہ ہوں گے‘‘ (6:‏9)۔ یہ اِس بات کو کافی واضح کر دیتا ہے کہ وہ شخص جس سے زنائے محرُم جیسی ’’حرامکاری‘‘ سرزد ہوتی ہے ’’خُدا کی بادشاہی کا وارث نہیں‘‘ ہوگا۔ 1۔کرنتھیوں6:‏9 میں بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ ’’حرامکار‘‘ خُدا کی بادشاہی میں نہیں ہوں گے۔ مکاشفہ21:‏8 ہمیں بتاتی ہے کہ اِن جیسے غیراخلاقی جنسی لوگوں کو آگ کی جھیل میں جھونک دیا جائے گا۔ وہ تمام ابدیت کے لیے جہنمی آگ میں ہوں گے۔

جیسا کہ میں نے کہا، اینٹی نومیئین اِزم صرف اٹلی تک ہی محدود نہیں ہے۔ بالکل بھی نہیں! یہ شیطانی تعلیم ساری مغربی دُنیا اور خصوصی طور پر امریکہ میں پھیل رہی ہے۔ اینٹی نومیئین اِزم ہماری دوسری تلاوت میں کامل طور پر بیان کی گئی ہے،

’’بعض بے دین لوگ چوری چھِپے تُم میں آگھُسے ہیں جو ہمارے خدا کے فضل کو اپنی شہوت پرستی کا بہانہ بنائے ہُوئے ہیں اور ہمارے واحد مالک اور خداوند یعنی یسُوع مسیح کا اِنکار کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی سزا کا حکم بہت پہلے ہی سے پاک کلام میں درج کر دیا گیا ہے‘‘ (یہوداہ 4).

اینٹی نومیئینز کہتے ہیں کہ چونکہ ہم فضل کے وسیلے سے بچائے جاتے ہیں تو ہم گناہ میں زندگی بسر کرنا جاری رکھ سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ کو کچھ بھی چھوڑنا نہیں پڑتا ہے۔ اُنہیں دسواں حصہ یعنی دھ یکی یا بشروں کو جیتنا نہیں پڑتا ہے۔ اُنہیں تو یہاں تک کہ گرجہ گھر کی عبادتوں میں بھی حاضر نہیں ہونا پڑتا! اور وہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے وہ جو اِس قسم کے معاملات میں فرمانبرداری پر زور دیتے ہیں ’’قانونی لوگ‘‘ ہیں۔ یہ اینٹی نومیئینز کے پسندیدہ لفظوں میں سے ایک ہے۔ وہ فرمانبردار مسیحیوں کو ’’قانونی لوگ‘‘ یا ’’فریسی‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن یہ اُن اصطلاحات کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ قانونی لوگوں اور فریسیوں نے سیکھایا کہ لوگ اچھے اعمال کے وسیلے سے بچائے جاتے ہیں۔ اِس کے باوجود ہم تعلیم دیتے ہیں کہ ہم تنہا فضل کے وسیلے سے بچائے جاتے ہیں، اور پھر اچھے اعمال اُس شخص کی زندگی میں سے نکل جاتے ہیں جو حقیقی طور پر بچایا جاتا ہے۔ قانونی اور فریسی لوگ تعلیم دیتے ہیں کہ اچھے اعمال آپ کو بچاتے ہیں۔ سچے مسیحی تعلیم دیتے ہیں کہ تنہا فضل آپ کو بچاتا ہے، اور حقیقی نجات تب ہر حقیقی تبدیل شُدہ کی زندگی میں اچھے اعمال کا سبب بنتی ہے۔ قانونی لوگ تعلیم دیتے ہیں کہ اچھے اعمال نجات کا سبب بنتے ہیں۔ ہم تعلیم دیتے ہیں کہ فضل نجات کا سبب ہوتا ہے، جس کا نتیجہ اچھے اعمال ہوتے ہیں۔ قانونی لوگ کہتے ہیں کہ اچھے اعمال نجات کا سبب ہوتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ نجات اچھے اعمال کو جنم دیتی ہے – جو کہ قانون پرستی کا بالکل متضاد ہوتا ہے! لیکن اینٹی نومیئینز بالکل بھی اچھے اعمال پر اصرار نہیں کرتے ہیں۔ وہ تو یہاں تک نہیں سوچتے کہ مسیحیوں کو گرجہ گھر میں شمولیت اور بلا ناغہ ہر اتوار کو عبادت میں حاضر ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ تو یہاں تک نہیں سوچتے کہ آپ کو ہر ہفتے کو دعائیہ اجلاس میں حاضر ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ یہ تک نہیں سوچتے کہ آپ کو اپنی آمدنی میں سے دھ یکی دینے کی ضرورت ہوتی ہے، یا ہر ہفتے لوگوں کو مسیحیت کے لیے بُلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ نہیں سوچتے کہ آپ کو باحیا لباس پہننے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اکثر گرجہ گھر میں ساحل پر پھرنے والے لوفروں کی مانند حاضر ہوتے ہیں کیونکہ وہ شدت کے ساتھ مناسب لباس پہننے کی بغاوت کرتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے میری بیوی نے ایک اینٹی نومیئین مبلغ کی نوعمر بیٹی کو ایک بزرگ پادری کی میت میں نہایت چھوٹی سی سکرٹ پہنے ہوئے دیکھا! جب ایک اینٹی نومیئین مبشر انجیل ہماری گرجہ گھر میں حاضر ہوتا ہے تو ہم اُس کو پہننے کے لیے ٹائی دیتے ہیں۔ کوئی ایک بھی اعتراض نہیں کرتا۔ رومن کیتھولکز، بدھ مت والے، اور دوسرے، جو کہ مبشران انجیل نہیں ہیں، کبھی بھی اعتراض نہیں کرتے۔ لیکن اینٹی نومیئین مبشر انجیل ہمیشہ اعتراض کرتا ہے۔ وہ اکثر ٹائی کو پھاڑ کر فرش پر اُتار پھینکتے ہیں، یا اِس کو بالکل بھی پہننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ وہ شدت کے ساتھ موزوں پہناوے کے خلاف بغاوت کرتے ہیں! اُن کے لیے مناسب پہناوے کی کوئی روایت نہیں ہے! وہ بے آئین ہوتے ہیں۔ وہ تمام اصولوں کے خلاف ہوتے ہیں۔ وہ اینٹی نومیئینز ہیں! اِس کے علاوہ، وہ نہیں سمجھتے کہ آپ کو سفاکانہ گناہوں کو چھوڑنا اور اُن کے لیے توبہ کرنی ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو، اینٹی نومیئینز سوچتے ہیں کہ آپ ایک نئے سرے سے جنم لیے ہوئے مسیحی ہو سکتے ہیں اور اپنی زندگی میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کا تجربہ نہیں کرتے ہیں!

ہم یقین کرتے ہیں کہ بائبل تعلیم دیتی ہے – فضل کے وسیلے سے حقیقی نجات اچھے اعمال کی ایک زندگی کا سبب ہوتی ہے۔ یہ بہت سے کلام پاک کے حوالوں میں بالکل شفاف طور پر واضح ہے، جیسا کہ افسیوں، دو باب کے اِس اعلٰی درجے کے حوالے میں،

’’کیونکہ تمہیں ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملی ہے اور یہ تمہاری کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ خدا کی بخشش ہے اور نہ ہی یہ تمہارے اعمال کا پھل ہے کہ کوئی فخر کر سکے۔ کیونکہ ہم خدا کی کاریگری ہیں اور ہمیں مسیح یسُوع میں نیک کام کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے جنہیں خدا نے پہلے ہی سے ہمارے کرنے کے لیے تیار کر رکھا تھا‘‘ (افسیوں 2:‏8۔10).

’’مسیح یسوع میں نیک کام کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے‘‘ – یہ سادہ اور واضح ہے۔ یہ سمجھنے کے لیے آسان ہونا چاہیے۔

لیکن اینٹی نومیئینز اُن کلام پاک کے حوالوں کو تسلیم نہیں کریں گے۔ وہ تو یہاں تک کہ اُن کے خلاف لڑیں گے۔ وہ کہتے ہیں، ’’رائے قائم مت کرو۔‘‘ لیکن وہ سب سے زیادہ رائے قائم کرنے والے لوگ ہوتے ہیں! خود میری اپنی زندگی اور منادی میں سب سے بدترین حملے جن کا میں تجربہ کر چکا ہوں مکار اینٹی نومیئینز کی جانب سے ہوئے ہیں۔ میرا سب سے پہلا واعظ اینٹی نومیئین اِزم کے خلاف تھا جو میں نے کیلیفورنیا میں ہونٹینگٹن پارک Huntington Park کے گرجہ گھر میں جس کا میں ایک رُکن تھا نوجوان لوگوں کے درمیان دیکھی تھی۔ میں اُس وقت سترہ برس کا تھا۔ نوجوانوں کا رہنما مجھے بعد میں ایک طرف لے گیا اور مجھے کہا کہ اِس طرح کی تبلیغ دوبارہ کبھی مت کرنا۔ جب وہ مجھے لعن طعن کر رہا تھا، تو اُس کے مددگار و معاون نے نوجوان لوگوں کو بتایا کہ میں غلط تھا، اور میرے واعظ سے پریشان مت ہوں۔ لیکن کچھ مہینوں بعد اِس نوجوانوں کے منتظم کو گرجہ گھر سے بھاگنا پڑا جب والدین کو پتا چلا کہ وہ اُن کے بچوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھے ہوئے تھا۔ گزرے سالوں کےدوران میں نے تقریباً اُن تمام نوجوان لوگوں کو دیکھا جنہیں میں نے اُس دِن تبلیغ کی تھی کہ وہ بے دینی کی زندگی جینے کے لیے گرجہ گھر سے دور ہو گئے تھے۔ تب خُدا نے میرے دِل سے کہا، ’’رابرٹ تمہیں آگے بڑھنا چاہیے اور اینٹی نومیئین اِزم کے خلاف منادی کرنی چاہیے۔ یہ ایک ہولناک بدعت ہے۔ اِس سے خوفزدہ مت ہو۔ اِس کے خلاف بے خوف ہو کر منادی کر!‘‘

میں نے اپنی منادی کے دوران یہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ مجھ پر ایک ’’قانونی شخص‘‘ کی حیثیت سے، سان فرانسسکو کےشمال میں مارین کاؤنٹی کے ایک اینٹی نومیئین گرجہ گھر کے رہنما کے ذریعے سے وحشیانہ حملہ کیا گیا، جب میں وہاں پر علاقہ دار پادری تھا۔ بعد میں یہ پتا چلا کہ یہ شخص اپنے گرجہ گھر کی لڑکیوں کے ساتھ جنسی تعلقات میں ملوث تھا۔ لاس اینجلز کی مغربی طرف، ویسٹ ووڈ میں، ایک اینٹی نومیئین ’’بائبل کے اُستاد‘‘ نے مجھے فریسی اور ایک خطرناک جھوٹا اُستاد کہا۔ میں ایک دوسرے فون پر سُن رہا تھا جب اُس نے ہمارے گرجہ گھر کے ایک نوجوان شخص کے ساتھ فون پر میرے چیتھڑے اُڑائے۔ جب میں نے کہا، ’’ھیلو، بِلBill، یہ میں ہوں ڈاکٹر ھائیمرز،‘‘ وہ چیخ پڑا اور فون کا ریسور پٹخ دیا۔ اُس کے بائبل کی جماعت میں نوجوان لوگ چرس پیتے اور شدت سے اتوار کو گرجہ گھر آنے کی مخالفت کرتے تھے۔ یہ اُس اینٹی نومیئین ’’اُستاد‘‘ نے اُنہیں سیکھایا تھا۔ چند ہی سالوں میں اُس کی تمام ’’جماعت‘‘ ٹوٹ گئی – اور صفحۂ ہستی سے نابود ہو گئی۔ آج کے دِن کے لیے ایک اینٹی نومیئین عورت نے انٹرنیٹ پر مجھ پر قانونی legalist ہونے کا لیبل لگا کر اور جھوٹا اُستاد کہہ کر سفاکانہ حملہ کیا۔ وہ ایک پستول رکھتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ پستول اُس کو کہتی ہے، ’’گولی مار دو، قتل کرنے کے لیے گولی مار دو!‘‘ ہم نے اُس کے خلاف ایف بی آئی FBI میں رپورٹ لکھوا دی ہے۔ لیکن کافی پہلے ہی میں یہ سیکھ چکا تھا کہ اینٹی نومیئینز کے حملوں سے زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ اِس قسم کے حملے سچے مسیحیوں کے خلاف اُس وقت سے ہیں جب قدیم دُنیا میں کائن نے ھابل کا قتل کیا۔ یوحنا رسول نے ھابل کے اپنے بھائی کائن کے ہاتھوں قتل ہونے کا حوالہ دیا۔ اُس نے کائن کے بارے میں کہا، جواُس شریر سے تھا، اور اُس نے اپنے بھائی کو قتل کیا۔ کیوں اُس نے اُسے قتل کیا؟ کیونکہ اُس کے اپنے اعمال بدی کے تھے، اور اُس کے بھائی کے راستبازی کے تھے۔ لیکن بھائیو، اگر دُنیا تم سے دشمنی رکھتی ہے تو تعجب نہ کرو‘‘ (1۔یوحنا3:‏12۔13)۔

اینٹی نومیئینز ’’موت کی طرف لے جانے والے کاموں سے توبہ کرنے‘‘ والی شدید منادی کو مسترد کرتے ہیں (عبرانیوں6:‏1)۔ وہ واقعی میں اِس قسم کی منادی سے نفرت کرتے ہیں – اور اُس مبلغ کے خلاف لڑیں گے جو یہ منادی کرے گا۔ ہیرودیس نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کا سر گناہوں سے توبہ کرنے کی منادی پر قلم کروا دیا تھا۔ شریعت کے عالمین نے یسوع کی مصلوبیت کے لیے کہا تھا کیونکہ اُس نے گناہ سے توبہ کی منادی کی تھی۔ پولوس رسول گناہ سے توبہ کرنے کی منادی کرنے پر ’’جھوٹے بھائیوں کے خطروں میں گھرا رہا‘‘ تھا (2۔کرنتھیوں11:‏26؛ اعمال26:‏20، 21)۔

کٹر اینٹی نومیئینز تبدیل نہیں ہوتے۔ وہ کبھی بھی نئے سرے سے جنم نہیں لیتے ہیں۔ اور وہ واقعی میں اُن سے نفرت کرتے ہیں جو اُنہیں بتاتے ہیں کہ وہ کھوئے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر ٹوزر Dr. Tozer نے اپنے مضمون میں اُن کے انتقام کے بارے میں لکھا، ’’ایک مرتبہ پیدا ہوئے اور دوسری مرتبہ پیدا ہوئے The Once-Born and the Twice-Born۔‘‘ اُنہوں نےکلام پاک سے ظاہر کیا کہ وہ جنہوں نے کبھی بھی نئے سرے سے جنم نہیں لیا ہمیشہ اُن کے خلاف لڑتے ہیں جنہوں نے نئے سرے سے جنم لیا ہوتا ہے – دوسری مرتبہ پیدا ہوتے ہیں۔ اینٹی نومیئینز اُن کی تقلیل کرتے ہیں، اُنہیں دھمکاتے ہیں، اور اُن پر حملہ کرتے ہیں جنہوں نے نئے جنم کا تجربہ کیا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ٹوزر نے کہا، ’’دوسری مرتبہ پیدا ہونے والوں کے خلاف یہ بہت بڑا انتقام جو تعلیم وہ دیتے ہیں اُس کی سچائی کی صادقت کو ظاہرکرتا ہے‘‘ (اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر، ڈی۔دی۔ A. W. Tozer, D.D.، ’’ایک مرتبہ پیدا ہوئے اور دوسری مرتبہ پیدا ہوئے The Once-Born and the Twice-Born،‘‘ انسان: خدا کا مسکن Man: The Dwelling Place of God، کرسچن اشاعتی گھر Christian Publications، 1966، صفحہ21)۔

یہ بہت اُداس کر دینے والی بات ہے کہ معاملہ یہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اینٹی نومیئینز بچائے جائیں ہم اکثر دعا کرتے ہیں کہ تبدیل ہو جائیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اُن کے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے مسیح صلیب پر مرا تھا۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ آسمان میں زندہ ہے۔ لیکن اُنہوں نے کبھی بھی سچے دِل سے توبہ نہیں کی، اور کبھی بھی سچے دِل سے اُس پر بھروسہ نہیں کیا۔

آج شب یہاں شاید کوئی اینٹی نومیئین ہو، جو ایک جھوٹی تبدیلی سے چمٹا ہوا ہو اور اپنے دِل میں ایک حقیقی تبدیلی کے لیے لڑ رہا ہو۔ یا شاید کوئی اِس واعظ کوانٹر نیٹ پر پڑھ یا سُن رہا ہو شاید ایک حقیقی تبدیلی کے خلاف لڑ رہا ہو۔ آپ کے لیے میں بہت دُکھی دِل کے ساتھ کہتا ہوں، ’’آپ ایک مردہ اور گلے سڑے بدن کے ایک جھوٹے پیشے کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ آپ ایک حقیقی تبدیلی کے سکون اور مسرت کو ہاتھوں سے نکال رہے ہو۔ زندگی کو چُنیں! زندگی کو چُنیں! ایک جھوٹی تبدیلی کی گلی سڑی، بدبودار لاش کو پھینک دیں! پھر خود کو یسوع مسیح کے حوالے کر دیں! وہ خود اپنے خون سے آپ کے گناہ دھو ڈالے گا! وہ آپ کو ایک نئی مخلوق بنائے گا جو محبت کے ساتھ خُدا کی فرمانبرداری کرتی ہے، بجائے اِس کے کہ اِن بُرے دِنوں میں اُس کے خلاف بغاوت کریں۔‘‘ بائبل کہتی ہے،

’’اِس لیے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے: پُرانی چیزیں جاتی رہیں؛ دیکھو! وہ نئی ہو گئیں‘‘ (2۔ کرنتھیوں 5:‏17).

جب آپ توبہ کرتے اور اپنے آپ کو یسوع کے حوالے کرتے ہیں تو آپ ’’میں سب کچھ حوالے کرتا ہوں‘‘ گانے کے قابل ہو جائیں گے۔

میں سب کچھ یسوع کے حوالے کرتا ہوں، میں سب کچھ یسوع کو مفت میں دیتا ہوں؛
   میں ہمیشہ یسوع کو پیار اور اُس پر بھروسہ کروں گا، اُس کی موجودگی میں روزانہ کی زندگی میں۔
میں سب کچھ حوالے کرتا ہوں، میں سب کچھ حوالے کرتا ہوں۔
   سب کچھ تجھے ہی، میرے بابرکت منجی، میں سب کچھ حوالے کرتا ہوں۔

سب کچھ یسوع کے حوالے میں کرتا ہوں، انکساری سے میں اُس کے قدموں میں جُھکتا ہوں،
   دُنیاوی خوشیاں سب چھوڑ دیں، مجھے اپنا لے، یسوع، مجھے ابھی اپنا لے۔
میں سب کچھ حوالے کرتا ہوں، میں سب کچھ حوالے کرتا ہوں۔
   (’’میں سب کچھ حوالے کرتا ہوں I Surrender All‘‘ شاعر جڈسن ڈبلیو۔ وین ڈیونٹر
    Judson W. Van DeVenter‏، 1855۔1939)۔

میں یسوع کے وسیلے سے بچائے جانے کے بارے میں بات چیت کرنے کے لیے آپ کے لیے حاضر ہیں۔ اگر آپ ہم سے بات کرنا چاہیں، تو مہربانی سے اپنی نشست چھوڑیں اور اجتماع گاہ کی پچھلی جانب ابھی چلے جائیں۔ ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan آپ کی رہنمائی ایک پُرسکوں جگہ تک کریں گے جہاں ہم بات کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر چعین Dr. Chan، مہربانی سے دعا کریں کہ کوئی جس نے ردعمل کا اظہار کیا آج شب کو یسوع پر بھروسہ کرے گا۔ آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھومی Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: افسیوں2:‏4۔10۔
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’میں سب کچھ حوالے کرتا ہوں I Surrender All‘
(شاعر جڈسن ڈبلیو۔ وین ڈیونٹر Judson W. Van DeVenter‏، 1855۔1939)۔