Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

یہودیوں کی بحالی اور
غیر اقوام کا مسیحیت قبول کرنا

THE RESTORATION OF THE JEWS AND
THE CONVERSION OF GENTILES
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی پبتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
18 اگست، 2013، خُداوند کے دِن کی شام
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, August 18, 2013

’’بھائیو مجھے منظور نہیں کہ تم اس بھید سے ناواقف رہو اور اپنے آپ کو عقلمند سمجھنے لگو، وہ بھید یہ ہے کہ اسرائیل کا ایک حصہ کسی حد تک سخت دل ہو گیا ہے اور جب تک خدا کے پاس آنے والے غیر یہودیوں کی تعداد پوری نہیں ہو جاتی وہ ویسا ہی رہے گا۔ تب تمام اسرائیل نجات پائے گا۔ چنانچہ لکھا ہے چھڑانے والا صیون سے نکلے گا اور وہ بے دینی کو یعقوب سے دور کرے گا۔ اور میں اُن سے اپنا یہ عہد اُس وقت باندھوں گا جب میں اُن کے گناہ دور کر دوں گا‘‘ (رومیوں11:‏25۔27)۔

ہماری تلاوت نئے عہد نامے میں سے سب سے زیادہ دلچسپ اور پُراسرار حوالوں میں سے ایک ہے۔ یہاں پر پولوس رسول یہودیوں کی نجات کے بارے میں سب سے بڑے سوال کے ساتھ دلیری سے نمٹتا ہے۔ اور یہاں پر خُدا پولوس رسول کے ذریعے سے وہ ظاہر کرتا ہے جو ہم انسانی استدلال سے کبھی بھی نہیں پا سکیں گے۔ پولوس نے کہا، ’’بھائیو مجھے منظور نہیں کہ تم اِس بھید سے ناواقف رہو‘‘ (رومیوں11:‏25)۔

سِگمنڈ فرائیڈ Sigmund Freud جدید نفسیات کے بانی تھے۔ کارل جُنگ Carl Jung اُن کے شاگردوں میں سے ایک تھے، جنہوں نے بعد میں اُنہیں للکارا تھا۔ اُنہوں نے خُدا کی موجودگی کی ابتدا پر بحث کی تھی یا، زیادہ ٹھیک طریقے سے کہا جائے تو روحانی دُنیا کی موجودگی پر۔ فرائیڈ ایک مادہ پرست تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ خُدا پر اعتقاد ابتدائی ٹوٹم totem کی پرستش سے ارتقاء میں آیا تھا۔ جُنگ نے اِس سے اتفاق نہیں کیا، اور روحانی دُنیا کی اصلیت کو ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ یہ اُن دو طریقوں کی سادہ سی وضاحت ہے جن سے خُدا کی موجودگی کے ساتھ نفسیات نے نمٹا ہے – اور مختلف طریقوں سے ایسا کرنے میں جاری ہے۔ تاہم، ہمیں ڈاکٹر جُنگ کی طرف داری کرنے سے بہت احتیاط برتنی چاہیے۔ اُن کے نظریات ملکوتی اور شیطانیت میں کھولنے والا دروازہ ہے۔ اِس لیے مجھے کہنا پڑتا ہے، نا ہی انسان نے خُدا میں ایمان کی ابتدا کے بارے میں حقیقی سچائی کو سمجھا ہے۔

فرائید یقین کرتا تھا کہ قدیم عبرانیوں نے خُدا کو تخلیق کیا تھا۔ اپنے تصورات میں اُنہوں نے ایک نظر نہ آنے والے خُدا میں اعتقاد کو ایجاد کیا۔ یہی تھا جو مجھے آزاد خیال سیمنریوں میں پڑھایا گیا تھا جہاں میں نے تعلیم حاصل کی تھی۔ یہ خُدا کی ابتدا کے بارے میں مادہ پرستی کا نظریہ ہے۔ ڈاکٹر ویلہلم شمتھ Dr. Wilhelm Schmidt ویانا کی یونیورسٹی University of Vienna کے ایک پروفیسر تھے۔ اُنہوں نے اپنی مشہور و معرف کتاب مذہب کی ابتدا اور پھیلاؤ The Origin and Growth of Religion، کوپر سکوئر پبلشرز Cooper Square Publishers، اشاعت1972 میں، خُدا کی ابتدا کے بارے میں مختلف آراؤں کو جواب دیا تھا۔ ایک اور اہم کتاب جو خُدا کی ابتدا کے ساتھ نمٹتی ہے اُس کا عنوان چین کے مذاہب The Religions of China ہے، جس کے مصنف جیمس لیگی James Legge, Ph. D. ہیں، جو آکسفورڈ یونیورسٹی Oxford University میں (Hodder and Stoughton, 1880) کافی عرصے تک پروفیسر رہے۔ اِن دو نمایاں عالمین نے خُدا کی خود وجودیت کے ثبوت کو پیش کیا، کہ قدیم انسان کے کسی چیز پر یقین کرنے سے قدرے مختلف وہ وجود رکھتا تھا، اور کہ خود وجودیت کے خُدا نے انسان پر خود کو آشکارہ کیاتھا۔ بجائے اِس کے کہ انسان خُدا کو تخلیق کرتا – خُدا نے انسان کو تخلیق کیا! یہ اِن دو عالمین کا عمومی مقالہ تھا۔ اور بالکل یہی ہے جو بائبل دائمیت سے پہلے خُدا کی موجودگی کے بارے میں تعلیم دیتی ہے۔ اور، بیشک، یہی پولوس رسول کا نقطۂ نظر تھا۔ پولوس سے بہت پہلے یہ موسیٰ کانقطۂ نظر تھا، جس کے سامنے اپنی خود موجودیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خُدا نے خود کو ’’میں ہوں‘‘ کے نام سے آشکارہ کیا تھا۔ (خروج3:‏14)۔ یہ ضروری ہے کہ ہمیں انسان کا خُدا کے تخلیق کرنے کے جدید تصور کو اُٹھا پھینکنا ہے، ورنہ ہم رومیوں کے گیارویں باب کو سمجھنے کے قابل نہیں رہیں گے۔

میں نے آپ کو یہ طویل تعارف اِس لیے پیش کیا کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ آپ دیکھیں کہ پولوس رسول رومیوں گیارہ باب میں اپنا خود کا نظریہ نہیں پیش کر رہا ہے۔ آیت 25 میں رسول ہمیں بتاتا ہے کہ وہ جو اسرائیل کے بارے میں بتا رہا ہے ایک بھید ہے (یونانی میں، musterion) – جو خُدا نے اُس پر آشکارہ کیا تھا۔

’’بھائیو مجھے منظور نہیں کہ تم اس بھید سے ناواقف رہو اور اپنے آپ کو عقلمند سمجھنے لگو، وہ بھید یہ ہے کہ اسرائیل کا ایک حصہ کسی حد تک سخت دل ہو گیا ہے اور جب تک خدا کے پاس آنے والے غیر یہودیوں کی تعداد پوری نہیں ہو جاتی وہ ویسا ہی رہے گا‘‘ (رومیوں 11:‏25).

غور کریں کہ وہ کہتا ہے، ’’اسرائیل کا ایک حصہ کسی حد تک سخت دل ہو گیا ہے اور جب تک خُدا کے پاس آنے والے غیر یہودیوں کی تعداد پوری نہیں ہو جاتی وہ ویسا ہی رہے گا۔‘‘ وہ سخت دلی جو زیادہ تر یہودیوں میں مسیح سے تعلق رکھتے ہوئے پائی جاتی ہے عالمگیری نہیں ہے۔ یہ صرف ’’کسی حد تک ایک حصہ‘‘ ہے۔ ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز Dr. Martyn Lloyd-Jones نے کہا،

باب کا مقصد ہمیں بتانا ہے کہ خُدا کا کام یہودیوں کے ساتھ بطور ایک قوم ابھی مکمل نہیں ہوا ہے حالانکہ پولوس کے دِنوں میں اُن کی حالت شدت سے تجویز دیتی تھی کہ وہ ہو گیا ہے۔ اُن کی ایک بڑی تعداد مسیحی کلیسیا سے باہر تھی اور بہت سے اِس نتیجے پر پہنچے تھے – خاص طور پر غیر یہودی یقین کرنے والے۔ اب پولوس کے بیان میں دو بنیادی حصے ہیں۔ پہلا حصہ آیت 1 سے لیکر 10 تک ہے جہاں رسول ثابت کرتا ہے کہ اسرائیل کا مسترد کیا جانا مکمل نہیں تھا۔ پھر آیت 11 سے لیکر آیت 32 تک وہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ حتمی مسترد کیا جانا نہیں ہے، یہ صرف ایک عارضی والی ہے۔ یاد رکھیں کہ رسول آیت 11 اور 12 میں اِس واضح تقسیم کی اہم پیشکش کو بیان کرتا ہے... یہ وہاں پر ہے کہ وہ اپنا پہلا سُراغ نمایاں کرتا ہے کہ یہودیوں کی بطور قوم دوبارہ بحالی ہونے والی ہے اور وہ انجیل پر یقین کریں گے (مارٹن لائیڈ جونز، ایم۔ڈی۔ Martyn Lloyd-Jones, M.D.، رومیوں – باب 11 کی تفسیر Romans – an Exposition of Chapter 11، دی بینر اور ٹرتھ ٹرسٹ The Banner of Truth Trust، دوبارہ اشاعت2005، صفحات159۔160)۔

اور رومیوں 11باب کا یہ حصہ آیت 26 اور 27 میں رسول کی عظیم پیشن گوئی کے ساتھ اختتام پزیر ہوتا ہے،

’’اور یوں تمام اسرائیل نجات پائے گا۔ چنانچہ لکھا ہے چھڑانے والا صیون سے نکلے گا اور وہ بے دینی کو یعقوب سے دور کرے گا۔ اور میں اُن سے اپنا یہ عہد اُس وقت باندھوں گا جب میں اُن کے گناہ دور کر دوں گا‘‘ (رومیوں 11:‏26۔27).

وہ تصور کہ تمام قوم، ’’تمام اسرائیل نجات پائے گا،‘‘ شاید ایک انتہائی خلاف قیاس پیشن گوئی کی مانند لگتا ہے۔ لیکن رسول ہمیں بتاتا ہے کہ دراصل اِس کی پرانے عہد نامے میں پیشن گوئی کی گئی تھی۔ وہ اشعیا59:‏20، 21 اور اشعیا27:‏9 میں سے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ خُدا نے بہت پہلے ہی ’’تمام اسرائیل نجات پائے گا‘‘ کا وعدہ کیا تھا حوالہ دیتا ہے (رومیوں11:‏26)۔ یوں رسول ہمیں بتاتا ہے کہ تمام زندہ یہودی لوگ جب ’’وہ نجات دہندہ،‘‘ وہ مسیحا آتا ہے، ’’نجات پائیں گے۔‘‘

اب مجھے یہیں ٹھہر جانا چاہیے اور ہماری تلاوت میں اُس شاندار وعدے کے اطلاق کو پیش کرنا چاہیے،

’’کیونکہ بھائیو مجھے منظور نہیں کہ تم اس بھید سے ناواقف رہو اور اپنے آپ کو عقلمند سمجھنے لگو، وہ بھید یہ ہے کہ اسرائیل کا ایک حصہ کسی حد تک سخت دل ہو گیا ہے اور جب تک خدا کے پاس آنے والے غیر یہودیوں کی تعداد پوری نہیں ہو جاتی وہ ویسا ہی رہے گا۔ تب تمام اسرائیل نجات پائے گا۔ چنانچہ لکھا ہے چھڑانے والا صیون سے نکلے گا اور وہ بے دینی کو یعقوب سے دور کرے گا۔ اور میں اُن سے اپنا یہ عہد اُس وقت باندھوں گا جب میں اُن کے گناہ دور کر دوں گا‘‘ (رومیوں11:‏25۔27)۔

I۔ اوّل، اُن یہودی لوگوں کا ایک حصہ کسی حد تک سخت دل ہو گیا ہے، بالکل ہم میں سے اُن کی مانند جو غیر یہودی ہیں۔

’’کیونکہ بھائیو مجھے منظور نہیں کہ تم اس بھید سے ناواقف رہو اور اپنے آپ کو عقلمند سمجھنے لگو، وہ بھید یہ ہے کہ اسرائیل کا ایک حصہ کسی حد تک سخت دل ہو گیا ہے اور جب تک خدا کے پاس آنے والے غیر یہودیوں کی تعداد پوری نہیں ہو جاتی وہ ویسا ہی رہے گا‘‘ (رومیوں 11:‏25).

وہ ’’کسی حد تک ایک حصہ‘‘ کہتا ہے، کیونکہ وہ خود بھی ایک یہودی تھا جو نجات پا چکا تھا، ’’کیونکہ میں خود بھی ایک اسرائیلی ہوں‘‘ (رومیوں11:‏1)۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اُن کی ’’سخت دلی‘‘ ’’کسی حد تک ایک حصے‘‘ میں ہے کیونکہ ’’اب بھی کچھ لوگ باقی ہیں جنہیں خُدا نے اپنے فضل سے چُن لیا تھا‘‘ (رومیوں11:‏5)۔ وہاں پر تب، اور وہاں پر ہمیشہ سے ’’یسوع میں ایمان رکھنے والے کچھ لوگ باقی‘‘ رہے ہیں۔ پولوس یہ بھی کہتا ہے کہ یہ لکھنے کا، اور منادی میں کرنے کا اُس کا مقصد ’’اُن میں سے کچھ کو نجات دلانا‘‘ ہے – یعنی کہ، اُن باقی بچے ہوئے لوگوں کو نجات دلانی جو یسوع پر بھروسہ کریں گے (رومیوں11:‏14)۔

اب، پھر، کیا یہ واقعی یہودی لوگوں کو ہم باقی لوگوں سے کوئی مختلف بناتا ہے؟ جی نہیں، یہ نہیں ہوتا ہے! بالکل یہیں، رومیوں کی کتاب میں، وہ رسول کہتا ہے،

’’پھر نتیجہ کیا نکلا؟ کیا ہم یہودی دُوسروں سے بہتر ہیں؟ ہرگز نہیں۔ ہم تو پہلے ہی ثابت کر چُکے ہیں کہ یہودی اور غیر یہودی سب کے سب گناہ کے قابو میں ہیں۔ جیسا کہ پاک کلام میں لکھّا ہے: کوئی راستباز نہیں، ایک بھی نہیں؛ کوئی سمجھدار نہیں، کوئی خدا کا طالب نہیں‘‘ (رومیوں 3:‏9۔11).

اُس نے کہا کہ وہ ’’دونوں یہودیوں اور غیر یہودیوں‘‘ کے بارے میں سچ تھا – ’’کہ وہ تمام گناہ کے قابو میں ہیں۔‘‘ اب، کوئی بھی وہ سُننا پسند نہیں کرتا ہے۔ میری کبھی بھی کسی مسیح میں غیر تبدیل شُدہ یہودی یا غیر یہودی سے ملاقات نہیں ہوئی جو ایک مبشر سے یہ سُننا پسند کرتا ہو کہ وہ ’’گناہ کے قابو‘‘ میں ہے، کہ گناہ اُس پر حاوی ہے، کہ وہ راستباز نہیں ہے – ’’جی نہیں، کوئی ایک بھی نہیں۔‘‘

مجھے اِس تلاوت ’’کوئی راستباز نہیں، جی نہیں، ایک بھی نہیں‘‘ (رومیوں3:‏10) پر مغربی کینیڈا میں ایک بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں سالوں پہلے منادی کرنا یاد ہے۔ تمام کی تمام جماعت غیر یہودیوں پر مشتمل تھی! وہاں پر ایک بھی یہودی نہیں تھا! اور اِس کے باوجود جب میں نے کہا، ’’کوئی راستباز نہیں، جی نہیں، کوئی ایک بھی نہیں،‘‘ تو ایک درمیانی عمر کی خاتون، غصیلے چہرے کے ساتھ، یکدم سیدھی کھڑی ہو گئی، اور اپنے پھیپھڑوں تک کا زور لگا کر چلائی ’’نہیں!‘‘ جب وہ گرجہ گھر سے باہر بھاگی تھی! میں اِس ردعمل سے انتہائی زیادہ بھونچکا رہ گیا تھا۔ بعد میں پادری نے کہا کہ اُسے اُس خاتون سے کچھ ایسا ہی کرنے کی توقع تھی کیونکہ وہ شدت کے ساتھ اِس تصور کو مسترد کرتی تھی کہ ہر کوئی گنہگار ہے، کہ ’’کوئی بھی راستباز نہیں، جی نہیں، کوئی ایک بھی نہیں‘‘ (رومیوں3:‏10)۔ اب، رومیوں3:‏9۔10 میں، رسول ہمیں بتاتا ہے کہ یہ ہر کسی کے لیے سچ ہے، ’’دونوں یہودی اور غیر یہودی، کہ وہ تمام گناہ کے قابو میں ہیں۔‘‘ ہم تمام کے تمام اپنی نجات پانے سے پہلے کھوئے ہوئے گنہگار ہیں! اور ہم تمام کو یہ بتائے جانے سے نفرت ہے۔ جب تک کہ خُدا ہمیں ہماری گناہ کی بھرپوری سے بیدار نہ کرے ہم قبول نہیں کریں گے کہ ہم کھوئے ہوئے ہیں۔

ہماری سخت دلی اور اندھے پن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا روحانی سخت دلی یا اندھے پن سے تعلق رکھتے ہوئے ایک یہودی اور ایک غیر یہودی میں کوئی فرق ہے؟ جی نہیں، کوئی فرق نہیں ہے۔ انسان کے گناہ میں گرنے سے لیکر، تمام بنی نوع انسان مسیحیت کو قبول کرنے سے پہلے ’’سخت دل یا اندھے‘‘ ہیں۔ رسول کہتا ہے، ’’اسرائیل کا ایک حصہ کسی حد تک سخت دل ہو گیا ہے۔‘‘ وہ ’’ایک حصے کے بارے میں‘‘ کہتا ہے کیونکہ ہمیشہ کہیں نہ کہیں کچھ یہودی ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی روحانی آنکھیں کھلی رکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ 2۔کرنتھیوں3:‏15 میں رسول بہت سے یہودی لوگوں کے دلوں پر ’’پردہ‘‘ پڑے رہنے کی بات کرتا ہے، لیکن پھر اُس نے کہا، جب وہ ’’خُداوند کی طرف رجوع کرتے ہیں تو وہ پردہ ہٹا دیا جاتا ہے‘‘ (2۔ کرنتھیوں3:‏16)۔

ابھی تک سب سے عظیم مسیحی جن سے میں مل چکا ہوں پادری رچرڈ ورمبرانڈ Pastor Richard Wurmbrand تھے، جو مسیحیت قبول کیے ہوئے ایک یہودی تھے۔ اپنی مشہور و معروف کتاب، مسیح کے لیے اذیت سہی Tortured for Christ میں، پادری ورمبرانڈ خُداوند یسوع مسیح کے لیے خُدا نے اُن کی آنکھیں کھولی کے بارے میں بتاتے ہیں۔ وہ اشتراکیت پسندوں کے دُنیا میں مذہبی آزادی کے ایک عظیم فاتح بنے۔ اُنہوں نے مسیح میں اپنے ایمان کی وجہ سے چودہ سال ایک کیمونسٹ قید خانے میں گزارے۔ ابھی تک جن سے میں مل چکا ہوں اُن میں وہ سب سے عظیم تر مسیحی بنے۔ میرے اپنے ساتھی، ڈاکٹر سی۔ ایل۔ کیگنDr. C. L. Cagan، ایک عظیم مسیحی ہیں جنہیں میں زیادہ ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ وہ بھی ایک مسیحیت قبول کیے ہوئے مسیحی ہیں۔ یسوع سے تعلق رکھتے ہوئے کہ کیسے خُدا نے اُن کی آنکھیں کھولیں آپ اُن کی حالات زندگی ڈارون سے لے کر ڈیزائن تک From Darwin to Design میں پڑھ سکتے ہیں جس کو لکھنے میں اُن کی مدد میں نے کی۔ میں یہودیوں کی ایک تعداد کو جانتا ہوں جن کی آنکھیں نجات دہندہ پر بھروسہ کرنے کے لیے کُھلی تھیں، جیسے کہ میلیسہ سینڈرز Melissa Sanders، ڈاکٹر کیگن، ڈاکٹر اینڈ مسسز ڈیوڈ سٹرن Dr. And Mrs. David Stern، ھیلن روکلین Helen Rocklin، مائلی سنٹرMillie Senter اور بہت سے دوسرے، جو ہمارے گرجہ گھر کے اراکین بنے۔ موشے روزن Moishe Rosen، جو یسوع کے لیے یہودیوں کے بانی ہیں، اُنہوں نے ہماری شادی پر فرائض سرانجام دیئے تھے اور میری بیوی اور میرے دوست رہے تھے۔ اُن کے مرنے سے کچھ مہینے پہلے، ہم اُن سے ملنے گئے تھے، اور اُن کے ساتھ دوپہر کے کھانے میں شرکت کی تھی۔

لیکن مسیحیت قبول نہ کیے ہوئے یہودی مسیحیت قبول نہ کیے ہوئے غیر یہودیوں سے کوئی مختلف نہیں ہیں۔ افسیوں4:‏17۔18 میں پولوس رسول نے لکھا کہ غیر یہودی بھی روحانی طور پر سخت دِل ہوتے ہیں اِس سے پہلے کہ وہ مسیحیت کو قبول کرتے ہیں۔ اُس نے کہا،

’’اِس لیے میں خداوند کے نام کا واسطہ دے کر تُم سے یہ کہتا ہُوں کہ آیندہ کو اُن لوگوں کی مانند جو اپنے بیہودہ خیالات کے مطابق چلتے ہیں زندگی نہ گزارنا۔ اُن کی عقل تاریک ہوگئی ہے اور وہ اپنی سخت دلی کے باعث جہالت میں گرفتار ہیں اور خدا کی دی ہُوئی زندگی میں اُن کا کوئی حِصّہ نہیں‘‘ (افسیوں 4:‏17۔18).

اور رومیوں1:‏16 میں پولوس نے کہا،

’’میں مسیح کی اِنجیل سے نہیں شرماتا: کیونکہ وہ ہر ایمان لانے والے کی نجات کے لیے خدا کی قدرت ہے۔ پہلے یہودی کے لیے، پھر غیر یہودی کے لیے بھی‘‘ (رومیوں 1:‏16).

اور یوں نجات کے اِس معاملے میں یہودیوں اور غیر یہودیوں کے درمیان واقعی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ نجات پانے کے لیے ہم تمام ہی کو انجیل میں یقین کرنا چاہیے۔ میں رسول کے ساتھ کہتا ہوں، ’’میں مسیح کی انجیل سے نہیں شرماتا ہوں۔‘‘ یہ انجیل کے مسیح ہی سے ہے کہ ہمارے گناہ معاف کیے گئے ہیں، اور ہماری آنکھیں کُھلی ہیں، اور ہمیں نجات ملی ہے، آیا ہم یہودی ہوں یا غیر یہودی ہوں!

II۔ دوئم، تمام کے تمام یہودی لوگ مستقبل میں نجات پا جائیں گے۔

رومیوں11:‏26 کہتی ہے، ’’تب تمام اسرائیل نجات پائے گا۔ چنانچہ لکھا ہے چھڑانے والا صیون سے نکلے گا اور وہ بے دینی کو یعقوب سے دور کرے گا۔‘‘ وہ نام ’’یعقوب‘‘ یہاں پر یہودی لوگوں کے لیے ایک اور نام ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر یہودی نجات پا جائے گا۔ میں اِس سے اتفاق نہیں کرتا۔ میں نے بہت پہلے سیکھا تھا کہ جو بائبل کہتی ہے بالکل اُسی پر یقین کرو، ’’تمام اسرائیل نجات پا جائے گا۔‘‘ وہ میرے لیے معاملہ طے کر دیتی ہے!

لیکن ہمیں یہاں پر کچھ ایسا بتایا گیا ہے جو تمام غیر یہودیوں کے بارے میں سچ نہیں ہے۔ کہیں بھی بائبل ہمیں نہیں بتاتی کہ تمام غیر یہودی نجات پا جائیں گے۔ اِس کے باوجود ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ’’تمام اسرائیل نجات پا جائے گا۔‘‘ اور یہ اُس وقت ہوگا جب یسوع وہ مسیحا اپنی آمد ثانی پر واپس آتا ہے۔ زکریا نبی مستقبل میں اُس دِن کے بارے میں بتاتا ہے۔ خُدا نے اُس رسول کے ذریعے سے کہا،

’’اور میں داؤد کے گھرانے اور یروشلیم کے باشندوں پر فضل اور مناجات کی رُوح نازل کروں گا اور وہ مجھ پر جسے اُنہوں نے چھیدا تھا نظر ڈالیں گے، اور وہ اُس کے لیے ایسا ماتم کریں گے جیسے کوئی اکلوتے بّچے کے لیے کرتا ہے، اور اُس کے لیے سخت جلن میں ہوں گے، جیسے کوئی اپنے پہلوٹے کے لیے جلن کرتا ہے ‘‘ (زکریاہ 12:‏10).

’’اس روز داؤد کے گھرانے اور یروشلیم کے باشندہ کے گناہ اور ناپاکی صاف کرنے کے لیے ایک چشمہ پُھوٹ نکلے گا‘‘ (زکریاہ 13:‏1).

یہ وہ شاندار وعدے ہیں جو خُدا نے یہودیوں کے لیے کیے۔ یسوع بادلوں میں سے دوبارہ اِس زمین کے لیے واپس آ رہا ہے! اُس وقت ’’تمام اسرائیل نجات پا جائے گا،‘‘ بالکل جیسے پولوس رسول نے ہمیں رومیوں11:‏26 میں بتایا۔ لیکن اِس واعظ میں مجھے مذید ایک اور بات کہنی ہے۔

III۔ سوئم، یہودی اور غیر یہودی آج اُسی طریقے سے نجات پاتے ہیں۔

ہمیں رومیوں11:‏23 میں بتایا گیا ہے کہ آج یہودی لوگوں کو کلیسیا میں ’’پیوند‘‘ کیا جا سکے گا۔ رسول کہتا ہے،

’’اور وہ بھی، [یہودی] ایمان لے آئیں تو وہ بھی پیوند کیے جائیں گے، کیونکہ خدا اُنہیں پھر سے پیوند کرنے پر قادر ہے‘‘ (رومیوں 11:‏23).

یہ یہودیوں اور غیر یہودیوں کے اکٹھے کلیسیا میں شامل کیے جانے کی جانب اشارہ کرتی ہے، یہودیوں کو غیر یہودی ایمانداروں کے ساتھ کلیسیا میں ’’پیوند‘‘ کیا جا رہا ہے۔ 1کرنتھیوں12:‏13 میں پولوس نے کہا، ’’ہم خواہ یہودی ہوں یا غیر یہودی، سب نے ایک ہی روح کے وسیلہ سے ایک بدن ہونے کے لیے بپتسمہ پایا۔‘‘ ’’بدن‘‘ یہاں پر ’’کلیسیا ekklesia‘‘ – گرجہ گھر کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ افسیوں2:‏16۔18 میں پولوس دوبارہ دونوں یہودیوں اور غیر یہودیوں کی صلح کروائے جانے کے بارے میں بات کرتا ہے ’’صلیب کے ذریعے سے دشمنی ختم کر دے اور دونوں کو ایک تن کرکے خُدا سے ملا دے‘‘ (افسیوں2:‏16)۔ وہ ’’ایک تن‘‘ سچا مسیحی گرجہ گھر ہے

یسوع صلیب پر اپنے لوگوں دونوں یہودی اور غیر یہودی کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے مرا تھا۔ یہ انجیل ہے، وہ خوشخبری۔ مسیح صلیب پر ہر اُس یہودی اور غیر یہودی کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے جو اُس پر بھروسہ کرتا ہے مرا تھا۔ وہ ہر یہودی اور غیر یہودی کو جو اُس پر بھروسہ کرتا ہے دائمی زندگی دینے کےلیے جسمانی طور پر مُردوں میں جی اُٹھا۔ یہ وہ انجیل ہے – مسیح کے وسیلے سے نجات کی وہ خوشخبری۔ اور، یوں، رسول نے کہا،

’’میں مسیح کی اِنجیل سے نہیں شرماتا: کیونکہ وہ ہر ایمان لانے والے کی نجات کے لیے خدا کی قدرت ہے۔ پہلے یہودی کے لیے، پھر غیر یہودی کے لیے بھی‘‘ (رومیوں 1:‏16).

اُس نے کہا کہ انجیل ’’ہر ایمان لانے والے کی نجات کے لیے خُدا کی قدرت ہے،‘‘ چاہے وہ یہودی ہوں یا غیر یہودی ہوں!

یہ ایک معجزہ ہے کہ کوئی یہودی یسوع میں ایمان لے آئے اُن سب ہولناک باتوں کے بعد جو اُس کے ساتھ اُن بدکار لوگوں کے ذریعے سے کی جا چکی ہیں جو اپنے آپ کو ’’مسیحی‘‘ کہلاتے تھے۔ ’’مسیح‘‘ کے نام پر اِن گناہ سے بھرپور منافقوں نے اُن کے عبادت گاہوں کو جلا دیا اور اُنہیں لاکھوں کی تعداد میں قتل کیا۔ ھٹلر Hilter ایک کیتھولک تھا، اُن میں سے ایک جو ’’مسیحی‘‘ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن جنگ عظیم دوئم میں، یہودیوں کے قتل عام میں ساٹھ لاکھ یہودیوں کو ذبح کیا۔ اور صرف وہ ہی اکیلا نہیں تھا۔ یہاں تک کہ لوتھر بھی یہودیوں کے خُلاف بُرا بھلا کہتا تھا، اور جس کا بعد میں ھٹلر نے حوالہ دیا تھا، جب اُس نے یہودی بچوں کو زہریلی گیس کے کمروں میں مرنے کے لیے بھیجوایا تھا۔ ہم لوتھر کے گناہ کو صرف اُس وقت نظر انداز کر سکتے ہیں اگر ہم سمجھیں کہ اُس کے پاس ایمان کے وسیلے سے راستبازی پر شدید سمجھ بوجھ تھی، لیکن یہودی لوگوں کے بارے میں اُس کا نظریہ اُس کے قرون وسطیٰ کے کیتھولک پس منظر سے آتی ہے، اور یہودیوں کے موضوع پر اپنے دور کا وہ ایک خالق تھا۔

سب سے عظیم مسیحی جنہیں میں جانتا ہوں پادری رچرڈ ورمبرانڈ تھے، مسیح میں تبدیل ہوئے ایک یہودی جو لوتھر کی مشن کے مذہبی رہنما بنے۔ ایک مرتبہ میں نے اُن سے پوچھا وہ کیسے ایک ایسے گرجہ گھر میں شمولیت کر سکتے ہیں جس کا بانی لوتھر تھا، جس نے یہودیوں کے بارے میں اِس قدر ہولناک باتیں کی تھیں جب وہ بوڑھے اور بیمار تھے۔ پادری ورمبرانڈ نے سادگی سے کہا، ’’میں نے اُسے معاف کردیا۔‘‘ اِس کے لیے ایک معجزہ چاہیے۔

ہم میں سے کسی کے لیے بھی اُن ’’مسیحیوں‘‘ کی شیطانیت سے پرے دیکھنے کے لیے جنہیں ہم جانتے ہیں، اور مسیح کو تلاش کرنے کے لیے ایک معجزہ چاہیے ہوتا ہے۔ دراصل حقیقی مسیحیت کو تجربہ صرف مسیح میں تبدیلی کے معجزے سے ہی ہوتا ہے۔

جب میں ایک بچہ تھا تو میرے ہمسائے مجھے ایک بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں لے گئے تھے۔ وہ میرے ساتھ بہت مہربان تھے، لیکن میں نے اُس گرجہ گھر میں ہولناک باتیں ہوتی ہوئی دیکھیں، کیلیفورینا کے ہونٹنگٹن پارک Huntington Park, California میں، جہاں میں پہلے چینی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں شمولیت سے پہلے ایک ممبر تھا۔ ہونٹنگٹن پارک میں مَیں نے اتوار کی صبح، گرجہ گھر کے صدر مقام میں، لوگوں کو پینٹ کوٹ اور ٹائیوں جیسا لباس زیب تن کیے ہوئے حمد و ثنا کی کتابوں کو ایک دوسرے پر اُچھالتے ہوئے دیکھا تھا، اور ایک دوسرے کو گندی زبان میں لعن طعن کرتے ہوئے سُنا تھا۔ بعد میں اُسی صبح میں قریب ہی کھڑا تھا جب تین منادوں نے اپنے کوائر کے ڈائریکٹر کو گرجہ گھر کے سامنے پیدل چلنے والے راستے پر اُٹھا پھینکا تھا۔ دو بڑی عمر کے آدمیوں نے سڑک کے ساتھ فٹ پاتھ پر اُس آدمی کو اُن کے مارنے کے بعد اپنے نیچے دبایا۔ اُنہوں نے اُس کا خونی چہرہ فٹ پاتھ پر دبایا اور اُس کی جیبوں میں سے گرجہ گھر کی چابیاں چھیننے کے لیے تلاشی لی۔ یہ 1950 کی دہائی کی بہت پرانی بات ہے۔ آج وہ بدکار لوگ، جو خود کو مناد کہتے ہیں، اُس کے اِس طرح پیٹنے پر جیل جا چکے ہوں گے۔ جب میں نے وہ باتیں دیکھیں تھی تو انتہائی بھونچکا اور دھشت زدہ ہو گیا تھا کہ میں حیرانگی سے سوچتا آیا مسیحیت میں کوئی سچائی بھی تھی! وہ بپتسمہ دینے والے میرے خاندان کے کھوئے ہوئے افراد کے مقابلے میں جو شراب پی کر ایک دوسرے سے جھگڑتے تھے کچھ بہتر نہ تھے

۔

میں کیسے، جب ایک لڑکا تھا، اُن سب ہولناک باتوں کو دیکھنے کے بعد جو گرجہ گھر کے اراکین سے سرزد ہوئی تھیں، ایک مسیحی بن گیا تھا؟ رومیوں11:‏5 پرنظر ڈالیں۔ مہربانی سے کھڑے ہو جائیں اور اِس کو با آواز بُلند پڑھیں۔

’’اِسی طرح اب بھی کچھ لوگ باقی ہیں جنہیں خدا نے اپنے فضل سے چُن لیا تھا‘‘ (رومیوں 11:‏5).

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

پولوس یہودیوں میں ’’باقی بچے کچھ لوگوں کی جنہیں خُدا نے اپنے فضل سے چُن لیا تھا‘‘ کے بارے میں بات کررہا ہے۔ وہ ہمیں بتا رہا ہے کہ ’’کچھ باقی بچے ہوئے لوگ،‘‘ یہودی لوگوں کی ایک چھوٹی سی تعداد، اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی حقیقی مسیحی بن گئی تھی۔ حالانکہ ’’مسیحی‘‘ کہلائے جانے والوں نے اُن کے ساتھ کتوں جیسا سلوک کیا، اور اُنہیں قیدی بنایا، اور اُنہیںقتل کیا، اور اُنہیں اذیتیں دی، ’’اِسی طرح اب کچھ لوگ باقی ہیں جنہیں خُدا نے اپنے فضل سے چُن لیا تھا‘‘ (رومیوں11:‏5)۔ لوتھر کے گناہ سے بھرپور غصے کے باوجود، رچرڈ ورمبرانڈ کہتے ہیں، ’’میں نے اُسے معاف کیا۔‘‘ پادری ورمبرانڈ کیسے یہ کہہ سکتے ہیں اور نجات پا سکتے ہیں، اور ایک لوتھر کی ہی مشن کے مذہبی رہنما بن جاتے ہیں؟ وہ ایسا ’’فضل سے چُن لیے جانے کے مطابق‘‘ کر سکتے ہیں۔ اور یوں ہے کہ میں اُس بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں ایک نو عمر کی حیثیت سے اُس ناخوشگوار باتوں کو دیکھ سکا ہوں، اور اِس کے باوجود ایک ایماندار اور خود ایک پادری بن گیا ہوں۔ ’’ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جنہیں خُدا نے اپنے فضل سے چُن لیا ہے۔‘‘ یہ اُن یہودیوں اور غیر یہودیوں کے بارے میں سچ ہے جنہوں نے وہ تمام بُری باتیں تاریخ میں پڑھی اور دیکھی اور اِس کے باوجود حقیقی مسیحی بن گئے۔ ہم مسیح میں ایمان لانے والے چاہے یہودی ہوں چاہے غیر یہودی ہوں، ہم خُدائے واحد کے لا محدود فضل کے وسیلے سے مسیحی ہیں!گناہ سے بھرپور شیطانی لوگوں کی بجائے، صرف خُدا کا فضل ہی ہمیں یسوع کی طرف پھرنے کے قابل بنا سکتا ہے۔

’’اِسی طرح اب بھی کچھ لوگ باقی ہیں جنہیں خدا نے اپنے فضل سے چُن لیا تھا۔‘‘ اوہ، خُداوند کی ستائش ہو! کیونکہ حقیقی مسیحیوں کے کچھ باقی بچے ہوئے لوگ خود اپنی قوت یا خود اپنی نیکیوں یا خود اپنی طاقت کے وسیلے سے نہیں بچائے گئے ہیں! جی نہیں، کبھی بھی خود ہماری اپنی نیکیوں یا قوت کے وسیلے سے نہیں! کبھی بھی خود ہماری اپنی طاقت سے نہیں! ’’اِسی طرح اب بھی کچھ لوگ باقی ہیں جنہیں خدا نے اپنے فضل سے چُن لیا تھا۔‘‘ جی ہاں، اور اگر آپ نے کبھی بھی نجات پائی ہے، تو وہ بالکل اُسی طریقے سے ہوگی جیسے پادری ورمبرانڈ نے نجات پائی تھی، اُسی طرح سے جیسے ڈاکٹر کیگن نے نجات پائی تھی، اُس ہی طرح سے جیسے میلیسہ سنڈرز نے نجات پائی تھی، اُس ہی طرح سے جیسے موشے روزن نے نجات پائی تھی – اُس ہی طرح سے جیسے میں نے نجات پائی تھی! ’’اِسی طرح اب بھی کچھ لوگ باقی ہیں جنہیں خدا نے اپنے فضل سے چُن لیا تھا۔‘‘ بوڑھے جان نیوٹن John Newton نے اِسے دیکھا تھا! وہ سچے طور پر ایک ہولناک انسان تھا جس نے بےبس غلاموں کو اذیتیں دی اور قتل کیا۔ لیکن مسیح نے اُس کو فضل کے وسیلے سے نجات دی تھی! وہ ایک پادری بن گیا تھا۔ اُس نے وہ الفاظ لکھے تھے، اِس قدر خوبصورت، اِس قدر پاک، اور اِس قدر انتہائی سچے!

حیرت انگیز فضل! کس قدر میٹھی وہ آواز،
   جس نے مجھ جیسے تباہ حال کو بچایا!
میں جو کبھی کھو گیا تھا، لیکن اب مل گیا ہوں،
   اندھا تھا لیکن اب دیکھتا ہوں۔

یہ فضل ہی تھا جس نے میرے دِل کو خوف کرنا سیکھایا،
   اور فضل نے ہی میرے تمام خوف ختم کیے؛
کس قدر قیمتی وہ فضل ظاہر ہوا تھا
   اُس لمحے میں جب میں نے پہلی مرتبہ یقین کیا تھا!
(’’حیرت انگیز فضلAmazing Grace ‘‘ شاعر جان نیوٹن John Newton ، 1725۔1807).

ایک اور پیارا سا حمد و ثنا کا پرانا گیت کہتا ہے،

اوہ فضل کے لیے میں کتنا بڑا مقروض ہوں
   روزانہ میں مجبوری کے تحت ہو جاتا ہوں!
اپنی بھلائی کو ایک کڑی کی مانند بن جانے دے،
   جو میرے آوارہ گرد دِل کو تیرے ساتھ جوڑ دے۔
(آؤ، اُس چشمہ پر Come, Thou Fount‘‘ شاعر رابرٹ روبن سن
      Robert Robinson، 1735۔1790)۔

اگر ہم نجات پاتے ہیں، تو یہ خُدا کے لامحدود فضل کی وجہ سے ہے – خُدا کا غیرمشروط، چُن لینے والا فضل! ’’اِسی طرح اب بھی کچھ لوگ باقی ہیں جنہیں خدا نے اپنے فضل سے چُن لیا تھا۔‘‘ جب ہم یسوع پر بھروسہ کرتے ہیں جو ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے صلیب پر مرا تھا – اور ہمیں دائمی زندگی دینے کے لیے مُردوں میں سے جسمانی طور پر جی اُٹھا تھا، تو ہم فضل کے وسیلے سے نجات پاتے ہیں!

آپ کیسے بتا سکتے ہیں کہ آیا آپ چُنے ہوئے لوگوں میں سے ایک ہیں؟ اگر آپ یسوع کے پاس آئیں اور اُسی پر بھروسہ کریں، تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ چُنے ہوؤں میں سے ایک ہیں، کہ آپ یہودیوں اور غیر یہودیوں کے کچھ باقی بچے ہوئے لوگوں میں سے ایک ہیں، ’’جنہیں خُدا نے اپنے فضل سے چُن لیا تھا۔‘‘ میں آج رات کو آپ سے محض ایمان کے وسیلے سے یسوع پر بھروسہ کرنے کے لیے التجا کرتا ہوں۔

اگر آپ یسوع پر بھروسہ کرنے اور اُسی کے وسیلے سے نجات پانے کے بارے میں ہمارے سے بات چیت کرنا چاہیں، تو ابھی اجتماع گاہ کی پچھلی جانب چلے جائیں۔ ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan آپ کومشاورت، اور دعا کرنے کے لیے ایک پُرسکون کمرے میں لے جائیں گے۔ ڈاکٹر چعین، مہربانی سے آج رات کو کسی کے یسوع پر بھروسہ کرنے کے لیے دعا کریں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھومی
Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: رومیوں11:‏1۔5، 25۔27 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’حیرت انگیز فضلAmazing Grace ‘‘ (شاعر جان نیوٹن John Newton ، 1725۔1807).

لُبِ لُباب

یہودیوں کی بحالی اور
غیر اقوام کا مسیحیت قبول کرنا

THE RESTORATION OF THE JEWS AND
THE CONVERSION OF GENTILES

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’بھائیو مجھے منظور نہیں کہ تم اس بھید سے ناواقف رہو اور اپنے آپ کو عقلمند سمجھنے لگو، وہ بھید یہ ہے کہ اسرائیل کا ایک حصہ کسی حد تک سخت دل ہو گیا ہے اور جب تک خدا کے پاس آنے والے غیر یہودیوں کی تعداد پوری نہیں ہو جاتی وہ ویسا ہی رہے گا۔ تب تمام اسرائیل نجات پائے گا۔ چنانچہ لکھا ہے چھڑانے والا صیون سے نکلے گا اور وہ بے دینی کو یعقوب سے دور کرے گا۔ اور میں اُن سے اپنا یہ عہد اُس وقت باندھوں گا جب میں اُن کے گناہ دور کر دوں گا‘‘ (رومیوں11:‏25۔27)۔

(خروج 3:‏14)

I.   اوّل، اُن یہودی لوگوں کا ایک حصہ کسی حد تک سخت دل ہو گیا ہے، بالکل ہم
میں سے اُن کی مانند جو غیر یہودی ہیں، رومیوں11:‏25، 1، 5، 14؛
رومیوں3:‏9۔11؛ 2۔کرنتھیوں3:‏16؛ افسیوں4:‏17۔18؛ رومیوں1:‏16 .

II.  دوئم، مستقبل میں تمام یہودی لوگ نجات پائیں گے،
رومیوں11:‏26؛ زکریا12:‏10؛ 13:‏1 .

III. سوئم، یہودی اور غیر یہودی آج اُسی طریقے سے نجات پاتے ہیں،
رومیوں11:‏23؛ 1کرنتھیوں12:‏13؛ افسیوں2:‏16؛
رومیوں1:‏16؛ 11:‏5 .