Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

شکنجۂ بائبل

THE GOSPEL VISE
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
14 جولائی، 2013، خُداوند کے دِن کی شام
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, July 14, 2013

’’پھر بھی تُم زندگی پانے کے لیے میرے پاس آنے سے اِنکار کرتے ہو‘‘ (یوحنا 40:5).


یہ تھا جو یسوع نے اُس دِن اُن بے اعتقادے یہودیوں سے کہا تھا۔ اُن کے پاس مذہب تھا لیکن اُن کے پاس یسوع نہیں تھا۔ اُس نے اُنہیں بہت سے ثبوت فراہم کیے کہ وہ ہی اُن کا خُدا کا بھیجا ہوا مسیحا تھا۔ لیکن اُنہوں نے پھر بھی اُس کو مسترد کیا۔

اگر آپ گھر پر یوحنا کا پانچواں باب پڑھیں، تو آپ دیکھیں گے کہ مسیح نے اُنہیں یاد دلایا تھا کہ اُس کی گواہی یوحنا بپتسمہ دینے والے نے دی تھی۔ اور سب عام لوگ یقین کرتے تھے کہ یوحنا ایک نبی تھا۔ یوحنا نے مسیح کی گواہی دی تھی جب اُس نے کہا، ’’یہ خُدا کا برّہ ہے جو دُنیا کے گناہ اُٹھا لے جاتا ہے‘‘ (یوحنا29:1)۔ اور اِس کے باوجود بے اعتقادوں کے اِس گروہ نے یوحنا کی گواہی کو مسترد کیا تھا۔

اِس کے بعد، یسوع نے کہا تھا کہ اُس کے معجزے اور دوسرے کام ثابت کرتے ہیں کہ وہ ہی مسیحا تھا۔ اُس نے کہا، ’’جو کام خُدا نے مجھے انجام دینے کے لیے سونپے ہیں اور جنہیں میں انجام دے رہا ہوں وہ میرے گواہ ہیں کہ مجھے باپ نے بھیجا ہے‘‘ (یوحنا36:5)۔ مسیح کے معجزے اور حیرت انگیز کام جو اُس نے سرانجام دیے، واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ہی مسیحا تھا۔

اِس کے علاوہ بھی، یسوع نے کہا، ’’اور باپ جس نے مجھے بھیجا ہے خود اُسی نے میرے حق میں گواہی دی ہے‘‘ (یوحنا37:5)۔ حالانکہ وہ آدمی جن سے اُس نے بات کی تھی اُنہوں نے خُدا کی آواز نہیں سُنی تھی، دوسرے لوگ جنہیں وہ جانتے تھے اُنہوں نے خُدا کو کہتے سُنا تھا، ’’تُو میرا پیارا بیٹا ہے، تجھ سے میں بہت خوش ہوں‘‘ (لوقا22:3)۔ اِس کے بارے میں چہ مگوئیاں ہوئی تھیں، اور ہر کوئی جس سے اُس [یسوع] نے اُس دِن بات کی تھی جانتا تھا کہ بالکل خُدا ہی کی آواز نے یسوع کے بارے میں اُس کا بیٹا ہونے کا اعلان کیا تھا۔

پھر یسوع نے اُنہیں یاد دلایا تھا کہ وہاں ایک چوتھی گواہی اُنہیں بتا رہی تھی کہ یسوع ہی مسیح اُن کا مسیحا اُنہیں بچانے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ چوتھی گواہی خود بائبل تھی، پرانے عہد نامے کے ضحائف، جس کی وہ گھنٹوں عرق ریزی کرتے ہیں، جس کے بڑے بڑے حصے اُن کو زبانی یاد تھے۔ یسوع نے اُنہیں بتایا کہ ’’تم پاک کلام کا بڑا گہرا مطالعہ کرتے ہو ... یہی پاک کلام میرے حق میں گواہی دیتا ہے۔ پھر بھی تم زندگی پانے کے لیے میرے پاس آنے سے اِنکار کرتے ہو‘‘ (یوحنا39:5، 40)۔

مہربانی سے یہ بات سمجھ لیں کہ یہ ایک غیر سامی بیان نہیں ہے۔ مذہبی امور کو سنبھالنے والوں کی حیثیت سے، ہم یقین کرتے ہیں کہ خُدا کا ابھی بھی اسرائیل کے ساتھ ایک زمینی عہد ہے۔ اِس لیے ہم غیر سامیت کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ ہم اسرائیل کی قوم کی تائید کرتے ہیں۔ ہم نجات دہندہ کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن ہم ’’مسیح کی خوشخبری سے شرمندہ نہیں ہیں: کیونکہ وہ ہر ایمان لانے والے کے لیے خُدا کی قدرت ہے؛ پہلے یہودیوں کے لیے پھر غیر یہودیوں [یونانیوں] کے لیے بھی‘‘ (رومیوں16:1)۔ یسوع ہر اُس کو جو اُس پر بھروسہ کرتا ہے بچانے کے لیے آیا تھا، چاہے وہ یہودی ہو چاہے غیر قوم کا۔ لیکن پھر بھی اگر وہ اُس پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں، ہم تب بھی غیر سامیت کے بُرائی کے خلاف، اسرائیل اور یہودیوں کے ساتھ ہی کھڑے ہیں۔

اب ہم اُن بے اعتقادے یہودیوں کی طرف سے منہ موڑ لیں گے جن سے اُس دِن یسوع نے بات کی تھی۔ اِس کے بجائے ہم آج رات کو آپ میں سے اُن کی طرف رُخ کریں گے جو کہ یقین نہ کرنے والے غیر اقوام کے ہیں۔ آپ جو کہ آج شب کو یہاں پر ہیں آپ کے پاس یہی ثبوت ہے کہ یسوع مسیح ہے، جو خُدا کا بھیجا ہوا نجات دہندہ ہے۔ آپ کے پاس یوحنا بپتسمہ دینے والے کی گواہی ہے۔ آپ کے پاس مسیح کے معجزوں کی گواہی ہے۔ آپ کے پاس آسمان سے خُدا کی آواز کی گواہی موجود ہے۔ اور آپ کے پاس مقدس پاک کلام کی گواہی ہے۔ یہ تمام کی تمام گواہیاں کہتی ہیں کہ یسوع ناصری ہی وعدہ کیا گیا گنہگاروں کا اکلوتا اور واحد نجات دہندہ اور مخلصی دینے والا ہے۔

اُن یہودیوں کے لیے جن سے اُس دِن یسوع نے بات کی تھی بدترین بات یہ تھی کہ اُن کے پاس وہ تمام گواہیاں ہو سکتی تھیں اور اِس کے باوجود وہ دائمی زندگی کے لیے یسوع کے پاس آنے سے انکاری تھے! اور اِسی لیے اُس نے اُن سے کہا،

’’تُم پاک کلام کا بڑا گہرا مطالعہ کرتے ہو کیونکہ تُم سمجھتے ہوکہ اُس میں تمہیں ہمیشہ کی زندگی ملے گی۔ یہی پاک کلام میرے حق میں گواہی دیتا ہے۔ پھر بھی تُم زندگی پانے کے لیے میرے پاس آنے سے اِنکار کرتے ہو‘‘ (یوحنا 40،39:5).

آپ کے پاس شاید کوئی بہانہ ہو اگر آپ ایک خُدا پر ایمان نہ رکھنے والے مُلک میں رہ رہے ہوں، جیسے کہ سابقہ سویت یونین۔ لیکن میں یہ واقعہ پاسبان کلیسیا رچرڈ وورمبرانڈRichard Wurmbrand میں سے پڑھ رہا ہوں، جو کہ یسوع پر ایمان رکھنے والے ایک یہودی تھے۔ وورمبرانڈ ایک لوتھرن مذہبی رہنما تھے جنہوں نے چودہ سال رومانیہ کی ایک کیمونسٹ قید میں خوشخبری کی منادی کرنے کے لیے گزارے تھے۔ پادری وورمبرانڈ نے سائیبیریا سے ایک نوجوان مصور کے بارے میں بتایا جسے وہ اپنے قید ہونے سے پہلے ملے تھے۔ وورمبرانڈ رومانیوی زبان کے ساتھ ساتھ روسی بھی بالکل درست بولتے تھے۔ جب وہ بات کر رہے تھے، تو نوجوان روسی نے اُنہیں بتایا،

      میں صرف وہ ہی جانتا ہوں جو وہ ہمیں سکول میں پڑھاتے تھے، کہ مذہب سامراجیت کا ایک اوزار ہے، اور وغیرہ وغیرہ۔ لیکن میں اپنے گھر کے قریب ایک پرانے قبرستان سے گزرا کرتا تھا، جہاں پر میں تنہا ہو سکتا تھا۔ میں اکثر قبروں کے درمیان میں ایک چھوٹے سے متروکہ مکان میں جایا کرتا تھا‘‘ (وورمبرانڈ نے کہا، ’میں سمجھ سکتا ہوں کہ یہ ایک قبرستان کی روسی اورتھوڈکس عبادت گاہ تھی۔‘ نوجوان آدمی بات جاری ررکھتا ہے)۔
      ’’وہاں دیوار پر صلیب پر کیلوں سے جڑے ایک آدمی کی تصویر تھی۔ میں نے سوچا، ’ایسی سزا دی جانے کے لیے یہ ضرور کوئی بہت بڑا مجرم رہا ہوگا۔‘ لیکن اگر وہ مجرم تھا، تو پھر کیوں اِس تصویر کو عزت کا مقام ملا ہوا ہے – جیسے کہ یہ مارکس Marx یا لینین Lenin ہو؟ میں نے فیصلہ کیا کہ اُنہوں نے پہلے اِس کو مجرم تصور کیا ہوگا، اور بعد میں پایا ہوگا کہ وہ معصوم تھا، اور اِس لیے اِس کی تصویر ندامت میں لگا دی [دُکھ اور پچھتاوا]۔‘‘
      [وورمبرانڈ نے کہا] میں نے مصور کو بتایا، ’’تم سچائی کے آدھے نزدیک پہنچ گئے ہو۔‘ جب ہم گھنٹوں بعد اپنی منزل مقصود پر پہنچے، تو وہ یسوع کے بارے میں وہ سب کچھ جان چکا تھا جو میں اُس کو بتا سکتا تھا۔ جب ہم جُدا ہوئے، تو اُس نے کہا، ’میں نے آج رات کو کچھ چرانے کا منصوبہ بنایا ہے، جیسا کہ ہم سب کرتے ہیں۔ اب میں کیسے کر سکتا ہوں؟ میں مسیح میں یقین کرتا ہوں۔‘ (رچرڈ وورمبرانڈ، ٹی ایچ۔ڈی۔ Richard Wurmbrand, Th.D.، خُدا کے زیر زمین In God’s Underground، جیتی جاگتی قربانی کی کتابیں Living Sacrifice Books، اشاعت 2004، صفحات 25، 26)۔

سویت یونین کے شکست کھانے کے بالکل بعد ہم روسی نوجوانوں کے درمیان بار بار اِس قسم کا ردعمل سُنتے ہیں۔ اور بلا شبہ ہم چین، انڈیا اور افریقہ میں کروڑوں نوجوان لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے بارے میں جانتے ہیں جو کہ اِس زمانے میں، بالکل ابھی یسوع کے لیے دِل سے مسیحی ہو رہے ہیں۔ اور یہ نئے مسیحی میں تبدیل شُدہ لوگ اُس نوجوان روسی مصور کے ساتھ کہتے ہیں، ’’اب میں کیسے وہ گناہ سرزد کر سکتا ہوں؟ میں مسیح میں یقین کرتا ہوں۔‘‘

کیا ہم اِس قسم کا ردعمل امریکہ میں دیکھتے ہیں؟ جی نہیں، ہم نہیں دیکھتے ہیں۔ کبھی کوئی دور تھا جب ہم دیکھتے تھے، لیکن اب یہ اختتام پزیر ہو چکا ہے۔ ’’تحریک یسوع‘‘ انیس سو ساٹھ کی دہائی کے وسعت میں شروع ہوئی تھی۔ اگلی ہی رات مسٹر گریفتھ Mr. Griffith نے مجھے بتایا جب یہ ختم ہوا۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ اکثریت کے سبق کے ساتھ ختم ہوا تھا، جب جیری فال ویل Jerry Falwell سفید فام درمیانی عمر کی امریکیوں کے خوفوں کے لیے دلال بنا ہوا تھا اور اُنہیں اُن نوجوان لوگوں کے خلاف کر دیا تھا جن کا دِل وہ مثبت خوشخبری کے پیغام کے ساتھ جیت سکتے تھے۔ مسٹر گریفتھ نے کہا کہ جیری فال وے نے تحریک یسوع کا قتل کیا۔ یہ شاید تھوڑی سی مبالغہ آرئی میں آ گیا ہو، لیکن میرے خیال میں وہ کسی کھوج میں ہیں۔ جیک ھائیلز Jack Hyles نے بھی کسی قسم کی مدد نہیں کی تھی۔ اُس نے تار کے کناروں والی عینک کے خلاف منادی کی (کیونکہ جان لینن John Lennon اُنہیں پہنتے تھے) جب کہ اُن کا اپنا بیٹا اُن کے گرجہ گھر میں لڑکیوں کے پیچھے جنگلی سور کی مانند ہوتا تھا۔ ھائیلز، فال وے اور اِسی طرح کے مبلغین نے نوجوان لوگوں کو ہمارے گرجہ گھروں سے دور کیا تھا۔ وہ محسوس کرتے تھے کہ دُنیا میں بچوں کے خلاف منادی کرنے سے اُنہیں اپنے گرجہ گھروں میں اپنے بچوں کی حفاظت کرنی تھی۔ لیکن یہ کلام مقدس کے مطابق حکمت عملی نہیں تھی۔ یہ نہیں تھا جو ابتدائی کلیسیا نے کیا تھا، یا تجدید نو کے دور میں کسی خوشخبری کی منادی کرنے والے نے کیا تھا۔ نتیجتاً، اُنہوں نے نا صرف دُنیا میں بچوں کو کھو دیا بالکہ 88 % خود اپنے گرجہ گھر کے بچوں کو کھو دیا، رائے شماری کرنے والے جارج برنا Geroge Barna کے مطابق اِن بچوں نے ’’کبھی واپس نہ آنے کے لیے‘‘ اُن کے گرجہ گھر چھوڑ دیے۔

اب وہ اُن نوجوان لوگوں کو پانا چاہتے ہیں، لیکن اب بہت تاخیر ہو گئی ہے۔ اب خُدا ’’اُن سے دور ہو چکا ہے‘‘ (ہوسیع6:5)۔ آپ نے نسل میں ایک بار، خُدا کی صرف ایک چھوٹی سے حرکت کا تجربہ کیا ہے جیسے کہ ’’تحریک یسوع Jesus Movement‘‘، اگر کوئی تھی۔ اب ’’ترقی یافتہ‘‘ پبتسمہ دینے والے، نوجوان لوگوں کو چمکتی روشنیوں، عجیب و غریب موسیقی اور ’’مسیحی‘‘ خوش آمدید کرنے والی لڑکیوں کے ساتھ اپنے پاس لانے کی کوشش کرتے ہیں! بہت تاخیر ہو گئی ہے! کچھ بھی ’’کام‘‘ نہیں آئے گا! اب خُدا کہتا ہے،

’’پھر جب تک وہ اپنے گناہوں کا اقرار نہیں کرتے میں اپنے مقام کو واپس چلا جاؤں گا۔ وہ میرا چہرہ ڈھونڈیں گے؛ اور اپنی مصیبت میں بڑی سر گرمی سے مجھے ڈھونڈیں گے‘‘ (ہوسیع 15:5).

ذاتی طور پر، میرا نہیں خیال کہ ہم امریکہ کے زوال میں آنے کے بعد تک ہمارے نوجوان لوگوں کے درمیان خُدا کے کسی اور اقدام کو دیکھ پائیں گے۔جی ہاں، امریکہ پر زوال آئے گا، آپ جانتے ہیں! میں نہیں سوچ سکتا کہ امریکہ کے زوال میں آنے کے بعد تک خُدا ہمارے نوجوان لوگوں کے درمیان ایک اور تجدید نو کا دور بھیجے گا۔ میں شاید غلط بھی ہو سکتا ہوں، لیکن میں نہیں سوچتا کہ میں ہوں۔ صرف تب ہی ہمیں احساس ہو گا کہ جیک ھائیلز اور جیری فال وے نے 1980 اور 1970 کی دہائیوں میں امریکہ کے نوجوان لوگوں کے ساتھ کیا کِیا تھا۔ مہربانی سے سمجھنے کی کوشش کریں کہ میں مکمل طور پر ڈاکٹر فال وے کے خلاف نہیں ہوں، لیکن اُنہوں نے واقعی میں کچھ غیردانشمندانہ باتیں اُس دور میں کی تھیں۔

یہی تھا جو مسیح کے دور میں ہوا تھا۔ بہت سے یہودی نوجوان لوگ مسیح کے پاس آ رہے تھے اور نجات پا رہے تھے۔ لیکن مذہبی رہنماؤں نے اُس تحریک پر اِس خوف سے حملہ کیا کہ وہ اپنی قوم کو کھو دیں گے (یوحنا48:11)۔ مسیح کو مسترد کر دینے سے اُنہوں نے اِسے پھر بھی تو کھو ہی دیا – بالکل جیسے امریکی آج اپنی قوم کو کھو رہے ہیں!

اِس لیے، اگر آپ شمالی امریکہ میں ایک نوجوان شخص ہیں، یا مغرب میں کہیں پر بھی، تو اِس کا زیادہ امکان نہیں ہے کہ آپ نجات پا جائیں گے۔ اِس کا زیادہ امکان نہیں ہے کہ آپ یسوع کے پاس آ جائیں گے جیسے اُس نوجوان مصور نے کیا تھا۔ خُدا اب امریکہ میں اور مغرب میں عام طور پر قوت کے ساتھ کام نہیں کر رہا ہے۔ وہ ’’اُن سے دور ہو چکا ہے‘‘ (ہوسیع6:5)۔ اور یسوع آج رات کو آپ سے کہتا ہے،

’’پھر بھی تُم زندگی پانے کے لیے میرے پاس آنے سے اِنکار کرتے ہو‘‘
(یوحنا 40:5).

کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ یسوع کے پاس نہیں آسکتے ہیں جب تک کہ خُدا آپ کو نہ لائے؟ یسوع نے خود اِس بات کو واضح کیا تھا جب اُس نے کہا،

’’میرے پاس کوئی نہیں آتا جب تک کہ باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اُسے کھینچ نہ لائے‘‘ (یوحنا 44:6).

اور خُدا بہت کم نوجوان لوگوں کو امریکہ میں اور مغرب میں اِس وقت کھینچ رہا ہے۔ آپ کے لیے یسوع کے پاس آنا کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا۔ جی ہاں، اِس بدکار دور میں آپ کے لیے نجات پانا ایک معجزہ سے کم نہیں ہوگا۔

ستاروں کو اپنی جگہ پر رکھنے کے لیے ایک معجزہ ہوا تھا،
   خلا میں دُنیا کو لٹکانے کے لیے ایک معجزہ ہوا تھا؛
لیکن جب اُس نے میری جان کو بچایا، پاک صاف کیا اور مجھے مکمل کیا،
   تو پیار اور فضل کا ایک معجزہ ہوا تھا!
(’’ایک معجزہ ہوا تھا It Took a Miracle‘‘ شاعر جان ڈبلیو۔ پیٹرسن J1921 ، John W. Peterson۔2006).

میں آپ میں سےکچھ کو تفتیشی کمرے میں لڑکھڑاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ آپ کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر حرکت کرتے ہیں – زومبیز کی مانند – پیدل چلتے ہوئے مردوں کی مانند (افسیوں1:2، 5)۔ لیکن آپ یسوع کے جانب آنے کے لیے بالکل بھی کوئی ترقی نہیں کرتے ہیں – بالکل بھی نہیں! بالکل بھی نہیں! ایسا کیوں ہے؟ یسوع نے کہا،

’’میرے پاس کوئی نہیں آتا جب تک کہ باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اُسے کھینچ نہ لائے‘‘ (یوحنا 44:6).

لیکن اب خُدا ’’اُن سے دُور ہو چُکا ہے‘‘ (ہوسیع 6:5).

چین میں نوجوان لوگوں کا یسوع کے پاس آنا کس قدر آسان ظاہر ہوتا ہے! سینکڑوں ہر روز اُس کے پاس آتے ہیں! لیکن جیسے ہی چینی طالب علم امریکہ میں آتے ہیں تو یہ ہوتا ہی نہیں ہے۔ کیوں؟ کیونکہ اُنہوں نے چین میں خُدا کی برکات کے علاقے کو چھوڑ دیا تھا، اور یہاں پر ہجرت کر لی تھی، ایک ایسے علاقے میں جہاں خُدا ’’اُن سے دور ہو چکا ہے۔‘‘ ہم سچی مچی میں ہزاروں لاکھوں کو چین میں – آنسوؤں کےساتھ یسوع کے پاس آتے ہوئے دیکھتے ہیں اور مسرت کے ساتھ نجات پاتے ہوئے دیکھتے ہیں! لیکن صرف چین میں! ہم چینی طالب علموں کے درمیان جب وہ امریکہ میں آتے ہیں ایسی کسی تحریک کے بارے میں نہیں جانتے۔

ڈاکٹر کینتھ کونلی Dr. Kenneth Connolly تاریخی تجدید نو کے ایک طالب علم تھے۔ ایک بات جو ڈاکٹر کونلی نے محسوس کی یہ تھی کہ تجدید نو میں لوگ ہمیشہ ’’چُنیدہ‘‘ ہوتے ہیں۔ اُن کا مطلب یہ تھا کہ وہ صرف ایک مخصوص لوگوں کے گروہ کو چھوتا ہے۔ چین میں، ہر گھنٹے میں – ہر رات اور دن میں – 700 نوجوان لوگوں سے زیادہ یسوع کے پاس آتے ہیں – جدید دور کے عظیم ترین تجدید حیات نو میں۔ لیکن جب چینی طالب علم یہاں پر آتے ہیں تو وہ بہت کم ہی نجات پاتے ہیں! ہم نے کبھی بھی ایک بھی چینی طالب علم کو نہیں دیکھا جو یہاں پر آیا ہو اور ہمارے گرجہ گھر میں نجات پائی ہو – ایک کو بھی نہیں! وہ خُدا کے برکات کے علاقے سے نکل کر ریاست ہائے متحدہ اور یورپ کے روحانی موت کے علاقے میں آ چکے ہیں۔ اور بہت کم نوجوان لوگ کسی بھی تہذیبی گروہ میں سے اِس بدکار دور میں مغرب اور امریکہ میں نجات پاتے ہیں۔ وجوہات میں سے ایک ’’فیصلہ سازیت‘‘ کا جھوٹا عقیدہ ہے۔ ڈاکٹر چارلس ہاج Dr. Charles Hodge نے ’’فیصلہ سازیت‘‘ کی اِس بہت بڑی غلطی کو واضح کیا جب اُنہوں نے کہا،

اِس عقیدے کے مقابلے میں کہ گنہگار خُود کی دوبارہ اصلاح کر سکتے ہیں، اور جب وہ چاہیں توبہ کر سکتے ہیں اور ایمان لا سکتے ہیں کوئی مذید اور اچھا لوگوں کو تباہ و برباد کرنے والا عقیدہ نہیں ہو سکتا۔ وہ جو واقعی میں اِس قسم کے عقیدے کو قبول کرتے ہیں کبھی بھی اُس واحد منبع کو استعمال نہیں کرتے جہاں سے یہ برکات در حقیقت میں حاصل کی جا سکتی ہیں (چارلس ہاج، پی ایچ۔ ڈی۔ Charles Hodge, Ph.D.، سلسلہ بہ سلسلہ علم الہٰیات Systematic Theology، ھینڈرِکسن اشاعت خانے Hendrickson Publishers، اشاعت 1999، جلد دوئم، صفحہ 277)۔

آیئے، اب کام کی بات کی طرف واپس چلیں۔ کیا آپ اِن دو آیات میں کشمکش دیکھتے ہیں؟

’’پھر بھی تُم زندگی پانے کے لیے میرے پاس آنے سے اِنکار کرتے ہو‘‘
(یوحنا 40:5)،

اور

’’میرے پاس کوئی نہیں آتا جب تک کہ باپ جس نے مجھے بھیجا ہےاُسے کھینچ نہ لائے‘‘ (یوحنا 44:6).

میں یہ آپ کے لیے آسان کرنے کی کوشش نہیں کروں گا۔ یہاں پر ایک کشمکش ہے!حقیقت میں آپ کو یسوع کے پاسچئے جانے کے لیے آنا چاہیے – لیکن آپ اُس کے پاس آ نہیں سکتے ہیں جب تک کہ باپ آپ کو کیھنچ نہ لائے۔ یہ آپ کو کہاں پر چھوڑ جاتا ہے؟ یہ آپ کو ایک کھوئی ہوئی حالت میں چھوڑ جاتا ہے! یہ ہے جس کا مطلب کھوئے ہوئے ہونا ہوتا ہے! آپ کو بچائے جانے کے لیے یسوع کے پاس آنا چائیے – لیکن آپ اُس وقت تک نہیں آ سکتے جب تک کہ خُدا آپ کو کھینچ نہ لائے۔ یہ ایک حقیقی کشمکش کو پیش کرتا ہے! یہ آپ کو ظاہر کرتا ہے کہ کھوئے ہوئے ہونے کا کیا مطلب ہوتا ہے! اگر آپ سوچتے ہیں کہ آپ کچھ سیکھنے یا اپنے آپ خود سے کچھ کرنے سے بچائے جا سکتے ہیں، تو آپ کبھی بھی نجات نہیں پائیں گے۔ جیسا کہ ڈاکٹر ہاج Dr. Hodge نے کہا، ’’وہ جو واقعی ہی میں اِس قسم کے عقیدے کو قبول کرتے ہیں [کہ آپ بچائے جانے کے لیے کچھ سیکھ سکتے ہیں یا کچھ کر سکتے ہیں] کبھی بھی اُس واحد منبع کو استعمال نہیں کرتے جہاں سے یہ برکات درحقیقت میںحاصل کی جا سکتی ہیں۔‘‘

آپ کو مسیح کے پاس آنا چاہیے – لیکن آپ مسیح کے پاس آ نہیں سکتے ہیں! اِس ہی کو ’’شکنجۂ خوشخبری‘‘ کہا جاتا ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ آپ نہیں سوچیں گے کہ آپ پہلے شخص ہیں جو ’’شکنجۂ خوشخبری‘‘ میں جکڑے گئے ہیں۔ جان بنیعن John Bunyan (1628۔1688) 18 ماہ کے لیے اِس شکنجے میں جکڑا گیا تھا۔ نوجوان سپرجیئن Young Spurgeon اِس شکنجے میں کم از کم سات سالوں تک رہے تھے۔ آپ خُدا کی طرف سے اِس ’’شکنجے‘‘ میں جکڑے گئے ہیں۔ ’’میں نہیں ہو سکتا، لیکن مجھے ہونا چاہیے!‘‘ یہ آپ کی حالت ہے۔ خُدا نے آپ کو اُس شکنجے میں کسی وجہ سے ڈالا ہے۔

شکنجہ ایک اوزار ہے جو میکنک کی کام کرنے والی میز کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ یہ سٹیل کے جبڑوں پر مشتمل ہوتا ہے جو ایک لیور یا ایک سکریو کی مدد سے ہلایا جاتا ہے۔ یہ کسی چیز کو دو دھاتی جبڑوں کے درمیان جکڑنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ’’شکنجۂ خوشخبری‘‘ اُس وقت دیکھا جاتا ہے جب خُدا آپ کو ’’میں نہیں ہو سکتا، لیکن مجھے ہونا چاہیے!‘‘ کے درمیان جکڑتا ہے۔ اگر دباؤ آپ کے لیے ناقابل برداشت ہو جاتا ہے، تو آپ شاید رونے پر آجائیں، ’’ہائے میں کیسا بدبخت آدمی ہوں، مجھے اِس موت کے پنجے سے کون چھڑائے گا؟‘‘ (رومیوں24:7)۔ جب آپ ایسا محسوس کرتے ہیں تو آپ بیدار ہوتے ہیں، اور یہ عام طور پر آپ کا یسوع کے لیے ’’خُداوندا، مجھے بچا لے!‘‘چلا اُٹھنے کے زیادہ دیر بعد تک نہیں ہوگا۔ یوں ہی مسیح میں معیاری تبدیلی وقوع ہوتی ہے۔ ایسے ہی آگسٹین،لوتھر، ویزلی اور وائٹ فیلڈ مسیح میں تبدیل ہوئے تھے۔ اِس سے قبل آپ جو کچھ بھی کرتے ہیں صرف تعارفی طور پر بہتر ہوتا ہے اور ادھر اُدھر کی ہانکنا بدترین ہوتا ہے۔ خُدا شکنجے میں لیِور کو گھوما رہا ہوتا ہے۔ وہ سکریو کو موڑ رہا ہوتا ہے اور شکنجے کے جبڑوں کو کس رہا ہوتا ہے۔ کیا آپ دباؤ محسوس کررہے ہیں؟ کیا آپ اب بھی نچوڑتا ہوا محسوس کر رہے ہیں؟

آپ کو زندگی پانے کے لیے یسوع کے پاس آنا چاہیے۔ لیکن آپ اُس کے پاس خود اپنی قوت سے نہیں آ سکتے۔ آپ کو آنا چاہیے – مگر آپ آ نہیں سکتے! آپ کھوئے ہوئے ہیں! یسوع کے لیے چلائیں! وہ تنہا ہی آپ کو بچا سکتا ہے! وہ تنہا ہی آپ کے گناہ کو معافی دے سکتا ہے! وہ تنہا ہی آپ کو دائمی زندگی دے سکتا ہے! وہ تنہا ہی آپ کو خوشخبری کے شکنجے میں پستا محسوس کرنے سے بچا سکتا ہے! یسوع کے لیے چلائیں! اُس کا رحم پانے کے لیے گر پڑیں! وہ آپ کے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے صلیب پر مرا تھا۔ وہ آپ کے زندگی دینے کےلیے مُردوں میں سے جی اُٹھا! میں آج شب آپ کے ساتھ التجا کرتا ہوں – یسوع کے پاس آئیں اور ابھی آئیں! اپنے آپ کو خُدا کے بیٹے کے حوالے کر دیں! ڈاکٹر آئزک واٹز کو سُنیں،

ایک قصور وار، کمزور اور لاچار کیڑا،
   مسیح کے شفیق ہاتھوں میں مَیں گِرا؛
وہ میری قوت اور راستبازی ہے،
   میرا یسوع اور میرا سب کچھ۔
(’’قدرتاً ہماری حالت کس قدر غمگین ہے!How Sad Our State by Nature Is!‘‘ شاعر ڈاکٹر
آئزک واٹز J1674 ، Dr. Isaac Watts۔1748؛ “O Set Ye Open unto Me” کی طرز پر)۔

اگر آپ ہمارے ساتھ یسوع کےذریعے سے نجات پانے کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں، تو مہربانی سے ابھی اپنی نشست چھوڑیں اور اجتماع گاہ کی پچھلی جانب چلے جائیں۔ ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan آپ کو ایک پُرسکون مقام پر لے جائیں گے جہاں پر ہم بات چیت اور دعا کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر چیعن Dr. Chan، مہربانی سے آئیں اور آج رات کو کسی نہ کسی کے نجات پانے کے لیے دعا کریں۔ آمین۔

(اختتام واعظ)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظwww.realconversion.com.ڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھومی Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی:
یوحنا31:5۔40 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’میرے پاس آؤ Come Unto Me‘‘ (شاعر چارلس پی۔ جونز J1865 ، Charles P. Jones۔1949)۔