Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

تخلیق سے تابوت تک

(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 75)
FROM CREATION TO A COFFIN
(SERMON #75 ON THE BOOK OF GENESIS)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ
17 مارچ، 2013، خُداوند کے دِن کی شام
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, March 17, 2013

’’تب یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا، میں مرنے کو ہوں: لیکن خُدا یقیناً تمہاری مدد کرے اور تمہیں اِس ملک سے نکال کر اُس ملک میں پہنچائے گا جسے دینے کا وعدہ اُس نے قسم کھا کر ابراھام، اضحاق اور یعقوب سے کیا تھا۔ اور یوسف نے بنی اسرائیل سے قسم لے کر کہا، خُدا یقیناً تمہیں یاد کرے گا، اور تب تم ضرور ہی میری ہڈیوں کو یہاں سے لے جانا۔ اور یوسف نے ایک سو دس برس کا ہو کر وفات پائی: اور اُنہوں نے اُس کی لاش میں خوشبودار مسالے بھر کر اُسے مصر ہی میں ایک تابوت میں محفوظ کردیا‘‘ (پیدائش50:‏24۔26)۔

پیدائش کی کتاب آغاز کی کتاب ہے۔ اِس لفظ ’’تکوین Genesis‘‘ کا مطلب ’’پیدا ہونا‘‘ یا ’’وجود میں آنا‘‘ ہوتا ہے۔ وہ قدیم ربّی جنہوں نے اِس کا یونانی میں ترجمہ کیا، اِس کو ’’پیدائش‘‘ کہتے تھے کیونکہ یہ اِن الفاظ کے ساتھ شروع ہوتی ہے، ’’شروع میں خُدا نے آسمان اور زمین کو تخلیق کیا‘‘ (پیدائش1:1)۔ پیدائش کی کتاب زمین اور آسمان کے وجود میں آنے کی تفصیل بیان کرتی ہے – اور اِس کے ساتھ ساتھ نباتات، جانوروں اور انسانی زندگی کے آغاز کو بھی بیان کرتی ہے۔ لہٰذا پیدائش کی کتاب زندگی کی کتاب ہے!

لیکن یہ موت کی کتاب بھی ہے۔ موت کا نقطۂ آغاز پیش کیا گیا ہے۔ موت کے ناخوشگوار تاثرات بیان کیے گئے ہیں۔ گناہ اور موت کے تعلق کی وضاحت کی گئی ہے۔ چوتھے باب میں پہلی موت کا اندراج ھابل کے قاتل کی صورت میں موجود ہے۔ پانچویں باب میں نہایت قدیم خاندان کے سربراہوں کی اموات کی فہرست موجود ہے۔ چھٹے باب میں سیلاب میں، نوح اور اُس کے خاندان کو مثتثنیٰ کر کے باقی تمام نسل انسانی کی موت کا اندراج ہے۔ موت اور زندگی کی یہ دونوں مرکزی موضوع پیدائش کی تمام کتاب میں بیان کیے گئے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ نتھی [بُنے] ہیں۔

آج رات میرا یہ مقصد ہے کہ ہماری تلاوت میں یوسف کی موت پر حول بین کی طرح سے توجہ مرکوز کی جائے، ایک چھوٹا سا حوالہ جو موت اور زندگی کی اُن سچائیوں کو منور کرتا ہے۔

’’تب یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا، میں مرنے کو ہوں: لیکن خُدا یقیناً تمہاری مدد کرے اور تمہیں اِس ملک سے نکال کر اُس ملک میں پہنچائے گا جسے دینے کا وعدہ اُس نے قسم کھا کر ابراھام، اضحاق اور یعقوب سے کیا تھا۔ اور یوسف نے بنی اسرائیل سے قسم لے کر کہا، خُدا یقیناً تمہیں یاد کرے گا، اور تب تم ضرور ہی میری ہڈیوں کو یہاں سے لے جانا۔ اور یوسف نے ایک سو دس برس کا ہو کر وفات پائی: اور اُنہوں نے اُس کی لاش میں خوشبودار مسالے بھر کر اُسے مصر ہی میں ایک تابوت میں محفوظ کردیا‘‘ (پیدائش50:‏24۔26)۔

پیدائش کی کتاب باغ عدن میں زندگی کی تخلیق سے شروع ہوتی ہے اور اِس کا اختتام ’’مصر میں ایک تابوت‘‘ میں ہوتا ہے (پیدائش 50:‏26)۔ یہ اِس قدر چھو جانے والا ہے کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ ہمیں موت کے منفی پیغام سے شروع کرنا چاہیے، اور زندگی کے مثبت پیغام کے ساتھ ختم کرنا چاہیے۔

I۔ اوّل، پیدائش شفاف طریقے سے گناہ اور موت کی شریعت بیان کرتی ہے۔

پولوس رسول رومیوں 8:‏2 میں ’’گناہ اور موت کی شریعت‘‘ کی بات کرتا ہے۔ گناہ اور موت کی شریعت کا سادہ سے مطلب ’’گناہ کی اُجرت موت ہے‘‘ ہوتا ہے (رومیوں6:‏23)۔ گناہ اور موت کی شریعت کہتی ہے، ’’جو جان گناہ کرے گی وہی مرے گی‘‘ (حزقی ایل 18:‏4)۔ اب یہی تھا جو خُدا نے ہمارے پہلے والدین کو بتایا تھا۔ اُن نے اُنہیں منع کیے ہوئے پھل کو کھانے کی تنبیہہ کی تھی، ’’کیونکہ جب تو اِسے کھائے گا تو یقیناً مر جائے گا‘‘ (پیدائش2:‏17)۔ وہ گناہ اور موت کی شریعت تھی۔ خُدا نے زور دے کر کہا، ’’اگر تو یہ گناہ کرے گا تو مر جائے گا۔‘‘ لیکن اُنہوں نے خُدا کا یقین نہیں کیا۔ اِس لیے اُنہوں نے کھایا، اور پھر مر گئے!

جب میں بچہ تھا تو میری ماں ہر دوپہر کو ایک چھوٹے سے لڑکے جس کی عُرفیت ’’مسخرہ‘‘ تھی خیال کیا کرتی تھیں۔ چولہا جل رہا تھا، اور ماں نے کہا، ’’مسخرے، اپنی انگلی آگ میں مت ڈالو ورنہ یہ جل جائے گی۔‘‘ بلاشبہ، مسخرے جیسے نام کے ساتھ، آپ جانتے ہیں کیا ہوا! اُس نے اپنی انگلی آگ میں ڈال دی اور پھر چیخنا شروع کر دیا۔ ماں نے کہا، ’’میں نے تمہیں بتایا تھا کیا ہوگا۔‘‘ جی ہاںِ، لیکن اُس نے سُنا نہیں تھا۔ اُس نے اپنی انگلی آگ میں پھنسا لی اور وہ جل گئی۔ یہ گناہ اور موت کی شریعت کی عکاسی کرتی ہے۔ خُدا نے کہا، ’’جس دِن تو اِسے کھائے گا تو یقیناً مر جائے گا۔ اُنہوں نے اُس کا یقین نہیں کیا تھا۔ اِس لیے انہوں نے اِس کو کھایا تھا۔ اور اِسی لیے وہ مرے تھے۔ یہ گناہ اور موت کی شریعت ہے! کوئی کہہ سکتا ہے، ’’یہ غیر جانبدارانہ نہیں ہے!‘‘ معاف کیجیے گا، غیر جانبداری کا اِس سے کوئی تعلق نہیں ہے! اگر آپ اپنی انگلی آگ میں پھنسا لیں گے تو وہ جل جائے گی۔ یہ ہی جواز اور نتیجے کا قانون ہے۔ اگر آپ ایک پتھر اوپر ہوا میں پھینکیں گے، تو وہ نیچے ہی آئے گا۔ یہ کشش ثقل کا قانون ہے۔ اگر آپ اوپر ہوا میں ایک پتھر پھینکیں گے اور وہ نیچے آتا ہے اور سر کے بالائی حصے پر لگتا ہے، تو آپ نہیں کہہ سکتے، ’’یہ تو کوئی غیرجانبدارانہ بات نہیں ہوئی! غیر جانبداری کا اِس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے! یہ تو کشش ثقل کا قانون ہے۔ اگر آپ کوئی چیز اوپر پھینکیں گے تو وہ نیچے ہی آئے گی! یہ ہی قانون ہے۔ اور یہ بات گناہ اور موت کی شریعت کے ساتھ بھی دُرست ہے۔ وہ جان جو گناہ کرتی ہے مر جائے گی۔ ہمارے پہلے والدین نے گناہ کیا تھا، اور وہ مر گئے۔ یہ ہی قانون ہے – گناہ اور موت کی شریعت! غیرجانبداری کا اِس سے کوئی تعلق نہیں ہے! جو اوپر جاتا ہے نیچے ضرور آتا ہے۔ یہ قانون ہے۔ وہ جو گناہ کرتا ہے ضرور مرتا ہے۔ یہ قانون ہے۔ لوگ اِس کو پسند نہیں کرتے ہیں،لیکن اِس کے باوجود یہ اب بھی قانون ہی ہے – اور اس کو توڑا نہیں جا سکتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے کشش ثقل کے قانون کو توڑا نہیں جا سکتا ہے۔

اب ہمارے پہلے والدین نے باغ عدن میں گناہ کیا تھا، اور وہ باغ عدن میں مر گئے تھے۔ وہ گناہ اورموت کی شریعت تھی۔ پہلے وہ روحانی طور پر مرے تھے، اور بعد میں وہ جسمانی طور پر مرے تھے کیونکہ جب اُنہوں نے گناہ کیا تھا تو موت کے بیج اُن میں چلے گئے تھے۔

اندوہناک طریقے سے، اُن کا گناہ نا صرف اُن کے لیے موت لایا، بالکہ اُن کی آل اولاد کے لیے بھی موت لایا۔ لوگ کہہ سکتے ہیں، ’’یہ غیرجانبدارانہ نہیں ہے۔‘‘ میں جانتا ہوں کہ وہ یہ کہہ سکتے ہیں لیکن غیر جانبداری کا اِس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ یہ قانون ہے، گناہ اور موت کا قانون ہے۔ ایک اور دِن میں نے ایک بچے کے بارے میں پڑھا جو ایڈز HIV کے ساتھ پیدا ہوا تھا۔ بچے نے گناہ نہیں کیا تھا۔ لیکن ماں نے گناہ کیا تھا۔ اِس لیے اُس کا بچہ اِس طرح سے پیدا ہوا تھا۔ غیرجانبداری کا اِس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ یہ گناہ اور موت کی شریعت ہے۔ جب ایک شخص گناہ کرتا ہے تو اِس کا اثر دوسروں پر بھی پڑتا ہے۔ اور ایسا ہمیشہ ہی ہوتا ہے۔

اور اِسی طرح سے یہ تمام کی تمام پیدائش کی کتاب میں تھا، ہمارے پہلے والدین کے گناہ اور موت کے ساتھ ابتدا کا ہونا۔ لیکن گناہ اور موت کی لعنت یہیں پر ختم نہیں ہو گئی تھی۔ بائبل کہتی ہے،

’’ایک آدمی کی نافرمانی سے بہت سے گنہگار ٹھہرے‘‘ (رومیوں5:‏19)۔

اُس بچے کی مانند جو ایڈزHIV کے بیماری کے ساتھ پیدا ہوا تھا، ہم تمام کے تمام اپنے والدین کے گناہ کے ذریعے سے ’’گنہگار بنا دیے‘‘ گئے۔ ھیڈیلبرگ کی مسیحی تعلیم Heidelberg Catechism کہتی ہے کہ ’’ہمارے پہلے والدین، آدم اور حوّا کی، جنت میں نافرمانی اور گناہ میں گرنے سے ہماری گناہ کی فطرت آتی ہے۔ اِس گناہ میں گرنے نے ہماری فطرت کو اِس قدر زہریلا کیا ہے کہ ہم گنہگار پیدا ہوتے ہیں – حمل میں پڑنے سے ہی بدکار‘‘ (ھیڈیلبرگ کی مسیحی تعلیم The Heidelberg Catechism، ساتواں سوال)۔ 1689 کے بپتسمہ دینے والوں کا اعتراف کہتا ہے کہ ہمارے پہلے والدین کی ...” گناہ منسوب کیا گیا تھا، اور بدکار فطرت اُن کی تمام آنیوالی نسلوں میں منتقل ہو گئی، ایک عام نسل ہونے کی وجہ سے اُن پر سے اُتر گئی، اب گناہ میں حاملہ ہونے سے، اور فطرتاً قہر کے بچے ہونے کے ذریعے سے، جو گناہ کے غلام ہیں، جو موت کے ماتحت ہیں اور دوسری تمام بدنصیبیوں،روحانی، عارضی اور دائمی کے مرہون منت ہیں،جب تک کہ خداوند یسوع اُنہیں آزاد نہ کرے۔ اِس اصلی بدکاری سے ... تمام اصلی خلاف ورزیاں جاری ہوتی ہیں‘‘ (پبتسمہ دینے والوں کا ایمان کا اعتراف The Baptist Confession of Faith 1689، باب 6:‏2، 3)۔

’’جب تک خُداوند یسوع [ہمیں] آزاد نہیں کرتا‘‘ ہم ’’قہر کے بچے، گناہ کے خادم، اور موت کے ماتحت‘‘ ہیں۔ بائبل کہتی ہے،

’’پس جیسے ایک آدمی کے ذریعہ گناہ دنیا میں داخل ہُوا اور گناہ کے سبب سے مَوت آئی ویسے ہی مَوت سب اِنسانوں میں پھیل گئی کیونکہ سب نے گناہ کیا‘‘ (رومیوں 5:‏12).

پیدائش کی کتاب ظاہر کرتی ہے کہ یہ آیت درست ہے۔ آدم اور حوّا کا پہلا بچہ کائن ایک قاتل تھا۔ وہ ایک گنہگار پیدا ہوا تھا کیونکہ اُس کے والدین نے گناہ کیا تھا۔ پیدائش کا پانچواں باب سیلاب سے پہلے کے قدیم بزرگوں کی اموات کی ایک فہرست ہے، کیونکہ،جیسے ایک آدمی کے ذریعہ گناہ دُنیا میں داخل ہوا اور گناہ کے سبب سے موت آئی ویسے ہی موت سب انسانوں میں پھیل گئی کیونکہ سب نے گناہ کیا۔‘‘ نوح کے زمانے میں،

’’خداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی ہے اور اُس کے دِل کے خیالات ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہتے ہیں‘‘ (پیدائش 6:‏5).

یہ کیسے ہوا تھا؟

’’پس جیسے ایک آدمی کے ذریعہ گناہ دنیا میں داخل ہُوا اور گناہ کے سبب سے مَوت آئی ویسے ہی مَوت سب اِنسانوں میں پھیل گئی کیونکہ سب نے گناہ کیا‘‘ (رومیوں 5:‏12).

پیدائش میں پیچھے کے جانب چلتے جائیں تو قدیم بزرگان قدرتاً گنہگار تھا، اور وہ آدم کے گناہ کے نتیجے میں مرے تھے۔اور یوں پیدائش کا اختتامہوتا ہے، انسان کی کامیابی اور فتح کے ساتھ نہیں بلکہ گناہ کے نتیجے میں موت کے ساتھ،

’’اور یُوسُف نے ایک سو دس برس کا ہوکر وفات پائی اور اُنہوں نے اُس کی لاش میں خوشبودار مسالے بھر کر اُسے مِصر ہی میں ایک تابوت میں محفوظ کردیا‘‘ (پیدائش 50:‏26).

پیدائش کا آغاز خُدا کے زندگی تخلیق کرنے کے ساتھ ہوتا ہے، اور اِس کا اختتام گناہ کے ساتھ ہوتا ہے جو موت کو جنم دیتا ہے، اور یوسف کو مصر ہی میں ایک تابوت میں محفوظ کر دیا گیا۔‘‘

اب، پھر یہ کیسے آپ پر اثر انداز ہوتا ہے؟ آپ کے زندگی میں اِس کا کیا اثر پڑتا ہے؟ دراصل، دُنیا میں کسی چیز سے بھی آپ کا تعلق نہیں ہوتا ہے! پہلی جگہ پر، گناہ کے نتیجے کے طور پر جسمانی طور پر آپ مرنے والے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی مرتبہ احساس کیا تھا کہ میں مرنے والا تھا۔ میں تقریباً آٹھ سال کا تھا۔ میرا چھوٹا سے کتا سڑک پر بھاگ نکلا اور ایک کار سے ٹکرا گیا۔ جب میں نے اُس کا ٹوٹا ہوا جسم اپنے ہاتھوں میں اُٹھایا ہوا تھا تو مجھے پہلی مرتبہ سمجھ میں آیا تھا کہ میں بھی مر جاؤں گا۔ یہ ایک دِل دھلا دینے والا خیال تھا۔ مجھے یقین ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر، چاہے ہمیں یہ یاد ہو یا نہیں، دھل گئے تھے جب ہمیں پہلی مرتبہ احساس ہوا تھا کہ ہم مرنےجا رہے تھے۔ اور موت کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کے بارے میں آپ ایک یا دو مرتبہ سوچتے ہوں۔ نفسیات دان کہتے ہیں کہ ایک اوسط شخص خود اپنی موت کے بارے میں ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ ایک سے زیادہ مرتبہ سوچتا ہے۔ یہ سچ ہونے کے ناطے، ہم کسی اور چیز کے مقابلے میں اپنی موت کے بارے میں زیادہ سوچتے ہیں۔ ہم اِس کے آسیب میں گرفتار ہوتے ہیں۔ ہم اِس کو رفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم اِس کو ایک طرف رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ذہن بار بار اور دوبارہ اِس کی جانب واپس آ جاتے ہیں۔ ہم اِس کو اپنی سوچوں سے باہر نہیں نکال پاتے ہیں، چاہے ہم کچھ بھی کر لیں۔ یہاں تک کہ جب ہم سوتے ہیں تو کبھی کبھی ہم مرنے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ہم آسانی سے مرنے کے بارے میں سوچنے سے فرار حاصل نہیں کر سکتے ہیں!

لہٰذا، آپ دیکھتے ہیں، اگر موت کی سوچ گناہ کا صرف نتیجہ تھا، تو اِس کا ہماری زندگیوں پر کتنا زبردست اثر ہوتا ہے۔ مگر گناہ کا نتیجہ صرف یہی نہیں ہے۔ اِس کے علاوہ بھی بہت سے اثرات ہیں۔ اُن میں سے ایک وہ تاریک اور شیطانی سوچیں ہیں جو آپ کے گناہ سے بھرپور دِل میں سے نکلتی ہیں۔ یسوع نے کہا، ’’کیونکہ اندر سے یعنی اُس کے دِل سے بُرے خیال باہر آتے ہیں ... یہ ساری بُرائیاں انسان کے اندر سے نکلتی ہیں‘‘ (مرقس7:‏21، 23)۔ مجھے آپ کو اِس کا ثبوت فراہم نہیں کرنا ہے، یا کرنا ہے؟ آپ اُن تاریک اور گناہ سے بھرپور سوچوں کو کسی اور کے مقابلے میں بہتر جانتے ہیں جو آپ کے ذہن میں گھومتی ہیں، وہ سوچیں جن پر آپ کا کوئی بس نہیں ہے۔ آپ اُنہیں روک نہیں سکتے ہیں، اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کیا کرتے ہیں۔ یہ بھی اصلی گناہ کا ہی ایک تاثر ہے، وہ گنہگار فطرت جو ہمیں اپنے والدین سے وراثت میں ملی ہے۔

اور پھر آپ کو ادھر ایک اور مشکل دعا میں ہوتی ہے۔ لیکن بلا شبہ! آپ کو دعا کرنا واقعی مشکل لگتا ہے، کیا آپ کو نہیں لگتا ہے؟ یہ اِس قدر شدید نہیں ہونا چاہیے۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن یہ ہوتا ہے، اور آپ اِس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں، کہ آپ کر سکتے ہیں؟ آپ جانتے ہیں کہ ایک اچھے مسیحی کو دعا کرنے سے پیار ہونا چاہیے۔ اور اِسکے باوجود آپ اِسے نہیں چاہتے ہیں۔ اصل میں، آئیے اِس کا سامنا کریں، آپ واقعی وقت کے کسی دورانیے کے لیے دعا کرنے سے نفرت کرتےھیں – کیا آپ نہیں کرتے ہیں؟

تو پھر، اب، یہ آپ کی اندرونی سوچیں کی انتہائی تاریک اور شیطانی تصویر پیش کرتی ہے، کیا یہ نہیں کرتی؟ آپ موت کے بارے میں سوچتے ہیں۔ آپ شرمناک خیالات سوچتے ہیں۔ آپ دعا کو ناپسند کرتے ہیں۔ اور اصل میں تو اگر آپ کسی ایسے کے ساتھ ہوں جو لمبی دعا کرتا ہے تو آپ اِس سے حقیقتاً نفرت کرتے ہیں۔ آپ کی اندرونی زندگی کی کوئی اچھی تصویر نہیں ہے، کیا یہ ہے؟ دراصل، اگر آپ خود کو اِس کے بارے میں بہت زیادہ سوچنے کے اجازت دیں، تو آپ شاید رسول کے ساتھ بہت اچھی طرح سے کہتے ہیں،

’’ہائے! میں کیسا بد بخت آدمی ہُوں! اِس مَوت کے بدن سے مجھے کون چھُڑائے گا؟‘‘ (رومیوں7:‏24).

دیکھا آپ نے، گناہ اور موت کی شریعت نے آپ کو پھنسا لیا ہے، یہ جیسا کہ بائبل اِسے کہتی ہے، ’’قصوروں اور گناہوں میں مردہ‘‘ (افسیوں2:‏1)۔ کیا یہ سچ نہیں ہے – روحانی طور پر یا نفسیاتی طور، آپ اندر سے اُتنے ہی مُردہ ہیں جتنا اُس وقت یوسف کا جس تھا جب ’’مصر میں اُس کو تابوت میں محفوظ کیا گیا‘‘ (پیدائش50:‏26)۔ مگر، خُدا کا شکر ادا کریں، ہمیں وہاں پر چھوڑا نہیں گیا ہے! اور یہ ہمیں اِس واعظ کے دوسرے نقطے کی طرف لے جاتا ہے۔

II۔ دوئم،پیدائش صاف و شفاف طریقے سے انسان کی واحد اُمید کو بیان کرتی ہے۔

ہماری تلاوت کی پہلی دو آیات کو دوبارہ غور سے سُنیں،

’’تب یُوسُف نے اپنے بھائیوں سے کہا: میں اب مرنے کو ہُوں لیکن خدا یقیناً تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں اِس ملک سے نکال کر اُس ملک میں پہنچائے گا جسے دینے کا وعدہ اُس نے قسم کھا کر ابرہام اِضحاق اور یعقوب سے کیا تھا۔ اور یُوسُف نے بنی اِسرائیل سے قسم لے کر کہا: خدا یقیناً تمہیں یاد کرے گا اور تب تم ضرور ہی میری ہڈّیوں کو یہاں سے لے جانا‘‘ (پیدائش 50:‏24۔25).

اُن آیات سے ہمارے سیکھنے کے لیے یہاں بہت سے سبق ہیں، لیکن میں اُن میں سے صرف ایک سامنے لاؤں گا، ایک انتہائی سادہ سا: یوسف جانتا تھا کہ ہماری واحد اُمید خُداوند میں ہے۔ اُس نے کہا، ’’خدا یقیناً تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں اِس ملک سے نکال کر اُس ملک میں پہنچائے گا جسے دینے کا وعدہ اُس نے قسم کھا کر ابرہام اِضحاق اور یعقوب سے کیا تھا۔‘‘ ’’ خدا یقیناً تمہیں یاد کرے گا اور تب تم ضرور ہی میری ہڈّیوں کو یہاں سے لے جانا۔‘‘ یوسف کے پاس یقین کرنےکے لیے ایمان تھا کہ خُدا اُنہیں مصر سے باہر لے جائے گا، کنعان کی سرزمین میں۔ مصر گناہ اور موت کی ایک تشبیہہ ہے۔ کنعان نجات اور زندگی کی ایک تشبیہہ ہے۔ یوسف کے پاس ایمان تھا کہ خُدا اُنہیں موت کے سرزمین سے باہر نکال کر اُمید اور زندگی کی سرزمین میں لے جائے گا۔ عبرانیوں 11:‏22 کہتی ہے،

’’ایمان ہی سے یُوسُف نے مرتے وقت بنی اِسرائیل کے ملک مِصر سے نکل جانے کا ذکر کیا اور اپنی ہڈّیوں کے بارے میں حکم دیا‘‘ (عبرانیوں 11:‏22).

یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ خُدا ہی آپ کی واحد اُمید ہے میرے پاس اِس سے بہتر اور کوئی راستہ نہیں ہو سکتا ہے۔ اگر خُدا آپ کو بچاتا نہیں ہے، تو ہم گناہ اور موت کی شریعت کے ذریعے سے تباہ وبرباد ہوتے ہیں۔ اور خُدا ہی کو بچانے کا یہ تمام کام ضرورکرنا چاہیے۔ یوسف نے کہا، ’’خدا یقیناً تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں اِس ملک سے نکال کر اُس ملک میں پہنچائے گا جسے دینے کا وعدہ اُس نے قسم کھا کر ابرہام اِضحاق اور یعقوب سے کیا تھا‘‘ (پیدائش50:‏24)۔ ’’خُدا تمہیں ... باہر نکال لائے گا‘‘ موت کے سرزمین میں سے نکال کر زندگی کی سرزمین میں!

اگر آپ بائبل کی اگلی کتاب پڑھتے ہیں، خروج کی کتاب، تو آپ پائیں گے کہ خُدا نے یہ سب کیا۔ لوگوں نے بغاوت کی، اور گناہ کیا، اور خود کی مدد بالکل بھی نہیں کی تھی۔ خُدانے سارا بچانے کا کام کیا۔ خُدا اُنہیں غلامی سے باہر نکال کر لایا۔ خُدا اُنہیں وعدے کی سرزمین میں لایا تھا۔ اور شاگردوں نے یسوع سے پوچھا،

’’پھر کون نجات پا سکتا ہے؟ یسُوع نے اُن کی طرف دیکھ کر کہا: یہ اِنسانوں کے لیے تو ناممکن ہے لیکن خدا کے لیے نہیں…‘‘ (مرقس 10:‏26،27).

پھر، آپ کو کیا کرنا چاہیے؟ کوئی کہتا ہے، اچھا، تو پھر میں تو کچھ بھی نہیں کروں گا۔ میں تو گرجہ گھر میں مٹی کے کسی ڈھیلے کی مانند بیٹھ جاؤں گا اور خُدا کا مجھے بچانے کے لیے انتظار کروں گا۔‘‘ ٹھیک ہے، اگر آپ ایسا کرتے ہیں، تو آپ جہنم میں جائیں گے۔ کچھ تو ہے جو آپ کو کرنا ہوتا ہے۔ بائبل کہتی ہے،

’’خداوند یسُوع پر ایمان لا تو تُو نجات پائے گا‘‘ (اعمال 16:‏31).

یسوع پر ایمان لاؤ! اُس پر بھروسہ کرو – اور وہ نجات دینے کا تمام کام کرے گا! وہ آپ کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے صلیب پر مرا تھا۔ وہ قبر میں سے آپ کو زندگی دینے کے لیے جی اُٹھا تھا، اور آپ کو گناہ اور موت کی شریعت سے آزادی دی تھی!

آج شام کو میں آپ کو بتا رہا ہوں – خداوند یسوع مسیح پر یقین کریں! اپنے آپ کو اُس کے حوالے کر دیں! اُسی پر بھروسہ کریں! یہ ابھی ہی کریں! آپ نے بہت انتظار کر لیا! اُس پر بھروسہ کریں! وہ آپ کو نجات دے گا! وہ آپ سے پیار کرتا ہے! وہ آپ کے گناہوں کو بخش دے گا! وہ آپ کو فیصلے سے بچائے گا! ’’اُس کی پیار بھری رحمدلی، ہائے کس قدر عظیم ہے!‘‘ مسٹر گریفتھMr. Griffith ، آئیں اور وہ گیت گائیں!

گناہ میں گر کر تباہ حال اُس نے مجھے دیکھا،
   اِس کےباوجود سب کچھ برداشت کرتے ہوئے اُس نے مجھے پیار کیا؛
میری کھوئی ہوئی حالت سے اُس نے مجھے بچایا،
   اُس کی پیار بھری رحمدلی، ہائے، کسی قدر عظیم ہے!
اُس کی پیار بھری رحمدلی، پیار بھری رحمدلی،
   اُس کی پیار بھری رحمدلی، ہائے، کسی قدر عظیم ہے!
(’’ اُس کی پیار بھری رحمدلی His Loving-kindness‘‘ شاعر سیموئیل      میڈلے Samuel Medley، 1738۔1799)۔

اگر آپ یسوع پر بھروسہ کرنے کے لیے تیارہیں، تو مہربانی سے اِس اجتماع گاہ کی پچھلی جانب ابھی قدم بڑھائیں اور ہم آپ کو بات چیت اور دعا کے لیے ایک پُرسکون مقام پر لے جائیں گے۔ جائیں ابھی ہی جائیں جبکہ مسٹر گریفتھ اِس بند کو دوبارہ گاتے ہیں۔ ڈاکٹر چعین Dr. Chan، مہربانی سے اُن کے لیے جنہوں نے جواب دیا ہے دعا میں رہنمائی فرمائیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھومی Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: پیدائش 50:‏22۔26۔
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
“His Loving-Kindness” (by Samuel Medley, 1738-1799).
’’ اُس کی پیار بھری رحمدلی His Loving-kindness‘‘ (شاعر سیموئیل میڈلے
Samuel Medley، 1738۔1799)۔

لُبِ لُباب

تخلیق سے تابوت تک

(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 75)
FROM CREATION TO A COFFIN
(SERMON #75 ON THE BOOK OF GENESIS)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’تب یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا، میں مرنے کو ہوں: لیکن خُدا یقیناً تمہاری مدد کرے اور تمہیں اِس ملک سے نکال کر اُس ملک میں پہنچائے گا جسے دینے کا وعدہ اُس نے قسم کھا کر ابراھام، اضحاق اور یعقوب سے کیا تھا۔ اور یوسف نے بنی اسرائیل سے قسم لے کر کہا، خُدا یقیناً تمہیں یاد کرے گا، اور تب تم ضرور ہی میری ہڈیوں کو یہاں سے لے جانا۔ اور یوسف نے ایک سو دس برس کا ہو کر وفات پائی: اور اُنہوں نے اُس کی لاش میں خوشبودار مسالے بھر کر اُسے مصر ہی میں ایک تابوت میں محفوظ کردیا‘‘ (پیدائش50:‏24۔26)۔

(پیدائش 1:‏1)

I.   اوّل، پیدائش شفاف طریقے سے گناہ اور موت کی شریعت بیان کرتی ہے، رومیوں 8:‏2؛
رومیوں 6:‏23؛ حزقی ایل 18:‏4؛ پیدائش 2:‏17؛ رومیوں5:‏19، 12؛ پیدائش 6:‏5؛
مرقس7:‏21، 23؛ رومیوں 7:‏24؛ افسیوں2:‏1 ۔

II۔  دوئم،پیدائش صاف و شفاف طریقے سے انسان کی واحد اُمید کو بیان کرتی ہے، پیدائش
50:‏24۔25؛ عبرانیوں11:‏22؛ پیدائش50:‏24؛ مرقس 10:‏26، 27؛ اعمال16:‏31 ۔