Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

یعقوب کا شک کرنا – اسرائیل کا یقین کرنا

JACOB DOUBTING – ISRAEL BELIEVING
(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 72 )
(SERMON #72 ON THE BOOK OF GENESIS)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ
24 فروری، 2013، خُداوند کے دِن کی شام
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, February 24, 2013

مُحّبِ وطن یعقوب کے بارہ بیٹے تھے۔ یوسف راخل سے اُس کا بیٹا تھا، اور وہ ’’یوسف کو اپنے دوسروں بیٹوں سے زیادہ عزیز رکھتا تھا کیونکہ وہ اُس کے بڑھاپے کا بیٹا تھا ... اور اُس کے بھائیوں نے جب یہ دیکھا کہ اُن کا باپ اُس کو اُن سے زیادہ پیار کرتا ہے تو وہ اُس سے حسد کرنے لگے‘‘ (پیدائش37:‏3۔4)۔ وہ یوسف سے اِس قدر حسد کرتے تھے کہ اُنہوں نے ’’اُس کے خلاف اُسے قتل کرنے کی سازش کی‘‘ (پیدائش37:‏18)۔

ایک دِن یوسف باہر بیابان میں اپنے بھائیوں کو ڈھونڈنے کے لیے نکلا کیونکہ وہ اپنی بھیڑاور بکریاں چرا رہے تھے۔ اُنہوں نے یوسف کی قبا ہتھیا لی اور اُس کو ایک گڑھے میں جھونک دیا۔ وہ اُس کو قتل کرنے ہی والے تھے جب یہودہ نے مشورہ دیا کہ وہ اُس کو ایک غلام کی حیثیت سے بیچ دیتے ہیں، جو اُنہوں نے ایک کارواں کے تاجروں کے ایک گروہ کے آگے اُسے بیچ کر کیا۔ پھر اُنہوں نے اُس کی قبا لی اور اُس کو بکرے کے خون میں ڈبویا۔ جب وہ قبا لے کر اپنے باپ یعقوب کے پاس گئے، اُس نے کہا، ’’یہ میرے بیٹے کی قبا ہے؛ وہ کسی خونخوار جانور کا لقمہ بن گیا ہے؛ سچ مچ یوسف پھاڑ ڈالا گیا ہے‘‘ (پیدائش37:‏33)۔

اِسی دوران یوسف کو مصر لے جایا گیا اور پوطیفار کے پاس بیچ دیا گیا، جو فرعون کا ایک افسر تھا۔ پوطیفار کو پتا چلا کہ یوسف ایک انتہائی قابل آدمی تھا، اور اُس نے اُس کو اپنے گھر کا مختار مقرر کیا اور اپنا سب کچھ اُس کے ہاتھ میں سونپ دیا‘‘ (پیدائش39:‏4)۔

لیکن پوطیفار کے بیوی نے جب وہ گھر میں تنہا تھے اُس کو اپنے ساتھ ہمبستر ہونے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔ یوسف اُس کے پاس سے بھاگ گیا، لیکن اُس نے اپنے شوہر پوطیفار کے ساتھ جھوٹ بولا، اور کہا کہ یوسف نے اُس کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی تھی۔ پوطیفار غصے سے بھر گیا اور اُس نے یوسف کو قید خانے میں ڈلوا دیا۔

لیکن خُداوند یوسف کے ساتھ تھا۔ واقعات کے ایک سلسلے کے ذریعے سے وہ قید خانے کے ہر کام کا ذمہ دار بن گیا۔ بعد میں، فرعون نے اُسے قید سے رہائی دلائی اور اُس کو تمام مصر پر وزیر اعظم مقرر کر دیا۔

جیسے وقت گزرا کنعان کی سرزمین پر بہت بڑا قحط پڑ گیا اور یعقوب نے اپنے بیٹوں کو اناج خریدنے کے لیے مصر بھیجا۔ جب وہ یوسف کے پاس پہنچے، اُنہوں نے اُسے نہیں پہچانا کیونکہ اُس نے سر اور داڑھی پر اُسترا پھروایا ہوا تھا، اور مصریوں جیسا لباس پہنا ہوا تھا۔ اُس کے بھائیوں نے اُس سے اناج خریدا اور اِسے واپس کنعان میں یعقوب کے پاس لے گئے۔

کچھ عرصے کے بعد وہ پھر سے اناج کی قلت میں تھے، اور یعقوب نے اُنہیں واپس مصر میں اور خوراک خریدنے کے لیے بھیجا۔ یوسف نے اُن پر اپنے آپ کو ظاہر کیا، اُنہیں مذید اور خوراک دی، اور اُنہیں واپس اپنے باپ یعقوب کے پاس بھیجا۔ اور یہ بات ہمیں آج کی شام ہماری تلاوت پر لے جاتی ہے۔ مہربانی سے کھڑے ہوں اور اپنے بائبل میں سے پیدائش 45:‏25 تا 46:‏1 تک پڑھیں۔

’’چنانچہ وہ مِصر سے روانہ ہُوئے اور ملک کنعان میں اپنے باپ یعقوب کے پاس چلے آئے اور اُس سے کہا: یُوسُف اب تک زندہ ہے۔ وہ واقعی سارے ملک مِصر کا حاکم ہے۔ یہ سن کر یعقوب کا دل دھک سے رہ گیا۔ اُس نے اُن کا یقین نہ کیا۔ لیکن جب انہوں نے اُسے وہ سب باتیں بتائیں جو یُوسُف نے اُن سے کہی تھیں اور جب اُس نے وہ گاڑیاں دیکھیں جو یُوسُف نے اُسے لانے کو بھیجی تھیں تب اُن کے باپ یعقوب کی جان میں جان آئی اور اِسرائیل نے کہا: مجھے یقین ہو گیا کہ میرا بیٹا یُوسُف اب تک زندہ ہے۔ اب تو میں اپنے مرنے سے پیشتر جاکر اُسے دیکھ لوں گا۔ تب اِسرائیل اپنا سب کچھ لے کر روانہ ہُوا... ‘‘ (پیدائش 45:‏25۔46:‏1).

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

محب وطن یعقوب اپنے ردعمل میں یہاں پر، اگر تشبیہہ نہیں ہے تو یقیناً ایک مثال ہے۔ وہ مثال سے اُس شخص کو واضح کرتا ہے جو خوشخبری کو تو سُنتا ہے مگر مسیح کے پاس آنے کے لیے دِل کا بہت کمزور ہے۔

جیسا کہ ہم نے گذشتہ اِتوار کو(یوسف – مسیح کی ایک مشہابت،‘‘ 2 \ 17 \ 13 شام کو) میں دیکھا کہ یوسف بالکل یقینی طور پر یسوع کی ایک تشبیہہ ہے۔ ہم نے دیکھا کہ ڈاکٹر ائی۔ ایم۔ ھیلڈمین نے نجات دہندہ اور یوسف کےدرمیان 101 مماثلتیں بتائیں۔ یہ شاید کچھ زیادہ مبالغہ آرائی ہو گئی، لیکن یوسف یقینیً طور پر یسوع کی ایک تشبیہہ ہے۔ یہ ہی ہماری تلاوت میں یعقوب کا سچ ہے جو ایک ایسے شخص کی مثال ہے جو خوشخبری تو سُنتا ہے لیکن میسح کے پاس آنے کے لیے خوفزدہ ہے۔ اب یہ خاصی اہم بات ہے کیونکہ ہر مبشر، جو اصل میںلوگوں کی جب وہ ایک پیشہ اختیار کر لیتے ہیں سُنتا ہے، اور اُسے پتا چلتا گے کہ اِن میں ہمیشہ کچھ ایسےہوتے ہیں جو رُک جاتے ہیں اور مسیح کے پاس آنے کے لیے دِل کے انتہائی کمزور ہوتے ہیں۔

اُسی طرح کا انسان یعقوب تھا۔ وہ ایک شخص تھا جواکثر باتوں کے منفی رُخ کو دیکھتا تھا۔ وہ ہمیشہ بُری خبر پر یقین کرنے کے لیے تیار رہتا تھا۔ اب، پھر، بوڑھے یعقوب کو اپنی تلاوت کی تین آیات میں دیکھتے ہیں۔

I. اوّل، یعقوب نے اپنے بیٹوں کی گواہی پر یقین نہیں کیا تھا۔

اُنہوں نے اُسے بتایا، ’’یوسف اب تک زندہ ہے۔ وہ واقعی سارے ملک مِصر کا حاکم ہے۔ یہ سن کر یعقوب کا دل دھک سے رہ گیا‘‘ (پیدائش 45:‏26)۔ وہ ثبوت جو یعقوب نے سُنا تھا ایک ذاتی شہادت تھی۔ وہ مصر سے ہو کر آئے تھے۔ اُنہوں نے یوسف کو دیکھا تھا۔ اُنہوں نے یہ اپنے باپ یعقوب کو بھی بتایا۔ یوں ہی بہت سے گواہ تھے جنہوں نے اقرار کیا تھا کہ یسوع زندہ ہے۔

بہت سے معتبر گواہوں نے اِس حقیقت کی تصدیق کی کہ یسوع مُردوں میں سے جی اُٹھا تھا۔

’’اور کیفا کو اور پھر دُوسرے رسولوں کو دکھائی دیا۔ اُس کے بعد پانچ سَو سے زیادہ مسیحی بھائیوں کو ایک ساتھ دکھائی دیا... اُس کے بعد پھر یعقوب کو دکھائی دیا۔ اِس کے بعد سب رسولوں کو اور سب سے آخر میں مجھے بھی دکھائی جو گویا... ‘‘ پولُس رسول نے کہا (1۔ کرنتھیوں 15:‏5۔8).

اِن شاگردوں نے میسح کے جسمانی طور پر مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی گواہی کو اپنی تمام زندگیوں میں سہا اور برداشت کیا۔ وہ اِس قدر پُر یقین تھے کہ وہ جی اُٹھا ہے کہ اُنہوں نے اذیتیں برداشت کیں اور اِس کا انکار کرنے کے بجائے شہیدوں کے طور پر دردناک اموات مرے۔ ماسوائے یوحنا کے باقی تمام اِسی طرح سے مرے کہ اُنہوں نے اقرار کیا کہ زندہ جی اُٹھے مسیح کے چشم دیدگواہ رہ چکے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اُنہوں نے اُس کے ساتھ کھانا کھایا تھا، اور اُن میں سے کچھ نے کہا کہ اُنہوں نے اُسے چھوا بھی تھا۔ اُن میں سے ایک نے جس نے پہلے شک کیا تھا اُس کے ہاتھوں میں کِیلوں سے ہوئے چھیدوں میں انگلیاں ڈال کر دیکھا تھا۔

اِس سے بھی بڑھ کر، مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی گواہی پاک روح نے دی۔ مسیح کے واپس آسمان میں اُٹھائے جانے کے بعد، پاک روح اُن پر نازل ہوا تھا، اور اُنہوں پوری دُنیا میں انجیل کی خوشخبری سُنانے کے لیے بھیجا تھا۔ اور پاک روح نے اُنہیں معجزات کرنے کے لیے قوت بخشی تھی، اِس حقیقت کی گواہی کے طور پر کہ یسوع ابھی تک زندہ ہے۔ میرے لیے، اور کسی کے لیے بھی یہ ثبوت ہی بہت کافی ہونا چاہیے – ایماندار لوگوں کی گواہی، اور پاک روح کی گواہی۔

اِس تمام کے علاوہ، آج کی رات یہاں پر ہم میں سے بہت سے ہیں جو جیتے جاگتے مسیح کے ذریعے سے معاف کیے جا چکے ہیں۔ ہم موت سے بچ کر زندگی سے بھی جا ملے ہیں، اور ہمارے دِل اور زندگیاں اِس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ ہمارا سامنا جیتے جاگتے مسیح سے ہوا ہے! مسیح نے ہمیں ایک نئی قدرت عطا کی ہے، اور ایک نئے زندگی بخشی ہے۔ ہم اِس حقیقت کے جیتے جاگتے گواہ ہیں کہ بالکل ابھی، اِسی وقت، آج ہی رات، یسوع ایک جیتا جاگتا نجات دہندہ ہے! اگر آپ اِن تمام گواہیوں پر یقین نہیں کریں گے، ’’تو اگر [آپ] مُردوں میں سے زندہ ہو جائیں تب بھی وہ قائل نہ ہوں گے‘‘ اِس بات کی گواہی دینے کے لیے کہ مسیح زندہ ہے! (لوقا16:‏31)۔ اُنہوں نے ’’ اُس سے کہا: یوسف اب تک زندہ ہے۔ وہ واقعی سارے ملک مِصر کا حاکم ہے۔ یہ سن کر یعقوب کا دل دھک سے رہ گیا۔ اُس نے اُن کا یقین نہ کیا‘‘ (پیدائش45:‏26)۔

میتھیو ھنری Mathew Henry نے کہا، ’’یعقوب نے ماضی میں آسانی سے اپنے بیٹوں کا یقین کر لیا تھا جب اُنہوں نے اُسے بتایا تھا، ’یوسف مر گیا ہے،‘ اب وہ اُن کا مشکل سے یقین کرسکتا تھا کہ وہ اُسے بتا رہے ہیں، ’یوسف زندہ ہے۔‘ کمزور اور نرم جانیں اُمید کے مقابلے میں خوف کے ذریعے سے زیادہ متاثر ہو جاتی ہیں، اور اُن تاثرات کے مقابلے میں جو حوصلہ افزا ہوتے ہیں اُن تاثرات کو زیادہ جلدی قبول کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہیں جو حوصلہ شکنی کے ہوتے ہیں‘‘ (میتھیو ھنری کا پیدائش 45:‏26 پر تبصرہ)۔

میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ یعقوب ایک کھویا ہوا آدمی تھا۔ یعقوب سالوں پہلے ہی فنی ایل کے مقام پر تبدیل ہو گیا تھا، جب اُس نے قبل ازیں متجسم مسیح کے ساتھ تمام رات کُشتی کی تھی اور کہا تھا، ’’میں نے خُدا کو روبرو دیکھا تو بھی میری جان سلامت رہی‘‘ (پیدائش32:‏30)۔ جب اُس رات وہ تبدیل ہوا تھا تو اُس کا نام یعقوب (جو چکمے سے کسی شخص یا شے کو ہٹا کر اُس کی جگہ لے لے) سے بدل کر اسرائیل (خُدا کا ایک شہزادہ) رکھا گیا تھا۔ لیکن یہاں، تقریباً 32 سال بعد، خُدا کی روح اُسے دوبارہ ’’یعقوب‘‘ کہتی ہے۔ ’’اور یعقوب کا دِل دھک سے رہ گیا، کیونکہ اُس نے اُن کا یقین نہ کیا‘‘ (پیدائش45:‏26)۔ وہ اب اخلاقی طور پر گر گیا تھا، اور جیسا کہ ڈاکٹر لیوپولڈ Dr. Leupold نے اِسے لکھا، ’’پرانی قوت نے خود کو منوانا شروع کر دیا تھا،‘‘ اپنی ’’روایتی تاریکی‘‘ کے ساتھ (ایچ۔ سی۔ لیوپولڈ، ڈی۔ڈی۔، پیدائش کی تفسیر Exposition of Genesis، جلد دوئم، بیکر کتاب گھر Baker Book House، اشاعت 1985، صفحہ 1101)۔

اِس اخلاقی طور پر گری ہوئی حالت میں وہ ایک مرتبہ پھر ’’یعقوب‘‘ کہلایا جاتا ہے۔ وہ اب یقین کرنے سے انکار کرتا ہے، اور ایسا کرنے سے وہ ایک مرتبہ پھر ایک بے اعتقادے کی عکاسی کرتا ہے۔ کیا آج رات یہ آپ کی وضاحت نہیں کرتا ہے؟ آپ نے بہت سے معتبر ذرائع سے سُنا ہو گا کہ مسیح، ہمارا یوسف، زندہ ہے۔ اِس کے باوجود بھی آپ ہچکچاہٹ کرتے ہیں۔ آپ خوشخبری کو سُننے کے لیے انکار کرتے ہیں۔ اور آپ یسوع کے پاس آنے کے لیے انکار کرتے ہیں۔ ’’اور یعقوب کا دِل دھک سے رہ گیا، کیونکہ اُس نے اُن کا یقین نہ کیا‘‘ (پیدائش45:26)

II۔ دوئم، یعقوب کی جان میں جان آ گئ تھی جب اُس نے یوسف کے الفاظ سُنے، اور وہ گاڑیاں دیکھیں جو یوسف نے اُسے لانےکے لیے بھیجی تھیں ۔

’’ لیکن جب انہوں نے اُسے وہ سب باتیں بتائیں جو یُوسُف نے اُن سے کہی تھیں اور جب اُس نے وہ گاڑیاں دیکھیں جو یُوسُف نے اُسے لانے کو بھیجی تھیں تب اُن کے باپ یعقوب کی جان میں جان آئی‘‘ (پیدائش 45:‏27).

یعقوب نے ’’وہ سب باتیں جو یوسف نے اُن سے کہی تھیں‘‘ سُنی تھیں (پیدائش45:‏27)۔ جب اُنہوں نے اُسے بتایا کہ یوسف زندہ تھا اُس کا ’’دِل دھک سے رہ گیا، کیونکہ اُس نے اُن کا یقین نہیں کیا تھا۔‘‘ بے اعتقادی ہمیشہ روح کی پژمُردگی لاتی ہے۔ لیکن جتنی جلدی اُس نے ’’یوسف کی باتیں سُنیں‘‘ اُتنی ہی جلدی اُس کے دِل میں نئ روح آنی شروع ہو گئی تھی۔ بے اعتقادی ہمیں اُداس اور افسردہ کر دیتی ہے۔ آپ میں سے کچھ نے اِس طرح سے جینا سیکھا تھا – ایک اُداس اور نااُمید حالت میں۔ اُس وقت تک جب تک آپ یقین نہیں کرتے آپ ہمیشہ دِل کے کمزور ہی رہیں گے۔ لیکن کیوں اِسی طرح سے زندگی گزارتے رہیں؟ ’’اور اُنہوں نے اُسے یوسف کی تمام باتیں بتائیں، جو اُس نے اُن سے کہی تھیں۔‘‘ میں دعا کرتا ہوں کہ آپ ہمارے یوسف کی باتیں سُنیں جو ہمارا یسوع ہے، جس نے کہا،

’’اَے محنت کشو اور بوجھ سے دبے ہُوئے لوگو! میرے پاس آؤ۔ میں تمہیں آرام بخشوں گا‘‘ (متی 11:‏28).

یسوع کی باتوں کو سُنیں، ہمارے یوسف کو! یسوع نے کہا،

’’میں تُم سے سچ سچ کہتا ہُوں کہ جو کوئی میرا کلام سُن کر میرے بھیجنے والے پر ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُسی کی ہے اور اُس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا بلکہ وہ موت سے بچ کر زندگی سے جا ملتا ہے‘‘ (یوحنا 5:‏24).

جب یعقوب نے ’’یوسف کی باتیں سُنیں جو اُس نے اُن سے کہی تھیں ... تو یعقوب اُن کے باپ کی جان میں جان آئی‘‘ (پیدائش 45:‏27)۔ یسوع کی باتیں سُنیں۔ اُس پر ایمان لائیں، اور آپ کو زندگی ملے گی!

پھر، بھی، یعقوب نے ’’گاڑیاں دیکھیں جو یوسف نے اُسے لانےکے لیے بھیجی تھیں۔‘‘ یہ شاید یوسف کے الفاظ کا سُن لینا ہی کافی نہیں تھا، لیکن جب اُس نے گاڑیاں دیکھیں، اُس کی جان میں جان آئی اور اُس نے کہا، ’’یہ کافی ہے ... میں جاؤں گا اور اُسے دیکھ لوں گا‘‘ (پیدائش45:‏28)۔ میرے خیال میں وہ گاڑیاں یہ جو واعظ آپ سُنتے ہیں اُن کی مانند ہیں۔ گاڑیاں یعقوب کو یوسف تک لے جانے کے لیے فضل کا ایک ذریعہ تھیں۔ واعظ جو آپ سُنتے ہیں آپ کو یسوع کے پاس لے جانے کا ایک ذریعہ ہیں۔ انجیلی بشارت کے واعظ آپ کو یسوع، جو کہ ہمارا یوسف ہے، اُس کے پاس لے جانے کے لیے گاڑیوں کی مانند ہوتے ہیں۔

جیسا کہ میں اِس حوالے پر سپرجئین کے واعظ کی تبلیغ نہیں کر رہا ہوں، لیکن میں اُس کے موضوعات میں سے ایک یہاں پیش کروں گا۔ سپرجئین نے کہا،

میرے باتیں کرتے رہنے کا، اور باتیں کرتے رہنے کا، اور باتیں کرتے رہنے کا کیا فائدہ ہے، جب تک کہ یہاں ایک جیتا جاگتا مسیح نہیں ہے اور جب تک کہ وہ جیتا جاگتا مسیح بچانے کے قابل نہیں ہے؟ وہ آپ کے پاس ایک مذہبی رہنما بھیجتا ہے جو، اپنی تمام تر کمزوریوں کے ساتھ، آپ کی جانوں سے پیار کرتا ہے، اور جو آپ کو مسیح کے پاس لانے کے لیے [قابل توجہیح طور پر] کچھ بھی کرے گا اگر وہ صرف یہ جانتا ہو کہ اُسے یہ کیسے کرنا ہے۔ یقیناً، خُدا نے، اگر اُس کا مطلب آپ کو برکت دینا نہیں تھا تو ہمیں اُس کے نام میں باتیں کرنے کے لیے اور آپ کی جانوں کے بارے میں ہمیں تکلیف اُٹھانے کے لیے نہیں بھیجا۔ اِس لیے، مسیحی منادی خود اپنے آپ میں ایک ’’گاڑی‘‘ کی مانند ہے جس میں لوگوں کو مسیح کے پاس لایا جائے... اپنی جانوں کے ساتھ، اور خُدا کے ساتھ، اور جنت اور جہنم کے ساتھ وقت برباد مت کریں! اگر اِن معاملات کے بارے میں مَیں نے آپ سے جھوٹ بولا ہے، تو مجھے سزا دیجیے، کیونکہ میں اِس کا حق دار ہوں؛ لیکن اگر میں نے آپ کے ساتھ سچ بولا ہے، تو مجھے سُنیں، یا اگر آپ مجھے سُنتے نہیں ہیں، تو کم از کم خود اپنے ضمیر کی ہی تھوڑی سے آواز سُن لیں، یا ترجیحاً، خُدا کی آواز سُنیں جو آپ کے ساتھ میرے ذریعے سے باتیں کرتا رہا ہے۔ یسوع میں ابھی یقین کریں کہ آپ ایک واعظ کے زیر اثر ہیں جو آپ کے لیے شاید ایسا ہی ہے جیسے یوسف کی گاڑیاں بوڑھے یعقوب کے لیے تھیں (سی۔ ایچ۔ سپرجئین، دی میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی واعظ گاہ The Metropolitan Tabernacle Pulpit، جلد XLII، پلگرم اشاعت خانے Pilgrim Publications، دوبارہ اشاعت 1976، صفحہ 294)۔

بائبل کیوں اِس قدر زیادہ بُلاوں کے ساتھ بھری ہوئی ہے اگر خُدا کا مطلب اِس کو ایک ’’گاڑی‘‘ بنانا نہ ہوتا جو آپ کو آپ کے یوسف کے پاس لائے، یہاں تک کہ یسوع کے پاس لائے؟ جب آپ دیکھتے ہیں کہ خُدا اتنا کچھ آپ کو نجات کو پانے میں مدد دینے کے لیے کر رہا ہے، تو یقیناً آپ کو کہنا چاہیے، ’’یہ کافی ہے؛ یسوع اب بھی زندہ ہے۔ وہ مجھے بچا سکتا ہے، اور وہ مجھے بچائے گا۔‘‘

III۔ سوئم، یعقوب نے، جو اب اسرائیل کہلاتا تھا، کہا، ’’مجھے یقین ہو گیا؛ یوسف میرا بیٹا ابھی تک زندہ ہے: اب تو میں مرنے سے بیشتر جا کر اُسے دیکھ لوں گا۔‘‘

آمین!

’’ اور اِسرائیل نے کہا: مجھے یقین ہو گیا کہ میرا بیٹا یُوسُف اب تک زندہ ہے۔ اب تو میں اپنے مرنے سے پیشتر جاکر اُسے دیکھ لوں گا‘‘ (پیدائش 45:‏28).

اِس بات نے اکثر مجھے حیرت زدہ کیا ہے جب میں اُن لوگوں کو دیکھتا ہوں جو کہتے ہیں، ’’جی ہاں، میں یقین کرتا ہوں کہ مسیح زندہ ہے،‘‘ اور اِس کے باوجود ابھی تک وہ بچائے نہیں گئے ہیں۔ آپ میں سے کچھ نے شاید بہت دفعہ گایا ہو،

وہاں خون سے بھرا ایک چشمہ ہے
   عمانوئیل کی رگوں سے کھینچا گیا:
اور گنہگار، اُس سیلاب کے نیچے ڈبکی لگاتے ہیں،
   اپنے تمام قصوروں کے دھبے دھولیتے ہیں؛
(’’وہاں ایک چشمہ ہےThere Is a Fountain ‘‘ شاعر ولیم کاؤپر
     William Cowper،‏ 1731۔1800)۔

آپ نے وہ الفاظ گائے تھے۔ کیا آپ نے اُن پر یقین کیا ہے؟ کیا آپ نے اُن الفاظ پر یقین کیا ہے؟ تو پھر کیوں نہیں آپ نے اپنے قصوروں والے دھبے کھوئے نہیں ہیں؟ یسوع نے کہا، ’’وہ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی پاتا ہے‘‘ (یوحنا6:‏47)۔ کیا آپ یقین کرتے ہیں جو یسوع نے کہا تھا؟ کوئی کہتا ہے، ’’جی ہاں، میں یقین کرتا ہوں جو اُس نے کہا۔‘‘ تو پھر اُس کے الفاظ کو دوبارہ سُنیں، ’’وہ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی پاتا ہے۔‘‘ آپ کہتے ہیں کہ آپ اِس آیت پر یقین کرتے ہیں، اور اِس کے باوجود آپ نے یسوع میں یقین نہیں کیا ہے! میں کسی ایسے کو سمجھ سکتا ہوں جو بائبل کو مسترد کرتا ہے۔ لیکن میں ایسے ایک شخص کو نہیں سمجھ سکتا جو بائبل میں یقین رکھتا ہے اور اِس کے باوجود یسوع میں یقین رکھنے کو مسترد کرتا ہے۔ اگر انجیل سچی ہے تو پھر کیوں آپ اِسکا یقین نہیں کرتے ہیں؟ آپ کہتے ہیں کہ ایک شخص کو صرف یسوع میں یقین رکھنے کی ضرورت ہے – اور اِس کے باوجود بھی آپ اُس میں یقین نہیں کریں گے! یہ میری سمجھ سے بالکل ہی بالا تر ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے یعقوب نے کہا ہو، ’’یوسف میرا بیٹا ابھی تک زندہ ہے، لیکن میں نہیں جاؤں گا اور اُسے نہیں ملوں گا۔‘‘ اوہ، جی نہیں! یعقوب ایسے بات نہیں کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے، ’’یوسف میرا بیٹا ابھی تک زندہ ہے: اِس سے بیشتر کہ میں مر جاؤں میں اُسے جا کر ملوں گا۔‘‘ اور اسرائیل کے سفر کے لیے روانہ ہوا‘‘ (پیدائش46:1)۔

ایک وجہ کہ یعقوب نے مصر میں جانے کے لیے جلد کی تھی یہ تھی کیونکہ وہ واقعی اپنے بیٹے کو ملنا چاہتا تھا۔ اِس واعظ سے بالکل پہلے مسٹر گریفتھ نے وہ پیارا کورس گایا تھا،

روبرو میں اُسے ملوں گا،
   ستاروں سے بھرے آسمان سے دور پرے؛
روبرو اُس کے تمام جلال میں،
   میں اُسے گاہے بگاہے ملوں گا!
(’’روبرو Face to Face‘‘ شاعر کیری ای۔ برک Carrie E. Breck،‏ 1855۔1934)۔

آپ اُس کورس کے ساتھ متفق تھے۔ آپ نے اپنے دِلوں میں کہا تھا، ’’جی ہاں، میں یسوع کو گاہے بگاہے روبرو دیکھنا چاہوں گا۔‘‘ لیکن یعقوب نے یہ نہیں کہا تھا۔ اُس نے نہیں کہا تھا، ’’میں اُسے پھر کسی اور دِن ملوں گا، میں اُسے آتے اور جاتے مل لوں گا۔‘‘ جی نہیں! یعقوب نے کہا، ’’میں مرنے سے بیشتر اُس سے جا کر ملوں گا۔‘‘ یہی ہے جو میں چاہتا ہوں کہ آج رات آپ یہ کہیں، ’’میں مرنے سے بیشتر اُس سے جا کر ملوں گا۔‘‘ اُس وقت تک کا انتظار مت کریں کہ آپ مر جائیں! اگر آپ کرتے ہیں، تو آپ اُسے دیکھیں گے، لیکن تب تک بہت دیر ہو جائے گی، کیونکہ آپ اُسے دیکھیں گے بالکل اُس سے پہلے جب آپ آگ کی جھیل میں جھونکے جاتے ہیں، آخری فیصلے کے موقع پر! اوہ، میں کس قدر دعا کرتا ہوں کہ آپ کہیں گے، ’’مجھے یقین ہوگیا؛ میرا نجات دہندہ اب تک زندہ ہے: میں مرنے سے بیشتر اُسے جا کر ملوں گا۔‘‘

مجھے یہ سوچتے رہنا یاد ہے، ’’میں انگلستان دیکھنا چاہوں گا، وہ جگہ جہاں میرے دادا پیدا ہوئے تھے۔‘‘ اور میں اُس جگہ کو دیکھنے کے لیے گیا تھا، دو مرتبہ۔ مجھے وہ سوچنا یاد ہے، ’’میں مصر دیکھنا چاہوں گا، اور اُس عظیم اہرام مصر کو جس کی باتیں اکثر میری ماں کرتی تھی۔‘‘ اور میں واقعی وہ دیکھنے کے لیے گیا تھا، اور یہاں تک کہ میں نے اُس اہرام مصر میں ایک سُرنگ کے ذریعے چڑھائی بھی کی تھی! مجھے سوچنا یاد ہے، ’’میں گلیل کا سمندر دیکھا چاہوں گا، اور پطرس کا گھر، جہاں یسوع رُکا تھا۔‘‘ اور میں واقعی گیا تھا اور اُنہیں دیکھا تھا۔ میں چاہوں گا کہ جاؤں اور عظیم دیوارِچین دیکھوں، اور شاید کسی دِن میں اُسے دیکھنے کے لیے چلا جاؤں گا۔ اِس دُنیا میں شاید بہت سی ایسی چیزیں ہیں جنہیں آپ دیکھنا چاہیں گے۔ لیکن اِس کے باوجود آپ وہ ساری چیزیں جو ایک انسان اِس دُنیا میں دیکھنا چاہتا ہے دیکھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں، تو میں آپ کو بتاتا ہوں – یسوع کو ایمان کی آنکھ کے ذریعے سے دیکھنے سے مت قاصر رہیے۔ یسوع کے مقابلے میں کسی بھی اور چیز کو دیکھنے میں کوئی زندگی نہیں ہے، جس نے کہا، ’’اے انتہائی زمین کے سب رہنے والو، تم میری طرف پھرو اور نجات پاؤ‘‘ (اشعیا45:‏22)۔ میں دعا کرتا ہوں کہ آج رات آپ بوڑھے یعقوب کے ساتھ مل کر کہیں گے، ’’مجھے یقین ہو گیا؛ یسوع میرا نجات دہندہ زندہ ہے: میں مرنے سے بیشتر اُس سے جا کر ملوں گا؛ میں جاؤں گا اور آج ہی رات اُس میں یقین کروں گا۔ میں نے بہت زیادہ انتظار کر لیا ہے!‘‘

اگر آپ تفتیشی کمرے میں ہمارے ساتھ جانا چاہتے ہیں اور دعا کرنا چاہتے ہیں، تو مہربانی سے بالکل ابھی اجتماع گاہ کی پچھلی جانب چلے جائیے۔ ڈاکٹر چعین Dr. Chan مہربانی سے دعا کیجیے کہ کوئی نہ کوئی آج رات یسوع میں ایمان لے آئے گا۔ آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھومی Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: پیدائش 45:‏17۔28 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’روبرو Face to Face‘‘ (شاعر کیری ای۔ بیرک Carrie E. Breck،‏ 1855۔1934)۔

لُبِ لُباب

یعقوب کا شک کرنا – اسرائیل کا یقین کرنا

JACOB DOUBTING – ISRAEL BELIEVING
(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 72 )
(SERMON #72 ON THE BOOK OF GENESIS)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’چنانچہ وہ مِصر سے روانہ ہُوئے اور ملک کنعان میں اپنے باپ یعقوب کے پاس چلے آئے اور اُس سے کہا: یُوسُف اب تک زندہ ہے۔ وہ واقعی سارے ملک مِصر کا حاکم ہے۔ یہ سن کر یعقوب کا دل دھک سے رہ گیا۔ اُس نے اُن کا یقین نہ کیا۔ لیکن جب انہوں نے اُسے وہ سب باتیں بتائیں جو یُوسُف نے اُن سے کہی تھیں اور جب اُس نے وہ گاڑیاں دیکھیں جو یُوسُف نے اُسے لانے کو بھیجی تھیں تب اُن کے باپ یعقوب کی جان میں جان آئی اور اِسرائیل نے کہا: مجھے یقین ہو گیا کہ میرا بیٹا یُوسُف اب تک زندہ ہے۔ اب تو میں اپنے مرنے سے پیشتر جاکر اُسے دیکھ لوں گا۔ تب اِسرائیل اپنا سب کچھ لے کر روانہ ہُوا... ‘‘ (پیدائش 45:‏25۔46:‏1).

(پیدائش 37:‏3، 4، 18، 33؛ 39:‏4)

I۔   اوّل، یعقوب نے اپنے بیٹوں کی گواہی پر یقین نہین کیا تھا، پیدائش45:‏26؛
1۔کرنتھیوں15:‏5۔8؛ لوقا 16:‏31؛ پیدائش 32:‏30۔

II۔  دوئم، یعقوب کی جان میں جان آ گئ تھی جب اُس نے یوسف کے الفاظ سُنے، اور وہ گاڑیاں
دیکھیں جو یوسف نے اُسے لانےکے لیے بھیجی تھیں، پیدائش 45:‏27؛ متی 11:‏28؛
یوحنا5:‏24؛ پیدائش 45:‏28۔

III۔ سوئم، یعقوب نے، جو اب اسرائیل کہلاتا تھا، کہا، ’’مجھے یقین ہو گیا؛ یوسف میرا بیٹا ابھی
تک زندہ ہے: اب تو میں مرنے سے بیشتر جا کر اُسے دیکھ لوں گا، پیدائش45:‏28؛
یوحنا6:‏47؛ پیدائش46:‏1:اشعیا45:‏22۔