Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

کیوں نوح بچایا گیا اور باقی تمام فنا ہو گئے

WHY NOAH WAS SAVED AND THE REST WERE LOST

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ
17 جون، 2012، خُداوند کے دِن، شام کو
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, June 17, 2012

’’جیسا نوح کے دِنوں میں ہوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا‘‘
(متی 24:37).

ڈاکٹر گلِیسن ایل. آرچر نے پرنسٹن الہٰیاتی درسگاہ Princeton Theological Seminaryاور ہارورڈ گریجوایٹ سکولHarvard Graduate School سے ڈگریاں حاصل کی تھیں۔ اُنہوں نے اپنے کیرئیر کا اختتام پرانے عہد نامے کے پروفیسر کے طور پر ڈئیر فلیڈ، ایلینوس کے ٹرنٹی ایونجیلکل ڈیوِنٹی سکولTrinity Evangelical Divinity School میں کیا۔ ڈاکٹر آرچر میرے انتہائی دیرینہ چینی پادری ڈاکٹر تموتھی لِن Dr. Timothy Lin کے دوست تھے، وہ بھی پرانے عہد نامے کے ایک عالم تھے اور بائبل پر ماہر لِسانیات تھے۔ میں ڈاکٹر آرچر کو جانتا تھا اور اُنہوں نے ہمارے گرجہ گھر میں واعظ بھی دیا تھا۔ نوح اور طوفانِ عظیم سے تعلق رکھتے ہوئے ڈاکٹر آرچر نے کہا کہ متی 24:37۔39 نوح اور سیلاب پر مسیح کا اعتقاد سچے مسیحیوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ پیدائش میں دیئے گئے واقعے کو قبول کریں۔ اُنہوں نے کہا، ’’یسوع پیشنگوئی کر رہا ہے کہ پرانے عہد نامے میں درج ایک واقعہ مستقبل میں بطورِ ایک الگ قسم کے تاریخی واقعے کے طور پر پیش آئے گا۔ اِس لیے آُس نے سیلاب کو بالکل جیسا وہ پیدائش میں درج ہے ایک اصلی تاریخی واقعے کے طور پر قبول کیا‘‘ (گلِیسن ایل. آرچر، پی ایچ. ڈی.، بائبل کی دشواریوں کا اِنسائیکلوپیڈیا Encyclopedia of Bible Difficulties، ژونڈروان اشاعتی گھر Zondervan Publishing House، 1982، صفحہ 21). خود سیلاب سے تعلق رکھتے ہوئے ڈاکٹر آرچر نے کہا، ’’جغرافیائی ثبوت فیصلہ کُن اہمیت کے حامل ہوتے ہیں،حالانکہ سائنسدان جو پاک کلام کی سچائی کو مسترد کرتے ہیں اُنہوں نے اِس کے بارے میں بہت کم تذکرہ کیا ہے۔ یہ بالکل اُسی قسم کا ثبوت ہے جو کہ ایک سال کے چھوٹے عرصے کے دوران دکھانے کے لیے اِس قسم [سیلاب میں] کی ایک مختصر لیکن پُرجوش قسط ہوگی. . . جو کہ یقینی طور پر پیدائش 7 باب میں بیان کی گئی طغیانی کی قسم کے لیے تصدیق کرتی ہے ‘‘ (ibid.، صفحہ 83). اُنہوں نے کہا، ’’چند مسیحی جغرافیہ دان محسوس کرتے ہیں کہ کچھ بڑے بڑے زلزلوں سے متعلق پریشانیاں جو کہ کُرہ ارض کے مخلتف حصوں میں زینوزویک Cenozoic دور کے پیمانے پر تھیں اُن کی بہترین توجیح سیلاب کے سبب سے شروع ہونا کی گئی تھی‘‘ (ibid.، صفحہ 82). یوں ڈاکٹر آرچر نے کہا کہ ایک آفاقی سیلاب کی جغرافیائی ثبوت کے ساتھ توقع ہے (ibid.). میرا یقین ہے کہ ڈاکٹر آرچر بالکل درست تھے، اور کہ نوح کے زمانے میں ایک آفاقی سیلاب تھا۔

اِس کے علاوہ نوح کی کشتی کا حجم بھی بہت بڑا تھا۔ ڈاکٹر ھنری ایم. مورس Dr. Henry M. Morris نے کہا، ’’مان لیں کہ قدیم گز صرف 17.5 انچ کا رہا ہوگا (سب سے چھوٹا جس کے بارے میں کوئی بھی مقتدر کہہ سکتا ہے)، تو کشتی نے زیادہ سے زیادہ 125,000 بھیڑ کے حجم کے جانوروں کو رکھا ہوگا۔ چونکہ زمینی جانوروں کی تقریباً 25,000 سے زائد انواع نہیں ہیں. . . چاہے وہ زندہ ہوں یا ناپید ہو چکے ہوں، اور چونکہ اِس قسم کے جانوروں کا اوسطً حجم یقینی طور پر بھیڑ کے مقابلے میں کافی کم ہوگا، تو یہ واضح ہے کہ تمام کے تمام جانور باآسانی نوح کی کشتی کے آدھے سے بھی کم حصے میں جمع کیے گئے ہونگے، ہر جوڑا مناسب ’کمروں‘ میں‘‘ (ھنری ایم. مورس، پی ایچ. ڈی.، بائبل کا دفاعی مطالعہ The Defender’s Study Bible، ورلڈ پبلِشنگ، 1995، صفحہ 21؛ پیدائش 6:15 صفحہ نمبر 6 پر ایک یاداشت)۔

لیکن میرے لیے نوح کے بارے میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ واقعات جن کا تعلق اُس کے اور سیلاب کے ساتھ ہے اور جیسا کہ ڈاکٹر آرچر نے ظاہر کیا کہ وہ ایک قسم کا ’’مستقبل کا تاریخی واقعہ‘‘ ہے، جس کو کہ خُداوند یسوع مسیح نے بیان کیا جب اُنہوں نے کہا،

’’جیسا نُوح کے دِنوں میں ہُوا تھا ویسا ہی اِبنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا‘‘
      (متی 24:37).

خداوند یسوع مسیح نے ہمیں بتایا کہ اُس کی دوسری آمد کے وقت دُنیا میں ہونے والے واقعات بالکل اُن جیسے ہونگے جس طرح عظیم طوفان کے آنے سے پہلے کے دِنوں میں تھے۔ اِس لیے نوح کے دور کے حالات مسیح کی دوسری آمد اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں دُنیا کے خاتمے سے بالکل پہلے دُہرائے جائیں گے۔ اِس زمانے کے آخری دِنوں میں، ہر علامت یہ ظاہر کرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ ہم اُس دور میں رہ رہے ہیں۔

2005 میں نیو یارک شہر میں اپنے بالکل آخری صلیبی واعظ کے دوران، بلی گراہم Billy Graham نے درست کہا تھا، ’’نئے عہد نامے میں، ’’نئے سِرے سے پیدائش‘‘ کا تذکرہ نو بار ہوا ہے۔ کفارے کا تذکرہ نوّے مرتبہ ہوا ہے۔ بپتسمے کا ذکر کچھ بیس دفعہ ہوا ہے۔ لیکن مسیح کے دوبارہ آنے کا تذکرہ سینکڑوں مرتبہ ہوا ہے‘‘ (خُدا کے پیار میں جینا: تحریک نیویارک Living in God’s Love: The New York Crusade، جی. پی. پُٹنام کے بیٹے G. G. P. Putnam’s Sons، 2005صفحہ 109).

خُداوند یسوع مسیح نے کہا کہ جن دِنوں میں نوح جیا بالکل اُس وقت جیسے ہونگے جب وہ دوبارہ آئے گا،

’’جیسا نُوح کے دِنوں میں ہُوا تھا ویسا ہی اِبنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا‘‘
      (متی 24:37).

اِس واعظ میں مَیں (1) نوح کے زمانے کے حالات، اور (2) جس طریقے سے نوح بچایا گیا اِن دو پر توجہ مرکوز کرواؤں گا۔

I. اوّل، نوح کے زمانے کے حالات۔

نوح کے دِنوں میں کیسے ہوا کرتا تھا؟ بائبل کہتی ہے،

’’خداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی ہے اور اُس کے دِل کے خیالات ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہتے ہیں‘‘ (پیدائش 6:5).

اُن دِنوں میں لوگوں کے ذہن ہمیشہ بدی کی جانب ’’مائل رہتے‘‘ تھے۔ جب وہ رات کو سونے کے لیے جاتے، تو اُن کے ذہن بُرے خیالات سے بھرے ہوتے تھے۔ جب وہ صبح بیدار ہوتے تھے، تو اُن کے دِل کے خیالات فوراً بُرے تصورات سے بھر جاتے تھے۔

میتھوڈست کلیسیا جیسی وہ کبھی تھی کے بانی جان ویزلی نے پیدائش 6:5 صفحہ نمبر 6 پر بات کرتے ہوئے اپنے واعظ ’’حقیقی گناہ‘‘ میں کہا،

ہمارے پاس یہ یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ بدی میں کوئی ٹھہراؤ تھا۔ کیونکہ خُدا، جس نے ’دِل کے خیالات کے تمام تصورات کو صرف بدی کے لیے دیکھا تھا، اُس طرح اُس نے دیکھا، کہ یہ ہمیشہ کی طرح ویسا ہی تھا، کہ ہر پل، ہر لمحہ، ہر دِن، ہرسال یہ ’صرف بدی کی طرف مائل ہوتے رہنا تھا‘۔ [انسان] کبھی نیکی میں نہیں بدلا. . . زمین پر سیلاب لانے سے پہلے تمام لوگ اِس قسم کے تھے۔ ہم یہ تفتیش کرنے کے لیے دوسرے نمبر پر ہیں کہ آیا وہ اب بھی ویسے ہی ہیں (جان ویزلی، ایم. اے. ’’حقیقی گناہ Original Sin ‘‘، جان ویزلی کے کام The Works of John Wesley، بیکر کتاب گھر، 1979، جلد ششم، صفحہ 59).

مسٹر ویزلی اِس بات کو واضح کرنے کے لیے جاری رہتے ہیں کہ آج کل بھی لوگ اُنہی حالات میں رہ رہے ہیں جیسےکہ وہ سیلاب سے پہلے رہ رہے تھے کیونکہ حقیقی گناہ نے تمام نسلِ انسانی کو نیست و نابود کر دیا تھا۔ اُنہوں نے کہاانسان تکبر سے بھرا پڑا ہے، کہ ’’ہمارے دِلوں میں خود کی مرضی پر شیطان نے اپنی شبیہہ کی مہر لگا دی ہے،‘‘ کہ ہم خُدا کے مقابلے میں دنیا کو پسند کرتے ہیں، کہ ہم جسمانی لذت اور ’’تصورات کی لذت کی خواہش سے بھرے پڑے ہیں‘‘۔ اُنہوں نے کہا کہ انسان دنیا کے لیے پیار سے لبریز ہیں۔ اُنہوں نے انسان کی دہریت اور بت پرستی، تکبر، اپنی مرضی اور دنیا کے پیار پر بات کی۔‘‘ اُنہوں نے کہا،

کیا انسان قدرتی طور پر بدی کے تمام لوازمات سے بھرپور ہے؟ کیا وہ تمام نیکیوں سے خالی ہے؟ کیا وہ کامل طور پر گناہ میں گرا ہوا ہے؟ کیا اُس کا نفس مکمل طور پربگڑ گیا ہے؟ یا، تلاوت کی طرف واپس آتے ہوئے، کیا اُس کے دِل کے خیالات کا ہر تصور صرف بدی کے لیے مائل ہے؟‘ اِس کی اجازت دیں، اور آپ کہ سکتے ہیں کہ مسیحی ہیں. . . انکار کریں، تو آپ اور کچھ نہیں بس ابھی تک کافر ہیں (ibid.، صفحہ 63).

کیا مسٹر ویزلی سچے نہیں تھے؟ آپ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیایہ سچ نہیں ہے کہ زیادہ تر اوقات میں خُدا آپ کے خیالات میں نہیں ہوتا ہے؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آپ خُدا سے پیار کے مقابلے میں دنیا میں چیزوں کو زیادہ پیار کرتے ہیں؟ - کہ حقیقت میں آپ خُدا کو پیار کرتے ہی نہیں ہیں؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آپ اِس تمام کو قبول کرنے کے لیے فخر کرتے ہیں؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آپ کا ذہن جنسی لذت سے بھرا پڑا ہے؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ’’ آپ کے دِلوں میں خود کی مرضی پر شیطان نے مہر لگا دی ہے؟‘‘

لیکن، آپ شاید کہہ سکتے ہیں، ’’کیا یہ انسان کی ہمیشہ سے یہ حالت نہیں ہے جب سے کہ وہ گناہ میں گرِا تھا؟‘‘ بے شک یہ ہے۔ لیکن فرق یہاں پڑتا ہے – نوع انسانی اِس اختیار کے اختتامی دِنوں میں اُنہیں گناہ میں ہونے پر قائل کرنے کے لیے زیادہ شدت کے ساتھ پاک روح کے کام مسترد کرتی ہے۔ یہ ہی تھا جو بالکل نوح کے دِنوں میں ہوا تھا۔ بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ خُدا نے کہا، ’’میری روح انسان کے ساتھ ہمیشہ مزاحمت نہ کرتی رہے گی‘‘ (پیدائش 6:3 صفحہ نمبر 6). نوح کے زمانے کے لوگوں نے آخر تک پاک روح سے مزاحمت کی تھی! اور کسی نہ کسی طرح کیا ایسا ہی معاملہ آج نہیں ہے، اور زیادہ شدت کے ساتھ، اور مسیحیت کی لمبی تاریخ میں اِس سے پہلے کبھی اتنا حقیقی نہیں رہا ہے؟

ماضی میں جھانکیے، اِس توفیق کے ابتدائی سالوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ، اپنے کافرانہ طرزِ زندگی کو پیچھے چھوڑ کر واقعی گرجہ گھروں میں بھاگے آتے تھے۔ مسیحیت کے اُن ابتدائی دِنوں میں یہ واقعی کہا جا سکتا تھا کہ ہزاروں لاکھوں لوگ ’’بتوں کی پرستش چھوڑ کر زندہ اور سچے خُدا کی عبادت کرنے کے لیے اُس کی طرف رجوع ہوئے‘‘ (1۔تسالونیکیوں 1:9 صفحہ نمبر 218). یہاں تک کہ قرونِ وسطیٰ کے تاریک دِنوں میں لاکھوں اپنی مسیحیت کے بارے میں بہت سنجیدہ تھے، ایسی شدت کے ساتھ جو آج ہم مغربی دنیا میں کبھی نہیں دیکھتے۔ اور اصلاح کے دِنوں میں لوگ خُدا کے لیے اتنے بھوکے تھے کہ وہ اکثر مسیح کا انکار کرنے کے بجائے قید کے لیے جاتے، اور یہاں تک کہ زندہ جلائے جانے کے لیے۔ آج شام ہم زیادہ تر دنیا میں کہاں ایسا خلوص دیکھتے ہیں؟ اور تینوں عظیم بیداریوں کے دِنوں میں یسوع پر بھروسہ کرنے اور تبدیل ہونے سے پہلے ہزاروں لوگوں کا گناہ کے تحت آنا عام بات تھی۔ مغربی دُنیا میں اب کہاں ہم ایسی تجدید نو دیکھتے ہیں، جو کہ دوسری عظیم بیداری میں کافی عام تھی؟ کہاں ہم ایسی بات دیکھتے ہیں جیسی کہ 1814 میں کارنوال Cornwall کی عظیم بیداری میں بیان کی گئی تھی؟

      ہزاروں فوراً رحم کے لیے چلّا رہے تھے۔ خُداوند کا اُن کی جانوں کے لیے امن بتانے سے پہلے، کچھ نفس کی شدید پریشانی میں ایک گھنٹے تک رہے، کچھ دو، کچھ چھ، کچھ نو، بارہ اور کچھ پندرہ گھنٹوں – پھر وہ کھڑے ہوئیں گے، اپنے بازو پھیلائیں گے، اور خُداوند کے شاندار کاموں کا اعلان کریں گے۔ اتنے جوش و جذبے کے ساتھ کہ پاس سے گذرنے والے ایک لمحے کے لیے ٹھٹھر جائیں گے، اور زمین پر گریں گے اور اپنی روح کی بے تابی و بے چینی کے لیے گڑگڑائیں گے (جنت سے آگ Fire From Heaven میں سے حوالہ لیا گیا مصنف پال ای.جی. کُک Paul E. G. Cook، بشارت انجیل پریس Evangelical Press، 2009، صفحہ 80).

آج ہم اپنے گرجہ گھروں میں کہاں پاک روح کی ایسی تحریک دیکھتے ہیں؟ ہم ایسی مذہبی تبدیلیاں کہاں دیکھتے ہیں؟

یہ ایک آدمی کی بات ہے جس نے خُدا کے احساس کےبغیر زندگی گزار دی ہے یا اپنے گناہوں کی سنجیدگی کے ساتھ، اور پھر ایک دِن آتا ہے جب وہ خدا کی موجودگی سے آگاہ ہوتا ہے۔ وہ گناہ کے تحت سزا کا شدید تجربہ کرتا ہے اور خُدا کو تلاش کرنا شروع کرتا ہے، اکثر نا اُمیدی اور مایوسی کے احساس کےساتھ۔ وہ ایسا کرتا رہتا ہے جب تک کہ کفارے کے لیے بُلا نہیں لیا جاتا اور معافی اور نجات کے لیے خُداوند یسوع مسیح کی طرف منہ نہیں پھیرتا۔ پھر اُسے خُدا کے رحم اور اُس کے گناہوں کی یقین دھانی دی جاتی ہے۔ اور اِس کے بعد شدید خوشی اور شادمانی پیروی کرتے ہیں (کُک، ibid.، صفحہ 119).

ہم کہاں آج اپنے مغربی گرجہ گھروں میں ایسی مذہبی تبدیلیاں دیکھتے ہیں؟ ہم اُنہیں اِس لیے نہیں دیکھتے کیونکہ لوگ جیسا اُنہوں نے نوح کے دِنوں میں کیا تھا پاک روح کے ساتھ مزاحمت کرتے ہیں!

’’جیسا نُوح کے دِنوں میں ہُوا تھا ویسا ہی اِبنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا‘‘
      (متی 24:37).

II. دوئم، جس طریقے سے نوح خود بچایا گیا۔

تمام دُنیا مادہ پرست بن چکی ہے۔ ’’مادہ پرستی‘‘ سے میری مُراد یہ ہے کہ مافوق الفطرت کے بہت کم خیال کے ساتھ نوع انسانی مادی دُنیا کی طرف مرکوز ہو گئی تھی۔ خُدا اُن کے خیالات کا مرکز نہیں تھا۔ وہ صرف اِس زندگی کی باتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ صرف اِس موجودہ دُنیا میں اپنی زندگی کے بارے میں سوچتے۔ یسوع نے اِس کو بالکل واضح کیا جب اُس نے کہا،

’’جیسا نُوح کے دِنوں میں ہُوا تھا ویسا ہی اِبنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا کیونکہ طوفان سے پہلے کے دِنوں میں لوگ کھاتے پیتے اور شادی بیاہ کرتے کراتے تھے۔ نُوح کے کشتی میں داخل ہونے کے دِن تک یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ اُنہیں خبر تک نہ تھی کہ کیا ہونے والا ہے، یہاں تک کہ طوفان آیا اور اُن سب کو بہا لے گیا۔ ابنِ آدم کی آمد بھی ایسی ہی ہوگی‘‘ (متی 24:37۔39).

یہ انتہائی دلچسپ ہے کہ مسیح نے اِس حقیقت کا تذکرہ نہیں کیا کہ اُن کے خیالات ’’صرف بدی کے لیے مائل‘‘ تھے (پیدائش 6:5 صفحہ نمبر 6)، حالانکہ وہ تھے۔ مسیح نے ذکر نہیں کیا کہ ’’دُنیاظلمت سے بھری [تھی]‘‘ (پیدائش 6:13 صفحہ نمبر 6) حالانکہ وہ تھی۔ مسیح نے صرف اِس بات کا ذکر کیا کہ وہ نوح کے کشتی میں داخل ہونے کے دِن تک کھاتے پیتے اور شادی بیاہ کرتے کراتے تھے‘‘ (متی 24:38 صفحہ نمبر 29). لیکن محض کھانے پینے اور شادی بیاہ کرنے کرانے کا تذکرہ کر دینے سے مسیح نے اُن کے گناہ کی جڑ کی طرف اشارہ کیا۔ وہ اُن باتوں میں اِس قدر مگن تھے کہ جیسا کہ ڈاکٹر میکجی نے کہا، ’’وہ ایسے رہے جیسے خُدا کا وجود ہی نہیں تھا۔ اُنہوں نے اِس بات کا یقین نہیں کیا کہ وہ اُن کا انصاف کرے گا اور اُنہوں نے سیلاب کے نزدیک آ جانے کی تنبیہہ کی تحقیر کی تھی‘‘ (جے. ورنن میکجی، ٹی ایچ.ڈی.، بائبل میں سے Thru The Bible، تھامس نیلسن پبلِشرز، 1983، جلد چہارم، صفحہ 132؛ متی 24:38، 39 پر ایک یاداشت). یہ ہمارے دِنوں میں لوگوں کو بھی بیان کرتا ہے۔ واشنگٹن ڈی. سی. میں کیپیٹل ھِل بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر کے با اثر پادری مارک ڈیور Mark Dever نے کہا، ’’اگر لاکھوں نہیں تو ہزاروں، گرجہ گھر کے اراکین نے مسیحی ہونے کے لیے دوبارہ جنم نہیں لیا ہے۔‘‘

یسوع نے کہا کہ ’’اُنہیں خبر تک نہ تھی کہ کیا ہونے والا ہے، یہاں تک کہ طوفان آیا اور اُن سب کو بہا لے گیا‘‘ (متی 24:39 صفحہ نمبر 29). اوہ، اُنہوں نے سُن لیا تھا کہ سیلاب آ رہا تھا۔ اُنہوں نے کشتی دیکھی تھی۔ اُنہوں نے نوح کی تنبیہہ سُنی تھی،جس کو پطرس رسول ’’راستبازی کا مبلغ‘‘ بُلاتا ہے (2۔پطرس 2:5 صفحہ نمبر 255). اُنہیں بے شمار مرتبہ خبردار کیا گیا تھا کہ قیامت آ رہی تھی۔ اِس کے باوجود ’’اُنہیں خبر نہ تھی کہ کیا ہونے والا ہے یہاں تک کہ طوفان نہیں آ گیا۔‘‘ یونانی زبان میں لفظ ’’جاننے‘‘ کے ترجمے کا مطلب ’’آگاہ ہونا‘‘ ہے، (شدت سے) ’’اِدراک کرنا‘‘ ہے۔ ڈاکٹر رائینیکر Dr. Rienecker نے کہا کہ یہ ’’ بغیر کسی تعلق اور بغیر کسی آنے والی آفت کے خطرے کی پیش بینی کے زندگی کی تفضیل‘‘ہے (فریٹز رائینیکر، پی ایچ. ڈی.، نئے عہد نامے کی لسانیاتی کُلید A Linguistic Key to the New Testament، ژونڈروان اشاعتی گھر Zondervan Publishing House، اشاعت 1980، صفحہ 72؛ متی 24:39 صفحہ نمبر 29 پر ایک یاداشت). ہمارے دِن کی کیسی ایک ایسی ہی تصویر!

مسیح نے نوح کے دور کے لوگوں کی تصویر اِس طرح سے پیش کی کہ جیسے زیادہ تر لوگ اِس موجودہ دُنیا کے اختتام پر جئیں گے۔ میرا یقین ہے کہ آج شام یہاں موجود آپ میں سے کچھ اُن کی طرح رہ رہے ہیں جو نوح کے زمانے میں تھے! آپ نے شاید سُنا ہو کہ قیامت آ رہی ہے۔ لیکن یہ آپ کی توجہ اپنی جانب نہیں کھینچتی ہے۔ آپ نے آنے والی قیامت کے بارے میں سُنا ہوگا، لیکن آپ اِس کا ’’اِدراک‘‘ نہیں کر سکتے ہیں۔ اِس کا آپ سے کوئی تعلق لگتا ہی نہیں۔ یہ شاید دلچسپ ظاہر ہوتا ہے، لیکن یہ آپ کے خوف یا خطرے کی پیش بینی کے احساس کی وجہ نہیں ہوتی ہے۔ آپ نے آنے والی قیامت کے بارے میں سُنا ہوگا، لیکن اِس نے آپ کے دِل کو اپنی گرفت میں نہیں لیا ہے، یا آپ کی زندگی تبدیل نہیں کی۔ اُنہیں ’’خبر تک نہ تھی کہ کیا ہونے والا ہے، یہاں تک کہ طوفان آیا اور اُن سب کو بہا لے گیا‘‘ متی 24:39 صفحہ نمبر 29). خُدا کے کسی خوف کے بغیر، نسل انسانی نے زندگی کی مادی چیزوں پر توجہ مرکوز رکھنی جاری رکھی، جیسا کہ کھانا پینا اور شادیاں۔ آپ کے بارے میں کیا خیال ہے؟

اب غور کریں نوح کیسے بچایا گیا تھا۔ پیدائش کی کتاب محض کہتی ہے،

’’لیکن نُوح خداوند کی نظر میں مقبول ہُوا‘‘ (پیدائش 6:8).

لوتھر نے اِن الفاظ کا موازنہ جو فرشتے نے مریم سے کہا تھا اُس سے کیا، ’’تجھ پر خُدا کا فضل ہوا ہے‘‘ (لوقا 1:30 صفحہ نمبر 60). لوتھر نے کہا، ’’اِس انداز سے بات کرنا تمام شکوک کو ختم کر دیتا ہے اور ایمان کو اُجاگر کرتا ہے جس کے ذریعے سے ہم تنہا خُدا کے حضور راستباز ٹھہرتے ہیں اور اُس کی نظروں میں مقبول ٹھہرتے ہیں‘‘ (پیدائش پر لوتھر کا تبصرہ Luther’s Commentary on Genesis، ژونڈروان اشاعتی گھر Zondervan Publishing House، اشاعت 1958، جلد اوّل، صفحہ 138). آرتھر ڈبلیو. پنک Arthur W. Pink نے کہا، ’’دوسرے تمام گنہگاروں کے ساتھ جنہوں نے خُدا کے ساتھ قبولیت پائی، نوح ’ایمان کے ذریعے سے راستباز‘‘ ٹھہرا (آرتھر ڈبلیو. پنک، Gleanings in Genesis، موڈی پریس، اشاعت 1981، صفحہ 97).

لہٰذا پہلی بات جو ہم نوح کے بارے میں جانتے ہیں یہ تھی کہ وہ فضل کے ذریعے سے بچایا گیا تھا۔ دوسری بات جو ہمیں پتا چلتی ہے وہ یہ ہے:

’’ایمان ہی سے نوح نے اُن باتوں کے بارے میں جو مستقبل میں پیش آنے والی تھیں خُدا کی طرف سے ہدایت پائی، اور خُدا ترسی کے باعث. . . (عبرانیوں 11:7).

خُدا کے فضل کی وجہ سے نوح خوف کے ساتھ دھل گیا تھا۔ جیسا کہ جان نیوٹن John Newton (1725۔1807) لکھتے ہیں، ’’یہ فضل تھا جس نے میرے دِل کو خوف کرنا سیکھایا‘‘ (’’حیرت انگیز فضل Amazing Grace‘‘، دوسرا بند). ایک نابچائے گئے یا غیر محفوظ گنہگار کے دِل میں صرف خُدا کا فضل ہی ہے جو خوف اُجاگر کر سکتا ہے۔ خُدا کا فضل اِنسان کے پاس آنے سے پہلے وہ خوفزدہ نہیں تھا۔ پولوس رسول اُن کے بارے میں بات کرتا ہے جو فضل کے ذریعے سے چھوئے نہیں گئے جب اُس نے کہا، ’’نہ ہی اُن کی آنکھوں میں خُدا کا خوف ہے‘‘ (رومیوں 3:18صفحہ نمبر 163).

کسی نے کبھی مجھ سے کہا تھا، ’’میں خُدا سے خوفزدہ نہیں ہوں‘‘ – جیسا کہ اُس نے سوچا ہو کہ اُس کا تجربہ غیر معمولی تھا! یہ بالکل بھی غیر معمولی نہیں تھا۔ اِس کا محض یہ ہی مطلب ہوتا ہے کہ آپ کبھی بھی خُدا کے فضل سے چھوئے نہیں گئے ہیں – کیونکہ پہلی بات جو فضل کرتا ہے آپ کے ’’دِل کو خوف کرنا‘‘ سیکھاتا ہے جیسا کہ نیوٹن نے اِسے لکھا۔ خُدا کے فضل کے بغیر آپ اپنی تمام زندگی ’’[اپنی] آنکھوں کے سامنے خدا کے خوف کے بغیر‘‘ گزار دیں گے۔ لیکن جب خُدا کا فضل آپ کے پاس آئے گا، اُس کی پاک روح کے ذریعے سے وہ آپ کو آپ کے گناہ سے آگاہ کرے گا۔ وہ آپ کے دِل میں خوف آپ کے گناہ کی وجہ سے اُجاگر کرے گا۔ اگر آپ کو گناہ سے خوفزدہ نہیں کیا گیاتو آپ گناہ سے بچائے نہیں جائیں گے! ڈاکٹر جے. گریشام میکحن Dr. J. Gresham Machen نے کہا، ’’جب انسان گناہ کے تحت سزا میں آتا ہے، زندگی کی طرف اُس کا تمام رویہ تبدیل ہو جاتا ہے‘‘ (جے. گریشام میکحن، ڈی.ڈی۔، آزاد خیالی اور مسیحیت Christianity and Liberalism، عئیرڈمینز اشاعتی ادارہEerdmans Publishing Company ، اشاعت 1990، صفحہ 67).

اِس سے پہلے کہ آپ گناہ کے تحت سزا کا تجربہ کریں، آپ صرف کیسے حقیقی تبدیلی پائی جائے اِس کے بارے میں ہی سوچتے رہیں گے۔ ایک نوجوان آدمی نے کہا، میں خوفزدہ ہوں میں جھوٹی مذہبی تبدیلی کروں گا۔‘‘ وہ غلط بات کے لیے خوفزدہ ہے! خدا کا کوئی خوف نہیں ہے۔ گناہ کا کوئی خوف نہیں ہے۔ وہ اپنی ہولناک حالت کے لیے بیدار نہیں ہوا ہے! [اُس کی] نظروں کے سامنے خدا کا کوئی خوف نہیں ہے‘‘! لیکن جب پاک روح آتا ہے تو وہ آپ کو گناہ کی تنبیہہ کرے گا (یوحنا 16:8 صفحہ نمبر 110). جب گناہ آپ کے ذہن میں دھشت ناک ہو جاتا ہے تو ’’زندگی کی طرف آپ کا تمام رویہ تبدیل ہو جاتا ہے،‘‘ جیسا کہ ڈاکٹر میکحن نے کہا۔

اور یوں یہ نوح کے ساتھ تھا۔ جب پاک روح نے اُسے اُس کے گناہ کے تحت سزا میں ٹھہرایا، ’’وہ ’’گناہ کے ساتھ دھل گیا، اپنے گھر کو بچانے کے لیے ایک کشتی تیار کی‘‘ (عبرانیوں 11:7صفحہ نمبر 242). صرف گناہ کے تحت سزا، اور خُدا کا پاک خوف ہی آپ کو مسیح میں نجات کے لیے تحریک دے گا، جس کو کشتی کے ذریعے سے علامت دی گئی ہے! یہ آدمی! اپنے گناہ کے بارے میں سوچئیے۔ اپنی زندگی کے گزرے ہوئے گناہوں کے بارے میں سوچئیے! آنے والی قیامت جس کا آپ اپنے گناہوں کی وجہ سے تجربہ کریں گے اُس کے بارے میں سوچیے! خُدا سے گِڑگڑائیں کہ وہ آپ کو اِس قدر گہرائی میں گناہ کے تحت سزا میں لے کہ آپ کہہ سکیں، ’’میرا گناہ ہمیشہ میرے سامنے ہے‘‘ (زبور 51:3 صفحہ نمبر 548).

ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ کشتی میں آئیں، صلیب پر اُس کی موت کے ذریعے سے اپنے گناہوں کی معافی کے لیے یسوع کے پاس آئیں۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ یسوع پر بھروسہ کریں اور اُس کے قیمتی خون سے اپنے گناہ پاک صاف کر لیں۔ لیکن جس بارے میں آپ کو صرف سوچنا ہے وہ یہ ہے کہ اُس پر بھروسہ کیسے کریں! جب آپ کا گناہ آپ کو دھشت زدہ کرے گا، تو آپ مسیح پر ’’کیسے‘‘ بھروسہ کرنے کے بارے میں نہیں سوچ رہے ہوں گے! اوہ، جی نہیں، آپ ’’خوف کے ساتھ دہل جائیں‘‘ گے اور حفاظت کی کشتی میں آ جائیں گے، جو نجات دہندہ یسوع مسیح ہے! جیسا کہ ڈاکٹر میکحن نے کہا،

جب انسان گناہ کی سزا کے تحت آتا ہے، زندگی کی طرف اُس کا تمام رویہ تبدیل ہو جاتا ہے؛ وہ اپنے گذشتہ اندھے پن پر اور خوشخبری کے پیغام پر تعجب کرتا ہے، جو کہ اِس سے پہلے ایک بے بنیاد کہانی لگتی تھی، اب [اُس کے لیے زندہ] ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ صرف خُدا ہی ہے جو تبدیلی پیدا کر سکتا ہے (میکحن، ibid.).

خُدا سے دعا کریں کہ وہ آپ کو گناہ کے تحت سزا میں لے! کیونکہ جب تک خُدا آپ کو گناہ کے تحت سزا کے لیے بیدار نہیں کرتا ہے آپ بھی اُن ہی کی طرح تباہ و برباد ہیں جو نوح کے دور میں تھے، اُنہیں ’’خبر تک نہ تھی کہ کیا ہونے والا ہے، یہاں تک کہ طوفان آیا اور اُن سب کو بہا لے گیا‘‘ (متی 24:39 صفحہ نمبر 29).

اگر آپ ابھی تک حقیقی مسیحی نہیں ہیں تو ہم آپ کو دعا کے لیے اور مشاورت کے لیے وقت دینا چاہتے ہیں ۔ مہربانی سے ابھی گرجے کے صدرمقام کی پچھلی جانب آ جائیے اور ڈاکٹر کیگن آپ کو ایک پرسکون مقام پر دعا کے لیے لے جائیں گے۔ آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے تلاوتِ کلام پاک کی تھی ڈاکٹر کرہیٹن ایل۔ چَین نے Dr. Kreighton L. Chan متی 24:36۔42 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت گایا تھا مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے
’’ایسے ادوار میں‘‘ (شاعر روتھ کائی جونز، 1902۔1972).

لُبِ لُباب

کیوں نوح بچایا گیا اور باقی تمام فنا ہو گئے

WHY NOAH WAS SAVED AND THE REST WERE LOST

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’جیسا نوح کے دِنوں میں ہوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا‘‘
(متی 24:37).

1۔ اوّل، نوح کے زمانے کے حالات، پیدائش 6:5، 3 ؛1۔ تسالونیکیوں 1:9 .

2۔ دوئم، جس طریقے سے نوح خود بچایا گیا تھا، متی 24:37۔39 ؛ پیدائش 6:5، 13؛
 2۔پطرس 2:5؛ پیدائش 6:8؛ لوقا 1:30؛ عبرانیوں 11:7؛ رومیوں 3:18؛
 یوحنا 16:8؛ زبور 51:3 .