Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

اشعیا کی تبدیلی

THE CONVERSION OF ISAIAH

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ
21 جنوری، 2012، خُداوند کے دِن، شام کو
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Saturday Evening, January 21, 2012

’’جِس سال عُزیّاہ بادشاہ نے وفات پائی میں نے خُداوند کو ایک بلند و بالا تخت پر جلوہ افروز دیکھا اور اُس کی قِبا کے گھیر سے ہیکل معمور ہو گئی‘‘ (اشعیا 6:1).

’’میں چِلّا اُٹھا، مجھ پر افسوس! اِس لیے کہ میں تباہ ہوگیا؛ کیونکہ میرے ہونٹ ناپاک ہیں اور میں ناپاک ہونٹوں والے لوگوں کے بیچ میں رہتا ہوں: اور میں نے بادشاہ کو جو ربّ الافواج ہے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے‘‘ (اشعیا 6:5).

’’تیری بدکاری دور ہوئی اور تیرے گناہ کا کفارہ ہو گیا‘‘ (اشعیا 6:7).

’’تب میں نے خُداوند کو یہ کہتے ہوئے سُنا، میں کسے بھیجوں اور ہماری طرف سے کون جائے گا؟ تب میں نے عرض کیا، میں حاضر ہوں؛ مجھے بھیج دے‘‘ (اشعیا 6:8).

اِس سے پہلے کہ ہم اشعیا 6:1۔8 میں نبی کی بلاہٹ پر دیکھیں ہمیں دو سوالوں کو مدِ نظر رکھنا ہے: (1) اشعیا کی زندگی کے واقعات کی تاریخ وار ترتیب میں یہ حوالہ کہاں پوری طرح بیٹھتا ہے؟ اور (2) کیا یہ اشعیا کا تبدیلی کا تجربہ ہے، یا یہ اُس کی تبدیلی کے بعد مذید اپنے آپ کو وقف کر دینے کی ایک بلاہٹ ہے؟

اوّل، اشعیا کی زندگی کے واقعات کی تاریخ وار ترتیب میں یہ حوالہ کہاں پوری طرح بیٹھتا ہے؟ جان کیلوِن John Calvin (1509۔1564) نے خود اقرار کیا تھاکہ ’’کچھ سوچتے ہیں کہ یہ [اشعیا 6:1۔8] خود کتاب کا آغاز ہے’’ (جان کیلوِن، اشعیا نبی کی کتاب پر تبصرہ Commentary on the Book of the Prophet Isaiah ، جلد اوّل، بیکر کتاب گھر، 1998، صفحہ 198؛ اشعیا 6:1 پر ایک یاداشت).

ڈاکٹر ایڈورڈ جے. ینگ Dr. Edward J. Young نے کہا کہ ’’عام طور پر زیادہ تر اب یہ نقطہ نظر مانا جاتا ہے کہ یہ باب اشعیا کی اصلی بلاہٹ . . . اور اِس تاثر سے فرار ہونا مشکل ہے. . . اِس باب کی اپنی موجودہ صورتِ حال میں ہونے کی ایک بہت قطعی وجہ ظاہر ہوتی ہے۔ بظاہر اشعیا کا مقصد سب سے پہلے [باب اوّل تا پنجم میں] اپنے پیغام کے دِل کو پیش کرنا ہے، اور پھر صرف خود اپنی انبیانہ بُلاہٹ کے واقعات سے تعلق جوڑنا ہے‘‘ (ایڈورڈ جے. ینگ، پی ایچ.ڈی.، اشعیا کی کتاب The Book of Isaiah، جلد اوّل، ولیم بی. عیئرڈ مینز اشاعتی ادارہ، 1965، صفحہ 232، 233).

ڈاکٹر فرانس ڈیلیژزچ Dr. Franz Delitzsch نے بھی کئیل اور ڈیلیژزچ کے تبصرے میں یہی وضاحت پیش کی تھی جب اُس نے کہا، ’’چھٹے باب کو ہر غیرجانبدار ذہن میں یہ تاثر ضرور بٹھانا ہے کہ یہ نبی کی اِفتتاحی [اصلی] رؤیا سے تعلق رکھتا ہے‘‘ (فرانس ڈیلیژزچ، پی ایچ.ڈی.، پرانے عہد نامے پر تبصرہ Commentary on the Old Testament، جلد ہفتم، ولیم بی. عئیرڈمینز اشاعتی ادارہ، دوبارہ اشاعت 1973، صفحہ 188).

پس، ہم کہتے ہیں کہ اشعیا 6:1۔8 نبی کی خُدا کی طرف سے اصلی بُلاہٹ کو پیش کرتا ہے، اور کہ یہ، یہ بیان کرتا کہ اُس کے ساتھ اپنی منادی کے بالکل آغٖاز میں کیا ہوا تھا۔

دوئم، کیا یہ اشعیا کا تبدیلی کا تجربہ ہے، یا یہ اُس کی تبدیلی کے بعد مذید اپنے آپ کو وقف کر دینے کی ایک بلاہٹ ہے؟ میں قائل ہو چکا ہوں کہ اشعیا کا چھٹا باب کلامِ پاک کے اُن عظیم حوالوں میں سے ایک ہے جن کا تعلق تبدیلی کے ساتھ ہے۔ یہ یقیناً اعمال 9 باب میں پولوس کی تبدیلی سے مشہابت رکھتا ہے، اور بائبل میں دوسری تبدیلیوں سے، اور مسیحی تاریخ میں تبدیلیوں سے بھی مشہابت رکھتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے اُس نقطہ نظر کے بارے میں جو کچھ عظیم اصلاح کار جان کیلوِن نے لکھا اُس سے اُلجھایا جا چکا ہے۔ کیلوِن نے سوچا کہ اشعیا کا تجربہ اُس کی منادی کے تبلیغ میں اُسے قوت دینے کے لیے اور اُس کی تصدیق کرنے کے لیے اُسے دیا گیا تھا (جان کیلوِن، ibid.، صفحہ 199).

جیسا کہ وہ عظیم تھا، میرے خیال میں جان کیلوِن اِس بارے میں غلط تھا۔ تقریباً تمام تبصرہ نگار جنہوں نے کیلوِن کی پیروی کی اُس کے اِس نظریے کو درست تاویل سمجھتے رہے۔ اِسی نظریے کے مدِنظر اِس لحاظ سے کیلوِن کی غلطی نے بہت سے کی سوچوں کا رُخ موڑ دیا۔ مثال کے طور پر، جان میک آرتھر نے کہا، ’’خُدا کی خصوصی خدمت گزاری کے لیے روحانی پاکیزگی، ناکہ نجات مدِ نظر ہے (جان میک آرتھر، ڈی.ڈی.، The MacArthur Study Bible میک آرتھر کا مطالعہ بائبل، World Bibles، ایڈیشن 1977، صفحہ 963؛ اشعیا 6:7 پر یاداشت(۔

یہاں تک کہ جانے مانے تبصرہ نگار ڈاکٹر ایڈورڈ جے. ینگ نے کہا، ’’اشعیا ایک سچا ایماندار رہ چکا تھا اور خداوند کا خدمت گزار رہا تھا۔ ہم اُس کی تبدیلی کی وضاحت نہیں پڑھ رہے ہیں۔ اب اُس کو بُلند مقام عطا کیا جاتا ہے. . . تاکہ وہ اِس وقت کے مقابلے میں خُداوند کی خدمت زیادہ پُرتپاک طریقے سے کر سکے (ibid.، صفحہ 250). اِس بیان کے دینے کے فوراً بعد ڈاکٹر ینگ نے کیلوِ ن کا حوالہ اِس کی تائید کے لیے دیا (ibid.) .

حالانکہ کیلوِن کے نقطہ نظر نے تبصروں کو متاثر کیا ہے، میں یقین کرتا ہوں کہ یہ اشعیا 6:1۔8 کی یہ ناموزوں تاویل ہے۔ اِس کے باوجود کلامِ پاک کے اِس حوالے سے متعلق وہ تمام واعظ جو میں نے کبھی سُنے اُن کے پیچھے کیلوِن کا یہ ہی نقطہ نظر تھا۔ لیکن انصاف کیا جائے تو، یہ کیلوِن کا ہی نقطہ نظر تھا جس نے صرف فضل کے ذریعے سے نجات اور اصلی گناہ کی دھجیاں اُڑائیں۔ یہ کیلوِن کا نظریہ تھا جو اپنی مدد آپ کے پیغام میں بدلا۔ میں اِسے نوجوان لوگوں کو گرجہ گھر کے کیمپوں میں اُنہیں اپنے آپ کو عظیم تر خدمت گزاری کے لیے ’’تعینات‘‘ کروانے کے لیے ’’قائل کرنے‘‘کے لیے، یا اپنے آپ کو منادی کے لیے ’’مختص‘‘ کر دینے کے لیے، یا اپنے آپ کو غیر ملکی مبشرانِ انجیل بننے کے لیے ’’مختص‘‘ کرنے کے لیے تبیلغ دیتے ہوئے سُن چُکا ہوں۔ میری نظر میں یہ سب غلط ہے۔ چونکہ بہت سے نوجوان لوگ مذہبی ہیں، لیکن غیر تبدیل شُدہ، اِس لیے بہت حد تک یہ بہتر ہوگا کہ اُنہیں انجیلی تبیلغ کے طور پر اِس حوالے کی تبیلغ دی جائے۔ پھر بھی اِس کی تلقین عموماً ایسے ہی دی جاتی ہے جیسے ڈاکٹر میک آرتھر نے اِسے پیش کیا، ’’خُدا کی خصوصی خدمت گزاری کے لیے روحانی پاکیزگی ناکہ نجات مدِ نظر ہے‘‘ (ibid.). لیکن میں یقین کرتا ہوں کہ اِس نقطہ نظر کو حوالے کے اپنے الفاظ کی تقلید بھی حاصل نہیں ہے۔ میں ڈاکٹر میک آرتھر نے جو کچھ کہا اُس کے بالکل مخالف کہوں گا، ’’نجات، ناکہ روحانی پاکیزگی خُدا کی خدمت گزاری کے لیے مدِنظر ہے!‘‘

جی ہاں، میرے خیال میں اِس سے قبل کہ اشعیا یہ تجربہ کرتا وہ کسی نہ کسی طرح سے ایک ’’یقین کرنے والا‘‘ تھا۔ وہ نظریاتی طور پر بِلا شک وشبہ خدا میں یقین رکھتا تھا۔ اُس نے خُدا کی خدمت کے لیے یقینی طور پر کوشش کی۔ یہاں تک کہ شاید اُس نے اِس تجربے سے پہلے تبلیغ بھی کی ہو۔ اور پھر بھی میں قائل ہوں کہ وہ تبدیل شُدہ نہیں تھا۔ کیا مارٹن لوتھر نے تبلیغ نہیں کی اور اپنے تبدیل ہونے سے پہلے خداوند کی خدمت گزاری کی کوشش نہیں کی؟ کیا جان ویزلی John Wesley اور جارج وائٹ فیلڈ John Whitefield نے تبلیغ نہیں کی تھی اور خداوند کی خدمت گزاری کی کوشش نہیں کی تھی اِس سے پہلے کہ وہ تبدیل ہوتے؟ خود میں نے اپنے بچائے جانے سے تین سال سے بھی زیادہ پہلے تبلیغ کرنی شروع کر دی تھی۔ مسیح کے اپنے شاگرد، تھوما پر شک کرنے سے، جس نے اپنے تبدیل ہونے سے پہلے تین سالوں تک تبلیغ کی اور خُداوند کی خدمت گزاری کی کوشش کی۔

تھوما بھاگ گیا تھا جب یسوع کو گرفتار کیا تھا۔ یسوع کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد تھوما نے شدت سے خوشخبری پر یقین کرنے سے انکار کیا۔ وہ کسی بھی طور شعوری طریقے سے تبدیل نہیں ہوا تھا، جب تک کہ اُس کا سامنا جی اُٹھے مسیح سے نہیں ہو گیا! اور اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ چھٹے باب میں اشعیا کا اپنے اِس تجربے سے پہلے کتنا ایمان تھا، وہ غیر تبدیل شُدہ ہی تھا – جب تک کہ خود خُدا نے اُس کی سمجھ کی آنکھیں نہ کھول دیں، اور اُس بچایا، جیسا کہ ہمیں اشعیا 6:1۔8 میں بتایا گیا ہے۔ اشعیا کا تجربہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ عموماً ہوتا ہے جب لوگ حقیقی تبدیلی میں سے گزرتے ہیں۔ ہمارے ساتھ آج کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے بہت کم حقیقی تبدیل شُدہ ہستیاں دیکھی ہیں۔ زیادہ تر لوگ ایک سطحی ’’فیصلہ‘‘ لےلیتے ہیں اور غیر تبدیل شُدہ ہی رہتے ہیں۔ لیکن اشعیا کا تجربہ واضح طور پر حقیقی تبدیلیوں کے ضابطوں کی پیروی کرتا ہے، جیسے کہ وہ جو تین عظیم بیداریوں کے دوران وقوع پزیر ہوئی تھیں۔ اور یہی طریقہ ہے کہ لوگ حقیقی طور پر بچائے جاتے ہیں۔

1۔ سب سے پہلے، آپ کو خدا کی حقیقت کا تجربہ کرنا چاہیئے۔

پہلی آیت کو دیکھیے۔

’’جِس سال عُزیّاہ بادشاہ نے وفات پائی میں نے خُداوند کو ایک بلند و بالا تخت پر جلوہ افروز دیکھا اور اُس کی قِبا کے گھیر سے ہیکل معمور ہو گئی‘‘ (اشعیا 6:1).

ڈاکٹر ڈیلیژزچ Dr. Delitzsch نے کہا، ’’جس سال عُزیّاہ بادشاہ نے وفات پائی، ناکہ یوتام کے دورِ حکومت کا پہلا سال؛ یعنی کہنے کا مطلب یہ ہے کہ، عُزیّاہ بادشاہ اب بھی حکومت کر رہا تھا، حالانکہ اُس کی موت بالکل قریب تھی‘‘ (ڈیلیژزچ، ibid.، صفحہ 188). اشعیا ہمیں ٹھیک وہی وقت پیش کرتا ہے جب خُدا اُس کے لیے حقیقی ہوا تھا۔ اِس سے قبل، خُدا اُس کے لیے ایک نظریہ تھا۔ اُس نے خُدا کے بارے میں بتایا تھا، لیکن اب اُس نے خُدا کی حقیقت کا تجربہ کیا تھا۔ وہ اچانک خود ساختہ طور پر خُدا کو جاننے والا بن گیا۔ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ اشعیا خُدا سے آگاہ ہوا تھا۔ ’’ میں نے خُداوند کو ایک بلند و بالا تخت پر جلوہ افروز دیکھا‘‘ جو ’’خُداوند‘‘ یہاں بتایا گیا وہ قبل ازیں مسیح تھا، کیونکہ ہمیں یوحنا کی انجیل کے بارہویں باب میں بتایا گیا ہے،

’’یسعیاہ نے یہ اِس لیے کہا، کیونکہ اُس نے یسوع کا جلال دیکھا تھا، اور اُس کے بارے میں کلام بھی کیا‘‘ (یوحنا 12:41).

کیا آپ کو کبھی ایسا ہی تجربہ ہوا؟ آپ بغیر مسیح اور خُدا کی حقیقت کو جانے سالوں تک گرجہ گھر آسکتے ہیں۔ خُود خُدا ہی آپ کو اِس قسم کی آگہی دے گا۔ اگر آپ ایک سوئے ہوئے گنہگار ہیں تو آپ اپنی زندگی خُدا کی حقیقت کا اِدراک کیے بغیر ہی گزارتے ہیں۔

خُدا کو خود آپ پر اشکارہ کرنا چاہیے ورنہ آپ کبھی بھی تبدیل نہیں ہونگے۔ اِس قسم کے خُدا کی طرف سے عطا کیے گئے تجربے کے بغیر آپ کے پاس کوئی اُمید نہیں، ’’اِس دُنیا میں خُدا کے بغیر نااُمیدی کی حالت میں زندگی‘‘ (افسیوں 2:12). یعقوب بھی اتنا ہی گنہگار تھا جتنا کہ عیسو۔ لیکن خُدا نے اپنے آپ کو یعقوب پر آشکارہ کیا۔ عیسو کا کبھی بھی خُدا سے سامنا نہیں ہوا۔ اوہ، وہ خُدا کے بارے میں جانتا تھا، لیکن خُدا اُس کے لیے کبھی حقیقی تھا ہی نہیں۔ عیسو نے خُدا کے بارے میں کبھی ایک حقیقی ہستی کے طور پر بات نہیں کی۔ آپ کبھی بھی تبدیل نہیں ہوتے اگر آپ کو خُدا کا تجرباتی شعور نہیں ہے! میرے شریکِ کار ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan نے کہا، ’’میں یکدم جان گیا، اندر کہیں گہرائیوں میں، کہ خُدا حقیقی تھا . . . لیکن میں مسیحی نہیں تھا۔ وہ تجربہ جو میں نے خُدا کے ساتھ کیا میرے لیے بہت حقیقی تھا، لیکن میں یسوع مسیح پر یقین کرنے کے لیے ابھی تیار نہیں تھا . . . اِس میں دو سال اور لگے تھے جب میں تبدیل ہوا تھا‘‘ (سی. ایل. کیگن، C. L. Cagan پی ایچ. ڈی.، ڈاروِن سے ڈیزائن تک From Darwin to Design، وائٹیکر ہاؤس، 2006، صفحہ 17، 18).

کچھ عرصہ قبل ہی میں نے کچھ لوگوں کی ایک تصویر دیکھی جو ہمارے گرجہ گھر آیا کرتے تھے۔ وہ جنگلی کافروں کی مانند لگتے تھے! وہ گرجہ گھر آئے۔اُنہوں نے بائبل سیکھی۔ اُنہوں نے بائبل کی آیات زبانی یاد کیں۔ اُنہوں نے دعاؤں کے کلمات ادا کیے۔ لیکن اُنہوں نے کبھی بھی خُدا کی حقیقت کا تجربہ نہیں کیا۔ خُدا اُن کے خیالات میں تھا ہی نہیں۔ وہ اگر کسی چیز کے بارے میں سوچتے تھے تو وہ تھی اُن کا آپس میں لگاؤ۔ وہ صرف ایک دوسرے کو دیکھتے تھے۔ وہ اشعیا کےساتھ مل کر کبھی نہیں کہیں گے، ’’ میں نے خُداوند کو ایک بلند و بالا تخت پر جلوہ افروز دیکھا اور اُس کی قِبا کے گھیر سے ہیکل معمور ہو گئی‘‘ (اشعیا 6:1). یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی تبدیل نہیں ہوئے تھے!

آپ ہمارے ساتھ نجات کے بارے میں بات چیت کرنے کے لیے تفتیشی کمرے میں آئیں۔ لیکن چونکہ آپ کو کبھی بھی خُدا کی آگہی نہیں ہوئی ہے، ہم ایسا کچھ نہیں کہہ سکیں گے جس سے آپ کی مدد ہوگی۔ آپ خُدا کی نظر میں کس طرح قصور وار محسوس کرسکیں گے اگر آپ کو خُدا کی آگہی نہیں ہوئی؟ یہ ناممکن ہے۔ خُدا کی نظر میں اپنے گناہوں کی معافی کے لیے آپ کس طرح مسیح کی ضرورت کومحسوس کر سکیں گے، اگر آپ کو خُدا کا کوئی تجربہ نہیں ہوا؟ آپ زیادہ سے زیادہ یہ کر سکیں گے کہ یسوع کے بارے میں کچھ جان لیں اور یہ جو ’’گنہگاروں کی دعا‘‘کہلائی جاتی ہے اُس کے الفاظ بُڑبُرا ئیں۔ چونکہ خُدا نے اپنے آپ کو آپ پر کبھی ظاہر نہیں کیا، آپ بھی اپنی زندگی جاری رکھیں گے جیسا کہ اشعیا نے اس تجربے سے پہلے اپنی زندگی جاری رکھی تھی۔ خُدا کے اندرونی شعور کے بغیر، کوئی روحانی رویا نہیں، اور اُمید نہیں! اشعیا نے کہا، ’’جب تک خُداوند مل سکتا ہے اُس کے طالب ہو‘‘ (اشعیا 55:6). خُدا کو ڈھونڈیں جب آپ تنہا ہیں۔ اگر آپ اُس میں ناکام ہو جائیں تو آپ ایسے ہی زندگی جاری رکھیں گے جیسے کہ ہیں۔ میرا آپ کو کچھ بھی کہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا جب تک کہ آپ کو خُدا کی بصیر ت نہ ملے، جب تک کہ آپ یعقوب کے خُدا سے آگاہ نہ ہوں!

خُدا اقتدارِ اعلٰی ہے۔ وہ شاید آپ کو اپنی حقیقت کا تجربہ نہ دے۔ لیکن اگر آپ جستجو کریں، اُسے جاننے کی تلاش کریں، تو آپ اُس کو پالیں گے، اگر آپ اُس کی تلاش ’’اپنے تمام دِل کے ساتھ کریں‘‘ (یرمیاہ 29:13). پھر بھی اگر آپ خُدا کی حقیقت کا تجربہ کریں تو وہ ایک دردبھرا سامنا ہوگا۔

2۔ دوئم، آپ خُداوند کی موجودگی میں گنہگار محسوس کریں گے، اور معافی کے
 لیے اپنی ضرورت کو محسوس کریں گے۔

پانچویں آیت پر نظر ڈالیے۔

’’میں چِلّا اُٹھا، مجھ پر افسوس! اِس لیے کہ میں تباہ ہوگیا؛ کیونکہ میرے ہونٹ ناپاک ہیں اور میں ناپاک ہونٹوں والے لوگوں کے بیچ میں رہتا ہوں: اور میں نے بادشاہ کو جو ربّ الافواج ہے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے‘‘ (اشعیا 6:5).

نبی نے جب خُدا کی حقیقت کو دیکھا، وہ خود اپنی ناپاکی کو سوچنے پر مجبور کر دیاگیا۔ وہ چِلّایا، ’’مجھ پر افسوس!‘‘ اِس تکلیف دہ بولنے کے عمل میں ہم اُس کی خُود مذمتی کو دیکھتے ہیں۔ اُس نے کہا، ’’میں تباہ ہو گیا ہوں۔‘‘ عبرانی زبان میں لفظ ’’منسوخ کرنا‘‘ کا مطلب ہے ’’میں جُدا کر دیا گیا ہوں، میں برباد ہو گیا ہوں، میں بد نصیب ہو گیا ہوں‘‘ (ینگ، ibid.، صفحہ 247). ڈاکٹر ڈیلیژزچ نے اِس کا ترجمہ کیا، ’’میں کھو گیا ہوں‘‘ (ڈیلیژزچ، ibid.، صفحہ 195). اُس کے خُداکے تصور نے اُسے مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا۔ ڈیلیژزچ نے کہا، ’’اشعیا نے اِس لیے اپنے آپ کو کھویا ہوا تصور کیا‘‘ (ibid.).

یہ ہے جسے پیوریٹن اور اُن کے وارث ’’بیداری‘‘ کہتے تھے۔ بیداری اُس وقت وقوع پزیر ہوتی ہے جب آپ کو اِس بات کا احساس ہوتا ہے کہ آپ خُدا سےالگ ہو گئے ہیں اور تباہ ہو گئے ہیں۔ صرف جب آپ کی ناپاکیزہ گنہگاری آپ کو مقدس خُدا کی نظر میں ’’تباہ وبرباد‘‘ ہونے کا احساس دلائے، آپ حقیقتاً کھویا ہوا محسوس کریں گے۔ صرف جب آپ کا دِل کہے، ’’میں تباہ و برباد ہو گیا ہوں! میں کھو گیا ہوں!‘‘ آپ کے اِس قسم کی ’’بیداری‘‘ کی خوفناکی کے سوچنے سے پہلے آپ گناہ میں سوئے رہتے ہیں۔ آپ ہزاروں مرتبہ تفتیشی کمرے میں آ سکتے ہیں، لیکن آپ تبدیل نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ اپنے دِل میں یہ محسوس نہ کرلیں کہ آپ اُس ’’بادشاہ جو ربّ الافواج ہے‘‘کی نظروں میں تباہ و برباد ہو گئے ہیں اور کھو گئے ہیں (اشعیا 6:5). کچھ لوگ اپنی زندگی میں طویل مدت تک ایک غیر تبدیل شدُہ حالت میں رہتے ہیں، وہ غیر تبدیل شُدہ ہونے پر اُداس ہوتے ہیں، لیکن وہ مقدس خُدا کی نظر میں اپنے گناہوں سے خُوفزدہ نہیں ہوتے ہیں۔ اگر وہ حقیقتاً محسوس کرتے کہ وہ تباہ و برباد ہو گئے تھے، تو اُنہیں مسیح تک پہنچنے کو کوئی تکلیف نہ ہوتی!

یہ صرف تباہ و برباد حال اور کھوئی ہوئی حالت ہی میں ہے کہ خُدا آپ کے گناہ کو شفا دے سکتا ہے۔ یہ اِسی موقع پر ہوتا ہے اور اِس سے پہلے نہیں، کہ مسیح مکمل طور پر پیارا ہو جائے گا، اور آپ کے لیے بہت اہم ہو جائے گا، اور آپ اُس کی طرف ایمان کے ساتھ کھینچے چلے جائیں گے۔ اور پھر وہ آپ سے کہے گا، جیسے کہ اشعیا سے کہا گیا تھا، ’’تیری بدکاری دور ہوئی اور تیرے گناہ کا کفارہ ہو گیا‘‘ (اشعیا 6:7).

میں نے اِس حوالے میں دوسری تفصیلات اور ’’سرافیموں‘‘ کا تزکرہ نہیں کیا۔ یقیناً یہ باتیں روح کی سلطنت میں وقوع پزیر ہوئیں، لیکن میں نے اِس مختصر سے واعظ میں اِن پر انحصار کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ یہ کہہ دینا ہی کافی ہے کہ اشعیا کے کایا پلٹ دینے والے تصور اور سچی مسیحی تبدیلی کے درمیان حقیقی مماثلتیں ہیں۔

آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو خُدا کی شاہانہ دھشت ناکی اور حاکمیت دکھائی جائے۔ آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو مقدس خُدا کی نظر میں تباہ حال اور کھویا ہوا محسوس کرایا جائے۔ آپ کےلیے ضروری ہے کہ آپ یسوع کے پاس یہ پانے کے لیے آئیں ’’تیری بدکاری دور ہوئی اور تیرے گناہ کا کفارہ ہو گیا۔‘‘

اِس حوالے کا اختتام ’’خُداوند کی آواز کے ساتھ یہ کہتے ہوئے ہوا، میں کس کو بھیجوں گا، اور کون ہمارے لیے جائے گا؟‘‘ ’’ہمارے لیے‘‘ پاک تثلیث کا ایک اشارہ دیا گیا ہے۔ ’’کون ہمارے لیے جائے گا؟‘‘ ’’تب میں نے عرض کیا، میں حاضر ہوں، مجھے بھیج دے‘‘ (اشعیا 6:8). جب آپ حقیقتاً تبدیل ہوتے ہیں تو آپ خوشی خوشی کھوئے ہوؤں کو جیتنے کے لیے جائیں گے، اور آپ ایسا ہی کریں گے، جیسا کہ اشعیا نے کیا، اِس سےکوئی فرق نہیں پڑے گا کہ وہ آپ کےلیے کس قدر دشوار گزار ہوتا ہے۔ اور اشعیا ہی کی مانند، آپ کبھی بھی ایسا کرنے سے منہ نہیں موڑیں گے۔ یہ ہی تمام مقدسین کی ثابت قدمی ہے!

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

لُبِ لُباب

اشعیا کی تبدیلی

THE CONVERSION OF ISAIAH

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’جِس سال عُزیّاہ بادشاہ نے وفات پائی میں نے خُداوند کو ایک بلند و بالا تخت پر جلوہ افروز دیکھا اور اُس کی قِبا کے گھیر سے ہیکل معمور ہو گئی‘‘ (اشعیا 6:1).

’’میں چِلّا اُٹھا، مجھ پر افسوس! اِس لیے کہ میں تباہ ہوگیا؛ کیونکہ میرے ہونٹ ناپاک ہیں اور میں ناپاک ہونٹوں والے لوگوں کے بیچ میں رہتا ہوں: اور میں نے بادشاہ کو جو ربّ الافواج ہے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے‘‘ (اشعیا 6:5).

’’تیری بدکاری دور ہوئی اور تیرے گناہ کا کفارہ ہو گیا‘‘ (اشعیا 6:7).

’’تب میں نے خُداوند کو یہ کہتے ہوئے سُنا، میں کسے بھیجوں اور ہماری طرف سے کون جائے گا؟ تب میں نے عرض کیا، میں حاضر ہوں؛ مجھے بھیج دے‘‘ (اشعیا 6:8).

1۔ سب سے پہلے، آپ کو خدا کی حقیقت کا تجربہ کرنا چاہیئے، اشعیا 6:1؛ یوحنا 12:41؛
افسیوں 2:12؛ اشعیا 55:6؛ یرمیاہ 29:13 .

2۔ دوئم، آپ خُداوند کی موجودگی میں گنہگار محسوس کریں گے،
اور معافی کے لیے اپنی ضرورت کو محسوس کریں گے، اشعیا 6:5،7،8 .