Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

مارٹن لوتھر اور شیطان

MARTIN LUTHER AND THE DEVIL

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

اتوار کی شام کو مذہبی اصلاح پر لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی
عبادت گاہ میں ایک تبلیغی واعظ 30 اکتوبر، 2011
A sermon preached on Reformation Sunday Evening
at the Baptist Tabernacle of Los Angeles, October 30, 2011

’’ہوشیار اور خبردار رہو؛ کیونکہ تمہارا دشمن ابلیس دھاڑتے ہوئےشیرِببر کی مانند ڈُھونڈتا پھرتا ہے کہ کس کو پھاڑ کھائے‘‘ (1۔ پطرس 5:8).

[مہربانی سے اس واعظ کے اختتام پرعظیم بپتسمہ دینے والے مبشر، سی۔ایچ سپرجئین کا لکھا ہوا لوتھر کی سوانح حیات کا خاکہ دیکھیئے].

اس کلام کو مدِنظر رکھتے ہوئے، مارٹن لوتھر (1483۔1546) نے کہا، ’’شیطانی روح سوتی نہیں ہے، وہ مکار، عیار اور بدکردار ہے. . . وہ بھوکے ببر شیر کی مانند ڈھونڈتا پھرتا ہے اور ایسے گرجتا ہے جیسے سب کو پھاڑ کھائے گا‘‘ (مارٹن لوتھر، ٹی ایچ۔ ڈی۔، پطرس اور یہودہ پر تبصرہCommentary on Peter and Jude ، کریگل کلاسکز، 1990 دوبارہ اشاعت، صفحہ 218 ؛ 1۔پطرس 5:8).

ڈاکٹر لینزسکی نے کہا، ’’اُس وقت، نیرو کے دورِ حکومت میں، ہولناک ایذا رسانیوں کی دھاڑ بیچارے مسیحی متاثرین کو سنائی دیتی تھی۔ 64 ویں عیسوی کے اکتوبر کے مہینے میں یہ طوفان ٹوٹا تھا۔ پطرس خود اس میں[شہید] ہوا. . . شیطان ہر وقت نہیں دھاڑتا ہے [اس طرح]. . . ‘‘ (آر۔ سی۔ ایچ۔ لینزکی، ٹی ایچ۔ ڈی۔، مقدس پطرس، مقدس یوحنااور مقدس یہودہ کے مراسلے The Epistles of St. Peter, St. John and St. Jude ، اُوگسبرگ پبلِشنگ ہاؤس، 1966، صفحہ 225).

شیطان پہلی تین صدیوں کے دوران دھاڑتا رہا، جس وقت ہزاروں کی تعداد میں مسیحیوں کو قدیم روم کے اکھاڑوں میں ببر شیر چیرا پھاڑا کرتے تھے۔ بلا شبہ پطرس یہی سوچ رہا تھا جب اُس نے کہا،

’’ہوشیار اور خبردار رہو؛ کیونکہ تمہارا دشمن ابلیس دھاڑتے ہوئےشیرِببر کی مانند ڈُھونڈتا پھرتا ہے کہ کس کو پھاڑ کھائے‘‘
       (1۔ پطرس 5:8).

لوتھر کے دِنوں میں پوچھ گاچھ کے دوران شیطان ایسے ہی دھاڑتا تھا، اور ایک دور میں یہودیوں کے قتل عام کے دوران، اور چین میں ثقافتی انقلاب کے دوران، اور آج رات دنیا کے بےشمار حصّوں میں۔

لیکن شیطان یہاں مغربی دنیا میں نہیں ’’دھاڑ‘‘ رہا ہے۔ یہاں وہ لوگوں کو ’’پھاڑ کھانے‘‘ کے لیے ایک نہایت ہی سمجھ سے بالا تر طریقہ اختیار کر رہا ہے۔ یہاں وہ ہمیں سُلانے کے لیے مادہ پرستی (خدا قادر مطلق سے انکار) کا طریقہ استعمال کر تا ہے، اور ہمیں اپنی موجودگی سے بے خبر رکھتا ہے۔ لیکن شیطان خُفیہ طور پر امریکہ اور مغرب میں بہت چاک و چوبند ہے۔ حالانکہ وہ یہاں نظر نہ آنے والے طریقے سے کام کر رہا ہے، لیکن اُس کا مقصد ایک ہی ہے، ’’اُن کی تلاش جنہیں وہ پھاڑ کھائے۔‘‘ مسیح نے کہا کہ ’’شیطان شروع سے ہی خُون کرتا آیا تھا‘‘ (یوحنا 8:44). شیطان کے ناموں میں سے ایک ’’ابدّون‘‘ ہے (مکاشفہ 9:11). ’’ابدّون‘‘ کا مطلب ’’تباہ کرنے والا‘‘ ہے۔ چاہے سرِعام ہو یا خفیہ طریقے سے شیطان کا مقصد انسانی روحوں کو ’’پھاڑ کھانا‘‘، خون کرنا‘‘ اور ’’تباہ کرنا‘‘ ہے۔

شیطان اپنے خُفیہ کاموں میں اس قدر کامیاب رہا ہے کہ امریکہ میں ہمارے زیادہ تر بپتسمہ دینے والے مبشران شاید ہی کبھی شیطان یا بدروحوں پر واعظ دیتے ہیں۔ بے شمار مبلغان کو شیطانی کاروائیوں کی حقیقت نظر ہی نہیں آتی ہے ، یہاں تک کہ خود اپنے گرجا گھروں میں!

امریکی کس قدر روحانی طور پر نادان اور احمق ہو چکے ہیں! ہم اپنے عوامی سکولوں میں شکرانے، کرسمس [بڑا دن] اور ایسٹر [عید پاشکا] جیسے عیدوں کو کالعدم کرنے کی اجازت دے چکے ہیں۔پھر بھی ہالووین Halloween کے موقع پر تقریباً تمام سکولوں کی جماعتیں بدروحوں اور ڈھانچوں، اور چڑیلوں اور خُون چوسنے والی بلاؤں سے جن کی باچھوں کے کناروں سے خُون کے دھارے بہتے نظر آتے ہیں تاکہ بچے اُنہیں دیکھیں۔ کلامِ پاک میں لکھا ہے، ’’وہ عقلمند ہونے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن بے وقوف نکلے‘‘ (رومیوں 1:22)، اور شیکسپیئر نے کہا، ’’یہ فانی انسان بھی کیا بے وقوف ہیں‘‘۔

یہ بات ہمیں واپس مارٹن لوتھر کے پاس لے آتی ہے۔ اُس کے اوپر 20ویں صدی کے اُن آزاد خیالوں سے متاثر عالمین کی طرف سے شیطان اور آسیبیت کو زیادہ اُجاگر کرنے کا اکثر الزام لگایا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ جیسے دورِ جدید کے لوتھر کے حامیوں میں سے قدامت پسند اِیوالڈ ایم. پلاس Ewald M. Plass نے بھی لوتھر کے شیطان پر زیادہ زور ڈالنے پر کچھ تنقید کی تھی۔ پلاس نے کہا، ’’لوتھر قدرتی طور پر موجودہ وقت کے تقاضوں سے زیادہ بے انتہا توہم پرستی کے بارے میں بات چیت کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ اکثر قدرتی وجوہات کی بنا ہونے والی سرگرمیوں کو اندھیروں کی قوتوں سے منسوب کرتا تھا۔‘‘ لیکن، پھر، پلاس اپنا دفاع یہ کہہ کر کر تا ہے، ’’ہوسکتا ہے کہ [لوتھر کے دور میں] شیطان کی سرگرمی عام معمول سے زیادہ نظر آتی تھی، کیونکہ اُسے[لوتھرکو] احساس ہو گیا تھا کہ کیا کچھ داؤ پر لگا ہوا تھا۔‘‘ (اِیوالڈ ایم. پلاس، لوتھر کیا کہتاہے What Luther Says ، کُونکورڈیا پبلِشنگ ہاؤس، 1998 اشاعت، صفحہ 391۔392).

ڈاکٹر ایل. لارسن بھی سرسری طور پر لوتھر کے شیطان اور آسیبیت پر زور ڈالنے کے بارے میں کہتے ہیں، ’’لوتھر صحیح طور پر قرونِ وسطوی تھا. . . لوتھر تمام انسانیت کو دیکھتا تھا’خدا اور شیطان کے درمیان کشمکش کے گہرے شکنجے میں جکڑے ہوئے جبکہ آخرت کا دن [قیامت] یکدم آنا تھا‘ ‘‘ (ڈیوڈ ایل. لارسن، ایم. ڈی آئی وی۔، ڈی. ڈی. ، مبلغین کی کمپنی The Company of the Preachers ، کریگل اشاعت خانہ، صفحہ 153).

بِلا شک و شبہ ڈاکٹر لارسن لوتھر کے ساتھ مل کر اس موضوع پر مکمل آزاد خیال الہٰیاتی مذہبی تدریس گاہ Fuller Theological Seminary میں خامی کو جاننا سیکھتا رہا تھا، یہ ایک نیا بشارتِ انجیل کا سکول تھا جہاں سے لارسن نے اپنی ماسٹرز کی ڈگری پائی تھی۔میں جان چکا تھا کہ فُلر میں طلباء ہمارے ایمان کے بڑے مسائل کے بارے میں فوراً تنقیدی ہونا سیکھتے ہیں۔ مجھے بھی اس ہی طرح سے اُن دونوں آزاد خیال مذہبی تدریس گاہوں میں پڑھایا گیا تھا جہاں سے میں نے گریجوایشن کی تھی۔ لیکن میں نے اس سے متاثر نہ ہونے کی جدوجہد کی تھی، اور لارسن نے نہیں کی تھی! لارسن نے کہا، ’’لوتھر صحیح طور پر قرونِ وسطوی تھا. . . لوتھر تمام انسانیت کو دیکھتا تھا’خدا اور شیطان کے درمیان کشمکش کے گہرے شکنجے میں جکڑے ہوئے جبکہ آخرت کا دن [قیامت] یکدم آنا تھا‘ ‘‘اِس میں کیا بُرائی ہے؟ اس نے کیسے اُسے ایک ’’قرون وسطوی‘‘[پرانے زمانے کا] بنا دیا ہے؟ اپنے بڑھاپے میں لوتھر نے یہودیوں کے بارے میں اور کچھ دوسرے معاملات کے بارے میں پرانے زمانے کی کچھ باتیں کی تھیں، جن کو میں پُر زور طور پر مسترد کرتا ہوں۔ لیکن لوتھر اس بارے میں غلط نہیں تھا کہ بنی نوع انسان تھا ’’خدا اور شیطان کے درمیان کشمکش کے گہرے شکنجے میں جکڑے ہوئےتھا‘‘! وہ اِس بارے میں بالکل درست تھا – کیونکہ یہ ہی بائبل سیکھاتی ہے!

’’ہوشیار اور خبردار رہو؛ کیونکہ تمہارا دشمن ابلیس دھاڑتے ہوئےشیرِببر کی مانند ڈُھونڈتا پھرتا ہے کہ کس کو پھاڑ کھائے‘‘
      (1۔ پطرس 5:8).

زیادہ تر جو لوتھر نے شیطان اور بدروحوں کے بارے میں کہا تھا وہ بائبل میں سے لیا گیا تھا۔

1۔ اوّل، لوتھر درست تھا جب وہ شیطان اور بدروحوں کے نقطہء آغاز کے بارے میں بولا تھا۔

لوتھر نے کہا،

      [شیطان کہاں سے آیا تھا؟] یہ جانے مانے حقائق ہیں: تمام فرشتے سر نگوں ہوئے اور شیطان کو روشنی کے فرشتے سے اندھیرے کے فرشتے میں بدل دیا گیا. . .

بائبل کہتی ہے کہ لوتھر درست تھا،

’’اے صبح کے ستارے ، فجر کے بیٹے، تُو کیسے آسمان سے گر پڑا! تُو جو کسی زمانے میں قوموں کو زیر کرتا تھا، خُود بھی زمیں پر پٹکا گیا! تو اپنے دل میں کہتا تھا، میں آسمان پر چڑھ جاؤں گا، اور اپنا تخت خدا کے ستاروں سے بھی اُونچا کروں گا: میں شمال کی اطراف کی جانب سےجماعت کے پہاڑ پر تخت نشین ہُوں گا، اُس مقدس پہاڑ کی بالائی چوٹیوں پر۔ میں بادلوں کے سروں سے بھی اُوپر چڑھ جاؤں گا؛ میں خُدا تعالٰی کی مانند بنوں گا۔لیکن تو قبر پر اُتارا گیا، بالکل پاتال کی تہہ میں‘‘ (اشعیا 14:12۔15).

لوتھر نے کہا،

      فرشتے اچھے اور بُرے ہیں [لیکن] خدا نے سب کو اچھا بنایا۔ پھر اس امر کی ضرورت ہے کہ بدی کے فرشتے گریں اور سچائی کے سامنے ڈٹے نہ رہ سکیں… یہ بہت ممکن ہے کہ وہ اپنے غرور سے گریں، کیونکہ وہ خداوند کے بیٹے کو . . . جانتے تھے، اور اپنے آپ کو اُس سے اُوپر کرنے کے لیے تعریف کروانا چاہتے تھے (پلاس، ibid. صفحہ 391).

بائبل کہتی ہے کہ لوتھر سچا تھا۔ دونوں بائبل اور لوتھر نے جو کہا وہ حزقیال 28:13۔17 میں کہتا ہے،

تُو [شیطان] عدن میں تھا جو خُدا کا باغ تھا؛ تُو یاقوتِ سُرخ، پُکھراج اور زمّرد، یشوبِ سبز، سنگِ سلیمانی، یشب، نیلم، فیروزہ، زبر جد، اور سونا؛ الغرض ہر قسم کے قیمتی پتھر سے تُو آراستہ تھا۔جنہیں سونے کی تختیوں میں جڑ دیا گیا تھا، جو تیری پیدایش کے دن ہی تیار کی گئی تھیں۔میں نے تجھے ایک سرپرست کروبی کی مانند مسح کیا اور تجھے خدا کے پہاڑ پر مقرر کیا؛ جہاں تو بیش بہا آتشی پتھروں کے درمیان چلتا پھرتا تھا۔ تیری پیدایش کے دن سے لے کر تجھ میں نا راستی سمانے تک تیری روشیں بے گناہ تھیں۔ تیری تجارت کی بہتات کے باعث تجھ میں تشدد بھر گیا، اور تو نے گناہ کیا۔ اس لیے اے سرپرست کروبی، میں نے تجھے شرمناک سمجھ کر خُدا کے پہاڑ پر سے ہٹا دیا، اور تجھے ان آتشیں پتھروں کے درمیان سے خارج کردیا۔ اپنے حُسن کے باعث تیرا دل مغرور ہوا، اور اپنے جمال کے سبب سے تُونے اپنی حکمت کو بگاڑ لیا۔اس لیے میں نے تجھے زمین پر پٹک دیا؛ اور بادشاہ کے سامنے تماشا بنا دیا‘‘ (حزقیال 28:13۔17).

اور بگڑے ہوئے فرشتوں کے تعلق سے جو بدروحیں بن گئے، یہودہ کا مراسلہ کہتا ہے،

’’اُن فرشتوں کو جن کے پاس اقتدار تھا، اور وہ اُسے قائم نہیں رکھ سکے، اُنہوں نے اپنا مقام چھوڑ دیا اِس لیے خداوند نے ان فرشتوں کو اندھیرے ہی میں رکھااور انہیں ہمیشہ کے لیے قید میں زنجیروں سے باندھ دیا اُن کو اس لیے رکھا گیاہے کہ روز آخر اُن کا فیصلہ کیا جائے گا‘‘ (یہودہ 6).

ان میں سے کچھ گرے ہوئے فرشتے جہنم میں قید ہیں۔ لیکن اِن میں سے زیادہ تر وہ آسیب ہیں جن کاسامنا ہم آج کی دنیا میں کرتے ہیں۔ لوتھر نے کہا، ’’بے شک یہ دنیا شیطانوں کے ساتھ بھری پڑی ہے۔‘‘ ’’شیطانوں‘‘ پرانا نام ہے ’’آسیبوں‘‘ کا۔ اسے گائیے!

بے شک یہ دنیا شیطانوں کے ساتھ بھری پڑی ہے،
   جو ہمیں ختم کرنے کے لیے دھمکی دیتے ہیں،
ہم خوف زدہ نہیں ہونگے، کیونکہ خُداوند نے چاہا تھا
   ہمارے ذریعے سے فتح اُس کی سچائی ہے۔ (’’ہ
مارا خداوند ایک عالی شان قلعہ ہے‘‘ A Mighty Fortress Is Our God شاعر مارٹن لوتھر، تیسرا بند۔)

2۔ دوئم، لوتھر سچا تھا جب اُس نے کہا کہ شیطان اُداسی اور مایوسی کا مصنف ہے۔

لوتھر نے کہا،

      تمام اُداسی شیطان کی ہے، کیونکہ وہ موت کا بادشاہ ہے۔ اسلیے خداوند کے ساتھ تعلق میں اُداسی یقینی طور پر شیطان کا کام ہے (پلاس، ibid.، صفحہ 398).

  اصلاح پسند مسلسل شیطان کو اُداسی کی روح کہتے ہیں؛ شیطان کو روشنی سے نفرت ہے، اور خوشی سے بھی؛ کیونکہ وہ اندھیروں اور مایو سیوں کی روح ہے، اور اُسے انسان کو اندھیرے اور نااُمیدی میں گھسیٹنا پسند ہے، یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ گہنگار کا معاملہ نااُمیدی جیسا ہے (لوتھر پر تبصرہ، پلاس، ibid. صفحہ 397۔398).

لوتھر نے کہا،

’’[شیطان] دل میں ہولناک خیالا ت کے تیر برساتا ہے: خُدا کی نفرت، خُدا کی نسبت کفر، اور مایوسی۔ یہ ’آتشیں ہتھیار ‘ ہیں۔ افسیوں6:16 ‘‘ (پلاس، ibid.، صفحہ 399).

یہ وہ حقیقی چیزیں ہیں جو دراصل آج کل اُن لوگوں کے ساتھ ہو رہی ہیں جنہیں ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں۔ ہمارے بابو صاحبوں میں سے ایک نے تحقیقی کمرے میں ایک نوجوان سے بات چیت کی تھی۔ اُس نوجوان آدمی نے کہا، ’’خُدا مجھے پیار نہیں کرتا ہے۔ یسوع مجھے پیار نہیں کرتا ہے۔‘‘ جیسا کہ لوتھر نے کہا، ’’خُدا کی نسبت کفر اور مایوسی ‘‘ یہ واضح سوچیں ہیں جو شیطان کی طرف سے آتی ہیں۔‘‘ پھر بابو صاحب نے بائبل میں سے اُسے یہ پڑھ کر سُنایا،

’’کیونکہ خُدا نے دُنیا سے اس قدر محبت کی کہ اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے‘‘ (یوحنا 3:16).

جب بابو صاحب نے اُس سے پوچھا کہ کیا وہ اس آیت پر یقین رکھتا ہے، اُس نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔ شیطان نے خود اُسے جواب دینے سے روکا تھا! شیطان ہمیں بائبل سننے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے، اور جب ہم اُسے [بائبل کو] سن بھی لیں تو وہ ہمیں اُسے قبول کرنے سے روکتا ہے۔ لوتھر نے کہا، ’’شیطان کی تمام عیاری ہمیں [خُدا کا] کلام سننے سے باز رکھنے کی کوششوں میں استعمال ہوتی ہے‘‘ (پلاس، ibid.، صفحہ 396).

ایک نوجوان عورت نے اُسی بابو صاحب سے یہ کہا، ’’مجھے معاف نہیں کیا گیا ہے، اور میں نہیں جانتی کہ کیوں۔‘‘ وہ شاید نہیں جانتی ہو کہ کیوں، لیکن میں جانتا ہوں۔ اُسے معاف نہیں کیا گیا ہے کیونکہ وہ مسلسل اُن خیالات پر یقین رکھتی ہے جو شیطان اُس کے ذہن میں ڈالتا ہے، بجائے اس کے کہ وہ بائبل کے وعدوں پر یقین رکھے۔ وہ مسیح کے الفاظ کو مسترد کرتی ہے، ’’جو کچھ باپ مجھے دیتا ہے وہ مجھ تک پہنچ جائے گااور جو کوئی میرے پاس آئے گا، میں اُسے اپنے سے جُدا نہ ہونے دوں گا‘‘ (یوحنا 6:37). لوتھر نے کہا کہ شیطان ’’دل میں ہولناک خیالات کے تیر برساتا ہے، مایوسی [کے خیالات]۔‘‘ اُس نے کہا، ’’شیطان کی تمام عیاری ہمیں [خُدا کا] کلام سننے سے باز رکھنے کی کوششوں میں استعمال ہوتی ہے‘‘

3۔ سوئم، لوتھر درست تھا جب اُس نے ظاہر کیا کہ اُداسی اور مایوسی، گناہ کی سزایابی جیسی نہیں ہیں۔

لوتھر نے کہا کہ اُداسی اور مایوسی شیطان کی طرف سے آتی ہیں۔ لیکن اُس نے سیکھایا کہ گناہ کی سزایابی خُدا کی طرف سے ہے۔ بائبل بھی یہی اختلاف واضح کرتی ہے،

کیونکہ وہ رنج جو خُدا کی مرضی کو پورا کرتا ہے، انسان کو توبہ کرنے پر اُبھارتا ہے جس کا نتیجہ نجات ہے. . . لیکن دُنیا کا رنج موت پیدا کرتا ہے‘‘ (2۔ کرنتھیوں 7:10).

لوتھر اُس گناہ کی سزایابی کے بارے میں بتاتا ہے جو تبدیلی سے قبل ہوتی ہے۔ اُس نے کہا،

      یہ ضروری ہے ، اگر آپ تبدیل کیے جاتے ہیں، کہ آپ خوفزدہ ہوں، یعنی کہ آپ کے پاس ایک چوکنا ضمیر ہے۔ پھر، اس کے بعد جو صورتِ حال پیدا ہوتی ہے، آپ کو اُس تسلی اور دلاسے کو گرفت میں لینا ہے جو آپ کے کسی عمل کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ خُداوند کے عمل سے ہوتا ہے۔ اُس نے اپنے بیٹے یسوع مسیح کو دنیا میں اس لیے بھیجا کہ وہ خوفزدہ گنہگاروں میں خداوند کے رحم کا اعلان کرے۔ اسی طریقے سے تبدیلی لائی جاتی ہے؛ دوسرے طریقے غلط ہیں (پلاس، ibid.، صفحہ 343).

لوتھر نے کہا،

      راستبازی سے ہماری مراد ہے کہ ہم گناہ، موت اور شیطان سے بچائے گئے ہیں، اور دائمی زندگی کے شریک بنائے گئے ہیں، خود اپنی مرضی سے نہیں، بلکہ بغیر کسی مدد کے، صرف خداوند کے اکلوتے بیٹے یسوع مسیح کے ذریعے سے (پلاس، ibid.، صفحہ 343).

لوتھر نے کہا،

      راستبازی کے لیے کسی چیز کی بھی ضرورت نہیں ماسوائے یسوع مسیح کو سننے اور اُس پر یقین کرنے کے. . . (پلاس، ibid. صفحہ 707).

اِن دو نکات پر بائبلی غیر مقلد مسیحی اور کلاسیکل[روایتی] بپتسمہ دینے والے عظیم اصلاح پرست لوتھر کے ساتھ متفق ہیں۔ پولوس رسول نے خود کہا، ’’خُداوند یسوع مسیح پر ایمان لا، تو تُو اور تیرا سارا خاندان نجات پائے گا‘‘ (اعمال 16 :31). اس سے زیادہ کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے! ہم اکیلے مسیح میں ایمان سے بچائے گئے ہیں! مہربانی سے حمد نمبر تین اپنے گیتوں کے اوراق میں سے نکالیں۔ اسے گائیں!

خُداوند ہمارا عظیم الشان قلعہ ہے، ایک مضبوط مورچہ جو کبھی ناکام نہیں ہوتا،
   وہ ہمارا مدد گارہے، فانی مصیبتوں کے زورآور سیلاب کے درمیان۔
ابھی تک ہمارا قدیم دشمن ہمیں رنج و غم میں مبتلا کرنے کی تلاش میں ہے؛
   اُس کی قوت اور چالاکی بہت زیادہ ہے، اور، وہ ظالم نفرت سے لیس ہے،
زمین پر اُس کے برابر کا کوئی نہیں ہے۔

کیا ہم خود اپنی قوت ثابت قدم رہے، ہماری جدوجہد شکست ہو سکتی ہے،
   کیا درست انسان کاساتھ ہمارا نہیں تھا، جس انسان کو خود خدا نے چُنا۔
مت پوچھیں شاید وہ کون ہے؟ یسوع مسیح ، یہی ہے وہ؛
   لشکروں کا خداوند اُس کا نام، صدیوں سے صدیوں تک یہی ہے،
اور وہ ضرور جنگ جیتتا ہے۔
اور بےشک یہ دنیا ، شیطانوں کے ساتھ بھری پڑی ہے، جو ہمیں ختم کرنے کے لیے دھمکی دیتے ہیں،
   ہم خوف زدہ نہیں ہونگے، کیونکہ خُداوند نے چاہاہمارے ذریعے سے فتح اُس کی سچائی ہے۔
اندھیرے کا شہزادہ بے رحم ہے – ہم اُس سے ڈرتے نہیں ہیں؛    اُس کا غصہ ہم برداشت کر سکتے ہیں، کیونکہ کچھ بھی ہو اُس کا انجام یقینی ہے۔
ایک چھوٹے سے لفظ سے وہ ہار جائے گا۔

جو زمینی قوتوں سے بالا لفظ ہے – نہیں اُن کا شکریہ – قائم رہے؛
   اُسی کے ذریعے سے جو ہمارے ساتھ ہے روح اور تحائف ہمارے ہیں۔
مال و دولت اور رشتہ دار جانے دو، یہ فانی زندگی بھی؛
   بے شک جسم کو قتل کردیں: خداوند کی سچائی پھر بھی قائم ہے،
اُس کی بادشاہی ابدی ہے۔
(’’خداوند ہمارا عظیم الشان قلعہ ہے‘‘ شاعر مارٹن لوتھر، 1483۔1546؛ مترجم فریڈرک ایچ ہیج، Frederick H. Hedge, 1805۔1890).

لوتھر کی زندگی پر سپرجئین کا خاکہ
SPURGEON’S SKETCH OF LUTHER’S LIFE

’’راستباز ایمان سے جیتا رہے گا‘‘ (رومیوں 1:17).

سپرجئین نے کہا،

      میں ان تعلیمات کی تشریح لوتھر کی زندگی کے مخصوص واقعات کے ذکر کے ساتھ پیش کروں گا ۔ اِس عظیم اصلاح پرست پر انجیل کی روشنی آہستہ آہستہ اُجاگر ہوئی تھی۔ یہ اُس مذہبی عبادت گاہ میں ہوا تھا کہ جب ایک ستوں کے ساتھ زنجیر سے بندھی ہوئی بائبل کو پلٹنے پر ، اُس کو یہ حوالہ ملا – ’’راستباز ایمان سے جیتا رہے گا۔‘‘ یہ آسمانی جملہ اُس کو بھا [پسند آ] گیا تھا: لیکن اُس کو اس کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ تاہم، وہ اپنے مذہبی پیشے اور خانقاہی عادت میں امن تلاش نہیں کر سکا تھا۔ اس سے بہتر نا جانتے ہوئے ، وہ اس قدر کفارے اور نفس کشی میں ثابت قدم رہا، کہ کبھی کبھی نقاہت کے باعث بے ہوش پایا گیا۔ وہ اپنے آپ کو موت کے دروازے پر لے آیا۔ اُسے روم کا سفر ضرور کرنا تھا، کیونکہ روم میں ہر روز گرجہ گھر کی عبادت ہوتی تھی، اور آپ کو یقین ہو جائے گاکہ آپ گناہوں کی معافی اور ہر قسم کی دعائے حفاظت ان مقدس مزاروں میں حاصل کریں گے۔ اُس نے تقدس کے شہر [روم] میں داخل ہونے کا خواب دیکھا تھا: لیکن اُس نے اس کو منافقوں کا بازار اور بداعمالیوں کا ٹھکانا پایا۔ اُس کے خوف کے لیے ، اُس نے لوگوں سے سُنا کہ اگر جہنم ہے تو روم اُس کی چوٹی پر بنایا گیا تھا، کیوں کہ اس دنیا میں اُس کے نزدیک پہنچنے کی کوئی جگہ پائی جا سکتی تھی تو وہ یہی تھی۔ لیکن پھر بھی اس نے اُس کے پاپائے اعظم [پُوپ] پر یقین کیا، اور وہ اپنے کفاروں کو جاری رکھتا رہا، سکون کی تلاش میں لیکن پا نہ سکا. . . [بعد میں] خداوند نے اُس کو مکمل طور پر توہم پرستی سے نجات دلا کر اُس کا مسئلہ حل کیا، اور اُس نے دیکھا کہ نا ہی تو کاہن اور نہ ہی کہانت، نہ ہی تو کفارے اور نہ ہی کوئی ایسا کام جو وہ کر سکتا تھا، جس کے سہارے وہ جی سکے، لیکن وہ اُس ایمان کے ذریعے سے[مسیح میں] جی سکے گا۔ آج [صبح] کے ہمارے کلام نے [کیتھولک] راہب کو آزاد کر دیا تھا، اور اُس کی روح کو پُرجوش کر دیا تھا۔

[’’راستباز ایمان سے جیتا رہے گا‘‘ (رومیوں 1:17).]

با لاآخر جب لوتھر کو یہ کلام سمجھ میں آیا تو اُس نے صرف مسیح پر بھروسہ کیا۔ اُس نے اپنی ماں کو لکھا، ’’میں نے خود اپنا نیا جنم محسوس کیا اورمحسوس کیا کہ میں جنت میں کھلے دروازوں سے گزر کر چلا جاؤں گا۔‘‘ سپرجئین نے کہا،

      جیسے ہی اُس نے اس پر یقین کیا اُس وقت سے اُس نے متحرک سرگرمی کے معنوں میں رہنا شروع کیا۔ ایک ٹیٹزل نامی [کاہن]، بے شمار نقد رقم لے کر تمام جرمنی میں گناہوں کی معافی بیچتا پھر رہا تھا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا قصور کیا تھا، جتنی جلدی آپ کی رقم [جمع کرنے والے] صندوق کے پیندے کو چھوئے گی، تمہارے گناہ دُھل جائیں گے۔ لوتھر نے اس کے بارے میں سُنا تو بہت دل برداشتہ ہوا، اور اعلان کیا، ’’میں اس کے ڈھونگ کا پول کھول کر رہوں گا،‘‘ جو یقیناً اُس نے کیا، اور بے شمار دوسرے ڈھونگیوں کا بھی۔ اپنے نظریات کو گرجہ گھر کے دروازے پر ٹھوکناہی ان احمقانہ طور طریقوں کو بدلنے کا صحیح طریقہ تھا ۔لوتھر نے اعلان کیا کہ گناہ کی معافی مسیح میں بغیر کسی رقم بغیر کسی قیمت کے ایمان رکھنے سے ہوتی ہے، اور پاپائے اعظم کی حماقتیں جلد ہی تمسخر کا نشانہ بنیں۔ لوتھر اپنے ایمان کے ساتھ جیا، اور اسی وجہ سے وہ شخص جو دوسری صورت میں خاموش رہ سکتا تھا، اُس نے غلطی کی اعلانیہ مخالفت ایسے غضبناک طور پر کی جیسے ببر شیر اپنے شکار پر دھاڑتا ہے۔ وہ ایمان جو اُس میں تھا اُس نے اُس کی زندگی کو بھر پور طور پر بھر دیا، اور وہ دشمن کے ساتھ جنگ کے لیے کُود پڑا۔ کچھ عرصے کے بعد اُنہوں نے اُسے اُوگسبرگ میں طلب کیا، اور وہ اُوگسبرگ میں گیا، حالانکہ اُس کے دوستوں نے اُسے مشورہ دیا تھا کہ وہ نا جائے۔ اُنہوں نے اُسے ایک بدعتی کے طور پر طلب کیا تھا، کہ وُورمز Worms [جرمنی کا ایک شہر] کے قانون ساز اجتماع [شاہی مجلسِ شوریٰ] کے سامنے خود کے لیےجواب دہ ہو ، اور ہر کسی نے[ اُسے کہا کہ] وہ مت جائے، کیونکہ یہ یقینی [داؤ پر] ہے کہ وہ جِلا دیا جائے گا ، لیکن اُس نے یہ ضروری محسوس کیا کہ دوسروں کی خاطر اس گواہی کو جھیلا جائے، اور یوں وہ ایک بگھی میں گاؤں گاؤں اور قصبے قصبے سے ہوتا ہوا گیا، جہاں جہاں سے وہ گزرا تبلیغ کرتا ہوا گیا، غریب لوگ اُس کے راستے میں کھڑے ہوتے تھے اُس انسان سے ہاتھ ملانے کے لیے جو اپنی زندگی کو داؤ پر لگا کر مسیح اور انجیل کے لیے لڑ رہا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کیسے اُس نے اُوگست اسمبلی [وُورمز شہر میں] کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا، اور حالانکہ وہ جانتا تھا کہ جہاں تک انسانی بس کی بات تھی اُس کو اپنا دفاع خود اپنی زندگی کی قیمت پر کرنا تھا، کیونکہ ، ہو سکتا تھا، غالباً، [اس داؤ پر اُسے جِلا دیا جائے] جیسے جان حس کو جلایا گیا تھا، پھر بھی اُس نے [بہادروں کی طرح] خُداوند اپنے خدا کے لیے مقابلہ کیا۔ اُس دن جرمنی کی مجلسِ شوریٰ [عدالت] کے سامنے ایک ایسا کام کیا جس کے سبب سے دس ہزار دفعہ، دس ہزار ماؤں کے بچے اُس کے نام کو مبارک کر چکے ہیں، اور مبارک ہے پھر بھی اُس سے زیادہ خداوند اُس کے خد ا کا نام (سی۔ ایچ۔ سپرجئین، ’’عبادت گاہ میں لوتھر کا ایک واعظ،‘‘ میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی خطبہ گاہ سے، The Metropolitan Tabernacle Pulpit، پلگرم اشاعت خانہ، دوبارہ اشاعت 1973 جلد 29 ، صفحات 622۔623).

’’راستباز ایمان سے جیتا رہے گا‘‘ (رومیوں 1:17).

کافی عرصہ پہلے، 1950کے آغاز میں لوتھر کے ساتھ میری ملاقات ایک بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں ہوئی تھی۔ ایک اتوار کی رات اُنہوں نے اُس کے بارے میں ایک بےرنگ فلم دکھائی۔ وہ ماضی کی ایک عجیب ہستی دکھائی دے رہاتھا، جس کو میری دلچسپی کا کچھ نہیں کہنا تھا۔ فلم لمبی اور بوریت زدہ محسوس ہو رہی تھی، آج میں اُس میں اضافہ کرکے یہ کہنا چاہوں گا کہ میرا اس عظیم فلم کے بارے میں بالکل مختلف نظریہ ہے۔ اب میں اسے دیکھنا بہت پسند کروں گا! اس فلم میں سے ایک نظارہ دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

میرا لوتھر سے دوسرا سامنا کافی عرصہ بعد ہوا تھا، جب میں تبدیل ہو گیا تھا۔ میں نے جان ویزلی کی تبدیلی کا تجربہ پڑھا تھا، جس میں ویزلی نے کہا تھا،

شام میں مَیں نا چاہتے ہوئے بھی ایلڈرز گیٹ کی گلی میں ایک انجمن میں گیا ، جہاں کوئی رومیوں کے نام مراسلہ کا ابتدائی تعارف پڑھ رہا تھا۔ تقریباً پونے نو بجے کے قریب، جب وہ اُس تبدیلی کے بارے میں بتا رہا تھا جو مسیح میں ایمان کے ذریعے سے خدا دلوں میں کرتا ہے، مجھے میرے دل میں عجیب طرح کی گرمائیش محسوس ہوئی۔ میں نے محسوس کیا کہ میں مسیح پر بھروسہ کرتا تھا، نجات کے لیے صرف مسیح پر؛ اور مجھے ایک تسلی ملی تھی، کہ اُس نے میرے گناہ اُٹھا لیے ہیں، یہاں تک کہ میرے، اُس نے مجھے گناہ اور موت کے قانون سے بچا لیا تھا (جان ویزلی، جان ویزلی کا کام The Works of John Wesley، تیسرا شمارہ، بیکر کتاب گھر، دوبارہ اشاعت 1979، جلد اوّل، صفحہ 103).

اس نے مجھ پر اپنا ایک تاثر چھوڑا، کیونکہ میں جانتا تھاکہ پہلی عظیم بیداری کے دوران ویزلی سب سے زیادہ مانے جانے والے مبلغین میں سے ایک تھا۔ ویزلی تبدیل ہوا تھا جب وہ مسیح میں ایمان کے ذریعے سے راستبازی پر لوتھر کی تقریر سُن رہا تھا۔

اِس کے بعد بھی، مجھے پتہ چلا کہ جُان بنّیئن، ہمارے بپتسمہ دینے والے خاندان کے بانی، لوتھر کو پڑھتے تھے جب وہ انتہائی غیر معمولی طور پر تبدیل ہوئے تھے، ’’جو اپنے کلام مقدس کے مطالعے کو مارٹن لوتھر کی تضانیف کے ساتھ بڑھا رہے تھے‘‘ (پلگرِمز کی ترقی Pilgrim’s Progress، تھامس نیلسن، دوبارہ اشاعت 1999، پبلیشر کا تعارف، صفحہ xii ).

جُان ویزلی، جو کہ ایک عیسائی فرقے کا پیروکار [میتھوڈسٹ] تھا، لوتھر کے الفاظ سُن کا تبدیل ہوا تھا۔ جُان بنّیئن، بپتسمہ دینے والا، اُس کو اپنی تبدیلی کی جدوجہد میں جو لوتھر نے لکھا تھا اُس کو پڑھنے سے مدد ملی تھی۔ میں نے سوچا کہ آخر لوتھر کو پڑھنے میں بہت زیادہ اچھا ہونے کی توقع لازمی ہو گی۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے دُعّا کی تھی ڈاکٹر کرہیٹن ایل۔ چَینDr. Kreighton L. Chan ۔ اشعیا 14:12۔15 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت گایا تھا مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
’’مسیحیوں، کیا تم اُنہیں نہیں دیکھتے؟‘‘ (شاعرکریتے کے اینڈریو، 660۔732؛
مترجم جُان ایم۔ نیئل، 1818۔1866؛ بطرز ’’آگے بڑھو، مسیحی سپاہیوں‘‘).

لُبِ لُباب

مارٹن لوتھر اور شیطان

MARTIN LUTHER AND THE DEVIL

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’ہوشیار اور خبردار رہو؛ کیونکہ تمہارا دشمن ابلیس دھاڑتے ہوئےشیرِببر کی مانند ڈُھونڈتا پھرتا ہے کہ کس کو پھاڑ کھائے‘‘ (1۔ پطرس 5:8).

(John 8:44; Revelation 9:11; Romans 1:22)
(یوحنا 8:44؛ مکاشفہ 9:11؛ رومیوں 1:22)

1۔ اوّل، لوتھر درست تھا جب وہ شیطان اور بدروحوں کے نقطہء آغاز کے بارے
میں بولا تھا، اشعیا 14: 12۔15؛ حزقیال 28:13۔17؛

2۔ دوئم، لوتھر سچا تھا جب اُس نے کہا کہ شیطان اُداسی اور مایوسی کا مصنف ہے،
 یوحنا 3:16؛ 6:37 .

3۔ سوئم، لوتھر درست تھا جب اُس نے ظاہر کیا کہ اُداسی اور مایوسی، گناہ کی سزایابی
جیسی نہیں ہیں، 2۔ کرنتھیوں 7:10؛ اعمال 16:31 .