Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

کفّارے کی تفضیل

A DESCRIPTION OF THE ATONEMENT
(اشعیا 53 باب پر واعظ نمبر 9 )
(SERMON NUMBER 9 ON ISAIAH 53)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ
7 اگست، 2011 ، صبح، خُداوند کے دِن
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, August 7, 2011

’’گرفتار کر کے اور مجرم قرار دے کر وہ اُسے لے گئے۔ کون اُس کی نسل کا بیان کرے گا؟ کیونکہ وہ زندوں کی زمین میں سے کاٹ ڈالا گیا؛ اور میرے لوگوں کے گناہوں کے سبب اُس پر مار پڑی۔ ‘‘ (اشعیا 53:8).

اشعیا نے ہمیں مسیح کی خاموشی کے بارےبتایا تھا،

’’ وہ برّہ کی طرح ذبح ہونے گیا، جس طرح ایک بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے گونگی [خاموش] رہتی ہے، اسی طرح اُس نے بھی اپنا مُنہ نہ کھولا‘‘ (اشعیا 53:7).

ڈاکٹر ایڈورڈ جے ینگ نے کہا، یسوع کی اپنے مصائب میں صبر آمیز خاموشی پر زور دینے کے بعد، نبی اب اُن مصائب کے بارے میں مذید تفضیل کے ساتھ بیان پیش کرتا ہے ‘‘ (ایڈورڈ جے۔ ینگ، پی ایچ. ڈی. ، اشعیا کی کتاب The Book of Isaiah، عیئرڈ مینز، 1972، جلد سوئم، صفحہ 351).

’’گرفتار کر کے اور مجرم قرار دے کر وہ اُسے لے گئے: کون اُس کی نسل کا بیان کرے گا؟ کیونکہ وہ زندوں کی زمین میں سے کاٹ ڈالا گیا: اور میرے لوگوں کے گناہوں کے سبب اُس پر مار پڑی۔ ‘‘ (اشعیا 53:8).

آیت قدرتی طور پر تین نقاط میں تقسیم ہوتی ہے جو کہ بیان کرتے ہیں (1) مسیح کے مصائب (2) مسیح کی نسل اور (3) ہمارے گناہوں کے لیے مسیح کا تبدلیاتی کفارہ۔

1۔ اوّل، تلاوتِ کلامِ پاک مسیح کے مصائب کی تفضیل پیش کرتی ہے۔

’’گرفتار کر کے اور مجرم قرار دے کر وہ اُسے لے گئے. . . کیونکہ وہ زندوں کی زمین میں سے کاٹ ڈالا گیا‘‘ (اشعیا 53:8).

مسیح گتسمنی کے باغ میں گرفتار کیا گیا۔ سردار کاہنوں کے پاس ہیکل کے سپاہی اُسے لے کر گئے۔ اُنہوں نے اُسے سردار کاہن کائفا کے سامنے پیش کیا، اور قدیم یروشلم کی اعلٰی ترین مذہبی شریعی یہودیوں کی عدالتِ عالیہ [سین ہیڈرئین] کے سامنے پیش کیا۔ اس عدالت میں جھوٹے گواہوں نے یسوع پر تہمتیں اور مذمتیں لگائیں۔ یسوع نے کہا،

’’آئیندہ تم ابنِ آدم کو قادرِ مطلق کے دائیں طرف بیٹھا اور آسمان کے بادلوں پر آتا دیکھو گے‘‘ (متی 26:64).

پھر سردار کاہن نے کہا،

’’تمہاری کیا رائے ہے؟ اُنہوں [اقتدارِ اعلٰی کی عدلیہ کے لوگوں] نے جواب دیا اور کہا، وہ قتل کے لائق ہے۔ پھر اُنہوں نے اُس کے منہ پر تھوکا، اُسے مُکّے مارے [پیٹا]: اور بعض نے طمانچے مارے‘‘ (متی 26:66۔67).

’’صبح ہوتے ہی سارے سردار کاہنوں اور قوم کے بزرگوں نے مشورہ کر کے یسوع کے قتل کا فیصلہ کر لیا‘‘ (متی 27:1)

لیکن اُن کے پاس رُومی قانون کے تحت ایسا کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا، اور اس لیے،

’’اور اُسے باندھ کر لے گئے، اور[ رُومی] حاکم پیلاطُس کے حوالے کر دیا‘‘ (متی 27:2).

پیلا طُوس نے یسوع سے پوچھا،

’’اور اُس نے یسوع کو کوڑے لگوا لیے، اُس نے یسوع کو اُن کے حوالہ کیا تاکہ اُسے صلیب پر چڑھایا جائے‘‘ (متی 27:26).

اور یوں، تلاوتِ کلامِ پاک کا یہ حصّہ مکمل ہوا تھا،

’’گرفتار کر کے اور مجرم قرار دے کر وہ اُسے لے گئے [سردار کاہن اور پھر پیلاطُس کے سامنے]. . . کیونکہ وہ زندوں کی زمین میں سے کاٹ ڈالا گیا [صلیب پر اُس کی موت سے] ‘‘ (اشعیا 53:8).

یہودیوں اور پیلاطُس کے ذریعے سے یسوع کی قید کلامِ پاک کے الفاظ کی تکمیل کرتی ہے، ’’اُسے قید کے لیے لے جایا گیا۔‘‘ کائفا کے سامنے، اور پھر پیلاطُس کے سامنے پیشیوں نے اس عبارت کی تکمیل کی، ’’اور فیصلے سے۔‘‘ اُسے قید کے لیے لے جایا گیا تھا اور فیصلے کے لیے دور کلوری نامی ایک پہاڑی پر، جہاں اُسے مصلوب کیا گیا تھا اور وہ صلیب پر مرا تھا، اور یوں عبارت کی تکمیل ہوتی ہے، ’’وہ زندوں کی زمین میں سے کاٹ ڈالا گیا۔‘‘

ڈاکٹر جان گِل (1697۔1771) نے کہا،

یسوع کو رنج و الم اور فیصلے نے مار ڈالا تھا؛ یعنی کہ، اُس کی زندگی انتہائی بیہمانہ [پُرتشدد] طریقے سے لی گئی، جو انصاف کے ایک دکھاوے کے تحت تھی؛ جبکہ [حقیقت میں] یہ [بدترین] انصاف اُس کے ساتھ ہوا تھا؛ اُ س کے خلاف ایک غلط فیصلہ عائد کیا گیا تھا، جھوٹے گواہوں [کو رشوت دی گئی کہ جھوٹا حلف اُٹھائیں، اور یوں یسوع کے خلاف جھوٹے بیانات دینے کا ایک عمل شروع ہوا]، اور بدکردار ہاتھوں کے ساتھ اُس کی زندگی لے لی گئی [جیسا کہ درج ہے] اعمال 8:32 آیت میں، [’’وہ برّہ کی طرح ذبح ہونے گیا، جس طرح ایک بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے گونگی [خاموش] رہتی ہے، اسی طرح اُس نے بھی اپنا مُنہ نہ کھولا‘‘] ۔ اُس کی تحقیر میں اُس کا فیصلہ دیا گیا: اُس کو عام انصاف [نہیں ملا] (جان گِل، ڈی.ڈی.، پرانے عہد نامے پر ایک تفسیر An Exposition of the Old Testament ، دی بپٹسٹ سٹینڈرڈ بیئرر، 1989 دوبارہ اشاعت، جلد پنجم، صفحہ 314).

جیسا کہ ہماری تلاوتِ کلامِ پاک کہتی ہے،

’’گرفتار کر کے اور مجرم قرار دے کر وہ اُسے لے گئے. . . کیونکہ وہ زندوں کی زمین میں سے کاٹ ڈالا گیا‘‘ (اشعیا 53:8).

2۔ دوئم، تلاوتِ کلامِ پاک مسیح کی نسل کی تفضیل پیش کرتی ہے۔

تلاوتِ کلامِ پاک کے درمیان میں ایک جملہ ہے جس کی وضاحت پیش کرناکسی حد تک مشکل ہے،

’’گرفتار کر کے اور مجرم قرار دے کر وہ اُسے لے گئے: کون اُس کی نسل کا بیان کرے گا؟ کیونکہ وہ زندوں کی زمین میں سے کاٹ ڈالا گیا. . . ‘‘ (اشعیا 53:8).

’’کون اُس کی نسل کا بیان کرے گا؟‘‘ ڈاکٹر گِل نے کہا کہ یہ جملہ ’’اُس زمانے کے بارے میں [یا اُس نسل کے بارے میں جس میں یسوع رہتا تھا] بتاتا ہے، اور اُس وقت کے لوگوں کے بارے میں جن میں وہ رہتا تھا، جن کی اُس کے ساتھ بربریّت، اور بدکاری جس کے وہ قصور وار تھے اس قدر ہے کہ اُس کا [مکمل طور پر] منہ سے مسلمہ بیان، یا [مکمل طور پر] تحریری انداز میں پیش کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے‘‘ (گِل، ibid.). جب ہم اُس ظلم اور ناانصافی کے بارے میں پڑھتے ہیں جو اُنہوں نے بے ضرر خُدا کے بیٹے کے ساتھ کی تھی تو یہ ہمیں دُکھ و درد میں مبتلا کر دیتا ہے، اور ہمارے دلوں کو رُلاتا ہے! جیسا کہ جوزف ہارٹ (1712۔1768) نے اپنی غمگین حمد میں لکھا ہے،

دیکھیئے یسوع کس قدر صبر سے کھڑا ہے،
   [ اس قدر ہولناک جگہ پر] ذلت کی حالت میں!
جہاں گنہگاروں نے قادرِ مطلق کے ہاتھوں کو باندھ دیا،
   اور اُن کے خالق کے منہ پر تھوک دیا۔

کانٹوں سے اُس کی پیشانی پر گہرے گھاؤ لگے تھے،
   بدن کے ہر حصّے پر خون کی دھاریں بہہ رہی تھیں،
یسوع کی کمر پر گِرہ دار کوڑوں کی ضربیں تھیں،
   لیکن اُس کے دل کو تیز کوڑوں نے چیر دیا تھا۔

ملعون صلیب پر برہنہ کیلوں سے ٹھُکا ہوا،
   زمین اور اوپر آسمان پر دیکھا جا سکتا تھا،
زخموں اور خون کا ایک منظر تھا،
   زخمی محبت کی ایک پیشن گوئی کی نشانی!
(’’یسوع کی شدید چاہت His Passion ‘‘ شاعر جوزف ہارٹ، 1712۔1768؛
   بطرزِ ’’ ’اُس شب کو، اور زیتون کی چوٹی پر‘‘).

جان ٹریپ (1601۔1669) نے کہا، ’’ کون اُس کی نسل کی وضاحت یا بیان پیش کر سکتا ہے؟ [کون بیان کر سکتا ہے] اُس زمانے کے لوگوں کی بدکاریوں کو جن میں وہ رہا؟’’ (جان ٹریپ، نئے اور پرانے عہد نامے پر ایک تبصرہ A Commentary on the Old and the New Testaments، ٹرانسکی اشاعت خانہ، 1997دوبارہ اشاعت، جلد سوئم، صفحہ 410). ڈاکٹر گِل نے بھی اسی قسم کا خیال پیش کیا ہے جب اُنہوں نےکہا، ’’کون اُس کی نسل کا مسلمہ اعلان کرےگا‘‘ مطلب، ’’ وہ زمانہ، اور اُس میں وہ لوگ، جن میں وہ [یسوع] رہا، اُن کی اُس کی ساتھ وہ بربرّیت، اور وہ بدکاری جس کے وہ قصور وار تھے، تھے اس قدر ہے کہ اُس کا منہ سے مسلمہ بیان، یا تحریری انداز میں پیش کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے‘‘ (گِل، ibid.).

انسانی اصطلاحات میں، اس کو بیان کرنا دشوار ہے، کہ کیوں وہ یہودی رہنما یسوع کو مصلوب کرنا چاہتے تھے، اور کیوں رُومی سپاہیوں نے، ’’اُس کے سر پر سرکنڈے سے مارا، اور اُس پر تھوکتے تھے . . . اور اُس کو صلیب دینے کو باہر لے گئے‘‘ (مرقس 15:19۔20). خود یسوع نے کہا،

’’لیکن یہ اِس لیے ہوا، کہ اُن کی شریعت میں لکھی ہوئی بات پوری ہو جائے، کہ اُنہوں نے مجھ سے بلاوجہ دشمنی رکھی‘‘ (یوحنا 15:25).

یہ زبور 69:4 سے ایک حوالہ ہے، ’’جو مجھ سے بِلا وجہ عداوت رکھتے ہیں اُن کی تعداد میرے سر کے بالوں سے بھی زیادہ ہے۔‘‘ جیسا کہ جان ٹریپ نے بیان کیا ہے، ’’کُون اُس کی نسل کی وضاحت یا بیان پیش کر سکتا ہے؟. . . اُس زمانے کے لوگوں کی بدکاریوں کو جن میں وہ رہا۔‘‘

’’اگرچہ وہ اُسے موت کی سزا کے لائق ثابت نہ کرسکے، پھر بھی اُنہوں نے پیلاطُس سے درخُواست کی کہ اُسے قتل کیا جائے‘‘ (اعمال 13:28).

’’گرفتار کر کے اور مجرم قرار دے کر وہ اُسے لے گئے: کون اُس کی نسل کا بیان کرے گا؟ کیونکہ وہ زندوں کی زمین میں سے کاٹ ڈالا گیا. . . ‘‘ (اشعیا 53:8).

ڈاکٹر ینگ نے کہا، ’’فعل [قرار دینا] کسی بات کو سنجیدہ طور پر سوچنا یا غور و فکر کے منظقی نتیجہ کے معنی دیتا ہے . . . وہ ضرور [یسوع کی موت کا مطلب] سوچ سمجھ چکے تھے، لیکن وہ جانتے نہیں تھے‘‘ (ینگ، ibid.، صفحہ 352).

آج بھی یہ کس طرح مختلف ہے؟ لاکھوں لوگوں نے یسوع کی صلیب پر موت کے بارے میں سنجیدگی سے سوچے بغیر سُنا ہوا ہے۔ ’’اُنہوں نے ضرور سوچ سمجھ لیا تھا، لیکن جانا نہیں تھا۔‘‘ کون مسیح کی صلیبی موت کے بارے میں گہرائی سے سوچتا ہے؟ کیا آپ؟ کیا آپ مسیح کے موت کے بارے میں سوچنے میں وقت صرف کرتے ہیں اور اُس کی موت آپ کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟

3۔ سوئم، تلاوتِ کلامِ پاک مسیح کے مصائب کے گہرے معنوں کو بیان کرتی ہے۔

مہربانی سے کھڑے ہو جایئے اور اشعیا 53:8 کو با آوازِ بُلند پڑھیئے، آخری حصّے پر انتہائی توجہ دیجیے، ’’

’’گرفتار کر کے اور مجرم قرار دے کر وہ اُسے لے گئے: کون اُس کی نسل کا بیان کرے گا؟ کیونکہ وہ زندوں کی زمین میں سے کاٹ ڈالا گیا: اور میرے لوگوں کے گناہوں کے سبب اُس پر مار پڑی۔ ‘‘ (اشعیا 53:8).

آپ تشریف رکھ لیجیے۔

’’اور میرے گناہوں کے سبب اُس پر مار پڑی۔‘‘ ڈاکٹر میرِل ایف. اُنگر کے مطابق، قدیم یہودی تالمود [یہودیوں کے قانون اور روایات پر مشتمل قدیم ربّیوں کی تحاریر کا مجموعہ جو کہ تقلید پسند یہودیوں کے مذہبی اقتدار کی بنیادوں کی تشکیل دیتا ہے] میں پڑھاتے ہیں کہ یسوع کو خود اپنے گناہ کی سزا ملی تھی، کیونکہ وہ یسوع کو ایک جھوٹے نبی کے طور پر سوچتے تھے۔ ڈاکٹر اُنگر نے کہا،

تالمود میں، ناصرت کا یسوع، ٹائٹس [وہ رُومی جنرل جس نے 70 عیسوی میں یروشلم کو تباہ کیا تھا] اور بالام [پرانے عہد نامے کا ایک جھوٹا نبی، مسیح ان بدکار لوگوں ] کے ساتھ جہنم واصل ہوگا اور [جہنم میں] شدید اور انتہائی ذلت آمیز سزا پائے گا۔ (میرِل ایف. اُنگر، پی ایچ. ڈی.، پرانے عہد نامے پر اُنگر کا تبصرہ Unger’s Commentary on the Old Testament، مُوڈی اشاعت خانہ، 1981، صفحہ 1297).

لیکن ڈاکٹر اُنگر جاری رہتے ہوئے کہتے ہیں،

مسیح کی [دوسری آمد پر] استغفار اور پچھتاوے کا کس قدر رونا پیٹنا ہوگا جب اسرائیل کواپنے بہترین دوست اور نجات دہندہ کو بدنام کرنے اور مصلوب کرنے کی اپنی ہولناک غلطی اور گناہ کا احساس ہوگا(ibid.).

پھر ڈاکٹر اُنگر نے یہ بیان دیا:

سترہ صدیوں تک [اشعیا 53 باب کی مسیحانہ تفسیر] مسیحی [اور] یہودی سرکار کے درمیان صرف یہی تفسیر تھی۔ [بعد میں یہودیوں نے] جان بوجھ کر باب کے اُس نظریے کو متروک یعنی نظرانداز کر دیا کیونکہ مسیح میں اُس کی شاندار تکمیل ہوتی تھی (اُنگر، ibid. ، صفحہ 1293).

آج بے شمار یہودی عالمین کا کہنا ہےکہ یہ پورے کا پورا باب یہودی لوگوں کے مصائب کی طرف اشارہ کرتا ہے، نا کہ مسیح کی طرف۔ بے شک میں جانتا ہوں کہ جھوٹے مسیحیوں کے ہاتھوں یہودیوں نے شدید تکالیف برداشت کی ہیں، لیکن یہ ہماری تلاوتِ کلامِ پاک کا صیحیح معنی نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ سادگی سے کہتا ہے، ’’اور میرے لوگوں کی لاقانونیت [گناہوں] کے سبب سے اُس پر مار پڑی‘‘ (اشعیا 53:8). جملے کے اِس جُز پر، ’’اور میرے لوگوں کے گناہوں کے سبب سے اُس پر مار پڑی،‘‘ ڈاکٹر ہنری ایم. مورِس نے کہا، ’’وہ ’میرے لوگوں‘ کے لیے مرا تھا – یعنی کہ، اسرائیل – یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ اِس حوالے میں [مسیح] اسرائیل نہیں ہے، جیسا کہ بہتوں نے مبینہ طور پر کہا‘‘ (ہنری ایم. مورِس، پی ایچ. ڈی. ، مطالعہ بائبل کا محافظ The Defender’s Study Bible، ورڈ اشاعت خانہ، 1995، صفحہ 767). پس، حقیقی مطلب یہ نہیں ہے کہ یہودی لوگوں کو مار پڑی تھی، بلکہ اس کے بجائے اُن کی جگہ پر مسیح کو مار پڑی تھی، اُن کے گناہوں کے لیے، اُن کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے، اور ہمارے بھی۔

ڈاکٹر جان گِل نے کہا کہ یہ الفاظ ’’اور میرے لوگوں کے گناہوں کے سبب سے اُس پر مار پڑی،‘‘یہودی لوگوں پر بھی لاگو ہوتے ہیں اور چُنیدہ مسیحیوں پر بھی – جو ظاہر کرتے ہیں کہ مسیح کو دونوں اسرائیل کے گناہوں اور ’’اُس کے لوگوں‘‘ جو مسیح تھے کے گناہوں کے سبب سے مار پڑی (گِل، ibid.، صفحہ 314). میرے خیال سے ڈاکٹر گِل نے اُن الفاظ کے حقیقی معنی پیش کیے ہیں،

’’اور میرے لوگوں کے گناہوں کے سبب سے اُس پر مار پڑی‘‘
       (اشعیا 53:8).

مسیح کو صلیب پر مار پڑی تھی اُس [یسوع] کے لوگوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے، وہ چاہے یہودی ہوتے یا غیر اقوام کے لوگ ہوتے۔ یسوع کی موت متبادل تھی، مسیح کا ہمارے گناہوں کے کفارے کے لیے مرنا۔ خُدا کے غُصے کو گنہگاروں سے پرے ہٹانے کے لیے، یہ رضاجوئی یا تشفی حاصل کرنا ہے،

لیکن اِس کی ایک شرط ہے۔ مسیح کے لیے کہ ہمارے گناہوں کا کفارہ مؤثر طریقے سے ادا کرے، ضرور ہے کہ آپ کو یسوع کے پاس ایمان کے ساتھ آنا ہوگا۔ صلیب پر مسیح کے گناہوں کے کفارے کی ادائیگی ایسے کسی شخص کو نہیں بچائے گی جو ایمان کے ساتھ یسوع کے پاس آنے میں ناکام رہتا ہے۔ یہ صرف اُسی وقت ہوتا ہے جب آپ تبدیل ہوتے ہیں کہ خُدا کے پاس ریکارڈ میں سے آپ کے گناہ یسوع کے خُون سے دُھل جاتے ہیں۔

اِس آیت میں موجود تمام حقائق آپ جان سکتے ہیں اور پھر بھی گمشدہ رہتے ہیں۔ شیاطین کو اِن حقائق کی مکمل معلومات ہیں، لیکن یہ اُنہیں بچا نہیں سکتی۔ یعقوب رسول نے کہا، ’’یہ تو شیاطین [بدروحیں] بھی مانتے ہیں، اور تھرتھراتے ہیں‘‘ (یعقوب 2:19). شیاطین کو مسیح کی تلافاتی موت کے بارے میں صرف ’’سرسری معلومات‘‘ ہیں۔ آپ کو اس سے بھی آگے بڑھنا ہوگا اگر آپ بچائے جانا چاہتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ آپ جی اُٹھے مسیح کا سامنا کرنے کے تجربے سے گزریں۔یہ ضروری ہے کہ آپ خُدا کے فضل کے عمل سے تبدیل کیے جائیں، نہیں تو آپ یسوع کی صلیبی موت کے بارے میں یاد کی ہوئی اپنی سوچوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے۔

ڈاکٹر اے.ڈبلیو. ٹُوزر Dr. A. W. Tozer کو سنیئے جیسا کہ وہ ’’فیصلہ سازیت‘‘ کے خلاف، اور حقیقی تبدیلی کی حمایت میں بولتے ہیں۔ ڈاکٹر ٹُوزر نے کہا،

مذہبی تبدیلی کے مکمل معاملات میکینکی اور روح کے بغیر کیے گئے ہیں۔ ایمان شاید اب اخلاقی زندگی کو مدِنظر رکھے بغیر ، اور آدمیاتی انّا کو شرمندہ کیے بغیر بھی رکھا جاتا ہے۔ مسیح کو شاید اُسے قبول کرنے والے کی روح میں مخصوص پیار پیدا کیے بغیر بھی ’’قبول‘‘کیا جاتا ہے (اے.ڈبلیو.ٹُوزر، ڈی.ڈی.، اے.ڈبلیو.ٹُوزر کی بہترین The Best of A. W. Tozer، بیکر کتاب گھر، 1979، صفحہ 14).

’’ مذہبی تبدیلی کے مکمل معاملات میکینکی اور روح کے بغیر کیے گئے ہیں‘‘ – اور، میں مذید یہ ضرور کہوں گا کہ یہ اکثر غیر مسیحانہ ہوتا ہے! ’’فیصلہ ساز‘‘ آپ کو صرف ایک تیز دُعا پڑھانا چاہتے ہیں، بپتسمہ دینا چاہتے ہیں، اور فارغ ہونا چاہتے ہیں۔ اکثر مسیح کی موت اور دوبارہ جی اُٹھنے کا تزکرہ شازونادر ہی ہوتا ہے۔ اکثر اِنہیں مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے! جو بائبل ہمیں تعلیم دیتی ہےوہ یہ نہیں ہے۔ بائبل تعلیم دیتی ہے کہ آپ ضرور اپنے گناہ کے جرم کا احساس کریں اور یہ سمجھ سکیں کہ آپ کے پاس گناہ اور اُس کے اثرات سے بچنے کی اس کے سوا اور کوئی راہ نہیں ہے کہ مسیح کے پاس آئیں، اپنے آپ کو لاچارگی سے اُس کے سامنے سرنگوں کریں، اور اپنی ذات کی انتہائی گہرائیوں سے اُس پر بھروسہ کریں۔ پھر اور صرف پھر، آپ تجربے کے ساتھ جان پائیں گے کہ اشعیا نبی کا مطلب کیا تھا جب اُس نے کہا،

’’اور میرے لوگوں کے گناہوں کے سبب سے اُس پر مار پڑی‘‘
       (اشعیا 53:8).

جب آپ ایمان کے ساتھ مسیح کے ہو جائیں گے، تو یسوع کا خُون آپ کے تمام گناہ دھو ڈالے گا اور آپ تبدیل ہوجائیں گے – لیکن اِس سے پہلے یہ آپ کے ساتھ نہیں ہوسکتا۔ نہیں، اِس سے پہلے یہ کبھی نہیں ہو سکتا! اگر آپ تبدیل ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو یسوع مسیح کا ضرور برضرور ہونا ہے!

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے دُعّا کی تھی ڈاکٹر کرہیٹن ایل۔ چَینDr. Kreighton L. Chan ۔ اشعیا 53:1۔8 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت گایا تھا مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
’’مقدس گناہ بخشنے والا‘‘(شاعر ایویز بی. کرسچنسنAvis B. Christiansen ).

لُبِ لُباب

کفّارے کی تفضیل

A DESCRIPTION OF THE ATONEMENT
(اشعیا 53 باب پر واعظ نمبر 9 )
(SERMON NUMBER 9 ON ISAIAH 53)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’گرفتار کر کے اور مجرم قرار دے کر وہ اُسے لے گئے۔ کون اُس کی نسل کا بیان کرے گا؟ کیونکہ وہ زندوں کی زمین میں سے کاٹ ڈالا گیا؛ اور میرے لوگوں کے گناہوں کے سبب اُس پر مار پڑی۔ ‘‘ (اشعیا 53:8).

(اشعیا 53:7)

1۔ اوّل، تلاوتِ کلامِ پاک مسیح کے مصائب کی تفضیل پیش کرتی ہے،
اشعیا 53:8الف؛ متی 26:64، 66۔67؛ 27:1۔2، 26؛
اعمال 8:32۔

2۔ دوئم، تلاوتِ کلامِ پاک مسیح کی نسل کی تفضیل پیش کرتی ہے،
اشعیا 53:8ب؛ مرقس 15:19۔20؛ یوحنا 15:25؛ زبور 69:4؛
اعمال 13:28 .

3۔ سوئم، تلاوتِ کلامِ پاک مسیح کے مصائب کے گہرے معنوں کو بیان کرتی ہے۔ ،
اشعیا 53:8ج؛ یعقوب 2:19 .