Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کے دو رُخ

THE TWO SIDES OF CONVERSION
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی صبح، 31 جنوری، 2010
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles Lord’s Day Morning, January 31, 2010

گذشتہ اِتوار کسی نے مجھ سے پوچھا، ’’تبدیلی [مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونا کیا ہے]؟‘‘ اُس نے لفظ تبدیلی conversion کبھی بھی نہیں سُنا تھا اور جاننا چاہتا تھا کہ اِس کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ میں اُس کے بارے میں کئی دِنوں تک سوچتا رہا ہوں۔

بائبل میں انگریزی کا لفظ ’’تبدیلی conversion‘‘ یونانی کے لفظ ’’ایپسٹریفوepistrepho‘‘ کا ترجمہ ہے۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے ’’ایک رُخ کی طرف مُڑنا a turning from اور ایک رُخ کی طرف رجوع کرنا a turning to؛ اِن سے مماثلت رکھتے ہیں ’’توبہ اور ایمان‘‘ (Vine)۔ یہ مختصر سی تعریف ہمیں ہماری تلاوت کی جانب لے جاتی ہے۔ مہربانی سے اعمال20:20۔21 کھولیں۔ مہربانی سے خُدا کے کلام کی تلاوت کے لیے کھڑے ہو جائیں۔ پولوس رسول نے کہا،

’’اور جو باتیں تمہارے لیے فائدہ مند تھیں اُنہیں میں نے بغیر کسی جھجک کے بیان کیا بلکہ جو کچھ بھی سکھایا برملا سکھایا اور گھر گھر جا کر سکھایا۔ میں یہودیوں اور یُونانیوں دونوں کے سامنے گواہی دیتا رہا کہ وہ خدا کے حضور میں توبہ کریں اور ہمارے خداوند یسوع پر ایمان لائیں‘‘ (اعمال 20:20۔21).

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

یہاں، پھر، دو باتیں ہیں جنہیں خُدا اُن کے دِلوں میں کرتا ہے جو مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوتے ہیں: ’’خُدا کے حضور میں توبہ، اور ہمارے خُداوند یسوع مسیح پر ایمان۔‘‘ وہ دونوں ہی باتیں حقیقی تبدیلی میں ناقابلِ جُدا ہیں: خُدا کے حضور میں توبہ اور ہمارے خُداوند یسوع مسیح پر ایمان۔‘‘ وہ دونوں باتیں ہیں جو وقوع پزیر ہونی چاہیے۔ آپ کو خُدا کے حضور میں توبہ کو محسوس کرنا اور دیکھنا سیکھایا جانا چاہیے اور آپ کو ایمان کے وسیلے سے یسوع کے ساتھ حقیقی تبدیلی کا تجربہ کرنے کے لیے جُڑنا چاہیے۔

I۔ پہلی بات، یہاں ایک توبہ ہوتی ہے جو ’’خُدا کے حضور میں‘‘ نہیں ہوتی۔

اِس کو ’’جھوٹی توبہ‘‘ کہا جانا چاہیے۔ جھوٹی توبہ فقط شرمندگی کا ایک احساس ہوتی ہے۔ جب لوگ گناہ کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں تو وہ شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ مگر وہ سچی توبہ نہیں ہوتی ہے۔ سچی توبہ تو اپنے گناہوں پر شرمندہ ہونے سے کہیں بڑھ کر ہے۔

دوبارہ، جھوٹی توبہ گناہ کے اثرات پر محض غم ہو سکتا ہے۔ بے شمار نشے کے عادی افراد احساس کر چکے ہیں کہ گناہ اُن کو پامال اور تباہ کر رہا تھا، اِس لیے اُنہوں نے شراب پینا ترک کر دیا کیونکہ یہ اُن کو نقصان پہنچا رہی تھی۔ یہ سچی توبہ نہیں ہے! یہ ایک ایسے کُتے کی مانند ہے جس کو کھانا چُرانے پر چھڑی سے مارا گیا تھا۔ اِس قسم کی گری ہوئی ’’توبہ‘‘ کبھی بھی خُدا قبول نہیں کر سکتا!

دوبارہ، جھوٹی توبہ جہنم میں مستقبل کی سزا کے خوف سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔ میں نے اکثر لوگوں کو کہتے ہوئے سُنا ہے کہ وہ مسیح پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ وہ جہنم سے خوفزدہ ہیں۔ جب وہ ایسا کہتے ہیں تو یہ تقریباً ہمیشہ ہی یقینی ہوتا ہے کہ وہ مسیح کو پانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ خوف آگے چل کر سزا سے بچنے کی خودغرضانہ خواہش سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔ یہ خُدا کے حضور میں کبھی بھی سچی توبہ کے طور پر قبول نہیں ہو سکتی۔

ایک بار پھر، ایک جھوٹی توبہ ہوتی ہے جو صرف جُزوی ہوتی ہے۔ وہ شخص جو جُزوی توبہ کرتا ہے وہ کچھ گناہوں کو ترک کر دیتا ہے مگر وہ گناہ سے نفرت نہیں کرتا ہے۔ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوا ایک شخص گناہ سے نفرت کرتا ہے اور اُس سے دور بھاگتا ہے۔ اور ابھی تک کامل نہیں ہوا ہوتا، مگر اُس کا دِل گناہ سے نفرت کرتا ہے اور اِس سے رُخ مُوڑ کر یسوع کی جانب ہو جاتا ہے۔ وہ بے شمار کاتھولک لوگوں (اور دوسروں) کی مانند نہیں ہوتا جو اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں اور پھر واپس جا کر اُنہی گناہوں کو دوبارہ اِرتکاب کرتے ہیں! اِس قسم کی کہلائی جانے والی توبہ خُدا کے حضور میں قبول نہیں ہوتی!

جھوٹی توبہ خروج کی کتاب میں فرعون کے ذریعے سے ظاہر کی گئی ہے۔ اُس نے اپنے گناہ کا اقرار کیا، ’’اِس دفعہ میں نے گناہ کیا ہے… میں اور میرے لوگ غلطی پر ہیں‘‘ (خروج9:27)، مگر وہ اپنے گناہ سے منہ موڑ کر خُدا کی جانب نہیں مُڑا تھا۔ اِس کے بجائے، اپنے گناہ کا اقرار کر چکنے کے بعد، ’’اُس نے پھر گناہ کیا اور اُس کا دِل نہیں پسیجا‘‘ (خروج9:34)۔ یہ جھوٹی توبہ کی ایک واضح تصویر ہے!

II۔ دوسری بات، حقیقی تبدیلی میں خُدا کے حضور میں سچی توبہ ہوتی ہے۔

پولوس نے منادی کی،

’’وہ خدا کے حضور میں توبہ کریں‘‘ (اعمال 20:21).

وہ یونانی لفظ جس سے ’’توبہ repentance‘‘ کا ترجمہ کیا گیا ’’میٹانویا metanoia‘‘ ہے۔ اِس کا مطلب دِل کی تبدیلی ہوتا ہے – گناہ کو محبت کرنے سے ہٹ کر خُدا سے محبت کرنا – اور گناہ سے نفرت کرنا – رغبت میں ایک تبدیلی! ’’توبہ‘‘ کا مطلب ہوتا ہے کہ خدا نے آپ کو ایک نیا ذہن بخشا ہے، گناہ کے بارے میں سوچنے اور محسوس کرنے کے لیے ایک نیا طریقہ بخشا ہے۔ حقیقی تبدیلی میں آپ کو خُدا سے محبت کرنے اور گناہ سے نفرت کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے، دُنیا سے مُنہ موڑنے اور مسیح سے اور مقامی گرجہ گھر سے محبت کرنے کے لیے!

حقیقی توبہ میں اپنے گناہ کے لیے گہرا غم و دُکھ ہوتا ہے اور اِس سے چُھٹکارا پانے کے لیے ایک حقیقی خواہش ہوتی ہے! ویسٹ منسٹر کی مختصر مسیحی تعلیم کہتی ہے،


سوال 4: توبہ میں گناہ سے مُنہ موڑنے کے لیے کیا [درکار] ہوتا ہے؟

جواب: توبہ میں گناہ سے مُنہ موڑنے کے لیے [درکار] ہوتا ہے کہ اس میں – 1۔ گناہ کی سچی بصیرت۔ 2۔ مسیح میں خُدا کے رحم کی [آگاہی]۔ 3۔ گناہ کے لیے غم و دُکھ۔ 4۔ گناہ کے لیے نفرت۔


سوال 5: توبہ کرنے میں [درکار] گناہ کی حقیقی سمجھ کس بات پر مشتمل ہوتی ہے؟

جواب: گناہ کی وہ سچی سمجھ، جو [درکار] ہوتی ہے وہ ہماری قابلِ رحم اور گری ہوئی حالت کے اندرونی احساس میں اِس قدر مشتمل ہوتی ہے… جس طرح ہمیں روح کی مصیبت اور شدید اُلجھن میں ڈال دے؛ تاکہ ہمارا ضمیر… زخمی اور چُبھن میں ہو، کوئی سکون نہ پا سکے، اور اِس حالت میں کوئی سکون نہ ملے، ’’یہ باتیں سُن کر اُن کے دِلوں پر چوٹ لگی تب اُنہوں نے پطرس اور رسولوں سے کہا کہ اے بھائیو! ہم کیا کریں؟‘‘ (اعمال2:37)۔


سوال 6: سچی توبہ میں گناہ کی یہ سمجھ… کیا ہے؟

جواب: سچی توبہ [میں] گناہ کی اِس سمجھ کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ گناہ کی اِس سمجھ کے بغیر، گنہگار گناہ کو چھوڑ نہیں پائیں گے نا ہی معافی اور شفایابی کے لیے خُداوند یسوع مسیح [کے پاس آئیں] گے۔ ’’تندرستوں کی طبیب کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بیماروں کو ہوتی ہے… کیونکہ میں راستبازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو بُلانے آیا ہوں‘‘ (متی9:12۔13)۔


سوال 10: گناہ کے لیے سچا دُکھ کس بات پر مشتمل ہوتا ہے؟

جواب: گناہ کے لیے سچا دُکھ ہمارے ماتم اور گناہ کے لیے افسوس و غم کرنے پر [مشتمل] ہوتا ہے…’’میں اپنی بدکاری کا اقرار کرتا ہوں؛ میں اپنے گناہ کے باعث پریشان ہوں‘‘ (زبور38:18)…


سوال 11: کیا ہمیں گناہ کے لیے سچے طور پر غم نہیں کرنا چاہیے حالانکہ ہم اِس کے لیے روتے نہیں ہیں؟

جواب: 1۔ اگر ہم رضامندانہ طور پر دوسری باتوں کے لیے رو سکتے ہیں اور گناہ کے لیے نہیں رو سکتے، تو ہمارے غم کی سچائی انتہائی قابلِ استرداد [غلط ثابت ہونے کے قابل] ہے۔ 2۔ گناہ کے لیے شاید آنسوؤں کے بغیر سچا غم ہو، [اُن لوگوں] میں جو [غیرجذباتی] ہیں اور [کسی بھی وجہ] رونے کے لیے نہیں جُھکتے؛ اور جیسا کہ ہے کہ کچھ کی آنکھوں میں کافی آنسو ہوتے ہیں، جب کہ دِل میں کوئی غم نہیں ہوتا، اِس ہی طرح دوسروں میں شاید دِل میں غم بہت زیادہ ہو جبکہ آنکھوں میں آنسوؤں کی جھلک تک نہ ہو۔


سوال 12: توبہ میں گناہ کے لیے غم کی کیوں [ضرورت] پڑتی ہے؟

جواب: توبہ میں گناہ کے لیے غم کی [ضرورت] پڑتی ہے، کیونکہ یہ آگے جا کر دِل کو گناہ چھوڑنے کے لیے رضامند کرنے میں کام آتا ہے؛ کیونکہ خدا کو اِس کی [ضرورت ہوتی] ہے، اور [اُن کے لیے] رحم کا وعدہ کیا ہے جو گناہ کے لیے ماتم کرتے ہیں۔ ’’افسوس اور ماتم کرو اور روؤ، تمہاری ہنسی ماتم میں اور تمہاری خوشی غم میں بدل جائے‘‘ (یہودہ4:9)… (ویسٹ منسٹر کے اعتراف کی مختصر مسیحی تعلیم کلام مقدس میں سے واضح کی گئی اور ثابت کی گئیThe Shorter Catechism of the Westminster Confession Explained and Proved from Scriptures، دی بینر آف ٹُرٹھ ٹرسٹ The Banner of Truth Trust، 1674 کے ایڈیشن سے دوبارہ اشاعت 2004، صفحات 228، 230)۔


ڈاکٹر جے۔ گریشام میکحنDr. J. Gresham Machen نے مسیحیت کو ’’ٹوٹے ہوئے دِل کا مذھب‘‘ کہا۔ اُنہوں نے کہا، ’’حالانکہ مسیحیت ٹوٹے ہوئے دِل کے ساتھ ختم نہیں ہوتی ہے، یہ ٹوٹے ہوئے دِل کے ساتھ شروع تو ہوتی ہے؛ یہ گناہ کے شعور سے شروع ہوتی ہے۔ گناہ کے شعور کے بغیر، ساری کی ساری انجیل ایک بے بنیاد کہانی دکھائی دے گی‘‘ (جے۔ گریشام میکحن، پی ایچ۔ ڈی۔Dr. J. Gresham Machen, Ph.d.، مسیحیت اور آزاد خیالی Christianity and Liberalism، ولیم بی۔ عئیرڈمینز پبلیشنگ کمپنی William B. Eerdmans Publishing Company، 1923 کے ایڈیشن کی دوبارہ اشاعت 1990، صفحات 65، 66)۔

ویسٹ منسٹر کی مسیحی تعلیم اور ڈاکٹر میکحن کے یہ حوالے گناہ کی سزایابی کی ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اگر آپ غم محسوس نہیں کرتے، اور دُکھ اور اُداس نہیں ہوتے اور اپنے گناہوں پر آپ کا دِل نہیں ٹوٹتا تو آپ کیسے توبہ کا تجربہ کر سکتے ہیں؟ آپ کیسے گناہ سے نفرت کو محسوس کر سکتے ہیں اور اِس سے اپنا مُنہ موڑ سکتے ہیں؟ اِس لیے سچی توبہ سیکھائی نہیں جا سکتی – اور یہ سیکھی بھی نہیں جا سکتی۔ اِس کو محسوس کیا جانا چاہیے۔ آپ کو اپنے گناہوں کے لیے درد کو محسوس کرنا چاہیے۔

کچھ چند ایسے ہی لوگ ہیں جو اِس قدر غیر جذباتی ہوتے ہیں کہ وہ اپنے گناہ کے لیے آنسوؤں کے بغیر ہی دُکھ و غم محسوس کرتے ہیں۔ مگر لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد جب گناہ کی سزایابی کے تحت آتی ہے تو زار و قطار روتی ہے، جو کہ توبہ کا ہی ایک حصہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ مسیحی تعلیم نے کہا،

اگر ہم رضامندانہ طور پر دوسری باتوں کے لیے رو سکتے ہیں اور [اپنے] گناہ کے لیے نہیں رو سکتے، تو ہمارے غم کی سچائی انتہائی قابلِ استرداد [غلط ثابت ہونے کے قابل] ہے (ibid.)۔

جب لوگ گناہ کی سزایابی کے تحت ہوتے ہیں،

’’وہ اس پر جسے اُنہوں نے چھیدا تھا ایسا ماتم کریں گے جیسے کوئی اکلوتے بچے کے لیے کرتا ہے‘‘ (زکریاہ 12:10).

جب اُن کے پاس اپنے گناہ کی سچی بصیرت آ جاتی ہے تو وہ عام طور پر سچے آنسوؤں کے ساتھ روتے ہیں۔ حیاتِ نو کے ادوار میں، لوگ اکثر ’’رویا اور ماتم کیا‘‘ کرتے تھے (یہودہ5:1)۔ یہ دورِ حاضرہ کے کچھ کرشماتی مشن والوں کا ’’ماتم‘‘ نہیں ہے۔ یہ انجیلی بشارت کے پرچار کا گناہ پر رونا اور ماتم کرنا ہے جو تاریخ کے عظیم حیاتِ انواع کا ہمراہی رہا ہے

امریکہ میں ڈاکٹر اساحل نیٹلٹن Dr. Asahel Nettleton کی منادی کے دوران، گناہ کی سزایابی کے نظارے بہت عام تھے۔ اپنے اجلاسوں میں سے ایک میں ایک چشم دید گواہ نے کہا،

کیا آپ نے کبھی بھی دو سو گنہگاروں کو ایک ہی جگہ پر، ایک ہی ساتھ اُن کے گناہوں کے لیے روتے ہوئے دیکھا؟ جب تک آپ یہ دیکھ نہیں لیتے تب تک آپ کو بیقرار جانوں کی ہچکیوں اور آہوں [سے بھرے] سنجیدہ نظارے کا معقول تصور نہیں ہو سکتا… سب سے بدترین پشیمانی میں (برائن ایچ۔ ایڈورڈز Brian H. Edwards، حیاتِ نو! خُدا سے لبریز لوگ Revival! A People Saturated with God، ایونجلیکل پریس Evangelical Press، 1997 ایڈیشن، صفحہ 117)۔

آج مغربی دُنیا میں ایسے کوئی نظارے نہیں ہیں جن کے بارے میں مَیں جانتا ہوں۔ مگر چین میں ایسے نظارے بہت عام ہیں۔ اُن میں سے زیادہ تر نے ویسٹ منسٹر کے اعتراف کو اُن الفاظ کے ساتھ سُنا ہوا نہیں ہوتا، ’’اگر ہم رضامندانہ طور پر دوسری باتوں کے لیے رو سکتے ہیں اور [اپنے] گناہ کے لیے نہیں رو سکتے، تو ہمارے غم کی سچائی انتہائی قابلِ استرداد [غلط ثابت ہونے کے قابل] ہے‘‘ (ibid.)۔ بیشک اِن چینیوں نے شاید کبھی بھی ویسٹ منسٹر کے اعتراف کو نہ سُنا ہو، اِس کے باوجود وہ اپنے گرجہ گھروں میں گناہ کی گہری سزایابی کے تحت کُھلم کُھلا روتے ہیں۔ اُن کا علم الہٰیات کسی کتاب میں سے نہیں آیا تھا۔ اُنہوں نے رونا اور توبہ کرنا سیکھا نہیں تھا۔ اُن کا تجربہ براہ راست خُدا کے روح سے آیا ہوتا ہے – جب وہ [خُدا] اُنہیں اُن کے گناہ دکھاتا ہے – اُن کے ذہنوں کے گناہ، اُن کے دِلوں کے گناہ، اور اُن کی گزری ہوئی زندگی کے گناہ۔ اگر آپ صرف نہ رُلانے والے عقیدے ہی سیکھیں گے تو جہنم میں جائیں گے! آپ کو ضرور توبہ کرنی چاہیے – اور توبہ کا ابتدائی حصہ آپ کے گناہ کی سزایابی ہے! جب ہم تفتیشی کمرے میں کسی کو روتا ہوا دیکھتے ہیں، تو وہ پہلے سے ہی آدھا مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو چکا ہوتا ہے – کیوں مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونا یعنی تبدیلی توبہ کے ساتھ شروع ہوتی ہے – اور توبہ گناہ کی سزایابی کے ساتھ شروع ہوتی ہے! یہ ہی وجہ ہے کہ پولوس رسول نے تبلیغ کی،

’’وہ خدا کے حضور میں توبہ کریں اور ہمارے خداوند یسوع پر ایمان لائیں‘‘ (اعمال 20:21).

حقیقی تبدیلی میں خُدا کے حضور میں توبہ ہوتی ہے۔

III۔ تیسری بات، حقیقی تبدیلی میں یسوع مسیح میں ایمان لانا ہوتا ہے۔

جب کوئی گہری سزایابی کے تحت ہوتا ہے تو یہ اُس کے لیے بالکل بھی مشکل نہیں ہوتا کہ یسوع کے پاس آئے۔ جب آپ کا دِل سچی مچی آپ کے گناہ کی وجہ سے غمگین ہوتا ہے اور آپ اپنے گناہ سے نفرت کرتے ہیں اور آپ اپنے گناہ سے پیچھا چُھڑانا چاہتے ہیں تو ماسوائے یسوع کے پاس آنے کے اور کوئی بھی آسان قدم نہیں ہوتا! بائبل کہتی ہے،

’’مسیح یسوع دُنیا میں گنہگاروں کو بچانے کے لیے آیا‘‘ (1تیموتاؤس1:15)۔

اگر آپ ایک گنہگار ہیں تو مسیح آپ کو بچا سکتا ہے۔ بیشک وہ آپ کو بچا سکتا ہے! یہ ہی وجہ ہے کہ اُس نے صلیب پر اِس قدر درد اور اذیت کو برداشت کیا تھا – آپ کو بچانے کے لیے! وہ آپ کی جگہ پر مرا تھا – آپ کے گناہ کے لیے ایک متبادل – صلیب پر آپ کے گناہ کی مکمل ادائیگی کرنے کے لیے! اگر آپ اپنے گناہ کو محسوس کرتے ہیں اور اِس سے نفرت کرتے ہیں – تو پھر نجات دہندہ کے پاس آئیں! وہ آپ کو قبول کرے گا اور آپ کے گناہ کو معاف کرے گا اور آپ کی بدکاریوں کو شفا دے گا۔ یسوع نے اِس بات کو واضح کیا جب اُس نے کہا،

’’جو کوئی میرے پاس آئے گا میں اُسے اپنے سے جُدا نہیں کروں گا‘‘ (یوحنا6:37)۔

جوزف ہارٹ Joseph Hart نے اپنے عظیم حمدوثنا کے گیت ’’آؤ، اے گنہگاروCome, Ye Sinners ‘‘ میں اِس بات کو انتہائی واضح کیا، یہ آپ کے گیتوں کے ورق پر سات نمبر ہے۔ کھڑے ہو جائیں اور اِس کو گائیں!

آؤ، تمام تھکے ماندوں، بوجھ سے دبے، زخمی اور گرنے سے ٹوٹے ہوؤں۔
اگر تم سستی کرو گے جب تک کہ ٹھیک نہیں ہو جاتے، تو تم کبھی بھی نہیں آ پاؤ گے:
راستباز نہیں، راستباز نہیں، یسوع تو گنہگاروں کو بلانے کے لیے آیا تھا!
راستباز نہیں، راستباز نہیں، یسوع تو گنہگاروں کو بلانے کے لیے آیا تھا!

اپنے ضمیر کو سُستی مت دکھانے دو، نہ ہی محبت آمیز بھلائی کے خوابوں کو؛
صرف وہ اتنی سی بھلائی چاہتا ہے، کہ تم اپنے لیے اُس کی ضرورت کو دیکھو؛
یہ وہ تمہیں بخشتا ہے، یہ وہ تمہیں بخشتا ہے، خُدا کا اپنا روح یہ دکھلا دیتا ہے،
یہ وہ تمہیں بخشتا ہے، یہ وہ تمہیں بخشتا ہے، خُدا کا اپنا روح یہ دکھلا دیتا ہے،

آؤ، اے تھکے ماندوں، بوجھ سے دبے، زخمی اور گرنے سے ٹوٹے ہوؤ؛
اگر تم سستی کرو گے جب تک کہ ٹھیک نہیں ہو جاتے، تو تم کبھی بھی نہیں آ پاؤ گے:
راستباز نہیں، راستباز نہیں، یسوع تو گنہگاروں کو بلانے کے لیے آیا تھا!
راستباز نہیں، راستباز نہیں، یسوع تو گنہگاروں کو بلانے کے لیے آیا تھا!

اُس کو باغ میں مُنہ کے بل دراز دیکھو؛ زمین پر آپ کا مالک لیٹا ہوا ہے؛
پھر کلوری کی صلیب پر اُس کو دیکھو، اُس کو چیختا ہوا سُنو، اُس کے مرنے سے پہلے؛
’’یہ تمام ہوا!‘‘ ’’یہ تمام ہوا!‘‘ کیا تم دیکھ نہیں سکتے اُس نے قیمت چکا دی؟
’’یہ تمام ہوا!‘‘ ’’یہ تمام ہوا!‘‘ کیا تم دیکھ نہیں سکتے اُس نے قیمت چکا دی؟

دیکھو! نجات دہندہ کو ابھی، آسمان پر اُٹھایا گیا، اُس کے خون کے حق کے لیے التجا کرو؛
خود کو مکمل طور پر اُس کے حوالے کر دو، کسی اور پر بھروسہ کو مداخلت مت کرنے دو؛
کوئی اور نہیں ماسوائے یسوع کے، کوئی اور نہیں ماسوائے یسوع کے، جو بے یارومددگار گنہگاروں کے لیے کچھ اچھا کر سکتا ہے۔
کوئی اور نہیں ماسوائے یسوع کے، کوئی اور نہیں ماسوائے یسوع کے، جو بے یارومددگار گنہگاروں کے لیے کچھ اچھا کر سکتا ہے۔
(’’آؤ، اے گنہگاروںCome, Ye Sinners ‘‘ شاعر جوزف ہارٹ Joseph Hart ، 1712۔1768).

اگر اِس واعظ نے آپ کو برکت بخشی ہے تو مہربانی سے ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای۔میل بھیجیں اور اُنھیں بتائیں – (یہاں پر کلک کریں) rlhymersjr@sbcglobal.net۔ آپ کسی بھی زبان میں ڈاکٹر ہائیمرز کو خط لکھ سکتے ہیں، مگر اگر آپ سے ہو سکے تو انگریزی میں لکھیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت ڈاکٹر کرھیٹن ایل۔ چعین Dr. Kreighton L. Chan نے کی تھی: اعمال20:17۔21.
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
     نے گایا تھا: ’’رحم کی گہرائی Depth of Mercy‘‘ (شاعر چارلس ویزلی Charles Wesley، 1707۔1708)۔

لُبِ لُباب

مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کے دو رُخ

THE TWO SIDES OF CONVERSION

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’اور جو باتیں تمہارے لیے فائدہ مند تھیں اُنہیں میں نے بغیر کسی جھجک کے بیان کیا بلکہ جو کچھ بھی سکھایا برملا سکھایا اور گھر گھر جا کر سکھایا۔ میں یہودیوں اور یونانیوں دونوں کے سامنے گواہی دیتا رہا کہ وہ خُدا کے حضور میں توبہ کریں اور ہمارے خُداوند یسوع پر ایمان لائیں‘‘ (اعمال20:20۔21)۔

I.    پہلی بات، یہاں ایک توبہ ہوتی ہے جو ’’خُدا کے حضور میں‘‘ نہیں ہوتی، خروج 9:27، 34۔

II.   دوسری بات، حقیقی تبدیلی میں خُدا کے حضور میں سچی توبہ ہوتی ہے،
اعمال20:21؛ 2:37؛ متی9:12۔13؛ زبور38:18؛ یہودہ 4:9؛
زکریاہ 12:10؛ یہودہ 5:1 .

III.  تیسری بات، حقیقی تبدیلی میں یسوع مسیح میں ایمان لانا ہوتا ہے، 1 تیموتاؤس1:15؛
یوحنا6:37 .