Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

شہیدوں کی مثال

THE EXAMPLE OF THE MARTYRS
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
12جولائی، 2009، خُداوند کے دِن کی شام
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, July 12, 2009

’’اگر کوئی انسان میری پیروی کرنا چاہتا ہے تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خودی کا اِنکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہولے‘‘ (متی 16:‏24).

مسیح نے اپنے شاگردوں کو بتایا تھا کہ ’’اُس کا یروشلم جانا لازمی ہے، اور بہت دُکھ اُٹھانا ... اور مارے جانا‘‘ (متی16:‏21)۔ لیکن پطرس نے اُس کی ملامت کی، یہ کہتے ہوئے، ’’تیرے ساتھ ایسا کبھی نہ ہوگا‘‘ (متی16:‏22)، ’’تیرے ساتھ ایسا کبھی نہ ہوگا۔‘‘ یسوع پطرس کی طرف مڑا اور کہا،

’’اے شیطان! میرے سامنے سے دُور ہو جا، تُو میرے راستے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ تجھے خدا کی باتوں کا نہیں بلکہ آدمیوں کی باتوں کا خیال ہے‘‘ (متی 16:‏23).

ڈاکٹر ھنری ایم۔ مورس Dr. Henry M. Morris نے کہا، ’’یہ واقعی میں پطرس کے ذریعے شیطانی ترغیب [سے] شیطان بول رہا تھا۔ قدرتی انسان تقریباً جبلتی طور پر مسیح کی کفاراتی موت اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے تصور سے ڈر کر دُبک جاتا ہے، اور شیطان اِس کی تلخی سے مزاحمت کرتا ہے‘‘ (ھنری ایم۔ مورس، پی ایچ۔ ڈی۔ Henry M. Morris, Ph.D.، دفاعی مطالعۂ بائبل The Defender’s Study Bible، ورلڈ پبلیشرز World Publishers، 1995، متی16:‏22 پر غور طلب بات)۔

پھر یسوع دوسرے شاگرد کی طرف مُڑا۔ مرقس ہمیں بتاتا ہے کہ یسوع لوگوں کے ہجوم سے بھی مخاطب تھا (مرقس8:‏34)۔ اور لوقا ہمیں بتاتا ہے، ’’اُس نے اُن سب سے کہا‘‘ (لوقا9:‏23)۔ اِس لیے وہ ہجوم میں ہر کسی سے مخاطب تھا۔ اُس نے سب سے کہا،

’’اگر کوئی انسان میری پیروی کرنا چاہتا ہے تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خودی کا اِنکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہولے‘‘ (متی 16:‏24).

’’صلیب‘‘ اِس لیے یہاں پر مسیح کی صلیب کی طرف اشارہ نہیں کرتی ہے۔ یہ مسیحی کی صلیب کے لیے اشارہ کرتی ہے۔ اگر کوئی مسیح کی پیروی کرنا چاہتا ہے، تو ضرور ہے کہ ’’وہ اپنی صلیب اُٹھائے‘‘ اور مسیح کی پیروی کرے۔ متی 16:‏24۔27 میں ہم صلیب سے تعلق رکھتے ہوئے تین باتوں کو دیکھتے ہیں جنہیں برداشت کرنے کے لیے ہر مسیحی کو چُنا جاتا ہے۔

I۔ اوّل، مسیحی صلیب کا مطلب خود انکاری ہوتا ہے۔

غور کریں کہ یسوع نے کہا،

’’اگر کوئی انسان میری پیروی کرنا چاہتا ہے تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خودی کا اِنکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہولے‘‘ (متی 16:‏24).

مسیح نے یہ واضح کیا کہ یہ ہر کسی کے لیے ہے، نا کہ صرف چند چُنیدہ کے لیے۔ مسیح نے کہا،

’’اور جو کوئی اپنی صلیب اُٹھا کر میرے پیچھے نہیں آتا وہ میرا شاگرد نہیں ہوسکتا‘‘ (لوقا 14:‏27).

آج، خصوصی طور پر یہاں مغربی دُنیا میں، ہم سُنتے ہیں کہ یہاں پر دو طرح کے مسیحی ہیں – عام سے مسیحیوں کا ایک بڑا گروہ، اور پھر شاگردوں کا ایک چھوٹا سا گروہ۔ یہ عام طور پر یقین کیا جاتا ہے کہ وہ سب حقیقی مسیحی ہیں۔ لیکن یہ بائبل کے مطابق نہیں ہے۔ بائبل میں ہر مسیحی ایک شاگرد تھا۔ ہم اعمال کی کتاب میں پڑھتے ہیں کہ

’’مسیح کے شاگرد پہلی باراِ نطاکیہ میں مسیحی کہہ کر پُکارے جانے لگے‘‘ (اعمال 11:‏26).

یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر مسیحی پہلی صدی میں مسیح کا شاگرد مانا جاتا تھا۔ اعمال کی کتاب میں ایک شاگرد اور ایک مسیحی کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے۔ اگر آپ ایک مسیحی تھے، تو آپ مسیح کے ایک شاگرد تھے۔ اگر آپ یسوع کے شاگرد نہیں تھے، تو آپ ایک مسیحی نہیں تھے۔ ہماری یہ تلاوت بڑی حد تک اِس پر روشنی ڈالتی ہے،

’’اگر کوئی انسان میری پیروی کرنا چاہتا ہے، تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خودی کا اِنکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہولے‘‘ (متی 16:‏24). یہ اِس پر بھی روشنی ڈالتی ہے جو یسوع نے لوقا14:‏27 میں کہا، ’’جو کوئی اپنی صلیب اُٹھا کر میرے پیچھے نہیں آتا وہ میرا شاگرد نہیں ہوسکتا‘‘ (لوقا 14:‏27). یہ عظیم سچائی ڈاکٹر رائس Dr. Rice کے خوبصورت حمد و ثنا کے گیت میں بیان کی گئی ہے۔ اِسے گائیے۔ یہ گیتوں کے ورق پر گیت نمبر 17 ہے۔

یسوع، میں نے اپنی صلیب اُٹھا لی ہے،
سب کچھ چھوڑنے اور تیری پیروی کرنے کے لیے؛
مفلس، حقیر جانا گیا، اکیلا چھوڑا گیا،
اب سے تجھ پر ہی میرا آسرا ہے۔
ہر مہربان آرزو مر چکی ہے،
وہ تمام جس کی میں نے کوشش کی اور اُمید کی اور جانا؛
اِس کے باوجود میری حالت کتنی مالدار ہے،
خُدا اور آسمان ابھی تک میرے اپنے ہیں!
(’’یسوع، میں نے اپنی صلیب اُٹھا لی ہے Jesus, I My Cross Have Taken‘‘ شاعر ھنری ایف۔ لائٹ Henry F. Lyte، 1793۔1847)۔

’’اگر کوئی انسان میری پیروی کرنا چاہتا ہے تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خودی کا اِنکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہولے‘‘ (متی 16:‏24).

’’یسوع، میں نے اپنی صلیب اُٹھا لی ہے، سب کچھ چھوڑنے اور تیری پیروی کرنے کے لیے۔‘‘ میرے خُدا، خودی کی انکاری کے لیے کیسی ایک بُلاہٹ! کیا کوئی یہ کرے گا؟ ابتدائی مسیحیوں نے یہ کیا تھا! ڈاکٹر فلپ شاف Dr. Philip Schaff، عظیم مسیحی تاریخ دان، نے کہا،

لاکھوں [رومی دُنیا کے پہلی صدیوں میں تھے] مکمل طور پر انسانی مصائب کی نظروں کے لیے لاتعلق تھے۔ شدید اذیت کی اینٹھن کو دیکھنے میں... اُن کا اذیت کے لیے ایک جنون اور شوق [تھا]… اکھاڑے میں، اُن کی موجودگی میں... سب سے زیادہ ہولناک تشدد کے درج واقعات عموماً مسلط کیے گئے۔ ہم سُرخ دہکتی لوہے کی زنجیروں میں جکڑے مسیحیوں کے بارے میں پڑھتے ہیں، جبکہ اُن کے آدھے بھسم شُدہ گوشت کی سڑن ایک دم گھونٹ دینے والے بادل میں آسمان کے لیے اُٹھتی تھی؛ اور دوسروں کے بارے میں جن کو لوہے کے کُنڈوں ... سے انتہائی ہڈیوں تک چیر ڈالا جاتا تھا؛... دو سو ستائیس مسیح میں تبدیل لوگوں کے بارے میں پڑھتے ہیں جنہیں ایک موقعے پرغاروں میں ڈالا گیا، ہر ایک کی ایک ٹانگ کو دہکتے لوہے سے کاٹ کر ایک چند نسوں سے لٹکا رہنے دیا گیا، اور ایک آنکھ کے ساتھ جس کا ڈھیلہ باہر لٹکا ہوا تھا؛ اُن آلاؤ کے بارے میں پڑھتے ہیں جو اِس قدر دھیمے تھے کہ مظلوم گھنٹوں اپنی اذیت میں تلملاتے اور تڑپتے تھے؛ اُن جسموں کے بارے میں پڑھتے ہیں جن کے عضا اُدھڑے ہوئے تھے، یا جن پر دھکتا ہوا سیسہ اُنڈیلا گیا تھا؛ سرکہ اور نمک ملا کر گوشت پر چھڑکے ہوئے زخموں کو دیکھتے ہیں جن میں سے خون بہہ رہا ہوتا تھا؛ اُن عذابوں کے بارے میں پڑھتے ہیں جن کو تمام دِن طوالت دی جاتی تھی اور بدل بدل کر عذاب دیے جاتے تھے۔ اپنے الٰہی مالک [یسوع] کے پیار کے لیے، اُس مقصد کے لیے جن کا اُنہیں یقین تھا کہ سچا ہے، مرد اور یہاں تک کہ کمزور لڑکیوں نے ڈر سے دُبکے بغیر اِن باتوں کو برداشت کیا، جب کہ صرف ایک لفظ اُن کو اُن کی اذیتوں سے آزادی دلا سکتا تھا۔ جی نہیں... بعد کے زمانوں میں کاہنوں کی کاروائیوں کو اُس احترام کو [ختم] نہیں کرنا چاہیے جس کے ساتھ ہم اِن شہیدوں کی قبروں پر جھکتے ہیں۔ (فلپ شاف، پی ایچ۔ڈی۔ Philip Schaff, Ph.D.، مسیحی کلیسیا کی تاریخ History of the Christian Church، عئیرڈ مینز اشاعتی کمپنی Eerdmans Publishing Company، 1976 ایڈیشن، جلد دوئم، صفحات80۔81)۔

آرینیئس Irenaeus (130۔202 بعد از مسیح) نے کہا کہ کلیسیا نے، مسیح کے لیے اپنے پیار میں، ’’تمام جگہوں میں اور تمام ادوار میں باپ کے لیے شہیدوں کے ایک ہجوم کو بھیجتی ہے‘‘ (شاف Schaff، ibid.، صفحہ 79)۔ روم کے زیر زمین مدفن قدیم شہر کے نیتے لمبی سُرنگیں ہیں۔ وہ ’’نوسو انگریزی میلوں سے زیادہ پھیلی ہوئی تھیں، اور کہا جاتا ہے کہ اُن میں تقریباً سات ملین قبریں موجود ہیں، جن کے ایک بہت بڑے حصے میں شہیدوں کی [ہڈیاں] شامل ہیں‘‘ (Schaff، ibid.، صفحہ80)۔ اِن لاکھوں شہیدوں کی اصل سزائے موت میں اضافہ کیا جائے تو اُس میں انتہائی ناقابل برداشت لاتعداد اہانتیں، تہمتیں، برہمیاں، اور تشدد شامل ہیں، جو کہ سنگدل کافروں اور وحشیوں کی ظلمت ایجاد کر سکی ہوں گی... جو کہ ہزاروں معاملوں میں موت سے بھی بدتر تھیں‘‘ (Schaff، ibid.، صفحہ80)۔

اپنی اذیتوں کے ذریعے سے، پہلی تین صدیوں کے شہیدوں نے ’’مسیحی مذہب کو آنے والے زمانوں کے لیے‘‘ محفوظ کر دیا تھا... اینٹی نائی زینی ante-Nicene زمانے کے اُن شہیدوں اور اعتراف کرنے والوں نے تمام مسیحی مذہبی جماعتوں اور فرقوں کے مشترکہ مقصد کے لیے اذیتیں برداشت کیں، اور اِسی لیے ہر کوئی اُن کو تشکر، تعظیم اور احترام کی نظر سے لیتا ہے‘‘ (Schaff، ibid.، صفحہ80)۔

’’اگر کوئی انسان میری پیروی کرنا چاہتا ہے تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خودی کا اِنکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہولے‘‘ (متی 16:‏24).

’’جہاں وہ میری رہنمائی کرتا ہے، میں پیروی کروں گا،‘‘ گائیں۔ یہ گیتوں کے ورق پر 18 نمبر ہے۔

میں اپنے نجات دہندہ کے بُلانے کو سُن سکتا ہوں،
میں اپنے نجات دہندہ کے بُلانے کو سُن سکتا ہوں،
میں اپنے نجات دہندہ کے بُلانے کو سُن سکتا ہوں،
’’اپنی صلیب اُٹھا اور پیچھے آ، میری پیروی کر۔‘‘
جہاں وہ میری رہنمائی کرتا ہے، میں پیروی کروں گا،
جہاں وہ میری رہنمائی کرتا ہے، میں پیروی کروں گا،
جہاں وہ میری رہنمائی کرتا ہے، میں پیروی کروں گا،
میں اُس کے ساتھ جاؤں گا، سارے راستے اُس کے ساتھ جاؤں گا۔
(جہاں وہ میری رہنمائی کرتا ہے Where He Leads Me‘‘ شاعر ای۔ ڈبلیو۔ بلینڈی
E. W. Blandy، 1890)۔

II۔ دوئم، مسیحی کی صلیب کا مطلب مسیح کی خاطر اپنی جان کو گنوانا ہوتا ہے۔

مہربانی سے آیت25 باآوازِ بُلند پڑھیں۔

’’کیونکہ جو کوئی اپنی جان کو محفوظ رکھنا چاہے گا اُسے کھوئے گا اور جو اُسے میری خاطر کھوئے گا پھر سے پالے گا‘‘ (متی 16:‏25).

ڈاکٹر میکجی Dr. McGee نے یہ تبصرہ متی16:‏25 پر پیش کیا،

وہ شخص جو خُداوند یسوع مسیح کا ایک شاگرد بننے میں شامل خطرات کو تسلیم نہیں کرے گا، اِس لمبی مسافت میں اپنی زندگی کو ہمیشہ کے لے کھو دے گا۔ اِس کا اُلٹ بھی سچ ہے (جے۔ ورنن میکجی، ٹی ایچ۔ ڈی۔ J. Vernon McGee, Th.D.، بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن پبلیشرز Thomas Nelson Publishers، 1983، جلد چہارم، صفحہ94؛ متی16:‏25 پر ایک غور طلب بات)۔

اِس آیت کے بارے میں بائبل نالج کا تبصرہ The Bible Knowledge Commentary کہتا ہے،

سچی شاگردی میں مسیح کی پیروی کرنا اور اُس کی مرضی کو پورا کرنا شامل ہوتا ہے وہ راستہ چاہے جہاں بھی رہنمائی کرتا ہو (جان ایف۔ والوورد، پی ایچ۔ دی۔ John F. Walvoord, Ph.D.، روئے بی۔ زُک Roy B. Zuck, Th. D.، ایڈیٹرز، بائبل کے علم کا تبصرہ The Bible Knowledge Commentary، نئے عہدنامے کا ایڈیشن New Testament Edition، وکٹر کُتب Victor Books، 1983، صفحہ59؛ متی16:‏25 پر غور طلب بات)۔

’’کیونکہ جو کوئی اپنی جان کو محفوظ رکھنا چاہے گا اُسے کھوئے گا اور جو اُس میری خاطر کھوئے گا پھر سے پالے گا‘‘ (متی 16:‏25).

ڈاکٹر ھنری ایم مورس Dr. Henry M. Morris نے کہا،

خود کے لیے مرنے اور خُدا کے لیے جینے کی اِس الٰہی متضاد بات کی سچائی کا انتہائی روح رواں... اِس دُنیا میں زندگی کو اور ہمیشہ کی زندگی کو آنے والی دُنیا میں پورا کرنا ہے (مورس Morris، ibid.؛ متی10:‏39 میں مماثل حوالے پر غور طلب بات)۔

’’یسوع، میں نے اپنی صلیب اُٹھا لی ہے،‘‘ گائیں۔ یہ گیتوں کے ورق میں گیت نمبر17 ہے۔

یسوع، میں نے اپنی صلیب اُٹھا لی ہے،
سب کچھ چھوڑنے اور تیری پیروی کرنے کے لیے؛
مفلس، حقیر جانا گیا، اکیلا چھوڑا گیا،
اب سے تجھ پر ہی میرا آسرا ہے۔
ہر مہربان آرزو مر چکی ہے،
وہ تمام جس کی میں نے کوشش کی اور اُمید کی اور جانا؛
اِس کے باوجود میری حالت کتنی مالدار ہے،
خُدا اور آسمان ابھی تک میرے اپنے ہیں!
(’’یسوع، میں نے اپنی صلیب اُٹھا لی ہے Jesus, I My Cross Have Taken‘‘ شاعر ھنری ایف۔ لائٹ Henry F. Lyte، 1793۔1847)۔

مہربانی سے آیت26 باآواز بُلند پڑھیں۔

’’اگر کوئی آدمی ساری دنیا حاصل کرلے لیکن اپنی جان کا نقصان اُٹھائے تو اُسے کیا فائدہ ہوگا؟ یا آدمی اپنی جان کے بدلے میں کیا دے گا؟‘‘ (متی 16:‏26).

جب میں کچھ مشہور گلوکاروں کے جنازوں کو دیکھتا ہوں، جیسے کہ فرینک سیناٹرا Frank Sinatra، ایلوس پریسلی Elvis Presley، جان لینن John Lennon یا مائیکل جیکسن Michael Jackson، میں ہمیشہ اِن آیات کے بارے میں سوچتا ہوں۔ یہ مسلسل ہمارے ذہنوں میں ہونی چاہئیں۔

’’اگر کوئی آدمی ساری دنیا حاصل کرلے لیکن اپنی جان کا نقصان اُٹھائے تو اُسے کیا فائدہ ہوگا؟ یا آدمی اپنی جان کے بدلے میں کیا دے گا؟‘‘ (متی16:‏26).

خُدا نے ہم سب کو پولوس رسول کے ساتھ کہنے کے لیے بُلایا ہے،

’’میں مسیح کے ساتھ مصلوب ہوچُکا ہُوں: اور میں زندہ نہیں ہُوں؛ بلکہ میسح مجھ میں زندہ ہے: اور جو زندگی میں اب جسم میں گزار رہا ہُوں وہ خدا کے بیٹے پر ایمان لانے کی وجہ سے گزار رہا ہُوں، جس نے مجھ سے محبّت کی اور میرے لیے اپنی جان دے دی‘‘ (گلتیوں 2:‏20).

III۔ سوئم، مسیحی کی صلیب آنے والی بادشاہی میں انعامات لے کر آتی ہے۔

مہربانی سے آیت27 باآواز بُلند پڑھیں۔

’’کیونکہ جب ابنِ آدم اپنے باپ کے جلال میں اپنے فرشتوں کے ساتھ آئے گا؛ تب وہ ہر ایک کو اُس کے کاموں کے مطابق اجر دے گا‘‘ (متی 16:‏27).

پولوس رسول نے کہا،

’’اگر ہم دُکھ اُٹھائیں گے، تو اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے‘‘ (2۔تیموتاؤس 2:‏12).

سُمرنہ کی کلیسیا کے لیے، یسوع نے کہا،

’’جان دینے تک وفادار رہ تو میں تجھے زندگی کا تاج دُوں گا‘‘ (مکاشفہ 2:‏10).

’’یسوع، میں نے اپنی صلیب اُٹھا لی ہے،‘‘ گائیں۔ یہ گیتوں کے ورق میں گیت نمبر17 ہے۔

یسوع، میں نے اپنی صلیب اُٹھا لی ہے،
   سب کچھ چھوڑنے اور تیری پیروی کرنے کے لیے؛
مفلس، حقیر جانا گیا، اکیلا چھوڑا گیا،
   اب سے تجھ پر ہی میرا آسرا ہے۔
ہر مہربان آرزو مر چکی ہے،
   وہ تمام جس کی میں نے کوشش کی اور اُمید کی اور جانا؛
اِس کے باوجود میری حالت کتنی مالدار ہے،
   خُدا اور آسمان ابھی تک میرے اپنے ہیں!
(’’یسوع، میں نے اپنی صلیب اُٹھا لی ہے Jesus, I My Cross Have Taken‘‘ شاعر ھنری ایف۔ لائٹ Henry F. Lyte، 1793۔1847)۔

مسیحی تاریخ دان، ڈاکٹر شاف Dr. Schaff، نے اُن ابتدائی شہیدوں کے بارے میں کہا،

اِن طویل اور ظالم ایذرسانیوں کے لیے اُن [مسیحیوں] نے کسی انقلابی شورش کی مزاحمت نہیں کی، کوئی جسمانی مخالفت نہیں کی، ماسوائے سبق آموز شجاعت کی سچائی کے لیے مرنے اور اذیتیں برداشت کرنے کے۔ لیکن یہی انتہائی شجاعت [اُن کا] زرہ بکتر ہتھیار تھی۔ اِس انتہائی شجاعت میں [اُنہوں نے] [خود کو] [اپنے] الٰہی بانی کے قابل ثابت کیا، جس نے دُنیا کی نجات کے لیے صلیب کی موت کے لیے خود کو حوالے کر دیا، اور یہاں تک کہ دعا کی، کہ اُس کے قاتلوں کو معاف کر دیا جائے۔ ایک آسمانی مُلک کی خاطر اور ایک تاج کے لیے جو کبھی غائب نہیں ہوتا، خود کا انکار کر کے [اُن شہیدوں نے اذیتیں برداشت کیں]۔ یہاں تک کہ لڑکے اور لڑکیاں ھیرو بنے، اور پاک جوش و جذبے کے ساتھ موت کے لیے دوڑے۔ اُن مشکل حالات میں [اُنہوں نے سنجیدگی کے ساتھ] خُداوند کے لفظوں کو لیا، ’’جو کوئی اپنی صلیب نہیں اُٹھائے گا اور میرے پیچھے نہیں ہو لے گا، میرا شاگرد نہیں ہو سکتا۔‘‘ وہ جو ماں اور باپ کو مجھ سے زیادہ پیار کرتا ہے، میرے قابل نہیں ہے‘‘… ’’مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے سبب ستائے جاتے ہیں، کیونکہ آسمان کی بادشاہی اُن ہی کی ہے۔‘‘ ’’وہ جو میری خاطر اپنی زندگی کھوتا ہے، اُسے پائے گا۔‘‘ اور یہ صرف خود شہیدوں پر ہی لاگو نہیں ہوتا، جنہوں نے آسمان کی برکتوں کے لیے زمین کی پریشان کُن زندگی کا تبادلہ کیا، بلکہ مجموعی طور پر کلیسیا کے لیے بھی، جو ہر اذیت سے مضبوط اور خالص بن کر اُبھرتی رہی، اور یوں اپنے دیرپا جوش و ولولے کی تصدیق کی... ’’جاری رہیں،‘‘ ٹرٹیولیئین Tertullian کافر گورنروں کے لیے کہتا ہے، ’’شکنجوں میں اذیت دیں، تشدد کریں، ہمیں پیس کر پاؤڈر بنا دیں: ہماری تعداد اُسی تناسب سے بڑھتی جائے گی جس سے تم ہمیں ختم کرو گے۔ مسیحیوں کا خون اُن کی فصلوں کے لیے بیج ہے ... اور کون ہے، جو ہم میں شامل ہونے کے بعد، اذیت برداشت کرنے کی چاہت نہیں کرتا؟‘‘ (Schaff، ibid.، صفحات75۔76)۔

وہ جو ... جنہوں نے زندگی کو خطرے میں ڈال کر کافر مجسٹریٹ کے سامنے مسیح کا اعتراف کیا، اور اُنہیں قتل نہیں کیا گیا، اُنہیں اعتراف کرنے والوں confessors کے طور پر تعظیم دی گئی۔ وہ جنہوں نے موت تک اپنے ایمان کے لیے ...اذیتیں برداشت کیں، شہید یا خون کے گواہ کہلائے (Schaff، ibid.، صفحہ76)۔

اوہ، مسیح کی پیروی کرنے کے لیے کیسا جوش تھا، خود کی انکاری کے لیے، اپنی صلیبوں کو اُٹھانے کے لیے، یسوع کی تابعداری میں اپنی خود مرکزی زندگیوں کو گنوانے کے لیے، اُس کی آنے والی بادشاہت میں جلال سے جانے کے لیے! کون اُن کے راستے پر چلنے کی جرأت کرتا ہے؟ کون کہنے کے لیے جرأت کرتا ہے، ’’میں خود کا انکار کروں گا، اور اپنی صلیب اُٹھاؤں گا، اور یسوع کی پیروی کروں گا، چاہے اِس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے‘‘؟ کون کہنے کی جرأت کرتا ہے، ’’میں اُس کے ساتھ جاؤں گا، اُس کے ساتھ، تمام راستے تک‘‘؟ ’’جہاں وہ میری رہنمائی کرتا ہے، میں پیروی کروں گا،‘‘ گائیں، گیتوں کی کتاب میں 18نمبر گیت ہے۔

میں اپنے نجات دہندہ کے بُلانے کو سُن سکتا ہوں،
   میں اپنے نجات دہندہ کے بُلانے کو سُن سکتا ہوں،
میں اپنے نجات دہندہ کے بُلانے کو سُن سکتا ہوں،
   ’’اپنی صلیب اُٹھا اور پیچھے آ، میری پیروی کر۔‘‘
جہاں وہ میری رہنمائی کرتا ہے، میں پیروی کروں گا،
   جہاں وہ میری رہنمائی کرتا ہے، میں پیروی کروں گا،
جہاں وہ میری رہنمائی کرتا ہے، میں پیروی کروں گا،
   میں اُس کے ساتھ جاؤں گا، سارے راستے اُس کے ساتھ جاؤں گا۔
(جہاں وہ میری رہنمائی کرتا ہے Where He Leads Me‘‘ شاعر ای۔ ڈبلیو۔ بلینڈی
      E. W. Blandy، 1890)۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت ڈاکٹرکرھیٹن ایل۔ چعین
      Dr. Kreighton L. Chan نے کی تھی: متی16:‏21۔27 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ
      Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا: ’’صلیبی راستہ The Crucifixion Road‘‘
                    (شاعر ڈاکٹر جان آر۔ رائس Dr. John R. Rice، 1895۔1980)۔

لُبِ لُباب

شہیدوں کی مثال

THE EXAMPLE OF THE MARTYRS

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے

.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’اگر کوئی انسان میری پیروی کرنا چاہتا ہے تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خودی کا اِنکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہولے‘‘ (متی 16:‏24).

(متی16:‏21، 22، 23؛ مرقس8:‏34؛ لوقا9:‏23)

I.   اوّل، مسیحی کی صلیب کا مطلب خود انکاری ہوتا ہے،
متی16:‏24؛ لوقا14:‏27؛ اعمال11:‏26 .

II.  دوئم، مسیحی کی صلیب کا مطلب مسیح کی خاطر اپنی زندگی کو گنوانا ہوتا ہے،
متی16:‏25، 26؛ غلاطیوں2:‏20۔

III. چہارم، مسیحی کی صلیب آنے والی بادشاہی میں انعامات لے کر آتی ہے،
متی16:‏27؛ 2۔تیموتاؤس2:‏12؛ مکاشفہ2:‏10۔