Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

جس دِن انسان مرا

(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 30)
THE DAY MAN DIED
(SERMON #30 ON THE BOOK OF GENESIS)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

خُداوند کے دِن کی شام میں تبلیغ کیا گیا ایک واعظ، 28 اکتوبر، 2007
لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں
A sermon preached on Lord’s Day Evening, October 28, 2007
at the Baptist Tabernacle of Los Angeles

’’لیکن تُو نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل ہرگز نہ کھانا کیونکہ جس دِن تو اُسے کھائے گا تو یقیناً مر جائے گا‘‘ (پیدائش 2:17).

غور کریں کہ ہماری تلاوت کہتی ہے، ’’ جِس دِن تو اُسے کھائے گا تو یقیناً مر جائے گا۔‘‘ میں سوچتا ہوں کہ آرتھر ڈبلیو۔ پنک Arthur W. Pink کو اِس پر بصیرت ہوئی تھی جب اُنہوں نے کہا،

یہ آدم میں کچھ نہیں تھا جو وہ مر گیا تھا، مگر خود آدم – خُدا کے ساتھ اپنے رشتے میں مر گیا تھا۔ یہ ہی اُس کی آل اولاد کے لیے سچ ہے۔ وہ بِلاشُبہ اپنی وجودیت کے آغاز سے ہی خُدا کی جانب ’’گناہوں اور قصوروں میں مُردہ‘‘ ہیں [افسیوں2:1]، مگر اُن کے باطن میں کچھ بھی اُس لفظ کے عام معنوں میں مثبت طور پر مردہ نہیں ہے۔ اصطلاح کے مقدس معنوں میں، ’’موت‘‘ کبھی بھی فنا ہونے کا مطلب بیان نہیں کرتی، مگر جُدائی کا مطلب دیتی ہے۔ جسمانی موت میں روح غائب نہیں ہو جاتی مگر جسم سے جُدا ہو جاتی ہے؛ اور آدم کی روحانی موت اُس کی وجودیت کے کسی حصے کا غائب ہو جانا نہیں تھا مگر پاک خُداوند کے ساتھ اُس کی رفاقت کی علیحدگی کا عمل تھا۔ یہ ہی اُس کے تمام بچوں کے بارے میں سچ ہے (آرتھر ڈبلیو۔ پنک Arthur W. Pink، صحائف سے چُنیدہ باتیں: انسان کا مکمل اخلاقی بگاڑ Gleanings from the Scriptures: Man’s Total Depravity، موڈی پریس Moody Press، 1991 دوبارہ اشاعت، صفحات 82۔83)۔

’’ جِس دِن تو اُسے کھائے تو یقیناً مر جائے گا‘‘ (پیدائش 2:17).

ہمارے پہلے والدین نے منع کیے ہوئے پھل میں سے کھایا تھا۔ وہ اُس ہی دِن مر گئے تھے۔ وہ غائب نہیں ہوئے تھے۔ اُنہوں نے اپنی وجودیت کو ختم نہیں کیا تھا۔ مگر اُن کے جسموں میں موت حرکت میں آ گئی تھی، اور اُن کی روحیں مر گئی تھیں – وہ زندگی کے منبع سے جُدا کر دیے گئے تھے، جو خود خُدا تھا۔ اِس کو ’’انسان کی برگشتگی‘‘ کہتے ہیں، کیونکہ ساری کی ساری نسل انسانی آدم میں تباہی میں گر گئی تھی، اور اُس کی مُردہ فطرت ہر بنی نوع انسان میں منتقل ہو گئی تھی۔ جیسا کہ بائبل تعلیم دیتی ہے، ’’ایک آدمی کے ذریعے سے گناہ دُنیا میں داخل ہوا‘‘ (رومیوں5:12)۔ اُس آیت پر جینیوا بائبل کی غور طلب بات کہتی ہے، ’’آدم سے، جس میں سب گناہ کر چکے ہیں، دونوں جرم اور موت اُن تمام پر آتی ہے‘‘ (جینیوا بائبل The Geneva Bible، 1599، رومیوں5:12 پر غور طلب بات)۔

اِس عقیدے کا ثبوت اِس حقیقت میں ملتا ہے کہ آدم سے پیدا ہونے والا پہلا بچہ قائِن تھا، جو زمین کا آدمی تھا، ایک کھویا اور انسان جس نے بچائے جانے سے انکار کیا تھا۔ لٰہذا یہ آدم کی تمام کی تمام آل اولاد کے لیے کہا جا سکتا ہے، ’’اِن پر افسوس کیونکہ یہ قائِن کی راہ پر چلے‘‘ (یہودہ11)۔

’’سب کے سب گمراہ ہوگئے، وہ کسی کام کے نہیں رہے، کوئی نہیں جو بھلائی کرتا ہو، ایک بھی نہیں‘‘ (رومیوں 3:12).

’’وہ سب کے سب گناہ کے قابو میں ہیں‘‘ (رومیوں 3:9).

’’ کیونکہ جِس دِن تو اُسے کھائے تو یقیناً مر جائے گا‘‘ (پیدائش 2:17).

اور وہ مر گئے تھے، اور تمام کی تمام نسل انسانی اپنے جسموں اور روحوں میں وراثت میں برگشتگی کا زہر لیے ہوئے، اُن کے ساتھ مر گئی تھی۔ کیسے، پھر، آپ کو آدم کی برگشتگی متاثر کرتی ہے؟ برگشتگی کے بے شمار بُرے اثرات ہیں، مگر میں آج کی رات روحانی اثرات کی دو باتوں کا تزکرہ کروں گا۔

I۔ اوّل، نسل انسانی خُداوند سے جُدا ہو گئی تھی۔

یہ یکدم رونما ہوا تھا جب آدم نے گناہ کیا تھا۔ وہ اِس سے قبل خُدا کے ساتھ مکمل رفاقت کو جانتا تھا۔ مگر جس لمحے اُس نے گناہ کیا وہ خُدا سے جُدا ہو گیا تھا۔

’’اور آدم اور اُس کی بیوی خداوند خدا کے حضور سے باغ کے درختوں میں چھپ گئے‘‘ (پیدائش 3:8).

یہ علیحدہ ہو جانا، یہ جُدائی، یہ بیگانگی، ہر انسانی ذہن اور دِل میں موجود ہے۔

وہ چاہے گرجہ گھر کی انتہائی حدود میں پرورش پائے۔ اُس کو شاید مسیحی گھرانے اور ایک مسیحی سکول میں تربیت دی گئی ہو، مگر وہ اب بھی خود کو ’’خُداوند خُدا کی حضوری سے‘‘ چُھپاتا ہے۔ اُس کی اب بھی

’’عقل تاریک ہوگئی ہے اور وہ اپنی سخت دلی کے باعث جہالت میں گرفتار ہے اور خدا کی دی ہُوئی زندگی میں اس کا کوئی حِصہ نہیں‘‘ (افسیوں 4:18).

وہ بیگانگی، وہ جُدائی، آدم کے ہر بچے میں موجود ہے۔ یہ ہے جس کا مطلب ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ ہونا ہوتا ہے (افسیوں2:5)۔ آرتھر ڈبلیو۔ پنک Arthur W. Pink نے کہا،

جب مسیح نے باپ کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا تھا، ’’یہ میرا بیٹا جو مر چکا تھا... (لوقا15:24)، اُس کا یقینی طور پر یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ کھویا ہوا [بیٹا] وجودیت کھو چکا تھا، مگر کہ وہ ’’ایک دور دراز کے مُلک‘‘ میں [تھا]... اپنے باپ سے جُدا تھا (پنک Pink، ibid.، صفحہ 83)۔

ایک ’’فیصلہ ساز‘‘ کا مجھے بتانا کہ کھویا ہوا بیٹا مر نہیں چکا تھا مجھے یاد ہے۔ میں نے بائبل کھولی اور اُس کے لوقا15:24 پڑھنے کے لیے کہا، جہاں پر باپ نے سادگی سے کہا،

’’میرا بیٹا جو مر چُکا تھا‘‘ (لوقا 15:24).

یہ خُداوند کا کلام ہے۔ اگر آپ غیر نجات یافتہ ہیں تو کسی کو خود کو مت کہنے دیں کہ آپ مُردہ ہیں، کیونکہ بائبل صاف صاف کہتی ہے کہ آپ ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ ہیں (افسیوں2:5)۔ یہ ہی 1599 کی جینیوا بائبل میں افسیوں2:1 پر غور طلب بات کے ذریعے سے بیان کیا گیا ہے، ’’اِس لیے تب اُس نے اُنہیں مُردہ کہا، جن میں دوبارہ جان نہیں آتی ہے... جو کہ ناصرف آدھے مرُدہ پیدا ہوتے ہیں، بلکہ کُلی طور پر مکمل مُردہ ہوتے ہیں۔ ‘‘ یعنی کہ، آپ کُلی اور مکمل طور پر خُدا سے علیحدہ کر دیے جاتے ہیں، جیسا کہ کھویا ہوا بیٹا مجموعی طور پر اپنے باپ سے علیحدہ کر دیا گیا تھا، اور یوں ’’مُردہ‘‘ کہلایا تھا (لوقا15:24)۔ یہی وجہ ہے کہ خُدا غیر حقیقی ظاہر ہوتا ہے اور آپ سے دور دکھائی دیتا ہے – کیونکہ آپ ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ ہوتے ہیں (افسیوں2:5)۔ اور آپ گناہ میں خُدا کے لیے ہمیشہ مُردہ رہیں گے جب تک کہ مسیح آپ کے لیے نہیں آتا، خود آپ کی ذات سے باہر ہو کر، اور آپ کو اِس سے بچاتا نہیں۔ آپ مُردہ ہیں اور مُردہ رہیں گے، جب تک کہ مسیح آپ کے لیے نہیں آتا، خود آپ کی ذات سے باہر ہو کر، اور آپ کو اِس سے بچاتا نہیں، کیونکہ خُدا نے آدم سے کہا،

’’جِس دِن تو اُسے کھائے گا تو یقیناً مر جائے گا‘‘ (پیدائش 2:17).

اور، آدم میں، آپ خُدا کے لیے مُردہ ہیں، اُس سے ابھی اور ہمیشہ کے لیے علیحدہ کیے ہوئے – جب تک مسیح نہیں آتا، باہر سے، آپ کو اِس سے بچانے کے لیے۔

II ۔ دوئم، نسل انسانی اسیری میں آ گئی تھی۔

یہ بھی فوراً ہو گیا تھا جب آدم نے گناہ کیا۔

’’جِس دِن تو اُسے کھائے گا تو یقیناً مر جائے گا‘‘ (پیدائش 2:17).

انتہائی اُسی دِن، بالکل اُسی لمحے، آدم اسیری میں آ گیا تھا،اور غلامی کی وہ حالت اُس کی تمام آل اولاد کے لیے منتقل ہو گئی تھی۔ نسل انسانی ’’طبیعتاً قہر کے بچے‘‘ بن گئی تھی (افسیوں2:3)، خود اپنی نجات کو لانے کے لیے کچھ بھی کر سکنے کے لیے مکمل طور پر نااہل،

’’اِس لیے کہ جسمانی نیت خدا کی مخالفت کرتی ہے‘‘ (رومیوں 8:7).

انسان دائمی طور پر خُدا کے خلاف باغی ہو گیا۔ انسان ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ بن گیا (افسیوں2:5)۔ پنک Pink نے کہا، ’’گنہگار کی مرضی [جیل] کی بیرک میں [زنجیروں سے بندھے] ایک قیدی کی مانند ہوتی ہے۔ اُس کی زنجیر کی وجہ سے اُس کی حرکات میں رخنہ اندازی ہوتی ہے، اور اُن دیواروں کی وجہ سے جنہوں نے اُس کو قید کیا ہوتا ہے اُس کی راہ میں روڑے اٹکتے ہیں۔ وہ چلنے کے لیے آزاد ہوتا ہے، مگر اِس قدر ازراہ مجبوری کے تحت اور اِس قدر محدود جگہ میں کہ اُس کی آزادی ایک اسیری ہوتی ہے – گناہ کے لیے ایک غلامی‘‘ (ibid.، صفحہ 85)۔

یہ بالکل اِسی موقعے پر ہوتا ہے کہ جدید ’’فیصلہ سازیت‘‘ تاریخی بپتسمہ دینے والوں کے اور پروٹسٹنٹوں کے عقیدے سے جُدا ہو جاتی ہے۔ ایک ’’فیصلہ ساز‘‘ کہتا ہے کہ انسان کی مرضی، اُس کو مسیح کو چُننے کی صلاحیت، ہر وقت آزاد ہوتی ہے؛ کہ وہ جب چاہیے مسیح کو چُن سکتا ہے۔ ڈاکٹر اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر Dr. A. W. Tozer ایک پانچ نقاطی کیلوِنسٹ Calvinist نہیں تھے، اِس کے باوجود اُنہوں نے دُرست طور پر کہا،

یہاں ایک اور بدترین بُرائی ہے... یہ اِس بات کی عادت ہے... نجات کو ’’قبول کرنا‘‘ جیسا کہ یہ کوئی چھوٹا سا معاملہ تھا اور مکمل طور پر آپ کے اپنے ہاتھوں میں تھا۔ لوگوں کو باتوں کے بارے میں سوچنے اور مسیح کے لیے ’’فیصلہ کرنے‘‘ کے لیے جوش دلایا جاتا ہے، اور ’’روز فیصلہ Decision Day ‘‘ پر... لوگوں سے توقع کی جاتی ہے کہ اُنہیں بچانے کے لیے وہ مسیح کو حق دینے پر بے عزتی کریں، ایک حق جس سے وہ واضح طور پر اُس وقت تک کے اُسے [مسیح کو] مسترد کر چکے ہوتے ہیں۔ یوں مسیح کو بنا دیا جاتا ہے… کہ ایک فرد کی خوشی کے لیے انتظار کرے، اور ایک طویل مدت کے عاجزانہ انتظار کے بعد یا تو مُنہ موڑ لے یا مخدومانہ [تکبرانہ] طور سے تسلیم کر لے... [مگر] یہ اب بھی سچ ہے کہ لوگ خود اپنی آرزو سے [مسیحی] نہیں بنتے بلکہ آقاؤں کے بُلانے سے مسیحی بنتے ہیں۔ کیا خُدا نے ایسے ہی الفاظ کی وجہ سے وہ حتمی چناؤ ہمارے ہاتھوں سے چھین نہیں لیا؟... کوئی انسان بھی میرے پاس نہیں آ سکتا جب تک کہ میرا باپ اُسے میرے پاس نہ بھیجے... کوئی انسان میرے پاس نہیں آ سکتا، جب تک کہ یہ میرا باپ اُس کو نہ بخشے (اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر، ڈی۔ڈی۔ A. W. Tozer, D.D، الہٰی فتح The Divine Conquest، مسیحی پبلیکیشنزChristian Publications، 1950، صفحہ 48) ۔

انگریزی بولنے والی دُنیا میں بِنا کسی سوال کے جارج وائٹ فیلڈGeorge Whitefield تمام زمانوں کے عظیم ترین مبشر تھے۔ اپنے انجیلی بشارت کے پرچار کی واعظوں میں وائٹ فیلڈ نے بارہا کھوئے ہوئے لوگوں کو بتایا کہ اُنہیں خود اپنے دِلوں کے اخلاقی بگاڑ کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے، اُنہیں خود اپنی مرضیوں کی مُردگی کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے، اُن کی مسیح کے پاس آنے کے لیے قدرتی نااہلیت کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے، کہ اگر وہ کبھی دوبارہ نئے سرے سے جنم لیتے ہیں تو یہ تنہا خُدا کا ہی کام ہو سکتا ہے،

’’وہ نہ تو خُون سے، نہ جسمانی خواہش سے اور نہ اِنسان کے اپنے اِرادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہُوئے‘‘ (یوحنا 1:13).

’’جِس دِن تو اُسے کھائے گا تو یقیناً مر جائے گا ‘‘ (پیدائش 2:17).

برگشتگی سے پہلے انسان کے پاس کھانے یا نا کھانے کے درمیان چُننے کے لیے آزادی تھی، مگر اُس کے کھا چکنے کے بعد، وہ اور اُس کی تمام کی تمام آل اولاد نے اُس آزادی کو کھو دیا۔ اب وہ تمام کے تمام ’’گناہ کے تحت‘‘ تھے (رومیوں3:9)۔ اب وہ تمام کے تمام ’’گناہوں اور قصوروں میں مُردہ‘‘ تھے (افسیوں2:1)۔

’’جِس دِن تو اُسے کھائے گا تو یقیناً مر جائے گا‘‘ (پیدائش 2:17).

پیدائش کا تیسرا باب احتیاط کے ساتھ پڑھیں۔ اور، جب آپ اِس کو احتیاط کے ساتھ پڑھ چُکیں، تو خود سے پوچھیں آدم نے کہاں پر بچائے جانے کے لیے ’’فیصلہ‘‘ کیا تھا۔ خود سے پوچھیں کہاں پر اُس نے ’’گنہگاروں کی دعا‘‘ مانگی تھی – یا یہاں تک کہ کہاں پر اُس نے خُدا سے اُسے بچانے کے لیے ’’پوچھا‘‘ تھا۔ آپ کو پیدائش کے تیسرے باب میں ’’فیصلہ سازیت‘‘ کا کوئی بھی نشان نہیں ملے گا۔ آپ کو اگر کچھ ملے گا تو وہ ’’گناہ میں‘‘ انسان پر لعنتیں اور سزا کا حکم ملے گا، جب تک کہ خُدا نے، اپنے فیصلے کے ذریعے سے، انسان کو چمڑے کی کھال کا لبادہ نہ پہنا دیا – جب تک کہ خُدا نے خود اُنہیں وہ بخشنے کے لیے نہ چُنا جس کو سیکوفیلڈ مطالعۂ بائبل میں ’’ ’مسیح کو ہمارے لیے راستبازی ٹھہرایا گیا‘ کی ایک شبیہہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے – ایک الٰہی طور پر مہیا کیا گیا لبادہ کہ جس نے پہلے گنہگاروں کو خُدا کے موجودگی میں ہونے کے لیے موزوں بنایا‘‘ (سیکوفلیڈ مطالعۂ بائبل The Scofield Study Bible، پیدائش3:21 پر ایک غور طلب بات)۔ عدن میں اُن گنہگاروں نے خود کو لبادہ نہیں پہنایا تھا۔ خُداوند نے اُنہیں قبل ازیں متجسم مسیح کی راستبازی اور خون میں ڈھانپا تھا۔

’’خداوند خدا نے آدم اور اُس کی بیوی کے لیے چمڑے کے کُرتے بنا کر اُنہیں پہنا دیئے‘‘ (پیدائش 3:21).

پھر، آج کی رات، میں آپ سے پوچھتا ہوں، کیا آپ کے پاس آدم میں اپنی حالت سے تعلق رکھتے ہوئے بصیرت ہے؟ کیا آپ دیکھتے ہیں کہ آپ اپنی فطرت کی بدکاری کے ذریعے سے خُدا سے علیحدہ ہو گئے ہیں؟ کیا آپ گناہ میں اپنی اسیری کے بارے میں محسوس کرتے ہیں؟ ایک شخص نے کہا، ’’میں گناہ کرنے سے باز نہیں رہ سکتا۔‘‘ کیا آپ نے وہ محسوس کیا – وہ غلامی، ’’گناہ کے تحت‘‘ آپ کی مرضی کی اسیری (رومیوں3:9)؟ کیا مسیح اپنے خون میں آپ کو پاک صاف کرنے کے لیے کھینچ رہا ہے – یا آپ ’’گناہوں اور قصوروں میں مُردہ‘‘ چھوڑ دیے گئے ہیں (افسیوں2:1) دائمی تباہی کا انتظار کرنے کے لیے، ’’آگ کی جھیل میں جھونکے جانے‘‘ کا انتظار کرنے کے لیے چھوڑ دیے گئے ہیں (مکاشفہ20:15)؟

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت ڈاکٹر کرھیٹن ایل چیعن Dr. Kreighton L. Chan نے کی تھی: پیدائش3:6۔21 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’خُداوند، میں غلیظ ہوں، گناہ میں پیدا ہوا Lord, I Am Vile, Conceived in Sin،‘‘ (شاعر ڈاکٹر آئزک واٹز Dr. Isaac Watts، 1674۔1748)۔

لُبِ لُباب

جس دِن انسان مرا

(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 30)
THE DAY MAN DIED
(SERMON #30 ON THE BOOK OF GENESIS)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’لیکن تُو نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل ہرگز نہ کھانا کیونکہ جس دِن تو اُسے کھائے گا تو یقیناً مر جائے گا‘‘ (پیدائش 2:17).

(افسیوں2:1؛ رومیوں5:12؛ یہودہ11؛ رومیوں3:12، 9)

I. اوّل، نسل انسانی خُدا سے جُدا ہو گئی تھی، پیدائش3:8؛
افسیوں4:18؛ 2:5؛ لوقا15:24 .

II. دوئم، نسل انسانی اسیری میں آ گئی تھی، افسیوں2:3؛
رومیوں8:7؛ یوحنا1:13؛ رومیوں3:9؛ گلِتیوں4:3؛
افسیوں2:1؛ مکاشفہ20:15 .