Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

واعظ سے پہلے زبور گایا گیا: زبور139:23۔24 .

تُو کہاں ہے؟

(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 25)
WHERE ART THOU?
(SERMON #25 ON THE BOOK OF GENESIS)

(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
ہفتے کی شام، 13 اکتوبر، 2007
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Saturday Evening, October 13, 2007

’’اور خُداوند خُدا نے آدم کو پُکارا، اور پوچھا، تو کہاں ہے؟‘‘ (پیدائش3:9)۔

یہ وہ آیت تھی جسے خُداوند نے جان گِل John Gill کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ وہ اُس گرجہ گھر کے پادری بننے کے لیے چلے گئے تھے جہاں پر بعد میں سپرجیئن نے منادی کی تھی۔ ڈاکٹر گِل نے تمام بائبل پر ایک تبصرہ لکھا تھا، جو کہ اب بھی شائع ہوتا ہے اور کافی قابل قدر ہے (جان گِل، ڈی۔ڈی۔John Gill, D.D.، پرانے اور نئے عہد نامے کی ایک تفسیر An Exposition of the Old and New Testament، بپتسمہ دینے والے معیاری بیئرر The Baptist Standard Bearer، دوبارہ اشاعت1989، جو جلدیں)۔

ڈاکٹر گِل نے دونوں نئے اور پرانے عہد نامے کی تقریباً ہرآیت پر تبصرہ لکھا۔ اِس کے باوجود اِس تلاوت پر اُن کے تبصروں میں، جو خُدا نے اُنہیں تبدیل کرنے کے لیے استعمال کی تھی، اُنہوں نے اُس حقیقت کا تزکرہ نہیں کیا۔ میرے خیال میں وہ کافی سے زیادہ 18 ویں صدی کے مصنف تھے، اور نہیں چاہتے تھے کہ اُن کے بیان میں کوئی ذاتی بات آئے۔ اور اِس کے باوجود یہ جاننا نہایت قیمتی ہے کہ گزرے ہوئے دور کے بپتسمہ دینے والے بائبل کے عظیم ترین تبصرہ نگاروں میں سے ایک اِس تلاوت پیدائش 3:9 پر واعظ سُننے کے وسیلے سے بیدار ہوئے تھے، جس کی تبلیغ مسٹر ولیم والِس Mr. William Wallis نے کی تھی۔ گِل اِس کو سُننے کی تھوڑی ہی دیر بعد تبدیل ہو گئے تھے۔ جان ریپون John Rippon نے گِل کی تبدیلی کے اِس واقعے کو پیش کیا:

اُس کے پاس گناہ کی بُرائی کے تھوڑے بہت راسخ عقیدے اور [جہنم] کے غیر مستقل خیالات تھے… مگر اُس کے تصورات عارضی اور سرسری تھے، جب تک کہ وہ تقریباً بارہ برس کی عمر کا نہ ہو گیا، جب اُس کے ذہن کی کاروائیاں زیادہ سنجیدہ ہو گئی تھیں، خاص طور پر پیدائش 3:9 پر مسٹر ولیم والِس Mr. William Wallis کے ایک واعظ ’’اور خُداوند خُدا نے آدم کو پکارا اور اُس سے کہا، تو کہاں ہے؟‘‘ کی منادی سُننے کے بعد۔ کچھ وقت کے لیے تلاوت اور اُس کا موضوع مسلسل اُس کے کانوں میں سُنائی دیتا رہا، اور یہ [سوالات] اُس کے دِل میں اُٹھتے رہے – گنہگار، تو کہاں ہے؟ تو کس قدر تباہ حال کیفیت اور حالت میں ہے؟ – ایک غیرنجات یافتہ حالت میں زندگی بسر کرنے اور مرنے سےتو کس قدر بدنصیب ہوگا؟ – اُس نے خود کو ساری دُنیا کے منصف کے سامنے طلب کیے جانے اور اپنے [گناہ] کا جواب دینے پر غور کیا… اب اُس نے زیادہ بہتر اور واضح طور پر اپنے فطرت کے اخلاقی زوال، گناہ کی غیرمعمولی تجاوز کرتی ہوئی بھرپوری، نجات دہندہ کے لیے اُس کی ضرورت اور خود اپنی راستبازی کے مقابلے میں ایک بہتر راستبازی کو، یہاں تک کہ ایمان کے وسیلے سے مسیح کی راستبازی کے پانے کو دیکھنا شروع کیا (جان ریپن ڈی۔ڈی۔John Rippon, D.D.، مرحوم جناب جان گِل، ڈی۔ڈی۔ کی تحاریر اور زندگی کی ایک مختصر سوانح، A Brief Memoir of the Life and Writings of the Late Rev. John Gill, D.D.، گینو کُتب Gano Books، دوبارہ اشاعت 1992، صفحہ6)۔

کچھ عرصے بعد جان گِل تبدیل ہو گیا تھا، مگر اُس نے اُس وقت تک بپتسمہ نہیں لیا تھا جب تک کہ وہ اُنیس برس کی عمر کا نہیں ہو گیا۔

[جان ریپن کہتا ہے کہ] یہ تاخیر، شروع شروع میں، … اپنے جوانی… کی وجہ سے کبھی کبھار تھی، بعد میں، یہ پتا چلنے کے بعد کہ… گرجہ گھر [اُس کے اپنے پادری کی حیثیت سے بُلانا چاہتا تھا] جیسے ہی وہ اِس کا ایک رُکن بن گیا (ریپون Rippon، ibid.، صفحہ7)۔

لٰہذا، اِس شام، ہم اِس تلاوت پر نظر ڈالیں گے جس کو خُدا نے جان گِل کو جب وہ بارہ برس کی عمر کا تھا، اُس کی کھوئی ہوئی حالت اور مسیح کے لیے اُس کی ضرورت کو بیدار کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔

جان ریپون اُس تلاوت، ’’تو کہاں ہے – آدم؟‘‘ کے بے شمار اِطلاق کو سامنے لائے تھے جس کی ولیم والِس نے نوجوان گِل کے لیے منادی کی تھی۔ یہ واعظ والِس کے واعظ کی ریپون کی یادگاری پر مشتمل ہے جس نے جان گِل کو بیدار کیا تھا اور اُس کی تبدیلی کے لیے رہنمائی کی تھی۔ اُس واعظ کی بنیاد ہماری تلاوت پر تھی،

’’اور خُداوند خُدا نے آدم کو پُکارا، اور پوچھا، تو کہاں ہے؟‘‘ (پیدائش3:9)۔

I۔ پہلی بات، یہ بیدار کرنے والا ایک سوال ہے۔

’’تو کہاں ہے – [آدم]؟‘‘ (پیدائش3:9)۔

اِس سوال نے ہمارے باپ آدم کے دِل کو چیر ڈالا تھا۔ اِس نے اُس کو ٹھہرنے اور سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ وہ کس قدر تباہ حال کیفیت اور حالت میں تھا۔ خُدا کے اُس کو چند ایک منٹ بُلانے سے پہلے، آدم نے وہاں باغ کے درختوں میں چُھپنے میں محفوظ محسوس کیا تھا۔ مگر اب خُداوند کی چیر ڈالنے والی آواز اُس کے چُھپنے والی جگہ میں گُھستی چلی آ رہی تھی۔ اور وہ اپنے گناہ اور بغاوت کے ساتھ روبرہ آ کھڑا ہوا تھا۔

جان گِل کی مانند، آدم نے گناہ کی بُرائی کی تھوڑی بہت سزایابی کا تجربہ کیا۔ مگر اُس کے سزایابی کے احساست گہرے نہیں ہیں، اور وہ صرف عارضی ہیں۔ وہ کبھی کبھار انصاف کے بارے میں سوچا کرتا۔ وہ کبھی کبھار جہنم میں ہمیشہ کی زندگی کے بارے میں سوچا کرتا۔ مگر اُس کا جوانی سے بھرپور ذہن اِس پر سے پھسل جاتا اور وہ خود کو دوسری باتوں میں مشغول کر دیتا جیسے انجیر کے پتوں سے لباس کی حفاظت کے لیے کمر کے گرد باندھ لینے والے کپڑے بنانا، باغ کے درختوں میں دور دراز تک سفر کرنا، اور اِنہی اعمال سے جُڑی ہوئی دوسری باتیں۔ شروع شروع میں وہ اِس قدر مصروف ہے کہ وہ بھول جاتا ہے کہ انصاف ہوئے گا۔ وہ بھول جاتا ہے کہ

’’بُرا کرنے والا اپنی بُرائی کا بدلہ پائے گا کیونکہ خدا کسی کی طرفداری نہیں کرتا‘‘ (کُلسیوں 3:25).

وہ بھول جاتا ہے کہ

’’گناہ کی مزدوری مَوت ہے‘‘ (رومیوں 6:23).

وہ بھول جاتا ہے کہ

’’خدا ٹھٹھوں میں نہیں اُڑایا جاتا کیونکہ آدمی جو کچھ بوتا ہے وہی کاٹے گا‘‘ (گلِتیوں 6:7).

وہ بھول جاتا ہے کہ

’’جو شخص بار بار متنبہ کیے جانے پر بھی سرکشی کرتا ہے وہ ناگہاں تباہ کیا جائے گا۔ اور کہ اُس کا کوئی چارہ نہ ہوگا‘‘ (امثال 29:1).

جیسے جیسے وہ اپنے آپ کو انجیر کے پتوں سے لباس کی حفاظت کے لیے کمر کے گرد باندھ لینے والے کپڑے سینے اور باغ کے گھنے درختوں کے تلے تاریکی کی گہرائیوں میں پناہ لینے میں مصروف کرتا۔ یہ ’’مصروفیت‘‘اُن ہولناک گناہوں کو اُس کے ذہن میں سے دور لے جاتی جن کا سامنا اُس کو ایک مقدس خُدا کے روبرو کرنا ضروری تھا۔

میں جانتا ہوں کہ آج رات یہاں پر کوئی نہ کوئی بالکل اُسی حالت میں ہے۔ اِسی واعظ کے انتہائی دوران میں آپ اپنے ذہن کو آوارہ گردی کرنے دیتے ہیں۔ آپ اکثر مُردہ دِلی سے بیٹھتے ہیں، صرف الفاظ کو بے دھیانی سے سُن رہے ہوتے ہیں، وہاں اپنے گرجہ گھر میں آدھے بیدار اور آدھے سوئے ہوئے ہوتے ہیں۔ دیکھیں اِس تمام میں آپ کس طرح آدم کے ساتھ مشہابت رکھتے ہیں۔ ’’خداوند اُس کے سارے خیالات میں نہیں ہے‘‘ (زبور10:4)۔

لیکن تب ہی خُدا کی آواز باغ میں سے لہراتی ہوئی آئی اور اُس جگہ پر جہاں وہ چھپا ہوا تھا اُس تک پہنچی۔ اور خُداوند نے کہا،

’’تو کہاں ہے – [آدم]؟‘‘ (پیدائش3:9)۔

اِس سوال نے یکدم اُس کے ضمیر کو چیر ڈالا اور اُس کے دِل پر آشکارہ کیا کہ اُس کی حالت کس قدر ہولناک تھی۔

کیا وہ آپ کے ساتھ اب تک ہو چکا ہے؟ کیا خُدا نے آپ کی جان کے گہرے ترین حصوں میں بات کی اور کہا،

’’تو کہاں ہے‘‘ (پیدائش3:9)۔

کیا آپ خُدا کی باتوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں؟ کیا آپ اپنے گناہ کے لیے بہانہ اور اِس کو سرسری طور پر لینے کی تلاش میں ہیں؟ یا کیا خُدا کی سب کچھ دیکھ لینے والی آنکھ نے آپ کے دِل کو چھوا ہے اور آپ کو آپ کی تباہ حال جان کی حالت، آپ کے دِل کی اُس باغی اور مُردہ فطرت کے لیے بیدار کیا ہے؟ اُس وقت تک کوئی بھی حقیقی تبدیلی نہیں ہو سکتی جب تک کہ آپ کو یہ دیکھنے پر مجبور نہیں کر دیا جاتا کہ آپ خُدا کے ذہن میں ایک بدنصیب گنہگار ہیں۔ خُدا کی باتوں سے تعلق رکھتے ہوئے آپ کو اپنی کاہلی اور سُستی سے بیدار کیا جانا ضروری ہے! آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ خُدائے قادرمطلق کی سزایابی کے تحت آئیں، جو ’’مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑتا‘‘ (خروج34:7)! آپ کو اپنے دِل اور ذہن کی سچی تباہ حال حالت کو دیکھنا چاہیے۔ جیسا کہ جان نیوٹن John Newton اِس کو لکھتے ہیں،

یہ فضل ہی تھا جس نے میرے دِل کو خوف کرنا سیکھایا،
اور فضل نے ہی میرے تمام خوف ختم کیے۔
   (’’حیرت انگیز فضلAmazing Grace ‘‘ شاعر جان نیوٹن John Newton ، 1725۔1807).

کیا خُداوند کے فضل نے آپ کے دِل کو خُوف کرنا سیکھایا؟ کیا خُداوند کے فضل نے خود آپ کے اپنے گناہ میں تباہ شدہ دِل پر شک کرنے کے لیے رہنمائی کی؟ بائبل کہتی ہے،

’’جو اپنے آپ پر بھروسا رکھتا ہے وہ بیوقوف ہے‘‘ (امثال 28:26).

آدم نے خود پر بھروسہ کیا تھا۔ اُس نے خود اپنے دِل پر بھروسہ کیا تھا۔ دیکھیں وہ کس قدر احمق تھا! آدم کی مانند مت ہو جائیے گا! خود اپنے دِل پر بھروسہ مت کریں!

’’اور خُداوند خُدا نے آدم کو پُکارا، اور پوچھا، تو کہاں ہے؟‘‘ (پیدائش3:9)۔

II۔ دوسری بات، یہ سزایابی کا ایک سوال ہے۔

’’تو کہاں ہے؟‘‘

اُس سوال کا مقصد گناہ کے قائل ہونا اور گناہ کے اعتراف کے لیے رہنمائی کرنا تھا۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ خُداوند کی آواز کو سُنیں گے، اپنے ضمیر میں آپ سے یہ کہتے ہوئے، ’’تو کہاں ہے؟‘‘ ’’میں نے تجھے زندگی بخشی۔ میں نے تجھے خود اپنی شکل پر بنایا۔ میں نے تجھے وہ سب کچھ بخشا جس کی تجھے جینے کے لیے ضرورت تھی۔ میں نے تجھے ہر وہ چیز جو تیرے پاس ہے عطا کی۔ میں نے صرف ایک چھوٹی سی بات چاہی تھی – کہ تو اُس ایک درخت کا پھل نہیں کھائے گا۔ تو کہاں ہے؟ کیا تو ایک باغی ہے، ایک گستاخ ہے، میرے مقصد کے لیے ایک دھوکے باز ہے؟ کیا تو نے گناہ کیا ہے؟ اوہ، آدم، تو کہاں ہے؟‘‘ اگر آدم کا دِل صحیح ہوتا تو اُس نے خُدا کے سامنے اپنے گناہ کی بھرپوری کا مکمل اعتراف کر لیا ہوتا۔

اب، گنہگار، میری سُن۔ ’’تو کہاں ہے؟‘‘ خُدا نے آپ کو ہر وہ چیز جس کی آپ کو زندگی میں ضرورت ہوتی ہے عنایت کی۔ خُدا نے آپ کو صحت اور قوت بخشی، اور آپ کی دیکھ بھال کے لیے ایک خاندان دیا۔ خُدا نے آپ کو ایک گرجہ گھر عنایت کیا جو خوشخبری کی منادی کرتا ہے، ایک گرجہ گھر جو آپ کی دیکھ بھال کرتا اور آپ کے لیے دعا مانگتے ہوئے روتا ہے۔ خُدا نے آپ کو اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا کہ آپ کے گناہوں کے بوجھ تلے کُچلا جائے جب تک کہ گتسمنی میں وہ خون کا پسینہ نہیں بہا لیتا، جب تک کہ وہ صلیب پر آپ کے گناہ اپنے بدن پر اُٹھا کر نہ لے جاتا، جب کہ وہ اپنے بدن پر آپ کو شفا دینے کے لیے ظالم کوڑے کی لعشیں نہ ڈلوا لیتا، جب تک کہ وہ خُدا کے قہر و غضب کی تشفی و تسلی کے لیے کھردری صلیب پراذیت میں مر نہیں جاتا، جب تک کہ وہ اپنا پاک خون نہیں بہا لیتا کہ آپ کے گناہ دُھل پائیں، جب تک کہ وہ آپ کو زندگی بخشنے کے لیے قبر میں سے فاتح بن کر نہیں نکلتا، اپنی راستبازی کو آپ کے نام منسوب نہ کرتا، آپ کے لیے آسمان میں دعا مانگتا کہ آپ تبدیل ہو جائیں۔

کیا آپ خُدا کے احکامات کو بھول چکے ہیں، اپنی زندگی میں سے خدا کو نکال چکے ہیں، اُس کی شریعت کو توڑ چکے ہیں اور اُس کے بیٹے کو مسترد کر چکے ہیں؟ کیا آپ اِس شام ایک بے اعتقادے ہیں، خود اپنی نیکیوں میں بھروسہ کرنے پر مطمئن، اور یسوع کے پاس نا آنے کے لیے تیار اور صلیب پر اُس کی راستبازی کے مکمل شُدہ کام کو پانے کے لیے غیر رضامند ہیں؟ کیا آپ اُس کو بُھلا چکے ہیں جس نے آپ کے لیے اِس قدر زیادہ کام کیے ہیں؟ ’’آپ کہاں ہیں؟‘‘ کیا آج کی رات آپ خُدا کے دشمن کی طرف ہیں؟ کیا آپ شیطان کی طرف ہیں، خدا کی انکاری کرتے ہوئے، اور اُس خُدا کے خلاف بغاوت میں گستاخانہ چہرہ اُٹھائے ہوئے جس نے آپ کو بنایا، جو آپ کے پھیپھڑوں میں ہوا پھونکتا ہے، جس کے ہاتھوں میں آپ کی انتہائی زندگی وجودیت رکھتی ہے – یا فنا ہو جاتی ہے؟ گنہگار، ’’تو کہاں ہے؟‘‘ خُدا کا آپ کو وہ ساری نیکیاں دکھا دینے کے بعد – کیا آپ اب بھی ایک برگشتہ باغی ہیں، یسوع کے بغیر، اور اِس دُنیا میں بغیر کسی اُمید کے؟

سوال کو دوبارہ اِس طرح سے پڑھیئے، ’’تو کہاں ہے؟‘‘ سانپ سے وعدہ کیا تھا کہ آپ ’’ایک خدا‘‘ ہوں گے جو خود اپنی زندگی پر حکمرانی کرتا ہو۔ آپ نے سوچا کہ آپ اپنی مرضی کر کے زیادہ بہتر ہونگے۔ یہ سچ ہے، آدمی؟ کیا آپ بہتر ہیں؟ کیا شیطان نے آپ کا وعدہ پورا کیا؟ کیا یہ ایسا ہے، انسان، کیا یہ ایسا ہی ہے؟ شیطان نے آپ کو کیا فائدہ پہنچایا ہے؟ کیا اُس نے آپ کو ایک خاموش اور پُرسکون ضمیر عنایت کیا؟ کیا اُس نے آپ کو اندرونی خوشی بخشی؟ کیا اُس نے آپ کے دِل سے اپنے وعدے کو پورا کیا؟

آپ کو لباس پہنانے کے بجائے، آپ آج کی رات خُدا کے سامنے ننگے ہیں۔ آپ کو خوشیاں دینے کے بجائے، گناہ نے آپ کو جگر و پتے کے سے جوس جیسا کڑوا کیسلا پیالہ دیا ہے۔ گناہ نے آپ کے دِل کو کوڑھ کے ساتھ بھر دیا ہے اور آپ کی جان کو درد اور اذیت کے بھر دیا ہے۔ آپ کو عزت بخشنے کے بجائے، گناہ نے آپ کی عزت چھین لی ہے، اور آپ گرجہ گھر سے یہوداہ کی مانند بغیر اندرونی امن کے، نجات کے بغیر، اُمید کے بغیر، کچھ بھی نا لیے ہوئے ماسوائے غلیظ چیتھروں اور ایک آلودہ ضمیر کو لیے ہوئے رات میں نظریں بچا کے نکل جاتے ہیں۔ شیطان نے آپ کو کیا دیا ہے؟ اُس نے آپ کی تحقیر کی ہے اور آپ کو کلیسیا میں مسیحیوں کی نظروں میں ایک گنہگار کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ گناہ نے آپ کے لیے کیا کِیا ہے؟ اِس نے آپ کو سڑا دیا ہے اور آپ کی تمام خوشیوں اور اُمیدوں میں زہر بھر دیا ہے۔ ’’تو کہاں ہے – تو کہاں ہے؟‘‘ ہر معاملے میں گناہ ایک جھوٹ بولنے والا رہا ہے۔ ہر معاملے میں اِس نے آپ کو ایک تباہ کی ہوئی، تحقیرزدہ، بے دین حالت میں مسیح کے بغیر لا کھڑا کیا ہے اور خُدا کے بجائے خود اپنی راہوں پر آپ کو چلایا ہے

۔

سزایابی میں اِضافہ کرنے کے لیے خُدا پوچھتا ہے، ’’تو کہاں ہے؟‘‘ جیسا کہ کہنا چاہتا ہو، ’’تو وہاں تک پہنچا کیسے؟ تو کیسے اِس قدر سرد دِل گنہگار بن گیا؟‘‘ آپ اُس حالت میں ہیں کیونکہ آپ خود اپنے آپ کو وہاں پر لائے ہیں۔ آپ کا گناہ خود آپ کا اپنا قصور ہے۔ اِس قدر سخت دِل گنہگار ہونے کے لیے ماسوائے خود کے آپ کسی پر الزام نہیں دھر سکتے۔ آپ نے خود اپنے گناہ کو تخلیق کیا ہے۔ اگر میں انسان کی برگشتگی پر تبلیغ کروں تو آپ اِس کے لیے آدم کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے۔ اگر میں مکمل اخلاقی زوال کے بارے میں بات کرتا ہوں تو پھر آپ سوچتے ہیں کہ آپ بخشے گئے ہیں جیسا کہ مکمل اخلاقی زوال آپ کے گناہ کے لیے ایک بہانہ ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر آپ ایک کھوئے ہوئے گنہگار ہیں تو آپ کے پاس ماسوائے خود پر الزام لگانے کے کوئی اور نہیں ہے۔ اگر آپ ایک کھوئے ہوئے گنہگار ہیں، تو آپ کے پاس کسی بھی قسم کا کوئی بہانہ نہیں ہے۔ اور اگر آپ گناہ ہی میں زندگی بسر کرتے اور مر جاتے ہیں تو جرم آپ کا ہی ہے، یہ آپ کا اپنا قصور ہے اور کسی اور کا نہیں ہے۔ ’’تو کہاں ہے؟‘‘ آپ وہیں پر ہیں جہاں پر آپ نے خود کو رکھنے کے لیے چُنا ہے، اور آپ خُدا کے خلاف بغاوت کی اُس حالت میں رہتے ہیں اور خود اپنے چُناؤ کی وجہ سے اُس خُداوند سے بیگانے ہو جاتے ہیں!

میں دعا مانگتا ہوں کہ خُداوند نا صرف آپ کو آج کی رات بیدار کرے بلکہ وہ آپ کے دِل میں باطنی طور پر آپ کو سزایابی کے لیے لائے، آپ کو آپ کی گناہ والی فطرت کا قائل کرے، اور اُس کے پاک نام کے خلاف آپ جو بے شمار گناہ سرزد کر چکے ہیں اُن کا قائل کرے۔ ایک شخص کو اُس گناہ کے غلیظ بستر سے اُٹھانا جس پر وہ سویا ہوتا ہے – اور اُس کو جِلانے کے مقابلے میں نیند سے جگانا آسان تر ہے! لیکن یہی ہے جو آپ کریں گے اگر خُدا آپ کے دِل میں کام کر رہا ہے۔ آپ بیدار ہو جائیں گے اور پائیں گے کہ آپ برگشتہ ہیں کھوئے ہوئے ہیں۔ سزایابی آپ کو وہ آگاہی دے گی کہ آپ خود اپنی ذات کو تباہ کر رہے ہیں! پھر آپ شاید جھوٹی اُمیدوں اور جھوٹی پناہ گاہوں سے دور بھاگیں گے، اپنے گناہوں کو چھوڑ دیں گے اور اپنے تمام دِل کے ساتھ ہمیشہ قائم رہنے والی نجات کو اُس واحد جگہ میں جہاں وہ مل سکتی ہے – خُدا کے بیٹے مسیح کے خون میں تلاش کریں گے۔

’’اور خُداوند خُدا نے آدم کو پُکارا، اور پوچھا، تو کہاں ہے؟‘‘ (پیدائش3:9)۔

III۔ تیسری بات، یہ تلاش کرنے کا ایک سوال ہے۔

انسان نے خُدا کی تلاش نہِیں کی تھی۔ وہ انتہائی الفاظ، ’’تو کہاں ہے؟‘‘ – ظاہر کرتے ہیں کہ یہ خُدا ہے جو انسان کو ڈھونڈ رہا ہے، کبھی بھی انسان خُدا کو نہیں ڈھونڈتا۔ ہماری تلاوت میں یہ اِس سے اور کتنا واضح ہو سکتا ہے؟ خُداوند نے آدم کو ڈھونڈا؛ آدم نے خُدا کو نہیں ڈھونڈا۔ آدم ایک نمونہ ہے، ایک مثال ہے، آج کے تمام گنہگاروں کی۔ خُداوند آپ کو ڈھونڈتا ہے۔ آپ اُس کو نہیں ڈھونڈتے۔ نئے عہد نامے کے صفحات پر اِس سے بھی زیادہ واضح اور کیا ہو سکتا ہے؟

’’جیسا کہ لکھا ہے… کوئی خدا کا طالب نہیں‘‘ (رومیوں 3:10۔11).

کوئی خُدا کا طالب نہیں؟ ’’نہیں کوئی ایک بھی نہیں‘‘ (رومیوں3:10)۔

ہمیشہ سے اور ہمیشہ ہی یہ خُدا ہے جو گنہگار کو ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ جیسا کہ یہ آدم کے ساتھ تھا، ویسا ہی یہ آپ کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔ یہ بیداری کی ایک آواز ہے، ایک آواز جو گناہ کا قائل کرتی ہے مگر تیسری جگہ پر، یہ ایک تلاش کرنے والی آواز ہے۔ ’’آدم، تو کہاں ہے؟ میں تجھے ڈھونڈنے کے لیے آیا ہوں، تو کہیں پر بھی ہو۔‘‘ یسوع نے کہا،

’’میں گم شُدہ کو ڈھونڈنے اور بچانے کے لیے آ [چکا] ہوں‘‘ (لوقا 19:10).

آپ کہہ سکتے ہیں، ’’مگر خُداوندا، میں شریعت کے ذریعے سے دھمکایا گیا ہوں۔‘‘ وہ کہتا ہے، ’’میں گم شُدہ کو ڈھونڈنے اور بچانے کے لیے آ [چکا] ہوں۔‘‘ آپ شاید کہیں، ’’مگر میں ویسے یقین نہیں کر سکتا جیسے مجھے کرنا چاہیے۔‘‘ وہ کہتا ہے، ’’میں گم شُدہ کو ڈھونڈنے اور بچانے کے لیے آ [چکا] ہوں۔‘‘ مگر آپ کہتے ہیں، ’’میں تجھ پر یقین نہیں کر سکتا۔‘‘ وہ کہتا ہے، ’’میں گم شُدہ کو ڈھونڈنے اور بچانے کے لیے آ [چکا] ہوں۔‘‘ ’’مگر،‘‘ کوئی کہتا ہے، ’’تو نہیں جانتا کہ میں واقعی میں کس قدر گنہگار ہوں!‘‘ دوبارہ یسوع کہتا ہے، ’’میں گم شُدہ کو ڈھونڈنے اور بچانے کے لیے آ [چکا] ہوں۔‘‘ مگر میں کلیسیا میں ایک خارج شُدہ ایک اجنبی کی مانند محسوس کرتا ہوں۔‘‘ یسوع کہتا ہے، ’’میں گم شُدہ کو ڈھونڈنے اور بچانے کے لیے آ [چکا] ہوں۔‘‘ ’’اوہ،‘‘ کوئی دوسرا کہتا ہے، ’’میں آخری حد کو پار کر چکا ہوں۔ میرے لیے بہت دیر ہو چکی ہے۔ میں جہنم میں دائمی سزا کے لیے معلون قرار دیا جا چکا ہوں اور میری جان کے لیے کوئی اُمید باقی نہیں بچی ہے۔‘‘ ’’مگر،‘‘ یسوع کہتا ہے، ’’میں گم شُدہ کو ڈھونڈنے اور بچانے کے لیے آ [چکا] ہوں۔‘‘ آج رات کو یہاں پر کوئی بھی ایسا کھویا ہوا گنہگار نہیں ہے جو اِس قدر دور نکل چکا ہو کہ وہ یسوع کے وسیلے سے بچایا نہ جا سکتا ہو، جس نے کہا ’’میں گم شُدہ کو ڈھونڈنے اور بچانے کے لیے آ [چکا] ہوں۔‘‘

مسیح میں خُدا آج رات آپ سے کہہ رہا ہے، ’’وقت آ چکا ہے۔ میں تجھ کو گناہ سے اُکھاڑ لاؤں گا، اور تجھے جہنم کے شعلوں سے بچا لاؤں گا۔ اور اِس ہی انتہائی رات میں تجھے یسوع کے پاس کھینچ لاؤں گا اور تجھے تمام زمانوں اور ہمیشہ کے لیے گناہ سے بچا لوں گا۔‘‘

’’اور خُداوند خُدا نے آدم کو پُکارا، اور پوچھا، تو کہاں ہے؟‘‘ (پیدائش3:9)۔

یہ خُدا سے ڈھونڈنے والا ایک سوال ہے۔ وہ آپ کو ڈھونڈتا ہے تاکہ وہ آپ کو بچا سکے۔

لیکن اگر آپ خُدا کی اُس محبت بھری بُلاہٹ کو ٹھکراتے ہیں تو پھر کوئی قربانی باقی نہیں رہ جاتی۔ اگر آپ اپنے دِل کو اِس قدر شدت کے ساتھ سخت کر لیتے ہیں کہ آپ خُدا کی بُلاہٹ کو سُن نہیں سکتے تو پھر آپ کے لیے کوئی اُمید کوئی قربانی باقی نہیں رہتی۔

اے،گنہگار، تو کیوں مرے گا؟ تو کیوں فنا ہو جائے گا؟ انسان ایک ہمیشہ کے درد میں ناخوشگوار چیز ہے۔ ایک ناراض خُدا ہولناک ہوتا ہے، اور کون ہے جو اُس آنے والے عظیم انصاف کی دھشت ناکی کو بتا سکتا ہے؟ اپنی زندگی کے لیے بھاگیں؛ پیچھے مُر کر مت دیکھیں؛ اُس راہ پر مت رہیں جس پر آپ ہیں، مسیح کے لیے فرار حاصل کریں اور تمام گناہ سے پاک صاف ہو جائیں۔ اپنی زندگی کے لیے قید سے نکل بھاگیں۔ مسیح کی جانب رُخ کریں اور ابھی اُسی پر بھروسہ کریں – جبکہ خُدا بُلا رہا ہے،

’’تو کہاں ہے؟‘‘ (پیدائش3:9)۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

لُبِ لُباب

تُو کہاں ہے؟

(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 25)
WHERE ART THOU?
(SERMON #25 ON THE BOOK OF GENESIS)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’اور خُداوند خُدا نے آدم کو پُکارا، اور پوچھا، تو کہاں ہے؟‘‘ (پیدائش3:9)۔

I.    پہلی بات، یہ بیدار کرنے والا ایک سوال ہے، کُلسیوں3:25؛
رومیوں6:23؛ گلِتیوں6:7؛ امثال29:1؛ زبور10:4؛ خروج34:7؛ امثال28:26 .

II.   دوسری بات، یہ سزایابی کا ایک سوال ہے، پیدائش3:9 .

III.  تیسری بات، یہ تلاش کرنے کا ایک سوال ہے، رومیوں3:10۔11؛ لوقا19:10 .