Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

انسان کی برگشتگی – حصّہ دوئم

(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 2)
THE FALL OF MAN – PART II
(SERMON #21 ON THE BOOK OF GENESIS)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

ہفتے کی شام دیا گیا ایک واعظ، 22 ستمبر، 2007
لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں
A sermon preached on Saturday Evening, September 22, 2007
at the Baptist Tabernacle of Los Angeles

’’اور جب عورت نے دیکھا کہ اُس درخت کا پھل کھانے کے لیے اچھا اور دیکھنے میں خوشنما اور حکمت پانے کے لیے خوب معلوم ہوتا ہے تو اُس نے اُس میں سے لے کر کھایا اور اپنے خاوند کو بھی دیا جو اُس کے ساتھ تھا اور اُس نے بھی کھایا۔ تب اُن دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور اُنہیں معلوم ہُوا کہ وہ ننگے ہیں۔ اور اُنہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لیے پیش بند بنا لیے‘‘ (پیدائش 3:6۔7).

آرتھر ڈبلیو پنک Arthur W. Pink نے بجا طور پرکہا کہ پیدائش کا تیسرا باب خُدا کے تمام کلام کے اہم ترین حوالوں میں سے ایک ہے۔ پنک نے کہا،

یہ ’’بائبل میں بیج بونے کا منصوبہ‘‘ ہے۔ یہاں پر وہ بنیادیں ہیں جن پر ہمارے ایمان کے بے شمار کُلیدی مذہبی عقیدے قائم ہیں۔ یہاں پر ہم اُن الٰہی سچائیوں کے بے شمار دریاؤں کے منبع کا سُراغ لگاتے ہیں۔ یہاں انسانی تاریخ کے سٹیج پر ادا کیے گئے عظیم ڈرامے کا آغاز ہوتا ہے… یہاں ہم [انسانی] نسل کی تباہ حال حالت اور موجودہ برگشتگی کی الٰہی وضاحت پاتے ہیں۔ یہاں ہم اپنے دُشمن شیطان کی سمجھ سے بالا تر چالوں کے بارے میں سیکھتے ہیں… یہاں پر ہم انسانی فطرت کے عالمگیری رجحان کو جو اُس نے اپنی اخلاقی شرم کو خود اپنی دستکاری کی چال کے ذریعے سے چھپانے سے کیا (آرتھر ڈبلیو۔ پنکArthur W. Pink، پیدائش کی کتاب میں نمایاں باتیں Gleanings in Genesis، موڈی پریس Moody Press، 1981 ایڈیشن، صفحہ33)۔

اِس باب کے ہمارے آخری مطالعے میں ہم نے دیکھا کیسے شیطان باغ عدن میں داخل ہوا اور کیسے ایک سانپ میں جسے ابھی تک پرکھا نہیں گیا تھا گُھس کر اُس کے منہ سے بات کی تھی۔ ہم نے شیطان کو عورت سے باتیں کرتے ہوئے سُنا، خُدا نے آدم کو جو کہا تھا اُس میں شک پیدا کیا، خُدا نے جو کلام پیش کیا تھا اُس کو گھما پھرا اور بگاڑ کر پیش کیا، اُس کو کہا ’’تم یقیناً نہیں مرو گے‘‘ اگر تم اُس منع کیے ہوئے درخت کا پھل کھاتے ہو، ’’نیکی اور بدی کی پہچان کا درخت۔‘‘

اِس بات کو یاد رکھا جانا چاہیے کہ شیطان اِس وقت تک پہلے سے ہی دھوکہ دھی کا ماہر ہو چکا تھا۔ ہم مکاشفہ12:4 میں پڑھتے ہیں،

’’اُس کی دُم نے آسمان کے ایک تہائی ستارے نوچ کر اُنہیں زمین پردے پٹکا…‘‘ (مکاشفہ 12۔4).

اُس آیت کےمعنی واضح طور پر چند ایک آیات کے بعد مکاشفہ12:9 میں سامنے لائے گئے ہیں،

’’اور وہ بڑا اژدہا نیچے پھینک دیا گیا یعنی وہی پُرانا سانپ جس کا نام اِبلیس اور شیطان ہے اور جو ساری دُنیا کو گمراہ کرتا ہے، وہ خُود بھی اور اُس کے ساتھ اُس کے فرشتے بھی زمین پر پھینک دئیے گئے‘‘ (مکاشفہ 12:9).

ڈاکٹر ھنری ایم۔ مورس Dr. Henry M. Morris نے کہا،

یہاں پر اژدھے کو عدن کے سانپ کے ساتھ شناخت کیا گیا ہے (پیدائش3:1)… اور اُس ابلیس کے طور پر جس نے یسوع کو [بیابان میں] آزمایا تھا (ھنری ایم۔ مورس، پی ایچ۔ ڈی۔Henry M. Morris, Ph.D.، دفاع کرنے والوں کا مطالعۂ بائبل The Defender’s Study Bible، ورلڈ پبلیشنگ World Publishing، 1995، صفحہ1448؛ مکاشفہ12:9 پر غور طلب بات)۔

شیطان کو جنت میں سے خُدا کے خلاف بغاوت کرنے اور خُدا کے تخت پر قبضہ جمانے کی کوشش پر نکالا گیا تھا (اشعیا14:12۔15؛ حزقی ایل28:13۔18)۔ شیطان کو جنت سے زمین پر پھینکا گیا جہاں وہ بن گیا

’’… ہوا کی عملداری کا حاکم، جس کی رُوح اب تک نافرمان لوگوں میں تاثیر کرتی ہے‘‘ (افسیوں 2:2)۔

مگر اُن فرشتوں کے بارے میں کیا خیال ہے جنہوں نے خُدا کے خلاف بغاوت میں شیطان کی پیروی کی؟ مکاشفہ12:9 کہتی ہے،

’’وہ خُود بھی اور اُس کے ساتھ اُس کے فرشتے بھی زمین پر پھینک دئیے گئے‘‘ (مکاشفہ 12:9).

شیطان کے ساتھ کتنے فرشتوں نے بغاوت کی تھی؟ اُن میں سے کتنے زمین پر ’’اُس کے ساتھ پھینکے‘‘ گئے تھے؟ مکاشفہ 12:4 کہتی ہے،

’’اُس کی دُم نے آسمان کے ایک تہائی ستارے نوچ کر اُنہیں زمین پردے پٹکا‘‘ (مکاشفہ 12۔4).

ڈاکٹر مورس نے کہا،

مکاشفہ 12:9 میں ’آسمان کے ستاروں‘ کو شیطان کے فرشتوں کی حیثیت سے شناخت کیا گیا ہے (مورسMorris، ibid.، صفحہ1447)۔

یوں، ہم یقین کرتے ہیں کہ آسمان میں فرشتوں کی ایک تہائی نے اپنے رہنما شیطان کے ساتھ مل کر بغاوت کی تھی اور زمین پر پھینکے گئے تھے، اور بدروحیں بن گئے تھے جن کا سامنا یسوع نے اپنی زمینی منادی میں اکثر کیا۔

شیطان نے اِن فرشتوں کے ساتھ جھوٹ بولا تھا۔ بلاشک و شُبہ اُس نے اُسی قسم کا جھوٹ استعمال کیا تھا جو اُس نے باغ عدن میں آدم اور حوّا کو پیش کیا تھا، جب اُس نے کہا، ’’تم خُداؤں کی مانند ہو جاؤ گے‘‘ (پیدائش3:5)۔ وہ بلاشک و شبہ وہی جھوٹ تھا جس نے اُن فرشتوں کو تباہ کر ڈالا، ’’میرے ساتھ آؤ، اور تم خُداؤں کی مانند ہو جاؤ گے۔‘‘ اُنہوں نے ابلیس کے جھوٹ کا یقین کر لیا تھا، مگر وہ ’’خُداؤں کی مانند‘‘ نہیں بنے تھے۔ اوہ، جی نہیں! وہ عجیب بھدی بگڑی ہوئی شکلوں والی ناپاک بدروحیں بن گئے تھے جو دُنیا میں غصے، شہوت اور انتقام کے ساتھ آوارہ پھر رہے تھے!

اور بالکل جیسے شیطان نے فرشتوں کے ساتھ جھوٹ بولا تھا اُنہیں خُدا کے خلاف گناہ کے لیے آزمانے کے ذریعے سے، ویسا ہی اُس نے دوبارہ کیا جب اُس نے انسان کے ساتھ جھوٹ بولا۔ وہ انتہائی تصور جس کے ساتھ اُس نے فرشتوں کو لُبھایا تھا، جس نے اُنہیں تباہ کر دیا، اُس جھوٹے تصور کے متشابہ تھا جو اُس نے باغ عدن میں آدم اور حوّا کو آزمانے کے لیے استعمال کیا تھا۔ دیکھیں پیدائش3:4۔5،

’’اور سانپ نے عورت سے کہا، تم ہرگز نہیں مروگے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دِن تم اُسے کھاؤ گے، تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیکی اور بدی کے جاننے والے بن جاؤ گے‘‘ (3:4۔5).

میرے خیال میں شیطان نے آسمان کے ایک تہائی فرشتوں کو آسمان میں اُن کے اعلٰی شان مرتبے سے اُس بہت بڑی فرشتانہ برگشتگی میں گرانے کے لیے ایسی ہی دلیل، ایسا ہی جھوٹ استعمال کیا ہوگا۔

اور اب وہ یہی جھوٹ اور خُدا کے کلام کا وہ بگاڑ ہمارے پہلے والدین کے سامنے لاتا ہے۔ اور، فرشتوں ہی کی طرح، باغ میں ہمارے والدین نے بھی اُس کے جھوٹ کا یقین کیا اور اُتنے ہی بدنصیب ہو گئے جتنے کہ وہ فرشتے تھے جنہوں نے ’’جھوٹوں کے باپ‘‘ کا یقین کیا تھا، کیونکہ یہ ہی ہے جو خُداوند یسوع مسیح نے شیطان کو کہا تھا جب اُس نے فریسیوں سے کہا،

’’تم اپنے باپ یعنی اِبلیس کے ہو اور اپنے باپ کی مرضی پر چلنا چاہتے ہو۔ وہ شروع ہی سے خُون کرتا آیا ہے اور کبھی سچائی پر قائم نہیں رہا کیونکہ اُس میں نام کو بھی سچائی نہیں۔ جب وہ جھوٹ بولتا ہے تو اپنی ہی سی کہتا ہے کیونکہ وہ جھوٹا ہے اور جھوٹ کا باپ ہے‘‘ (یوحنا 8:44).

اُس آیت میں یسوع نے ہمیں شیطان کے بارے میں دو اہم باتیں بتائیں: (1) ’’وہ شروع ہی سے خون کرتا آیا تھا‘‘ (2) وہ ایک جھوٹا ہے، اور جھوٹ کا باپ ہے۔‘‘

شیطان نے فرشتوں کے ساتھ جھوٹ بولا تھا جب اُس نے اُن کو اُس کی پیروی کرنے کے لیے آزمایا تھا۔ شیطان نے آدم اور حوّا کےساتھ جھوٹ بولا تھا جب اُس نے اُن کو باغ میں سے اُس درخت کا پھل کھانے کے لیے آزمایا تھا جو منع کیا گیا تھا۔

شیطان ’’شروع سے ہی ایک قاتل‘‘ تھا۔ اپنے جھوٹ کے ذریعے سے اُس نے اُن فرشتوں کا ’’قتل کیا‘‘ جنہوں نے اُس کی پیروی کی، ’’اُس کے فرشتے‘‘ کیونکہ اُن کو آسمان سے زمین پر پھینک دیا گیا تھا، جہاں وہ جہنمی آگ میں ایک یقینی بدنصیبی کا انتظار کرتے ہیں، جو ’’ابلیس اور اُس کے فرشتوں کے لیے تیار کی گئی‘‘ (متی25:41)۔ ’’وہ شروع سے ہی ایک قاتل تھا،‘‘ کیونکہ اُس نے نا صرف آسمان کے ایک تہائی فرشتوں کو’’قتل کیا‘‘ بلکہ اُس نے ساری کی ساری نسل انسانی کا بھی اپنی دھوکہ دہی اور اپنے جھوٹ سے قتل کیا۔

’’وہ شروع ہی سے خُون کرتا آیا ہے اور کبھی سچائی پر قائم نہیں رہا کیونکہ اُس میں نام کو بھی سچائی نہیں… ‘‘ (یوحنا 8:44).

شیطان نے ایک تہائی فرشتوں کو اُن کی برگشتگی میں تباہ کر دیا۔ اور شیطان نے ساری نسل انسانی کو اِس بہت بڑے گناہ میں دھوکے سے پھنسانے کے ذریعے سے جو اُنہوں نے زندہ خُدا کی مزاحمت کرنے اور برگشتگی میں بدنصیبی کے لیے شیطان کی پیروی کرنے سے کیا تھا ’’قتل کیا،‘‘ جیسا کہ ہماری تلاوت میں درج ہے۔

جب آدم نے گناہ کیا تو وہ کوئی عام انسان نہیں تھا۔ وہ تمام نسل انسانی کا قدرتی سربراہ تھا۔ جیسا کہ شیطان کی بغاوت نے براہ راست آسمان میں ایک تہائی فرشتوں کو متاثر کیا تھا ویسے ہی آدم کی بغاوت اور برگشتگی میں گناہ سے بھی دوسروں کے لیے بہت بڑے اثرات ہوئے۔ تمام کی تمام نسل انسانی آدم میں بطور اُن کے قدرتی سربراہ ہونے کی حیثیت سے برگشتگی میں آ گئی۔ بچوں کے لیے ایک پرانی پیوریٹن نصابی کتاب میں صحیح کہا گیا، ’’آدم کی برگشتگی میں، ہم تمام نے گناہ کیا۔‘‘ شیطان کے جھوٹ کا یقین کرنے سے اور منع کیے ہوئے پھل کو کھانے سے آدم اپنی تمام آل اولاد کے لیے موت لایا – ساری کی ساری نسل انسانی کے لیے۔ جیسا کہ پولوس رسول نے اِس کو لکھا،

’’ایک آدمی کے ذریعہ گناہ دنیا میں داخل ہُوا اور گناہ کے سبب سے موت آئی ویسے ہی مَوت سب اِنسانوں میں پھیل گئی …‘‘ (رومیوں 5:12).

نسل انسانی پر آدم کے گناہ کا اثر بہت بڑا تھا۔ برگشتگی سے پہلے، خُدا اور انسان رفاقت میں تھے۔ برگشتگی کے بعد وہ رفاقت ختم ہو گئی۔ وہ خُدا سے جُدا ہو گئے تھے۔ برگشتگی کے بعد اُنہوں نے خُدا سے چھپنے کی کوشش کی تھی۔

برگشتگی سے پہلے انسان معصوم اور پاک تھا۔ آدم اور حوّا میں کوئی گناہ کی فطرت نہیں تھی۔ برگشتگی کے بعد وہ گناہ سے بھرپور اور شرمندہ تھے۔ پولوس رسول نے کہا،

’’ایک آدمی کے ذریعہ گناہ دنیا میں داخل ہُوا‘‘ (رومیوں 5:12).

وہ آیت یہ نہیں کہتی ’’گناہ‘‘ دُنیا میں داخل ہوئے۔ یہ کہتی ہے ’’گناہ۔‘‘ آدم ایک بُری مثال قائم کرنے کے ذریعے سے دُنیا میں گناہ لے کر نہیں آیا تھا۔ اُن کے گناہ کرنے کا عمل اُس کی انتہائی فطرت میں ایک تبدیلی لایا تھا۔ اُس کا انتہائی دِل مسخ ہو گیا تھا۔

برگشتگی سے پہلے انسان زندگی کے درخت سے کھا چکا ہوتا اور ہمیشہ کی زندگی گزارتا (پیدائش2:9؛ 3:22)۔ برگشتگی کے بعد جسم کی موت آدم کے گناہ کے لیے کفارے کا حصہ بن گئی۔ رومیوں5:12 کہتی ہے،

’’ایک آدمی کے ذریعہ گناہ دنیا میں داخل ہُوا اور گناہ کے سبب سے موت آئی…‘‘ (رومیوں 5:12).

یہ دونوں روحانی اور جسمانی موت کا حوالہ دیتا ہے۔ آدم کے گناہ کر چکنے کے بعد، خُدا نے کہا،

’’… کیونکہ تو خاک ہے، اور خاک ہی میں پھر لَوٹ جائے گا‘‘ (پیدائش 3:19).

یوں، آدم کے گناہ کا نتیجہ جسمانی کے ساتھ ساتھ روحانی موت ہے۔

برگشتگی کے نتیجے کے طور پر، نسل انسانی میں گناہ عالمگیری بن گیا۔ تمام کے تمام لوگ اب ایک گناہ سے بھرپور فطرت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، جو آدم سے وراثت میں ملی ہے جو نسل انسانی کا قدرتی سربراہ ہے۔

’’پس جیسے ایک آدمی کے ذریعہ گناہ دنیا میں داخل ہُوا اور گناہ کے سبب سے موت آئی ویسے ہی مَوت سب اِنسانوں میں پھیل گئی کیونکہ سب نے گناہ کیا‘‘ (رومیوں 5:12).

برگشتہ انسان کی بنیادی گناہ والی فطرت کو ساری بائبل میں پیش کیا گیا ہے۔

’’ایسا کوئی بھی شخص نہیں جو گناہ نہ کرتا ہو‘‘ (1۔ سلاطین 8:46).

’’زندوں میں سے کوئی تیری نگاہ میں راستباز نہیں‘‘ (زبور 143:2).

’’زمین پر ایسا راستباز کوئی نہیں ہے جو صرف نیکی ہی نیکی کرے اور کبھی خطا نہ کرے‘‘ (واعظ 7:20).

’’پس جب تُم بُرے ہو‘‘ (لوقا 11:13).

’’کوئی راستباز نہیں، ایک بھی نہیں؛ کوئی سمجھدار نہیں، کوئی خدا کا طالب نہیں۔ سب کے سب گمراہ ہوگئے، وہ کسی کام کے نہیں رہے؛ کوئی نہیں جو بھلائی کرتا ہو، ایک بھی نہیں‘‘ (رومیوں 3:10۔12).

’’ہر مُنہ بند ہو جائے اور ساری دنیا خدا کے سامنے سزا کی مستحق ٹھہرے‘‘ (رومیوں 3:19).

’’اگر ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم بے گناہ ہیں تو اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں اور ہم میں سچائی نہیں‘‘ (1۔ یوحنا 1:8).

ہم یقین کرتے ہیں کہ آدم کا گناہ اُس کی ساری کی ساری آل اولاد سے منسوب کیا گیا تھا، یعنی کہ، مکمل نسل انسانی سے۔ نسل انسانی کے وضعی ملاپ کے باعث، خُدا نے آدم کے گناہ کو فوراً اُس کی آل اولاد سے منسوب کر دیا۔ یوں، وہ فطرت جس کے اب سب لوگ مالک ہیں وہی مسخ شُدہ فطرت ہے جس کا برگشتگی کے بعد آدم مالک تھا۔ رومیوں 5:12 کے مطابق موت (دونوں روحانی اور جسمانی) سب انسانوں میں پھیل گئی، کیونکہ آدم میں سب نے ہی گناہ کیا، جو اُن کا قدرتی سربراہ تھا۔

یہ ہے جس سے ہماری مُراد نسل انسانی کا ’’مکمل اخلاقی زوال‘‘ ہوتا ہے۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ انسان کے پاس اپنی قدرتی اخلاقی زوال کی حالت میں خُدا کے لیے کوئی سچی محبت نہیں ہوتی۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ خُدا کے مقابلے میں خود کو ترجیح دیتا ہے، کہ وہ اپنے خالق کے مقابلے میں خود سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ مکمل اخلاقی زوال میں ہونے کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ ہر شخص کے پاس اپنی قدرتی حالت میں خُدا کے بارے میں ناپسندیگی ہوتی ہے، اُس کی جانب ایک نفرت یا کراہت ہوتی ہے، اور وہ اُس کے خلاف ہے۔

’’اِس لیے کہ جسمانی نیت خدا کی مخالفت کرتی ہے‘‘ (رومیوں 8:7).

وہ ’’جسمانی نیت‘‘ ’’ایک انسان کے نا سُدھرنے‘‘ کے لیے حوالہ دیتی ہے، نئے سرے سے ناپیدا ہونے کے لیے حوالہ دیتی ہے (جینیوا کی بائبل The Geneva Bible، 1599 رومیوں8:7 پر غور طلب بات)۔

یوں، پیدائش تیسرے باب میں، آدم کی برگشتگی کا آپ پر براہ راست اثر ہوتا ہے۔ چاہے آپ گرجہ گھر میں پلے بڑھے ہوں یا نا پلے بڑھے ہوں، آپ کو ایک فطرت مل چکی ہوتی ہے جس کی مسیح میں خُدا کے لیے ایک ناپسندیگی ہوتی ہے، جو آپ کے آباؤ اِجداد آدم سے وراثت میں ملتی ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں جو آپ سوچتے، سیکھتے یا کر سکتے ہوں کہ آپ کی اندرونی وراثت میں ملی خباثت کو پلٹ سکے۔ اِسی لیے، نجات ایک ’’انجان‘‘ منبع سے آنی چاہیے، ایک ایسا ذریعہ جو مکمل طور پر آپ کی ذات سے باہر ہو۔ اور وہ منبع خُدا خود ہے۔ خُدا کو آپ کو آپ کے باطنی اخلاقی زوال کے لیے بیدار کرنا چاہیے۔ خُدا کو آپ کے نجات کے جھوٹے تصورات کو مرجھانا چاہیے، اور آپ کو آپ کے باطنی اخلاقی زوال کے لیے قائل کرنا چاہیے۔ خُدا کو آپ کو مسیح کی جانب کھینچنا چاہیے، دونوں پاک صاف ہونے کے لیے اور آپ کے باطن میں ایک نئے جنم کی تخلیق کے لیے۔ آدم کے گناہ کے باعث ماسوائے مسیح کے جو ’’آخری آدم‘‘ ہے کوئی بھی آپ کو بچا نہیں سکتا۔ یہ تنہا فضل کے وسیلے سے، تنہا مسیح کے ذریعے سے نجات ہوتی ہے۔ یہ ہے جس پر ہم یقین رکھتے ہیں اور اِس کی تبلیغ کرتے ہیں۔ آپ جلد ہی مسیح کے لیے آئیں اور جلد ہی تبدیل ہوں!

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔