Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

انسان کی برگشتگی – حصّہ اوّل

(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 20)
THE FALL OF MAN – PART I
(SERMON #20 ON THE BOOK OF GENESIS)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

ہفتے کی شام دیا گیا ایک واعظ، 15 ستمبر، 2007
لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں
A sermon preached on Saturday Evening, September 15, 2007
at the Baptist Tabernacle of Los Angeles

’’خُداوند خُدا نے جتنے دشتی جانور بنائے تھے، سانپ اُس سب سے چالاک تھا۔ اُس نے عورت سے کہا: کیا واقعی خُدا نے کہا ہے کہ تم باغ کے کسی درخت کا پھل نہ کھانا؟ عورت نے سانپ سے کہا: ہم باغ کے درختوں کا پھل کھا سکتے ہیں۔ لیکن خُدا نے یہ ضرور کہا ہے کہ جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اُس کا پھل مت کھانا بلکہ اُسے چھونا تک نہیں ورنہ تم مر جاؤ گے۔ تب سانپ سے عورت سے کہا: تم ہرگز نہیں مرو گے بلکہ خُدا جانتا ہے کہ جس دِن تم اُسے کھاؤ گے، تمہاری آنکھیں کُھل جائیں گی اور تم خُدا کی مانند نیکی اور بدی کے جاننے والے بن جاؤ گے‘‘(پیدائش3:1-5 )۔

پیدائش کا تیسرا باب بائبل کے اہم ترین حصوں میں سے ایک ہے۔ یہاں پر بہت سے باتوں کو پہلی مرتبہ خُدا کے کلام میں ظاہر کیا گیا ہے۔ شیطان ظاہر ہوتا ہے، جو ایک دشتی جانور کے منہ سے بولتا ہے۔ آزمائش کے ساتھ ساتھ انسان کے پہلے گناہ کو جس نے انسانی نسل کو اخلاقی بگاڑ میں مبتلا کر دیا متعارف کروایا جاتا ہے۔ یہاں پر ہم پہلی مرتبہ گناہ کی سزایابی، انسانی بہانے، فضل کے وسیلے سے انصاف اور نجات کو بھی دیکھتے ہیں۔ آج کی رات ہم اِس عظیم باب کا آیت بہ آیت پڑھنے سے عمومی خلاصہ شروع کریں گے۔ اِس تجزیے میں ہم گناہ اور نجات سے تعلق رکھتے ہوئے چھ بہت بڑے بڑے مرکزی موضوعات کو دیکھیں گے۔ آج کی رات میں صرف پہلا ہی پیش کر سکتا ہوں۔

I۔ پہلی بات، آزمائش۔

پہلی آیت پر نظر ڈالیں۔

’’خُداوند خُدا نے جتنے دشتی جانور بنائے تھے، سانپ اُس سب سے چالاک تھا۔ اُس نے عورت سے کہا: کیا واقعی خُدا نے کہا ہے کہ تم باغ کے کسی درخت کا پھل نہ کھانا؟‘‘ (پیدائش3:1 )۔

خُدا نے واضح طور پر آدم کو بتایا تھا،

’’تو اِس باغ کے کسی بھی درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے: لیکن تو نیک و بد کے پہچان کے درخت کا پھل ہرگز نہ کھانا: کیونکہ جب تو اِسے کھائے گا تو یقیناً مر جائےگا‘‘ (پیدائش2:16۔17)۔

تھوڑی دیر بعد آدم نے حوا کو بتایا جو خُدا نے کہا تھا۔ یہ کافی سادہ تھا: تو باغ عدن کے تمام پھل دار درختوں کا پھل جتنا چاہے اُتنا کھا سکتا ہے۔ لیکن اُس ایک درخت کا پھل نہ کھانا، ’’اُس نیک و بد کی پہچان کے درخت کا۔‘‘ ’’جس دِن‘‘ تو اُس درخت کا پھل کھائے گا تو مر جائے گا۔

شیطان فرشتوں کا ایک سردار تھا جس نے خُداوند کے خلاف بغاوت کی تھی، اور اِسی لیے اُس کو جنت میں سے باہر زمین پر نکال دیا گیا تھا (اشعیا14:12۔17؛ حزقی ایل28:12۔17)۔ حزقی ایل28:13 میں ہمیں بتایا گیا ہے، ’’تو عدن میں تھا جو خُدا کا باغ تھا۔‘‘ یہ واضح طور پر ’’صور کے شہزادے‘‘ (حزقی ایل28:2) سے لیکر ’’صور کے بادشاہ‘‘ (حزقی ایل28:12) سے پرے تک نشاندہی کرتا ہے – شیطان جو کہ صور کا سچا حکمران تھا۔ اور ہمیں بتایا گیا ہے ’’تو عدن میں تھا جو خُدا کا باغ تھا۔‘‘ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ شیطان کو پہلے ہی جنت میں سے نکالا جا چکا تھا اور وہ اب زمین پر تھا۔ اُس نے خود کو ایک سانپ میں سمو دیا، اُس پر قبضہ کیا اور پھر اُن الفاظ میں حوّا سے بات کی، جو کہ اُس وقت تنہا تھی، اُس کا شوہر باغ میں کسی اور جگہ پر تھا۔ اپنی نئی نئی تخلیق کی گئی معصومیت میں، یہ اِمکان ظاہر ہوتا ہے کہ حوّا کو سمجھ نہیں آئی تھی کہ سانپ بولا نہیں کرتے۔ اِس لیے وہ حیرت میں مبتلا نہیں ہوئی تھی جب اُس مخلوق نے اُس سے بات کی۔ جو سوال شیطان نے اُس سے پوچھا تھا وہ واقعی میں خُدا کے کلام کے قابل اعتماد ہونے کی اہلیت پر شک کرنے کے لیے ایک آزمائش تھا، ’’کیا واقعی میں خُدا نے کہا کہ تم باغ کے کسی درخت کا پھل نہیں کھانا؟‘‘ کیا خُدا نے واقعی میں وہ کہا تھا؟ کیا اُس نے تمہیں بتایا تھا کہ تم درختوں میں سے کسی کے پھل کو نہیں کھا سکتے؟

یہ آزمائش بہت ہی بڑی تھی، کیونکہ سانپ نے خُدا کے انتہائی الفاظ کا سوال کیا تھا، اور پھر جو خُدا نے واقعی میں کہا تھا اُس کو گھما پھرا کر پوچھا، کہ وہ سارے درختوں سے کھا سکتے ہیں ماسوائے ایک کے۔ اُس نے اِلزام لگایا تھا کہ وہ کسی بھی درخت کا پھل نہیں کھا سکتے، یوں خُدا کو اُن کے لیے سخت اور غیرمنصفانہ بنا ڈالا تھا۔ اُس نے خُدا کے کلام کو بدل کر کہا، ’’تم باغ کے کسی درخت کا پھل نہیں کھانا‘‘ (پیدائش3:1)۔ بالکل یہی آزمائش ہے جو وہ آج استعمال کرتا ہے۔ جب گرجہ گھروں میں بائبل کی تبلیغ کی جاتی ہے تو شیطان ’’خُدا کے کلام کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی (گلِتیوں1:7)، کلام کو گھما پھرا کر یا بگاڑ کر پیش کرنے کی (2۔ پطرس3:16)، اور ’’اُن کے دِلوں سے کلام کو نکال لے جانے کی کہ کہیں وہ ایمان نہ لے آئیں اور نجات نہ پا لیں‘‘ (لوقا8:12) اپنی پوری کوشش کرتا ہے۔ اُس نے بالکل اِسی طریقۂ کار کا حوّا کو قائل کرنے کے لیے استعمال کیا کہ خُدا اُن کے ساتھ منع کیے ہوئے درخت کے اچھے پھل کو کھانے سے روکنے کے ذریعے سے سخاوت کی کمی دکھا رہا تھا، اُس کے ذہن میں یہ بات بیٹھا دی کہ خُدا نہیں چاہتا کہ وہ کسی درخت کا بھی پھل کھائیں (جو کہ ایک جھوٹ تھا)۔

تمام آزمائش کی جڑ شیطان کی اِس کوشش میں پنہاں ہے کہ ہمیں خُدا کے کلام پر شک کرنے اور اعتقاد نہ رکھنے کی جانب لے جائے۔ اگر وہ آپ کو بائبل پر شک کرنے کے لیے قائل کر سکتا ہے، یا خُدا کے سادہ سے کلام کی بے عزتی کرنے کے لیے قائل کر سکتا ہے تو وہ آپ کو گناہ کی آزمائش میں ڈالنے کے لیے بہت دور تک لے جا چکا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، خُدا کا کلام آپ کو 2۔کرنتھیوں6:14۔18 میں گنہگاروں میں سے نکلنے کے لیے کہتا ہے۔ آخری دو آیات اِس کو کافی واضح کر دیتی ہیں۔

’’اُن میں سے نکل کر الگ رہو… اور میں تمہارا باپ ہُوں گا‘‘ (2۔کرنتھیوں17۔18).

لیکن شیطان اُس واضح حکم کو کھوئے ہوئے دوستوں سے جُدا ہو جانے کے لیے بگاڑ کر پیش کرتا ہے۔ وہ آپ سے شاید کہے، ’’وہ آپ سے چاہتے ہیں کہ تمام دوستوں سے جُدا ہو جاؤ۔‘‘ یہ توڑ مروڑ کر بات کرنا ہوتا ہے، جو خُدا نے واقعی میں کہا اُس کو بگاڑ کر پیش کرنا ہوتا ہے۔ 2کرنتھیوں6:14۔17 میں خُدا محض آپ کو کھوئے ہوئے دوستوں کے ساتھ اُلجھنے سے الگ رہنے کے لیے کہتا ہے۔ جب ایک شخص یہ شک کرتا ہے کہ خُدا اُس کو یہ کہنے کے لیے صحیح ہے تو وہ پہلے سے ہی ایک ہولناک آزمائش میں پڑ چکا ہوتا ہے، جیسا کہ حوّا پڑی تھی، کیونکہ خُدا ’’آپ کا باپ نہیں‘‘ ہو گا جب تک کہ آپ کی فرمانبرداری نہیں کرتے۔ جب وہ آپ کو قریبی دوستوں کے حوالے سے کہتا ہے ’’بے ایمانوں کی بُری صحبت سے دور رہو کیونکہ راستبازی اور بے دینی میں کیا میل جول۔‘‘ اگر آپ اِس سوال پر شیطان کی سُنتے ہیں تو ایک گہری ترین آزمائش میں پڑ جاتے ہیں، جیسا کہ حوّا آزمائش میں پڑی تھی۔ یہ بائبل پر شک کرنے کے لیے تمام آزمائشوں کے بارے میں سچ ہے، جو شیطان ایک شخص کے دِل میں ڈالتا ہے۔ عام طور پر اُس شخص کے لیے جو یقین نہیں کرتا اُس بارے میں جو خُدا بائبل میں کہتا ہے، تمام آزمائشوں کا سُراغ لگایا جا سکتا ہے۔

لیکن ہمارے پہلے والدین کی آزمائش بہت بڑی تھی۔ شیطان نے اُس ایک درخت کا پھل نہ کھانے سے حکم کی شکل بگاڑ کر رکھ دی تھی؛ اُس نے ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ خُدا اُن کے ساتھ شفیق نہیں تھا۔ لوتھرLuther نے کہا، ’’[شیطان] نے اِسی لیے [انسان میں] اور اُس اعلٰی ترین قوت میں جو (انسان کی) دیانتدارنہ نوعیت کی فطرت میں، [جو ابھی تک] بدچلن نہیں ہوئی تھی اُس کے انتہائی (الٰہی) عکس پر حملہ کیا۔ بِلاشُبہ، اُس نے خُدا کی اعلٰی ترین پرستش کو جو اُس نے خود [جب اُس کو جنت میں سے نکال گیا تھا اُس سے پہلے] کی تھی منسوخ کروانے کی [چُھڑوانے کی] کوشش کی تھی‘‘ (مارٹن لوتھر، ٹی ایچ۔ ڈی۔ Martin Luther, Th.D.، پیدائش پر لوتھر کا تبصرہ Luther’s Commentary on Genesis، ژونڈروان اشاعتی گھرZondervan Publishing House، 1958، جلد اوّل، صفحہ 66)۔ شیطان آج بھی وہی بات کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ لوگوں کو گناہ کرنے کے لیے آزمائش میں مبتلا کرتا ہے تاکہ وہ اپنی زندگی میں خُدا کو عزت نہ بخشیں۔ اب، آیات چار اور پانچ پر غور کریں، شیطان نے کیا کہا تھا جب اُس نے حوّا کو آزمائش میں مبتلا کیا تھا۔

’’اور سانپ سے عورت سے کہا: تم ہرگز نہیں مرو گے بلکہ خُدا جانتا ہے کہ جس دِن تم اُسے کھاؤ گے، تمہاری آنکھیں کُھل جائیں گی اور تم خُدا کی مانند نیکی اور بدی کے جاننے والے بن جاؤ گے‘‘ (پیدائش 3:4۔5).

یہاں پر ہم دیکھتے ہیں کیسے شیطان نے اُس [حوّا] کو راہ سے بھٹکایا۔ اُس [حوّا] نے خُدا کی بات کا غلط حوالہ دیا جب اُس نے بات میں ’’تو اِسے چھونا تک نہیں‘‘ اضافہ کیا اور جب اُس نے ’’ورنہ تم مر جاؤ گے‘‘ کہا (آیت3)۔ یوں، اُس نے خُدا کے حکم کو بگاڑ کر پیش کیا، ’’کیونکہ جس دِن تو اِسے کھائے گا تو یقینی طور پر مر جائے گا‘‘ (پیدائش2:17)۔ الفاظ کے تبدیل کرنے سے جو خُدا نے کہے تھے، وہ بے اعتقادی اور ایمان کے درمیان میں آگے اور پیچھے ڈگمگائی تھی۔ اِس نےشیطان کو اُسے مذید اور آزمائش میں مبتلا کرنے کا اور اُس بتانے کا کہ وہ ’’یقینی طور پر نہیں مرے گی‘‘ اگر اُس نے خُدا کی نافرمانی کی موقع فراہم کیا۔

یوں شیطان نے حوّا کے ساتھ جھوٹ بولا تھا۔ وہ جھوٹ آدم اور حوّا پر موت لایا تھا۔ وہ اُسی لمحے روحانی طور پر مر گئے تھے جب اُنہوں نے وہ پھل کھایا تھا، اور اُسی لمحے میں اُن میں جسمانی موت بھی آ سموئی تھی۔ یہ ہی وجہ ہے یسوع نے شیطان کے بارے میں کہا،

’’وہ شروع ہی سے خُون کرتا آیا ہے … کیونکہ وہ جھوٹا ہے اور جھوٹ کا باپ ہے‘‘ (یوحنا 8:44).

شیطان نے اُس وقت بھی جھوٹ بولا تھا جب اُس نے کہا، ’’تم خُدا کی مانند نیکی اور بدی کے جاننے والے بن جاؤ گے‘‘ (آیت5)۔ ڈاکٹر مورس Dr. Morris نے کہا، ’’شیطان کے فریب ہمیشہ سے ہی نہایت پُراثر ہوتے ہیں جب اُن میں کوئی نہ کوئی سچائی ہوتی ہے۔ منع کیے ہوئے پھل کے کھانے کے ذریعے سے بِلاشُبہ آدم اور حوّا ’’نیکی اور بدی‘‘ کو جان گئے تھے مگر ’خُداؤں کی مانند‘ نہیں‘‘ (ھنری ایم۔ مورس، پی ایچ۔ ڈی۔ Henry M. Morris, Ph.D.، دفاع کرنے والوں کا مطالعۂ بائبل The Defender’s Study Bible، ورلڈ پبلیشرز World Publishers، 1995، پیدائش3:5 پر غور طلب بات)۔

آج جب شیطان جھوٹ بولتا ہے تو وہ یہی طریقۂ کار استعمال کرتا ہے۔ وہ لوگوں کے ذہنوں میں خُدا کے کلام کو گھما پھرا کر پیش کرتا ہے۔ وہ اُنہیں بتاتا ہے کہ وہ یقینی طور پر نہیں مریں گے اگر وہ گناہ میں زندگی جاری رکھتے ہیں۔ وہ اُنہیں بتاتا ہے کہ خُدا اُنہیں کچھ نہ کچھ اچھا پانے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یوں، شیطان شک کو مکمل بے اعتقادی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ لوتھر نے کہا،

اِس سے ہم سیکھتے ہیں کہ یہ کتنی ہولناک بات ہے جب شیطان ایک شخص کو آزمائش میں ڈالنا شروع کرتا ہے۔ ایک غلطی سے وہ اُن کی دوسری تک رہنمائی کرتا ہے اور دکھائی دینے والے چھوٹے چھوٹے گناہوں سے یہاں تک کہ بڑے بڑے گناہوں… تک رہنمائی کرتا ہے۔ یہ بلاشُبہ غلط تھا کہ حوّا خُدا اور اُس کے کلام سے منحرف ہو گئی تھی اور شیطان کی بات کو مانا تھا۔ مگر یہ اُس کے لیے شیطان کے سامنے گُھٹنے ٹیکنے اور خدا کو ایک جھوٹے کے طور پر ماننے سے بھی بہت زیادہ بڑی غلطی تھی، کیونکہ شیطان کی پیروی کرنے سے، اُس نے اب خُدا کی تحقیر کرنا شروع کی تھی، خُدا کے کلام سے انکاری کی تھی اور جھوٹوں کے باپ پر [خُدا کے] حکم کے خلاف بھروسہ کیا تھا۔ یہ ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ انسان کس قدر کمزور ہے، کیونکہ یہ اگر اُس وقت رونما ہوا تھا جب لوگ ابھی تک کاملیت اور راستبازی کی حالت میں تھے تو اب ہمارے ساتھ کیا ہوگا جب ہم گنہگار ہیں؟ (لوتھرLuther، ibid.، صفحہ 70)۔

آج کی شام پیدائش تین باب کی اُس بات پر ہمیں اپنے مطالعے کا اختتام کرنا چاہیے۔ یاد رکھیں کہ ایک ابلیس ہے۔ اُس کا مقصد وہی رہتا ہے – مسیح میں خُدا سے آپ کو دور کرنا؛ آپ کو خُدا کے کلام پر، پاک صحائف پر شک کرنے پر مجبور کرنا؛ گناہ میں آپ کوخُدا سے دور ہونے کے لیے رہنمائی کرنا۔ وہ اب بھی کہتا ہے، اگر تم گناہ کرتے ہو، ’’تم یقینی طور پر نہیں مرو گے۔‘‘ یسوع نے کہا،

’’تب شیطان آتا ہے اور اُن کے دلوں سے کلام کو نکال لے جاتا ہے، ایسا نہ ہو کہ وہ ایمان لائیں اور نجات پائیں‘‘ (لوقا 8:12).

ڈاکٹر ایم۔ آر۔ ڈیحان Dr. M. R. DeHaan نے کہا،

شیطان کی تراکیب ایک ذرا بھی نہیں بدلی ہیں… بائبل کہتی ہے آپ گنہگار ہیں، اور جب تک آپ توبہ نہیں کرتے اور خُداوند یسوع مسیح میں ایمان نہیں لاتے آپ ہمیشہ کے لیے کھوئے ہوئے ہیں، اور ابدیت تک آگ کی جھیل میں، بیرونی تاریکی میں، ہمیشہ کی ابدیت تک خُدا اور اُس کی محبت سے جُدا ہو کر زندگی گزاریں گے۔ خُدا کہتا ہے یہ ایک یقینی بات ہے۔ اور وہی پرانا دھوکے باز [شیطان] آتا ہے اور کہتا ہے، ’تم اِس کا یقین مت کرو؛ یہ اُتنا بُرا نہیں جتنا وہ سب کچھ ہے۔ خُدا [تمہیں] دائمی جہنم میں سزا نہیں دے گا۔‘ تم یقینی طور پر نہیں مرو گے۔ چوکنے مت ہو جاؤ۔ تم اتنے بُرے بھی نہیں ہو جتنا کہ بائبل کہتی ہے۔‘ سُنیں میرے دوست، یہ شیطان کا وہی پرانا جھوٹ ہے جو اُس نے باغ عدن میں بولا تھا اور باقی سب کچھ وہی ہوگا۔ یہ شیطان کے خلاف خُدا کا کلام ہے اور تنہا عام عقل وفہم ہی سے آپ کو معلوم ہو جانا چاہیے کون سچا ہے، کیونکہ شیطان تو شروع سے ہی جھوٹا رہا ہے… آپ کس پر یقین کریں گے؟ اِس خُدا کے کلام پر – یا شیطان پر؟ (ایم ۔ آر۔ ڈیحان، ایم۔ ڈی۔ M. R. DeHaan, M.D.، پیدائش اور اِرتقاء Genesis and Evolution، ژونڈروان اشاعتی گھر Zondervan Publishing House، 1962، صفحات130۔132)۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔