Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

کنواری مریم کی جانب سے کرسمس کا ایک سبق

A CHRISTMAS LESSON FROM THE VIRGIN MARY
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی ایک شام، 18 دسمبر، 2005
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, December 18, 2005

’’کیونکہ وہ جو خُدائے قادر ہے اُس نے میرے لیے بڑے بڑے کام کیے ہیں اور اُس کا نام پاک ہے‘‘ (لوقا1:49)۔

لوقا کی انجیل کے اِس سیکشن کو سیکوفیلڈ مطالعۂ بائبل The Scofield Study Bible ’’دی میگنیفیکیٹ The Magnificat‘‘ [مقدسہ مریم کا بائبل سے اخذ کیا گیا حمد و ثنا کا گیت] کہتا ہے۔ مریم کے اِن الفاظ کا آغاز آیت46 میں اُس کے پُرجوش مظاہرے سے ہوتا ہے،

’’میری جان خُداوند کی تعظیم کرتی ہے‘‘ (لوقا1:46)۔

وہ یونانی لفظ جس نے ’’بڑائی کرنا magnify‘‘ کا ترجمہ کیا ’’ měgalunō‘‘ مطلب ’’عظیم ہونے کا اِعلان کرنا،‘‘ عظمت کے بارے میں بات کرنا‘‘ ہوتا ہے۔ لٰہذا، مریم خُداوند کی عظمت کے بارے میں بات کرتی ہے۔ měgalunō عظیم ہونے کا اِعلان کرنا، بڑائی کرناmagnify، اِس طرح سے، لاطینی میں ’’میگنیفیکیٹ Magnificat ‘‘ – مریم کا خُداوند کی عظمت کے لیے اِعلان کرنا ہے۔

لیکن اب میں چاہتا ہوں کہ آپ میگنیفیکیٹ Magnificat‘‘ [مقدسہ مریم کا بائبل سے اخذ کیا گیا حمد و ثنا کا گیت] آیت 49 کی چوتھی آیت کے بارے میں سوچیں۔ کیوں مریم خُداوند کی عظمت اور بڑائی کا اِعلان کرتی ہے؟ کیوں میں خُداوند میں خوشی مناتی ہے؟ وہ ہماری تلاوت میں اِس بات کو انتہائی واضح کرتی ہے،

’’کیونکہ وہ جو خُدائے قادر ہے اُس نے میرے لیے بڑے بڑے کام کیے ہیں‘‘ (لوقا1:49)۔

ہم یہاں پر کرسمس سے پہلے اِتوار کے روز ہیں۔ اور ہم مسیح کی ماں کی جانب سے اِن الفاظ کا سامنا کرتے ہیں۔ جو اُس نے کہا وہ تین خیالات میرے ذہن میں لاتا ہے۔

I۔ اوّل، جب آپ مریم کے الفاظ سُنیں تو آپ کو فوراً کرسمس کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

میں نے کہا آپ کو فوراً کرسمس کے بارے میں سوچنا ’’چاہیے‘‘ جب آپ اِن الفاظ کو سُنتے ہیں۔ مگر میں خوفزدہ ہوں کہ آج کل شاید ہی کوئی ایسا کرتا ہو! لوگ کرسمس کے موقع پر بے شمار باتوں کے بارے میں سوچتے ہیں، لیکن انتہائی کم اِس کے خاص معنوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔

اِس انتہائی لفظ ’’کرسمس‘‘ کو واقعی میں یہاں امریکہ میں ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ وہ اِس کو ’’چُھٹیاں the Holidays‘‘ کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اِس کو ایک مجموعی معاشرے میں جہاں پر بہت سے مذاھب ہیں ’’کرسمس‘‘ نہیں کہنا چاہیے۔ یہ مجھے تھوڑا احمقانہ سا لگتا ہے۔ اگر آپ سے کو منطقی طور پر لیں تو ہماری کیلیفورنیا کی ریاست کے دارالحکومت کو ساکرامنٹوSacramento کہنا غلط ہوگا کیونکہ یہ کاتھولک کلیسیا میں عشائے ربانی کے ’’ساکرامنٹ‘‘ کے لیے حوالہ دیتا ہے۔ اِس منطق کے لحاظ سے اُس شہر کو یہ کہنا غلط ہوگا جس کی ڈاکٹر لیسٹر رولوف Dr. Lester Roloff نے ٹیکساس میں کورپس کرسٹی Corpus Christi منادی کی کیونکہ لاطینی میں ’’کورپس کرسٹی‘‘ کا مطلب ’’مسیح کا بدن‘‘ ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اِس لفظ کرسمس پر یہ ممونیت اتنی ہی احمقانہ ہے! ایک نام محض ایک نام ہی ہوتا ہے!

کسی کو بھی لفظ ’’کرسمس‘‘ سے ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ وہ چاہے مسیح میں یقین نہ رکھتے ہوں مگر اُنہیں کیوں اِس چُھٹی والے نام سے پریشان ہونا چاہیے؟ وہ ’’اِتوارSunday‘‘ کے بارے میں بات کرتے ہیں، کیا نہیں کرتے؟ قدیم لوگ اُس دِن سورج sun کی پرستش کرتے تھے۔ یہ ہے جہاں سے یہ لفظ ’’اِتوار‘‘ اخذ کیا گیا ہے۔ مگر آج اِتوار کے روز Sunday کے بارے میں بات کرنے سے یہ اُنہیں سورج کا پُجاری تو نہیں بنا دیتا۔ یہ تو محض ایک نام ہے۔ ہفتے کے دِن Saturday کا نام زُحل سیارے پر اُن لوگوں نے رکھا تھا جو اُس کی پرستش کرتے تھے۔ مگر آج ہم سیارے زُحل یا سورج کی پرستش نہیں کرتے جب ہم ہفتے یا اِتوار کے دِن کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ کسی کے بھی مذھبی احساسات مجروع نہیں ہوتے جب ہم ہفتے یا اِتوار کے روز کے بارے میں بات چیت کرتے ہیں۔ اور کوئی بھی عام شخص اُس لفظ ’’کرسمس‘‘ سے مجروع نہیں ہوتا۔ میں کبھی کسی ایسے شخص سے نہیں مِلا جو اِس کی وجہ سے پریشان ہوا تھا۔ یہ ایک آزاد خیال ذریعۂ اِبلاغ اور ACLU جیسے دباؤ والے گروہوں کی وجہ سے تخلیق ہوا ہے۔ اُنہوں نے ڈھونگ رچایا کہ یہودی یا بُدھ مت والے اِس لفظ سے مجروع ہوتے ہیں۔ مگر مجھے کبھی بھی کوئی یہودی یا بُدھ مت والا ایسا نہیں مِلا جو پریشان ہوا ہو جب میں نے ’’کرسمس کی خوشیاں مبارک ہوں‘‘ کہا ہو – کیا آپ کو کبھی کوئی مِلا؟ جی نہیں، اِس کو آزاد خیال دباؤ والے گروہوں نے بنایا ہے، اور وجہ جس کے لیے اُنہوں نے ایسا کیا سادہ سی ہے – اُنہیں مسیحیت سے نفرت ہے۔ ACLU میں کچھ بُخیل ڈِکنز Dickens کے قابلِ افسوس بوڑھے احمق کے ساتھ کہتے ہیں، ’’دھوکہ بازی! کرسمس دھوکہ بازی ہے!‘‘ مگر اِن دُکھی بوڑھے لوگوں کو ہمارے نوجوان لوگوں کو خوفزدہ نہیں کرنا چاہیے! میں کہتا ہوں، کسی کے پاس بھی، کہیں بھی، سکول میں، کام پر یا کھیل میں جائیں اور اُنہیں ایک دِلشاد مسکراہٹ اور خوشی کے الفاظ ’’کرسمس کی خوشیاں مبارک ہوںMerry Christmas‘‘کہیں!

’’کیونکہ وہ جو خُدائے قادر ہے اُس نے میرے لیے بڑے بڑے کام کیے ہیں‘‘ (لوقا1:49)۔

II۔ دوئم، جب آپ مریم کے الفاظ سُنیں تو آپ کو خداوند یسوع مسیح کی ہستی میں انسان اور خُدا کے ملاپ [متّجسم] کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

کچھ لوگ جو ہمارے گرجہ گھر کے لیے نئے ہیں شاید کہیں، ’’یہ کیا ہے؟‘‘ آج کرسمس کے موقع پر مشکل سے ہی لفظ ’’متّجسم‘‘ کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ اور اِس کے باوجود، یہ سارا کرسمس ہے کس کے بارے میں، اگر متّجسم ہونا نہیں ہے؟ ہم باقی ہر بات کے بارے میں بات کرتے ہیں – کرسمس فادر، قطبی ہرن [بارہ سنگھا]، برف کے آدمی، کرسمس کا درخت، رنگین روشنیاں، تحائف، دعوتیں، مخصوص پُڈنگز اور بُھنے ہوئے ٹرکی – تقریباً ہر ایک چیز کے بارے میں بات ہوتی ہے ماسوائے متّجسم ہونے کے بارے میں! اور اِس کے باوجود متّجسم ہونا دوسری تمام باتوں کے آخر میں ہوتا ہے – چمک دار باریک دھاگوں اور کھلونوں کے بھی پیچھے۔

یہی وجہ ہے کہ کرسمس دُنیا کے لیے واقعی میں ایک نہ ہونے والا واقعہ ہے۔ وہ سب اِس کے لیے تیار ہوتے ہیں – اور پھر کچھ بھی نہیں ہوتا! اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کتنی پارٹیاں کرتے، شراب پیتے یا کھاتے ہیں، کرسمس سے اگلے ہی دِن وہ اِس کو محض ایک اور گزرے ہوئے دِن کے طور پر دیکھتے ہیں۔

میرے خیال میں وجوہات میں سے یہ بھی ایک وجہ ہے کہ لوگ آج کرسمس کے بارے میں بھولتے جا رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد، یہ ایک بہت بڑا واقعہ تھا! واؤ! کرسمس کے درخت! کرسمس کارڈز! بِنگ کراسبی Bing Crosby اور فرینک سیناتراFrank Sinatra کی جانب سے کرسمس کے گیت! ایک بہت بڑا واقعہ! لیکن آہستہ آہستہ، جیسے جیسے سال آتے گئے اور گزرتے گئے، ہم اِس کے عادی ہوتے چلے گئے، اِس سے دِل سخت کر لیے۔ کیا واقعی میں آج بے شمار لوگ ایسے ہی نہیں ہیں – خاص طور پر امریکہ میں بوڑھے لوگ؟ مجھے یونہی لگتا ہے کہ معاملہ یہی ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم اِس کی وہ خوشی، اور حیرت اور جوش و جذبہ کھو چکے ہیں – زیادہ تر اِس لیے کیونکہ ہم خُداوند کے اکلوتے بیٹے کے متّجسم ہونے کو کھو چکے ہیں! دیکھا آپ نے اگر مسیح انسانی روپ میں خُدا کا اوتار نہیں تھا، اگر بیت اللحم میں یہ واقعہ رونما نہیں ہوا تھا – تو پھر اِس موسم کے ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے! مریم نے کہا،

’’کیونکہ وہ جو خُدائے قادر ہے اُس نے میرے لیے بڑے بڑے کام کیے ہیں‘‘ (لوقا1:49)۔

خُدا خُود اُس کے حمل میں آیا، انسانی روپ اختیار کیا، آخری آدم، وہ خُداوند یسوع مسیح!

’’ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام ہی خدا تھا۔ کلام شروع میں خدا کے ساتھ تھا۔ سب چیزیں اُسی کے وسیلہ سے پیدا کی گئیں اور کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو اُس کے بغیر وجود میں آئی ہو … اور کلام مجسّم ہُوا اور ہمارے درمیان خیمہ زن ہُوا (اورہم نے اُس میں باپ کے اکلوتے بیٹے کا سا جلال دیکھا) جو فضل اور سچائی سے معمور تھا‘‘ (یوحنا 1:1۔3،14).

’’اور فرشتہ نے جواب دیا اور اُس [مریم] سے کہا، پاک رُوح تجھ پر نازل ہوگا اور خدا تعالٰی کی قدرت تجھ پر سایہ ڈالے گی۔ اِس لیے وہ مُقدّس جو تجھ سے پیدا ہوگا خدا کا بیٹا کہلائے گا‘‘ (لوقا 1:35).

وہ ’’پاکیزہ چیز،‘‘ وہ الوہی روح، وہ خُداوند کا روح رواں کنواری مریم کے بطن میں رکھا گیا تھا! اِسی کے بارے میں تو کرسمس ہے!

جسم میں چُھپا ہوا خُدائے برتر دیکھتا ہے؛
   اُس مجسم خُدائی کی ستائش ہو،
انسان کے طور پر انسانوں میں بسنے کے لیے خوش ہوا،
   یسوع، ہمارا عمانوایل۔
توجہ سے سُنیں، قاصد فرشتے گاتے ہیں،
   ’’نئے پیدا ہوئے بادشاہ کو جلال ہو۔‘‘
(’’ توجہ سے سُنیں، قاصد فرشتے گاتے ہیں Hark, the Herald Angels Sing‘‘ شاعر چارلس ویزلی Charles Wesley، 1707۔1788)۔

’’کیونکہ وہ جو خُدائے قادر ہے اُس نے میرے لیے بڑے بڑے کام کیے ہیں‘‘ (لوقا1:49)۔

III۔ سوئم، جب آپ مریم کے الفاظ سُنیں تو آپ کو سوچنا چاہیے اِس کا آپ کے لیے کیا مطلب ہوتا ہے۔

’’کیونکہ وہ جو خُدائے قادر ہے اُس نے میرے لیے بڑے بڑے کام کیے ہیں‘‘ (لوقا1:49)۔

کچھ شاندار، حیرت انگیز، اور فوق الفطرت مریم کے ساتھ رونما ہوا تھا۔ جب خوشخبری کی سچائی ایک ہستی سے اِتفاقاً ملتی ہے تو وہ کبھی بھی پہلے جیسے نہیں رہتے ہیں۔ یہ نئے عہد نامے میں ہر اُس شخص کے بارے میں سچ تھا جن کا سامنا مسیح میں خُدا سے ہوا تھا۔ وہ دوبارہ پہلے جیسے نہیں رہے تھے۔ یہ پولوس رسول کے بارے میں سچ تھا۔ وہ انتہائی مذھبی رہا تھا۔ مگر اُس کے مذھب میں کوئی زندگی نہیں تھی جب تک کہ اُس کا سامنا دمشق جانے والے راستے پر مسیح سے نہیں ہوا تھا، اور جب وہ اُس شہر میں پہنچا تو اُس کوچے میں جو سیدھا کہلاتا ہے ایک گھر میں تبدیل ہوا تھا۔ جب مسیح نے اُس کو بچا لیا، تو بائبل ہمیں بتاتی ہے،

’’اُسی وقت ساؤل کی آنکھوں سے چھِلکے سے گِرے اور وہ بینا ہوگیا [’فوراً، – Strong]، اور اُس نے اُٹھ کر بپتسمہ لیا‘‘ (اعمال 9:18).

’’فوراً‘‘ اُس کی آنکھیں کُھل گئیں۔ اُس کو بینائی مل گئی، دونوں جسمانی اور روحانی، ’’فی الفور‘‘ – فوراً! یہ تجربہ رسولوں میں سے ہر ایک کے ساتھ ہوا تھا۔ ایک لمحہ وہ مُردہ مذھب میں ڈگمگا رہے تھے، خُداوند کی باتوں سے اندھے۔ اور اگلے ہی لمحے،

’’اُن کی آنکھیں کھُل گئیں، اور اُنہوں نے اُسے پہچان لیا‘‘ (لوقا 24:31).

وہ فی الفور، فوری طور پر مسیح میں خُدا کے وسیلے سے تبدیل ہو گئے تھے۔ اچانک،

’’اُن کی آنکھیں کھُل گئیں، اور اُنہوں نے اُسے پہچان لیا‘‘ (لوقا 24:31).

فوراً، اِس تجربے کے بعد، جس کو ’’مسیح میں تبدیلی‘‘ کہتے ہیں، رسولوں میں سے ہر ایک نے مضبوط آواز کے ساتھ مریم کے الفاظ کہیں ہونگے،

’’کیونکہ وہ جو خُدائے قادر ہے اُس نے میرے لیے بڑے بڑے کام کیے ہیں‘‘(لوقا1:49)۔

کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں، کیا اِس وسعت کی کوئی بات مسیح میں خُدا کی قوت کے وسیلے سے آپ کی زندگی میں رونما ہوئی تھی؟

آپ میں سے بے شمار لوگوں نے لاتعداد مرتبہ انجیل کی منادی سُنی ہوگی۔ مگر انجیل کے سُننے سے آپ کے ساتھ کیا تبدیلی ہوئی؟ ڈاکٹر لائیڈ جونز Dr. Lloyd-Jones نے کہا،

اِس سال آپ نے کتنی مرتبہ مسیح کی خوشخبری کی منادی سُنی تھی؟ اچھا، تو اِس نے آپ کے ساتھ کیا کیا؟ کیا اِس نے کچھ کیا؟ کیا اِس نے آپ کی زندگی میں کوئی تبدیلی رونما کی؟ کیا اِس نے آپ میں کوئی بہت بڑا فرق پیدا کیا؟ ایسا ہونا ہوتا ہے! اِس سے ہر بات کا بدل جانا ہوتا ہے۔ ’’اگر کوئی نیا مخلوق ہے تو وہ مسیح میں ہے: پُرانی چیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو! وہ نئی ہو گئیں‘‘ (2۔کرنتھیوں5:17)۔ یہ ہے مسیحیت۔ [مسیح] اِس کے بارے میں ایک نئے جنم، دوبارہ سے پیدا ہو جانے کے طور پر بات کرتا ہے۔ [فرض یہی کیا جاتا ہے] اِس انجیل کا یہی اثر ہوتا ہے (مارٹن لائیڈ جونز Martyn Lloyd-Jones، میری جان خُداوند کی تعظیم کرتی ہے My Soul Magnifies the Lord، کراسوے کُتب Crossway Books، 2000، صفحہ83)۔

کیا مسیح آپ کے پاس اِس طرح سے آ چکا ہے؟ کیا اُس نے آپ میں کوئی فرق پیدا کیا؟ ڈاکٹر لائیڈ جونز نے کہا،

یہ ہولناک بات نہیں ہے کہ ہمارے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ خوشخبری کو سُنتے ہی جائیں اور اِس کے باوجود، ایک طرح سے، اِس قدر جُدا اور دور ہو جاتے ہیں کہ یہ ہم پر کوئی اثر نہیں کرتا اور ہم شاید محض ایسے ہی جیسے کبھی بھی سُنا ہی نہیں ہوتا ہے ہو جاتے ہیں؟ ایسی حالت میں ہونا ایک ہولناک بات ہے۔ اور یہ میری اپنی ذاتی رائے نہیں ہے؛ ہمارے خداوند نے خُدا اِس کو انتہائی واضح کیا … اُس نے کہا کہ قیامت کے روز ہمارا انصاف خوشخبری کے لیے [اُسکی منادی کے سُننے پر]ہمارے جواب اور ردعمل سے ہوگا… اُس نے کہا کہ تمام مرد اور عورتوں کو بالاآخر اُس کے اِس کلام کا سامنا کرنا پڑے گا، اور اُنہیں جواب دہ ہونا پڑے گا… [مسیح نے کہا]، ’’جو مجھے رد کرتا ہے اور میری باتیں قبول نہیں کرتا اُس کا انصاف کرنے والا ایک ہے یعنی میرا کلام جو اُسے آخری دِن مجرم ٹھہرائے گا‘‘ (یوحنا12:48)۔ (ibid.، صفحات83۔84)۔

ہم تمام کو جواب دینا پڑے گا، اگر ہم خوشخبری سُن چکے ہیں۔ اور سوال ہوگا، تم نے اس کا یقین کیوں نہیں کیا؟ تم کیوں نہیں نجات اور ایک نئی زندگی کے لیے مسیح کے پاس نہیں آئے؟ یہ تمہارا تھا اگر تم نے مسیح کو ایمان کے وسیلے سے اپنایا ہوتا۔ تم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ ہمیں بے شمار مسیحی لوگوں کا سامنا کرنا پڑے گا جنہوں نے اِس کا یقین کیا اور مسیح کے پاس آئے۔ اور آپ کو بِنا کسی بہانے کے چھوڑ دیا جائے گا۔ وہ خوشخبری کو سُننے اور مسیح کے پاس جانے کے وسیلے سے بچائے گئے تھے۔ آپ کیوں نہیں بچائے گئے؟

ایک سچا مسیحی ہونے کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ کو مسیح میں خداوند کے فضل کا تجربہ ہو چکا ہے۔ یہ بُنیادی ہے، مسیحیت کا انتہائی روح رواں۔

مریم نے کہا،

’’کیونکہ وہ جو خُدائے قادر ہے اُس نے میرے لیے بڑے بڑے کام کیے ہیں‘‘(لوقا1:49)۔

کیا آپ کو پولوس رسول یا کنواری مریم کی مانند ایک تجربہ ہوا، جہاں خُداوند نے آپ کے لیے بڑے بڑے کام کیے؟ کیا ایک لمحہ آیا جب آپ کا سامنا مسیح کے ساتھ ہوا، اُس کے سامنے دوزانو ہوئے اور نئے سرے سے جنم لیا؟ اگر نہیں، تو آپ پولوس کے اور مریم کے ساتھ مل کر کہنے کے قابل نہیں ہونگے،

’’کیونکہ وہ جو خُدائے قادر ہے اُس نے میرے لیے بڑے بڑے کام کیے ہیں‘‘ (لوقا1:49)۔

اگر آپ آج رات کو ہی مر جاتے ہیں تو کیا آپ کے مرتے ہوئے آخری خیالات ہونگے،

’’کیونکہ وہ جو خُدائے قادر ہے اُس نے میرے لیے بڑے بڑے کام کیے ہیں‘‘ (لوقا1:49)۔

اگر نہیں، تو آپ ایک انتہائی قابلِ ترس حالت میں ہیں۔ آپ عبادت کے لیے جا سکتے ہیں مگر آپ پاک شراکت کے حصے دار نہیں ہوسکتے – اپنی گذشتہ زندگی میں کچھ گناہوں کی وجہ سے۔ ایسا ایک بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں بھی ہو سکتا ہے۔ جب عشائے ربانی میں شراکت میں حصہ دار بننے کا وقت آتا ہے تو آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ روٹی اور پیالہ لینے کے لیے انتہائی غیرمستحق اور گناہ سے بھرپور ہیں۔ لٰہذا، آپ پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں جبکہ دوسرے روٹی کھانے کے لیے آ جاتے ہیں۔ وہ ضرور آپ کو درد پہنچاتا ہوگا اور ہر مرتبہ جب شراکت دی جاتی ہے تو آپ کو اپنے گناہ کی سزایابی میں لاتا ہے۔ کیوں نہ آزاد ہوا جائے؟ کیوں نہ مسیح کے پاس آیا جائے اور خود کو ایمان کے وسیلے سے اُس کے رحم پر چھوڑ دیا جائے؟ یہ ایک لمحہ میں ہو سکتا ہے، جیسا کہ یہ پولوس رسول کےساتھ ہوا تھا۔ یہ ایک لمحہ میں ہو سکتا ہے، جیسے یہ مریم کے ساتھ ہوا تھا۔ دونوں پولوس اور مریم نے ایمان کے وسیلے سے مسیح کا سامنا کیا تھا، معاف کیے گئے تھے اور خُدا کے ساتھ بھرپور شراکت کے لیے بحال کیے گئے تھے۔ اور خُداوند کے اِس پُرفضل پیار کو یہ شاندار تجربہ اُنہیں اُسی لمحے میں ہو گیا تھا جب وہ مسیح کے پاس آئے اور ایمان کے وسیلے سے اُس پر بھروسہ کیا تھا۔ کیا آپ پولوس اور مریم کی مثال کی پیروی کریں گے؟ کیا آپ سادہ ایمان کے ساتھ آئیں گے اور تنہا مسیح پر بھروسہ کریں گے؟ وہ اپنے فضل کے وسیلے سے آپ کو بچا لے گا، اور آپ کو اپنے قیمتی خون سے پاک صاف کر دے گا!

مذید اور انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کا جرم بہت بڑا ہے۔ یہ اکثر آپ کو پریشان کرتا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آپ نے سوچا ہوا ہے، ’’میں کیسے زندگی بسر کرنی جاری رکھ سکتا ہوں – میں کیسے مر سکتا ہوں – بغیر اُس نجات کے جو یسوع پیش کرتا ہے؟‘‘ اگر آپ کو کبھی بھی ایسی غمگین، قائل کر دینے والی اور سزایابی والی سوچیں آئیں ہیں، تو آپ خوف نکال باہر پھینکیں۔ اپنے شکوک دور کردیں۔ جرأت کے ساتھ مسیح کے پاس آئیں اور وہ آپ کو معاف کر دے گا اور خُداوند کے ساتھ آپ کو دائمی سکون بخشے گا۔ پھر آپ کھڑے ہو کر اور مسرت سے بھرپور دِل کے ساتھ کہنے کے قابل ہو جائیں گے،

’’کیونکہ وہ جو خُدائے قادر ہے اُس نے میرے لیے بڑے بڑے کام کیے ہیں‘‘(لوقا1:49)۔

بہت سے لوگ ہکلاتے ہیں جب اُن کا سامنا انجیل کے ساتھ ہوتا ہے۔ مریم ہکلائی تھی۔ جب اُس نے پہلی مرتبہ سُنا تھا، ’’وہ اُس کا کلام سُن کر بہت گھبرائی‘‘ (لوقا1:29)۔ پھر وہ پریشان ہو گئی تھی اور بے اعتقادی سی ہو گئی تھی جب اُس نے کہا، ’’یہ کیسے ہوگا، میں تو مرد کو نہیں جانتی؟‘‘ (لوقا1:34)۔ وہ ہکلائی تھی۔ وہ تذبذب کا شکار تھی۔ اُس نے سوال کیا اور شک کیا تھا۔ لیکن پھر بالاآخر اُس نے خود کو خُداوند کے حوالے کر دیا تھا، اور کہا،

’’جیسا تُو نے کہا ہے خدا کرے ویسا ہی ہو‘‘ (لوقا 1:38).

وہ اِس بات سے آگاہ ہو گئی تھی کہ یہ خُداوند ہی تھا جو اُس میں کچھ کر رہا تھا۔ اور اُس نے بالاآخر خود کو پیش کر دیا مسیح میں خُدا کے آگے جھک گئی۔

ڈٓاکٹر لائیڈ جونز نےکہا،

اگر ایک [حقیقی] مسیحی ہونے کا مطلب خُدا سے زندگی پانا ہوتا ہے، اگر ایک [حقیقی] مسیح ہونے کا مطلب نئے سرے سے دوبارہ جنم لینا ہوتا ہے، اگر ایک حقیقی مسیحی ہونے کا مطلب اندھیرے سے اُجالے میں آ جانا ہوتا ہے… تو پھر کیا یہ واقعی میں ناگزیر نہیں کہ ہر وہ جس کے ساتھ وہ رونما ہو چکا ہے اِس بات سے آگاہ ہو جاتا ہے کہ کچھ نہ کچھ تو ہو رہا ہے؟… آپ ایک مسیح نہیں [بن] سکتے اِس بات سے آگاہ ہوئے بغیر کہ خُداوند آپ سے نمٹ رہا ہے، آپ کے بارے میں فکرمند ہے، آپ کے ساتھ کچھ نہ کچھ کر رہا ہے۔ خُداوند اپنے ہاتھ آپ پر رکھ چکا ہے۔ آپ شاید شروع میں اُس کے خلاف ایک دشمنانہ حالت میں ردعمل کریں؛ آپ شاید اِس کو پسند نہ کریں؛ آپ شاید اِس سے چُھٹکارہ پانا چاہتے ہوں۔ ایسا اکثر ہو چکا ہے۔ بے شمار لوگ ایسا کر چکے ہیں۔ آپ کبھی کبھار شاید خواہش کرتے ہیں کہ آپ نے خُدا کے بارے میں سُنا ہی نا ہوتا، کہ آپ نے مسیح کے بارے میں کبھی نہ سُنا ہوتا؛ آپ خواہش کرتے کہ آپ [دُنیا میں اپنی پرانی زندگی] سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے جیسا کہ آپ نے ہمیشہ سے کیا [تھا]۔ لیکن کچھ بدل چکا ہے۔ کبھی کبھار تو یہ سوائے آغاز کی کچھ ہوتا ہی نہیں ہے – محض ایک بے چینی سی، محض ایک آگاہی سے کہ کچھ نہ کچھ آپ کو پریشان کر رہا ہے۔ آپ خواہش کرتے ہیں کہ کاش آپ اِن [خیالات سے چُھٹکارہ] پا لیں، لیکن آپ کر نہیں پاتے؛ یہ کچھ نہ کچھ آپ کے اندر ہی ہوتا ہے۔ وہ [خُدا] جس نے آپ کو آغاز میں بنایا ہے آپ کو دوبارہ [سے] بنا رہا ہے؛ اُس کے ہاتھ اور انگلیاں آپ پر ہوتی ہیں اور [وہ] آپ کو سانچے میں ڈھال رہا ہے [اور آپ کو بیدار کر رہا ہے] (ibid.، صفحات91۔93)۔

جب خُدا آپ سے نمٹ چکا ہوتا ہے تو آپ ایک حقیقی مسیحی ہو جائیں گے۔ تب آپ مریم کے ساتھ کہنے کے قابل ہو جائیں گے،

’’کیونکہ وہ جو خُدائے قادر ہے اُس نے میرے لیے بڑے بڑے کام کیے ہیں‘‘ (لوقا1:49)۔

کیا آپ یقین کرتے ہیں کہ یسوع مسیح خُدا کے بیٹا ہے؟ کیا آپ یقین کرتے ہیں کہ یسوع کو خُدا نے بھیجا، مریم سے پیدا کیا کہ آپ کے گناہوں کے کفارے کی ادائیگی کے لیے صلیب پر مرے؟ کیا آپ یقین کرتے ہیں کہ یسوع آپ کے گناہوں کو دھو سکتا ہے؟ کیا آپ یقین کرتے ہیں کہ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے، اور اب آسمان میں خُدا باپ کے داہنے ہاتھ پر بیٹھا آپ کے لیے دعائیں مانگ رہا ہے؟ اگر آپ مسیح کے بارے میں اُن باتوں پر یقین کرتے ہیں تو پھر کیوں نہ اُس کے پاس ایمان کے وسیلے سے جایا جائے؟ کیوں نے اُس کے پاس جایا جائے اور اُس سے سکون پائیں اور اُس کے وسیلے سے بچائے جائیں؟ اگر آپ یسوع کے پاس آتے ہیں، تو وہ آپ کو خود سے جُدا نہیں کرے گا۔ وہ آپ کو پرے نہیں دھکیلے گا۔ وہ آپ کے گناہ پاک صاف کرے گا اور آپ کو بچائے گا۔ پھر آپ مریم کے ساتھ کہنے کے قابل ہو جائیں گے،

’’کیونکہ وہ جو خُدائے قادر ہے اُس نے میرے لیے بڑے بڑے کام کیے ہیں؛ اور اُس کا نام پاک ہے‘‘ (لوقا1:49)۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت ڈاکٹر کرھیٹن ایل۔ چعین Dr. Kreighton L. Chan نے کی تھی: لوقا1:26۔38، 46۔49.
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
      ’’یہاں ہوا میں ایک گیت ہےThere’s a Song in the Air‘‘ (شاعر جوشیا جی۔ ہالینڈ Josiah G. Holland، 1819۔1881)۔

لُبِ لُباب

کنواری مریم کی جانب سے کرسمس کا ایک سبق

A CHRISTMAS LESSON FROM THE VIRGIN MARY

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’کیونکہ وہ جو خُدائے قادر ہے اُس نے میرے لیے بڑے بڑے کام کیے ہیں اور اُس کا نام پاک ہے‘‘ (لوقا1:49)۔

(لوقا1:46)

I. جب آپ مریم کے الفاظ سُنیں تو آپ کو فوراً کرسمس کے بارے میں سوچنا چاہیے، لوقا1:49 .

II. جب مریم کے الفاظ سُنیں تو آپ کو متجسم ہونے کے بارے میں سوچنا چاہیے، یوحنا1:1۔3، 14؛ لوقا1:35 .

III. جب آپ مریم کے الفاظ سُنیں تو آپ کو سوچنا چاہیے آپ کے لیے اِسکا کیا مطلب ہوتا ہے، اعمال9:18؛ لوقا24:31؛ 2۔کرنتھیوں5:17؛ یوحنا12:48؛ لوقا1:29، 34، 38۔